خیالِ یار دل میں ہے زباں پہ اس کا نام بھی---برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
---------
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
--------
خیالِ یار دل میں ہے زباں پہ اس کا نام بھی
گواہ اس پہ دیکھئے ہے میرا سب کلام بھی
-----------------
لگی ہے لو خدا سے ہی اسی کا مجھ کو آسرا
دکھا رہا ہے راستہ وہی مرا امام بھی
------------
خدا کے در پہ سر مرا اسی طرح جھکا رہے
ہیں سب اسی کے واسطے سجود بھی قیام بھی
----------
جہاں میں جو بھی چیز ہے ، وہ سب یہاں ہے عارضی
-----یا
کسی کو کب ثبات ہے ہے سب یہاں پہ عارضی
خدا ہی بس یہاں پہ تھا اسی کو ہی دوام بھی
------------------یا
خدا ہی تھا رہے گا وہ ، اسی کو ہے دوام بھی
---------------
نبی ہمیں ملا ہے جو خدا کا وہ حبیب ہے
اسی نے رب دیا ہمیں ،خدا کا یہ پیام بھی
--------------
خدا ہی اس جہان کو چلا رہا ہے دیکھئے
وہی ہے رب جہان کا اسی کا انتظام بھی
----------------
جہان یہ یہاں نہ تھا خدا نے سب بنا دیا
----------یا
وجود اس جہان کا ہے کُن سے ہی بنا ہوا
خدا کے حکم سے جہاں کا ہو گا اختتام بھی
-----------
 

الف عین

لائبریرین
خیالِ یار دل میں ہے زباں پہ اس کا نام بھی
گواہ اس پہ دیکھئے ہے میرا سب کلام بھی
----------------- مطلع اچھا اور درست ہے، اصلی غزل کا یعنی عشقیہ۔ بعد کے سارے اشعار سے الگ۔ کوشش کریں کہ ایک ہی رنگ کی غزلیں ہوں۔ اللہ کی تعریف میں ایک آدھ شعر ہو جائے تو کچھ حرج نہیں ۔ مگر باقی سارے اشعار اللہ کے بارے میں ہی ہیں۔ اس میں زیادہ متنوع شاعری ممکن نہیں، اس لیے کوشش کریں کہ عشقیہ غزلیں ہی کہیں، انہی میں 'خدائی' اشعار بھی پرو دیا کریں۔

لگی ہے لو خدا سے ہی اسی کا مجھ کو آسرا
دکھا رہا ہے راستہ وہی مرا امام بھی
------------ خدا پہلے ٹکڑے میں اور دوسرے مصرعے سے دور جا پڑا، جس سے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کون امام ہے اور راستہ دکھا رہا ہے۔ پہلے مصرع میں 'ہی' بھرتی کا لگتا ہے، اور دوسرے ٹکڑے میں 'ہے' کی کمی لگتی ہے

خدا کے در پہ سر مرا اسی طرح جھکا رہے
ہیں سب اسی کے واسطے سجود بھی قیام بھی
---------- درست

جہاں میں جو بھی چیز ہے ، وہ سب یہاں ہے عارضی
-----یا
کسی کو کب ثبات ہے ہے سب یہاں پہ عارضی
خدا ہی بس یہاں پہ تھا اسی کو ہی دوام بھی
------------------یا
خدا ہی تھا رہے گا وہ ، اسی کو ہے دوام بھی
---------------
نبی ہمیں ملا ہے جو خدا کا وہ حبیب ہے
اسی نے رب دیا ہمیں ،خدا کا یہ پیام بھی
-------------- اولی مصرع کا پہلا متبادل بہتر ہے، ثانی کے دونوں متبادل اچھے نہیں

خدا ہی اس جہان کو چلا رہا ہے دیکھئے
وہی ہے رب جہان کا اسی کا انتظام بھی
---------------- پہلے میں دیکھنے بھرتی ہے، دوسرے مصرعے میں بات مکمل نہیں لگتی
اسی کا اس جہاں میں چل رہا ہے انتظام بھی
بہتر مصرع ہو گا، لیکن اولی بدلنا ہو گا

جہان یہ یہاں نہ تھا خدا نے سب بنا دیا
----------یا
وجود اس جہان کا ہے کُن سے ہی بنا ہوا
خدا کے حکم سے جہاں کا ہو گا اختتام بھی
... دوسرا متبادل بہتر ہے، شعر ٹھیک ہے
 
الف عین
( اصلاح کے بعد دوبارا حاضرِ خدمت )
---------
خیالِ یار دل میں ہے زباں پہ اس کا نام بھی
گواہ اس پہ دیکھئے ہے میرا سب کلام بھی
-----------------
ہے جس کو میں نے دل دیا وہی ہے میرا یار اب
اسی کو میں نے سونپ دی ہے خود کی اب زمام بھی
------------
یہ محفلیں سرود کی جہاں ہے جن پہ فیفتہ
مری نظر میں ہیچ ہیں یہ ہیں سبھی حرام بھی
--------------
خدا کے در پہ سر مرا اسی طرح جھکا رہے
ہیں سب اسی کے واسطے سجود بھی قیام بھی
----------
اسی کا ساتھ چاہئے جو چھا گیا ہے ذہن پر
مری نظر میں ہیچ ہے ملے بھلے جہان بھی
-------------
وجود اس جہان کا ہے کُن سے ہی بنا ہوا
خدا کے حکم سے جہاں کا ہو گا اختتام بھی
-----------
رہے گا میرا نام بس ، نہیں رہوں گا میں یہاں
وجود میرا عارضی مرا یہاں قیام بھی
---------
..
 

الف عین

لائبریرین
ارشد بھائی، اس میں اب بھی جو اغلاط بلکہ عدم روانی کی علامات ہیں، ان کے بارے میں بار بار کہہ چکا ہوں، اور ہر بار نشاندہی بھی کرتا ہوں، لیکن بار بار وہی باتیں لکھنا اچھا نہیں لگتا!
ہے جس کو میں نے دل دیا وہی ہے میرا یار اب
اسی کو میں نے سونپ دی ہے خود کی اب زمام بھی
------------ وہی ہے میرا یار.... کچھ غیر متعلق نہیں لگتا؟
خود کی؟ اپنی' بہتر نہیں؟ لیکن' اب' پھر بھرتی کا لگ رہا ہے

یہ محفلیں سرود کی جہاں ہے جن پہ فیفتہ
مری نظر میں ہیچ ہیں یہ ہیں سبھی حرام بھی
-------------- فیفتہ؟ فریفتہ سے تو واقف ہوں میں!
ہیچ تو مال و دولت ہو سکتا ہے، محفلیں ہیچ کس طرح؟

خدا کے در پہ سر مرا اسی طرح جھکا رہے
ہیں سب اسی کے واسطے سجود بھی قیام بھی
---------- درست
اسی کا ساتھ چاہئے جو چھا گیا ہے ذہن پر
مری نظر میں ہیچ ہے ملے بھلے جہان بھی
------------- ٹھیک ہے

وجود اس جہان کا ہے کُن سے ہی بنا ہوا
خدا کے حکم سے جہاں کا ہو گا اختتام بھی
----------- درست

رہے گا میرا نام بس ، نہیں رہوں گا میں یہاں
وجود میرا عارضی مرا یہاں قیام بھی
--------- عجز بیان ہے، مرا قیام بھی عارضی ہے، یہ مکمل نہیں کہا گیا۔ بہتر ہے ایک ہی بات کہی جائے یعنی قیام کی، جیسے
ہے چار پل کے واسطے مرا یہاں...
 
الف عین
-------------
بنا لیا ہے یار جب تو اختیار دے دیا
اسی کو میں نے سونپ دی ہے اپنی سب زمام بھی
-----------
یہ محفلیں سرود کی جہاں ہے جن پہ شیفتہ
مری نظر میں کچھ نہیں ہیں اور سب حرام بھی
------------
رہے گا میرا نام بس ، نہیں رہوں گا میں یہاں
ہے چار پل کے واسطے مرا یہاں قیام بھی
----------یا
مجھے ہیں ناپسند اور ہیں یہ سب حرام بھی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بنا لیا ہے یار جب تو اختیار دے دیا
اسی کو میں نے سونپ دی ہے اپنی سب زمام بھی
----------- اپنی ہر زمام.... بہتر ہو گا

یہ محفلیں سرود کی جہاں ہے جن پہ شیفتہ
مری نظر میں کچھ نہیں ہیں اور سب حرام بھی
------------ دوسرے مصرعے کا متبادل آخر میں بھی دیا ہے؟ یہ شعر نکال ہی دیں

رہے گا میرا نام بس ، نہیں رہوں گا میں یہاں
ہے چار پل کے واسطے مرا یہاں قیام بھی
... درست ہو گیا
----------یا
مجھے ہیں ناپسند اور ہیں یہ سب حرام بھی
 
Top