خیال

نور وجدان

لائبریرین
انسان خیال کی دسترس میں ہے یا خیال نے انسان کو دسترس سے مہجور کررکھا ہے! خیال کی بندش محرومی کا باعث بن جاتی ہے اور خیال پر بے حدی ،حُدی خوان بنا دیتی ہے. سوچنے سے معذور انسان حیوان ہے. خدا تعالی نے افسوس فرمایا ہے کہ میں نے انسان کو سب کچھ کو دیا مگر افسوس اس نے جانوروں کی طرح زندگی کی برتا ہے ...

قران پاک حکیم ہے اور بہت سے مرسلین سے بھرا پڑا ہے ....

الہامی کتب زبور،توریت،انجیل و قران ہیں ....خدائے حق نے قران حکیم میں مرسلین کا کہا ہے. قران پاک کو حکیم کہا گیا ہے. حکیم صفت ہے جو کہ ذات سے منسوب ہے. اس کا معانی ہے قران محض کتاب نہیں بلکہ کسی ذات سے معتبر ہے. قرآن کا مطلب قرأت کیا جانا ہے. اور قرأت جب رب کی جانب سے شروع ہوجاتی ہے تب قران کا سفر شروع ہوجاتا ہے اور ذات جس کو سفر درپیش ہوتا ہے، وہ حکمت سے منسوب ہوجاتی ہے ....پھر فرمایا گیا اس میں مرسلین کو بھیجا گیا ہے .... یہ کتاب زبور،انجیل و توریت نہیں، مرسلین کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا گیا ہے ......... اس نقطے پر غور کیا جائے تو قران کے مخلوق نہ ہونے کی سمجھ آجاتی ہے. مخلوق فنا ہوجاتی ہے جبکہ قرأت زمن در زمن چلتی آتی ہے. وہ اسرار جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھل گیا، توسل ختم الرسل، شاہ امم ان پر بھی کھل گیا، جو ان کے پیروکار ہوگئے .....

راقم غور طلب بات آپ سب کے سامنے رکھتا ہے! اقراء، پہلی صورت ہے اور (قرأت کی گئی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر. اس سے قبل غور کا پہلو ہے کہ آپ درون قلب تفکر فرماتے رہے اور قیام پذیر حرا میں رہے! تفکر کے بعد ادراک ہستی نے رب کی صورت سے روشناس کرایا. تب خدا نے محبت سے کہا ،جس کا مفہوم ہے

اے نبی! مجھ تک پہنچ گئے ہو. اب ہر شے میں میرا ذکر ہے، میرے نام سے ہر شے کو دیکھو... اللہ کے نام سے قرأت کرنے کا کہا گیا ہر تخلیق پر ......

راقم حیران ہے جب اللہ تک پہنچے نہیں ہیں تو قرأت کیسے ہوگی اور قرأت نہیں ہے تو نماز قائم نہیں. قران کا سفر کیسے ہوگا؟ کیسے مخلوق پر اسم اللہ کی بات ہوگی؟

قران قرأت کا نام ہے،پڑھنے کا نہیں جس کی قرأت سے کھالیں نرم پڑجاتی ہیں،پتھر چشمے بن جاتے ہیں، زمین سے چشمے ابل پڑتے ہیں ...
 
Top