خیام ---- ایک مطالعہ (انور مسعود)

حسان خان

لائبریرین
(اردو اور پنچابی کے مشہور شاعر انور مسعود کی کتاب 'فارسی ادب کے چند گوشے' سے ایک مضمون)

انیسویں صدی کے وسط میں خیام عالمی افق پر نمایاں ہوتا ہے۔ اس کی بین الاقوامی شہرت سو برس کی شہرت ہے۔ اس ایک صدی کے عرصے میں اس کی شخصیت اور شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس تمام تنقیدی اور تحقیقی سرمائے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈنمارک کے محقق اور خاور شناس پیر پاسکال کا کہنا ہے کہ:

"گزشتہ سو برس میں خیام کی رباعیات کے جو ترجمے ہوئے اور جو رسالے اس پر لکھے گئے ان کی فہرست بنانا محال ہے۔"

"دمے با خیام" (کچھ دیر خیام کے ساتھ) کے ایرانی مصنف علی دشتی کی تحقیق کے مطابق خیام کا کلام انگریزی میں ۳۱ مرتبہ، فرانسیسی میں ۱۶ مرتبہ، جرمنی میں ۱۲ دفعہ، عربی میں آٹھ دفعہ، اطالوی میں چار دفعہ، ترکی اور روسی میں دو دفعہ اور ڈنمارکی، سویڈش اور ارمنی میں بھی دو مرتبہ شائع ہو چکا ہے۔ خود فٹز جرالڈ خیام کا ترجمان بن کر زندہ جاوید ہو گیا۔ اس کا ترجمہ ۱۹۲۵ء تک ۱۳۹ بار شائع ہوا۔ نیویارک کی پبلک لائبریری میں اس موضوع پر پانچ سو عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔

ایک شاعر کی حیثیت سے دریافت ہونے سے پہلے بھی اس کی فضیلت اور علمی حیثیت مسلّم تھی۔ وہ اپنے عہد کے جملہ علوم و معارف پر حاوی تھا۔ اتنا زبردست ہیئت دان تھا کہ اپنے مربّی ملک شاہ سلجوقی کے لئے التاریخ الجلالی کے نام سے اس نے جو کیلنڈر تیار کیا وہ گریگوری (GREGORY) کے کیلنڈر سے زیادہ قرینِ صحت ہے۔ گریگوری کے کیلنڈر میں تین ہزار تین سو سال میں ایک دن کا مغالطہ پڑتا ہے جب کہ عمر خیام کے کیلنڈر میں پانچ ہزار سال میں ایک دن کا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایسا ماہر اور اعلی پائے کا ریاضی دان تھا کہ اس نے تیسرے درجے کی مساوات حل کیں اور کارڈن (CARDON)، ڈیکارٹ (DECARTES) اور فیراری (FEAURARI) کے لئے راستہ ہموار کیا۔ اس کے اس کارنامے کی بدولت تیسرے اور چوتھے درجے کی مساوات کے الجبرائی حل دریافت ہوئے۔ الجبرے میں جیومیٹری اور جیومیٹری میں الجبرے کے استعمال سے اس نے تجزیاتی ہندسے کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔

جہاں تک اس کی شاعری کا تعلق ہے اس کے بارے میں مختلف نقادوں کی آراء اسی طرح ہیں جس طرح شراب مختلف پیمانوں میں پہنچ کر مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہے۔ علی دشتی کے نزدیک اس کی طرزِ فکر حکیمانہ ہے اور وہ ہر بات کے لئے عقلی دلیل تلاش کرتا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے خیال کے مطابق وہ ایک صوفی تھا اور اس کا پیغام روحانی ہے۔ اسی طرح بغداد کے ایک فاضل نقاد احمد حامد الصراف نے عربی میں عمر الخیام کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور اس کے فلسفے کی روحانی تعبیر کی ہے۔ ان کے نزدیک خیام کا فلسفہ، فلسفۂ اسلام سے متصادم نہیں۔ بغداد ہی کے ایک دوسرے فاضل معاصر نے اسے ایک ایسا انقلابی شاعر قرار دیا ہے جو ہر روایت کا باغی ہے اور مذہب کے خلاف بھی اس نے صدائے احتجاج بلند کی ہے اور تقدس و زہد کے ہر مرکز پر ہلہ بولا ہے۔ بعضوں کے نزدیک وہ باطنی تحریک کا داعی تھا۔ ترکی کے معروف اسلامی مفکر رضا توفیق نے ان لوگوں پر کڑی تنقید کی ہے جو خیام کے فلسفے کو ایپی کیورین فلسفہ کہتے ہیں۔ اسی طرح بعض نقادوں کے نزدیک وہ لاادریت کے فلسفے کا ترجمان ہے اور اس نے لادینیت اور کفر و الحاد کا پرچار کیا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی اسے سعدی سے بھی بڑا معلمِ اخلاق قرار دیتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ خیام سے منسوب رباعیاں اس آریائی روح کا اظہار ہیں جو سامی عقیدوں سے رہائی چاہتی ہے اور لطف یہ کہ ان سب کے سب نقادوں کے دلائل رباعیاتِ خیام سے ماخوذ ہیں۔

خیام اس اعتبار سے بڑا خوش قسمت شاعر ہے کہ دنیا کی تمام بڑی اور اہم زبانوں میں اس کی رباعیات کے ترجمے ہو چکے ہیں لیکن مفسروں کے اس انبوہ اور مترجموں کے اس اژدہام میں گھری ہوئی یہ شخصیت بڑی مظلوم بھی ہے۔ ایک خیام ہے لیکن کیا کچھ نہیں۔ سید المحققین بھی، فیلسوف بھی، حجۃ الحق بھی، زندیق بھی، سچا مسلمان بھی، ملحد بھی، مفسرِ قرآن بھی، صوفی بھی، حکیم الاسلام بھی اور مذہب کا باغی بھی۔ مختلف شارحین نے اس کی فکر اتنے ان گنت مداروں میں گردش کرتی ہوئی دکھائی ہے کہ روس کے مشہور مستشرق ژوکوفسکی کو کہنا پڑا۔

"اگر کوئی شخص سو سال عمر پائے اور دن میں دو مرتبہ اپنا عقیدہ بدلے تو بھی اتنے متناقض خیالات پیش نہیں کر سکتا۔"

وہ مظلوم یوں بھی ہے کہ اس کے آئینے میں ہر نقاد نے اپنی شبیہ دیکھی ہے اور زندگی کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کو خیام کا نقطۂ نظر قرار دیا ہے۔ جن بزرگوں کے نزدیک خیام کا کلام اسلامی تعلیمات کا علمبردار ہے میں ان کے اس حسنِ گمان کا احترام کرتا ہوں لیکن اس مضمون میں مجھے وہ کچھ بیان کرنا ہے جو اس کی رباعیات کے مطالعے سے میں نے اخذ کیا ہے۔ ان تاثرات کے اظہار سے پیشتر میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ خیام کی ان رباعیات کی تعداد کتنی ہے جو زیادہ سے زیادہ مستند قرار پاتی ہیں اور میں نے اس سلسلے میں جس نسخے پر اعتماد کیا ہے اس کی صحت کا مرتبہ کیا ہے؟

دراصل خیام کے بارے میں الحاقی اور سیار رباعیات کا مسئلہ بنیادی اور اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس موضوع پر کافی تحقیق ہو چکی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جوں جوں یہ تحقیق آگے بڑھی ہے اصل رباعیات کی تعداد کم ہوتی گئی ہے۔ یہ تعداد پھیلنے لگی تو ایک ہزار سے بڑھ گئی اور سمٹنے لگی تو صرف تیرہ ۱۳ رہ گئی۔ اسی لئے ۱۹۳۴ء میں ایک محقق شیڈر (SHAEDER) نے اپنی تحقیق شائع کی اور یہ دعوی کیا کہ خیام نے ایک رباعی بھی نہیں لکھی اور اس کا نام فارسی شعرا کی فہرست سے خارج کر دینا چاہئے۔

اس دلچسپ تحقیق کی تفصیل یہ ہے کہ خیام کی زندگی میں شاید ہی کسی کو معلوم ہوا ہو کہ وہ شعر بھی کہتا ہے۔ اس کی وفات کے سو سال بعد تک اس کی کوئی رباعی منظرِ عام پر نہیں آئی۔ سب سے پہلے عماد الدین کاتب نے اپنی معروف کتاب "جریدۃ العصر" میں اس کا تذکرہ ایک شاعر کی حیثیت سے کیا ہے۔ یہ کتاب خیام کی وفات کے پچاس برس بعد تالیف ہوئی اور اس میں اس کا ذکر صرف عربی کے ایک شاعر کی حیثیت سے کیا گیا ہے اور اس کے عربی کے چار شعر بھی نقل کئے گئے ہیں۔ اس کی فارسی کی ایک رباعی پہلی مرتبہ امام فخر رازی کے رسالے البتینہ میں ملتی ہے۔ پھر "سند باد نامہ" میں پانچ رباعیاں نقل ہوئی ہیں۔ اس طرح ساتویں صدی ہجری سے لے کر آٹھویں صدی کے وسط تک مختلف ماخذ میں نقل شدہ رباعیات کی تعداد ۳۶ ہے۔ اور خیام کی وفات کے دو سو سال بعد تک یہ تعداد پچاس تک پہنچ گئی ہے۔ ۸۴۰ ہجری تک خیام سے منسوب رباعیات کی تعداد ۶۰ ہو گئی۔

علی دشتی کا قیاس یہ ہے کہ سیاسی اور سماجی حالات کے ناسازگار ہونے کے باعث خیام کی رباعیات پردهٔ اخفا میں رہی ہیں، اس لئے کہ تاتاری حملے اور سقوطِ بغداد سے پہلے کی فضا خیام کے افکار کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ متعصب فقیہوں کے خوف سے خیام اپنے چند قابلِ اعتماد دوستوں کے سوا کسی کو اپنے شعر نہیں سناتا تھا۔ اس لئے کہ اس کے افکار عمومی معتقدات سے ہٹ کر تھے۔

۸۴۰ ہجری تک اس کی جو رباعیات نقل ہوئی ہیں وہ زیادہ قابلِ اعتماد ہیں۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے اس کے انداز میں رباعیاں کہنی شروع کر دیں جو اس سے منسوب کر دی گئیں۔ خیام کی وفات کے تین سو سال بعد یہ تعداد ۸۰۰ تک پہنچ گئی اور اس کی رباعیات کے کئی نسخے مرتب ہو گئے۔

خیام کی اصل رباعیات کی تلاش میں محققین نے بڑی کاوش کی ہے۔ اس جستجو میں کرسٹن سن، ڈاکٹر روزن، ژوکوفسکی اور بودلین جیسے مغربی مستشرقین بھی شامل ہیں اور محمد علی فروغی، سعید نفیسی، علی دشتی اور صادق ہدایت جیسے ایران کے بلند پایہ محقق بھی۔

بودلین کا نسخہ ۱۵۸ رباعیات پر مشتمل ہے۔ یہ نسخہ اس لئے قابلِ اعتماد نہیں کہ خیام کی وفات کے ۳۵۰ سال بعد مرتب کیا گیا ہے۔ کرسٹن سن نے ۱۲۱۳ رباعیات میں سے ۱۲۱ کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ساری رباعیاں بھی رباعیاتِ اصیل قرار نہیں دی جا سکتیں۔ روسی محقق ژوکوفسکی کے نزدیک خیام سے منسوب سو رباعیاں ایسی ہیں جو فارسی کے دوسرے بڑے شعرا مثلا عطار اور رومی کے دواوین میں بھی موجود ہیں۔ اس نے ان رباعیات کو رباعیاتِ سرگرداں (WANDERING QUATRAINS) کہا ہے۔ برصغیرِ پاک و ہند میں سوامی گوبند رام تیرتھ نے اپنی کتاب (NECTAR OF GRACE) کی تالیف کے سلسلے میں رباعیاتِ خیام کے ۱۱۱ نسخوں کا مطالعہ کیا۔ ایرانی محققوں نے خیام کی اصل رباعیات کی دریافت کے ضمن میں انتہائی قابلِ تحسین کنجکاوی کی ہے۔ انہوں نے مغربی انداز تنقیحِ متن کی پیروی بھی کی ہے۔ اور تنقیحِ قیاسی سے بھی کام لیا ہے۔ سعید نفیسی مرحوم کو خیام کے متن رباعیات کے ۱۱۹ نسخے ملے جن میں مفصل ترین نسخہ لکھنؤ کا چھپا ہوا ہے۔ اس میں رباعیات کی تعداد ۷۷۲ ہے جو ۱۲۲۴ رباعیات میں سے انتخاب کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں علی دشتی کا کارنامہ بے انتہا موردِ ستائش ہے کہ اس نے مغربی محققوں کے کام کا محاکمہ بھی کیا ہے اور ذاتی طور پر رباعیاتِ خیام کے ایک ایک ماخذ کا پتہ لگایا ہے اور پھر ایک ایک رباعی پر بحث کی ہے کہ اگر خیام کی ہے تو کیوں ہے اور اگر اس کی نہیں تو کیوں نہیں۔ خیام کی طرزِ فکر اور طرزِ اظہار سے اسے بے پناہ آگاہی حاصل ہے۔ اِس بنیاد پر اُس نے رباعیات کے اس ذخیرے کو منسوب، سیار، سرگرداں، الحاقی، مشابہ اور خیام وار کی مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے۔

اس وقت دنیا میں قدیم ترین نسخہ عباس اقبال کا نسخہ ہے جسے پروفیسر آربری نے ۱۹۵۰ء میں شائع کیا۔ عباس اقبال نے ثابت کیا ہے کہ یہ نسخہ ۶۰۴ ہجری کا لکھا ہوا ہے اور خیام کی وفات کے ۷۵ برس بعد مرتب کیا گیا ہے اور اس میں رباعیات کی تعداد ۲۵۲ ہے۔ یہ وہی نسخہ ہے جو ایران کے مجلہ یادگار میں شائع ہوا اور پھر کیمبرج یونیورسٹی کو فروخت کر دیا گیا۔ معروف خیام شناس پیر پاسکال نے بھی اپنے کام کی بنیاد اسی نسخے پر رکھی ہے۔

محمد علی فروغی نے اپنی تحقیق کا ماخذ ان کتابوں کو ٹھہرایا ہے جو نویں صدی ہجری سے پہلے تالیف ہوئی ہیں۔ اس نے اپنے ترتیب دیے ہوئے نسخے پر ایک فاضلانہ دیباچہ بھی لکھا ہے اور اپنے ماخذ (مرصاد العباد، تاریخ جہانگشائے جوینی، تاریخِ گزیدہ، نزہت المجالس، مونس الاحرار اور جنگ اشعاری) کے تفصیلی حوالے دیئے ہیں۔ ان ماخذ سے فروغی نے ۶۶ رباعیاں اکھٹی کی ہیں اور پھر ان کو بنیاد مان کر خیام سے منسوب تقریبا پانچ سو رباعیوں کو پرکھا ہے اور پھر ان میں سے خیام کے شیوهٔ بیان اور روشِ فکر سے قریب محسوس ہوئی ہوئی رباعیاں اختیار کر لی ہیں اور باقی ماندہ کو رد کر دیا ہے۔ ایک ہی مضمون کی مختلف رباعیوں میں سے اس نے پختہ تر کو اختیار کیا ہے اور اس طرح ۱۷۸ رباعیات پر اپنے قوی احتمال اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ علمی اصولوں اور اسلوب شناسی کے قاعدوں کے مطابق جو تحقیقات عمل میں آئی ہیں ان سے یہ بات مسلم ہے کہ رباعیاتِ خیام کی اصل تعداد ۱۷۸ سے متجاوز نہیں ہے۔ علی دشتی بھی فروغی کے نسخے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے، اس لئے کہ نسخہ عباس اقبال کے نسخے سے بھی زیادہ احتیاط کا حامل ہے۔

میں نے مطالعۂ خیام کے سلسلے میں اسی نسخے پر اعتماد کیا ہے۔ اس مقالے میں جتنی رباعیاں نقل ہوئی ہیں ان میں سے بیشتر کے بارے میں خیام شناس متفق ہیں کہ وہ خیام ہی کی ہیں۔ صرف ایک دو رباعیاں ایسی ہیں جن کے بارے میں کچھ شبہ ہو سکتا ہے لیکن فکری پہلو کے پیشِ نظر ان کو خیام وار تسلیم کیا گیا ہے۔

(جاری ہے۔۔)

از رہِ کرم جب تک پورا مضمون مکمل ٹائپ نہیں ہو جاتا، اُس وقت تک اِس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیجئے، تاکہ مضمون کا تسلسل نہ ٹوٹے۔ شکریہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
صاحبِ چہار مقالہ نظامی عروضی سمرقندی کا دعوی ہے کہ اس نے خیام سے اکتسابِ فیض کیا ہے لیکن اپنے استاد کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں جو قیمتی معلومات فراہم کی ہیں وہ صرف اس قدر ہیں کہ خیام ایک منجم تھا اور اس کی قبر پر سدابہار پھول کھلتے ہیں۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ خیام نے مصلحت کے پیشِ نظر نظامی عروضی سے اپنی شخصیت کے شاعرانہ پہلو کو چھپا رکھا ہو اور اسے شایانِ اعتماد نہ سمجھا ہو۔ بہرحال اس ضمن میں نظامی کے خامے کی خاموشی حیرت آور ضرور ہے۔ نظامی نے چہار مقالہ میں قدیم نظریۂ آفرینش بیان کرتے ہوئے انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے ایک قسم وہ ہے کہ​
"لیلاً و نہاراً سراً و جہاراَ کار ایشان آن باشد کہ ما کہ ایم و از چہ در وجود آمدہ ایم و پدید آرندهٔ ما کیست؟​
یعنی کہ از حقائق اشیاء بحث کنند و در آمدنِ خویش تامل و از رفتن تفکر کہ چگونہ آمدیم و کجا خواہیم رفتن؟​
این نوع را حکماء خوانند۔"​
یعنی یہ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ شب و روز ظاہری طور پر بھی اور درپردہ بھی ان کا کام یہی سوچنا ہے کہ ہم کون ہیں؟ کہاں سے وجود میں آئے ہیں؟ ہمیں وجود عطا کرنے والا کون ہے؟ مختصر یہ کہ لوگ حقائقِ اشیاء سے بحث کرتے ہیں اور اس دنیا میں آنے اور یہاں سے جانے کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں کہ ہم اس عالمِ وجود میں کیسے آ گئے اور یہاں سے ہمیں کدھر جانا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں حکماء کہا جاتا ہے۔​
اس عبارت کی رو سے اپنے تلمیذِ رشید کی تقسیم کے مطابق خیام ایک مفکر اور حکیم قرار پاتا ہے۔ زندگی اور موت فکرِ خیام کے بڑے موضوعات ہیں۔ اس نے انہی بنیادی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک انتہائی کم آمیز انسان تھا۔​
شاعری اس کی نفسیاتی ضرورت تھی۔ اس کی رباعیاں اس کی روح کا آئینہ ہیں۔ ایک ایسی روح جو زندگی کے راز کو ڈھونڈتے ہوئے حیران ہو گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکیم عمر خیام نے ان مسائل پر فکر کرنے کے بعد کیا نتائج اخذ کیے ہیں اور زندگی میں انسان کو کیا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے فلسفے کے جتنے بھی اساسی رجحانات ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اس سے پہلے وجود نہ رکھتا ہو۔​
دنیا کی بے ثباتی ایک بدیہی حقیقت ہے اور انسان کا سب سے بڑا روگ یہی ہے۔ تمام فلسفے اسی ایک بنیادی نقطے کے گرد گھومتے ہیں۔ موت کی ہنگامہ آرائیاں انسان کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ زندگی کے بارے میں کوئی نہ کوئی نقطۂ نظر متعین کر لے۔ انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ زندگی اتنی زود گذر ہے کہ برق بھی اس کے مقابلے میں پا بہ حنا ہے تو اس مقام پر اس کا ردِ عمل تین مختلف صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔ یا تو وہ سنبھل جاتا ہے یا سہم کر کسی غار میں جا چھپتا ہے یا پھر قرض کی ان چند سانسوں کو کسی بزمِ طرب پر نچھاور کر دیتا ہے۔ خیام کے ہاں یہی گونج بار بار سنائی دیتی ہے۔​
ساقیا! ۔۔۔ جام، کہ بنیادِ جہاں کچھ بھی نہیں​
اس نے اسی غم کو کلیجے سے لگا لیا ہے یہی نقطہ اس کے یہاں پھیل کر دائرہ بن گیا ہے۔ وہ زندگی کے گوشے گوشے سے ایسے مناظر فراہم کرتا ہے جن پر دستِ قضا نے بربادیوں کی مہر لگا دی ہے۔​
آں قصر کہ بر چرخ ہمی زد پہلو​
بر در گہِ او شہان نہادندے رو​
دیدیم کے بر کنگرہ اش فاختہ اے​
بنشستہ ہمی گفت کہ کو کو، کو کو​
(وہ قصرِ شاہی جو اپنی رفعت کے اعتبار سے رشکِ فلک تھا۔ جس کے دربار میں بڑے بڑے سلاطین سجدہ ریز ہوتے تھے۔ اب اس کے کلس پر ایک فاختہ بیٹھی ہوئی کو کو کر رہی ہے۔ اس کا نوحہ یہ پوچھ رہا ہے کہ اس ایوان کے رہنے والے کہاں چلے گئے ہیں؟)​
خیام کے نزدیک یہ دنیا ایک فتنہ گاہ ہے اور زندگی کا راستہ قبرستان کی طرف جاتا ہے۔​
اے دیدہ اگر کور نہ ای گور ببین​
ویں عالمِ پرفتنہ و پرشور ببین​
شاہان و سران و سروران زیرِ گل اند​
رو ہائے چو مہ در دہنِ مور ببین​
(اے آنکھ! اگر تو اندھی نہیں تو قبر کو دیکھ۔ اس دنیا کو دیکھ جو شور و شر سے لبریز ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہ، سرور اور سردار مٹی کے نیچے دفن ہیں۔۔۔ اور دیکھ کہ چاند چیسے چہرے چیونٹیوں کے دہن کی گرفت میں ہیں۔)​
فنا کے اس بھیانک تصور کے ساتھ خیام کے ہاں جابجا یہ اعتراف ملتا ہے کہ وہ زندگی کے حقائق کو بالکل نہیں سمجھ پایا۔ زندگی کے آغاز و انجام کے بارے میں اس نے بار بار اپنی بے خبری کا اعلان کیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اسرار کے پردوں میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اسے کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور اسے کدھر جانا ہے؟ اسے صرف اتنی خبر ہے کہ اسے مرنا ہے۔​
دریاب کہ از روح جدا خواہی رفت​
در پردهٔ اسرار فنا خواہی رفت​
مے نوش ندانی ز کجا آمدہ ای​
خوش باش ندانی بکجا خواہی رفت​
(تو یہ جان لے کہ ایک روز تجھے روح سے جدا ہونا ہے۔ ایک فنائے مرموز (‏MYSTERIOUS DEATH) کے گھاٹ اتر جانا تیرا مقدر ہے۔ شراب پی کہ تجھے کچھ خبر نہیں کہ تو کہاں سے آیا ہے۔ خوش رہ۔ کہ تو نہیں جانتا کہ تجھے کدھر جانا ہے۔)​
انسان کے مقصدِ تخلیق کو سمجھنے میں خیام عاجزِ محض دکھائی دیتا ہے۔​
ہرچند کہ رنگ و بوی زیباست مرا​
چوں لالہ رخ و چو سرو بالاست مرا​
معلوم نہ شد کہ در طربخانۂ خاک​
نقاشِ ازل بہرِ چہ آراست مرا​
(بے شکر میرا (انسان کا) رنگ روپ بڑا دلاویز ہے۔ میرے چہرے میں لالے کی جھلک اور میرا حسنِ قامت سرو کی مانند ہے۔ لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ نقاشِ ازل نے میرا نقش آخر کس لئے اس قدر سنوارا ہے؟)​
یہی لاعلمی اس کے ہاں تشکیک کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے وہ ارتیاب و تشکیک کا نمائندہ ہے۔ اپنی لاعلمی سے گھبرا کر جب وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو تشکیک کی منزل پر جا پہنچتا ہے اور اس سے آگے اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ جنت کو وہ دور کے ڈھول سمجھتا ہے۔​
اے دل تو بہ اسرارِ معما نرسی​
در نکتۂ زیرکانِ دانا نرسی​
اینجا بہ مئے لعلِ بہشتی می ساز​
کانجا کہ بہشت است رسی یا نرسی​
(اے دل! تو زندگی اور وجود کے معمے کے اسرار کو نہیں جان سکتا۔ اس ضمن میں داناؤں نے جو نکتے بیان کئے ہیں وہ تیرے ادراک سے بالا ہیں۔ اس دنیا میں بہشت کی سی شرابِ ارغوانی پئے جا۔ کیا خبر کہ جہاں بہشت ہے تو وہاں پہنچے یا نہ پہنچے۔)​
(جاری ہے)​
 
Top