خیبرپختونخواہ کی سو فیصد آبادی کیلئے صحت کارڈ کا اجرا

جاسم محمد

محفلین
صحت کارڈ کے اجرا سے ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی، وزیراعظم
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 20 اگست 2020

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جو ہم میں سے اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کا ایمان ہے کہ جو بھی کامیابی اور عزت ہو وہ اللہ کی طرف سے آتی ہے لیکن اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور اللہ کو خوش کرنا پڑتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ کوئی چیز اللہ کو اس سے زیادہ خوش نہیں کرتی کہ جب آپ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں اور اس سے بڑی کوئی خدمت ہو ہی نہیں سکتی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کسی غریب گھرانے میں بیماری ہو اور ان کے پاس علاج کرانے کے لیے پیسہ نہ ہو تو وہ خطِ غربت سے بھی نیچے چلے جاتے ہیں اور ان کا سارا بجٹ ڈوب جاتا ہے وہ پیسہ جو انہوں نے کھانا کھانے یا بچوں کو پالنے کے لیے رکھا ہوتا ہے وہ علاج میں خرچ ہوجاتا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اسی سوچ سے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ جب غریبوں کے لیے کام کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ خیبرپختونخوا کو دیکھ کر دیگرصوبوں میں بھی صحت انصاف کارڈ دینےکے لیے دباؤ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دیگر صوبوں کے عوام بھی چاہیں گے کہ جب خیبر پختونخوا یہ کرسکتا ہے تو ہمیں بھی صحت کارڈ دیا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم پنجاب جہاں ہماری حکومت ہے وہاں بھی ہر خاندان کو صحت کارڈ دینے کے لیے زور لگائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان جہاں ہماری اتحادی حکومت ہے وہاں بھی صحت کارڈ کے اجرا کے لیے زور دیں گے جس سے خود بخود سندھ پر بھی اس حوالے سے دباؤ پڑجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بھی جب صحت کارڈ کے لیے دباؤ بڑھے گا تو وہاں یہ آسان ہوگا کیونکہ آبادی کم ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہیلتھ کارڈ سے سرکاری ہسپتالوں میں اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے پریشر بڑھے گا اور نجی ہسپتال بھی اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں ہمارا نظام صحت بہتر ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی ہسپتالوں کو مراعات دے کر ہم نے کوشش کی ہے کہ نجی ہسپتال ڈیوٹی فری آلات منگوا کر یہاں ہسپتال بناسکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ اوقاف کی زمینوں کو ترجیح دیتے ہوئے ہم نے ہسپتالوں کے لیے کم قیمت پر اراضی مختص کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے نہ صرف بڑے شہروں بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بھی ہسپتال قائم ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ عوام کو صحت کی تمام سہولیات اور علاج فراہم کیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہر کسی کے پاس ہیلتھ کارڈ ہونا ضروری ہے جس سے ڈیٹا مرتب ہوگا اور اس ہیلتھ انشورنس کی بہتر نگرانی کی جاسکے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی منزل کی طرف جارہے ہیں اور مجھے اس پر بہت خوشی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کیا کوئی تفصیلات بتا سکتا ہے کہ موجودہ طریقہ کار سے صحت کارڈ کس طرح مختلف ہو گا؟
ماضی میں مستحق خاندانوں کو صحت کارڈ کیلئے اپلائی کرنا پڑتا تھا۔ اب مغربی ممالک کی طرح پورے صوبے میں ہیلتھ انشورنس نافذ ہوگی جس کے بعد ہر خاندان اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے گا۔
 

محمد سعد

محفلین
ماضی میں مستحق خاندانوں کو صحت کارڈ کیلئے اپلائی کرنا پڑتا تھا۔ اب مغربی ممالک کی طرح پورے صوبے میں یونیورسل ہیلتھ کیئر نافذ ہوگی جس کے بعد ہر خاندان اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے گا۔
صرف صحت کارڈ کے طریقہ کار سے فرق نہیں پوچھ رہا۔ مثال کے طور پر کوئی بیمار پڑا اور ہسپتال جانا پڑا۔ صحت انصاف کارڈ سے پہلے کے پاکستان میں لاگو سسٹم میں اسے کیا کرنا ہوتا تھا، اب کیا کرنا ہو گا؟ کیا صحت کارڈ کا کسی طرح کا سالانہ پریمیم وغیرہ ہو گا؟ اس بات کو کیسے یقینی بنایا گیا ہے کہ امریکہ جیسی صورت حال پیدا نہ ہو جہاں پرائیویٹ انشورنس انڈسٹری نے غریب کے لیے معیاری علاج کا حصول ناممکن بنا دیا ہے؟ اس طرح کے سوالات۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس بات کو کیسے یقینی بنایا گیا ہے کہ امریکہ جیسی صورت حال پیدا نہ ہو جہاں پرائیویٹ انشورنس انڈسٹری نے غریب کے لیے معیاری علاج کا حصول ناممکن بنا دیا ہے؟ اس طرح کے سوالات۔
اس بارہ میں وزیر اعظم نے آج تقریر میں خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ بعض مغربی ممالک کے ہیلتھ انشورنس سسٹم میں مختلف scam سامنے آئے تھے۔ ایسا پاکستان میں نہ ہو اس پر چیک رکھنے کیلئے تمام کارڈ ہولڈرز کا ڈیٹا سختی سے مانیٹر ہوگا تاکہ کوئی سرکاری یا نجی ہسپتال صارفین کو لوٹ نہ سکے۔ اسی طرح انشورنس کمپنیز پر بھی چیک رکھا جائے گا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کیا صحت کارڈ کا کسی طرح کا سالانہ پریمیم وغیرہ ہو گا؟
ماضی میں صحت کارڈ صرف غریب مستحق خاندانوں کو ملتا تھا۔ اب چونکہ یہ سب کیلئے ہے تو ظاہر ہے متوسط اور امیر افراد کیلئے بالکل مفت تو نہیں ہوگا۔ بہرحال اس حوالہ سے تفصیلات موصول ہوتے ہی فراہم کرتا ہوں
 

جاسم محمد

محفلین
مثال کے طور پر کوئی بیمار پڑا اور ہسپتال جانا پڑا۔ صحت انصاف کارڈ سے پہلے کے پاکستان میں لاگو سسٹم میں اسے کیا کرنا ہوتا تھا، اب کیا کرنا ہو گا؟ کیا صحت کارڈ کا کسی طرح کا سالانہ پریمیم وغیرہ ہو گا؟
تفصیلات:


 

سید ذیشان

محفلین
کیا کوئی تفصیلات بتا سکتا ہے کہ موجودہ طریقہ کار سے صحت کارڈ کس طرح مختلف ہو گا؟
پہلے شاید سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا تھا اب اس نیٹورک میں کچھ پرائیویٹ ہسپتالوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اصل معلومات تو بجٹ کو دیکھ کر ہی ہو سکتی ہیں کہ کتنے فیصد اضافہ ہوا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے شاید سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا تھا اب اس نیٹورک میں کچھ پرائیویٹ ہسپتالوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اصل معلومات تو بجٹ کو دیکھ کر ہی ہو سکتی ہیں کہ کتنے فیصد اضافہ ہوا ہے۔
117444774_10157862517534527_8998471632393514526_n.jpg

117910607_10157862517499527_5687700623485111135_n.jpg

118035148_10157862517524527_4919635305681481132_n.jpg

117860476_10157862517514527_696788033284762492_n.jpg

118059947_10157862517549527_2362543185499264473_n.jpg

117780523_10157862517554527_7179800741599339798_n.jpg

118008047_10157862517529527_2820033125106000702_n.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
احسن قدم ہے، لیکن مجھے اس پر کچھ تحفظات ہیں۔

سب سے پہلے نمبرز کو دیکھتے ہیں:

حکومت سالانہ 18 ارب وقف کرے گی۔ جب کہ 60 لاکھ خاندانوں کے ساتھ فی خاندان 10 لاکھ کے حساب سے اس اسکیم کا ٹوٹل لے آؤٹ 6 ہزار ارب روپے کا بنتا ہے۔ صرف اور صرف ایک فیصد گھرانے (یعنی ساٹھ ہزار) بھی اگر اس سے مستفید ہوں تو حکومت کو 60 ارب کی ضرورت پڑے گی۔ 18 ارب روپے سے صرف اور صرف 18 ہزار گھرانوں کی ضرورت پوری ہو سکے گی یعنی اس سے کل آبادی کا صرف صفر اعشاریہ تین فیصد 0.30% حصہ ہی کور ہو سکے گا یعنی ایک ہزار میں سے صرف 3 گھرانے۔ عام مشاہدے کے مطابق بیماروں کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس کے بعد اس کے انتظامی پہلو کی طرف آئیں:

حکومت پہلے بھی مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لاہور میں پی آئی سی میں دل کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے لیکن وہاں ہوتا کیا ہے؟ بائی پاس والے مریض کو اپنی باری کے انتظار کے لیے دو سے تین سال کا عرصہ بتایا جاتا ہے۔ اتنے عرصے میں پیاروں کا پیارا اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ آدھے مریضوں کے رشتے دار ہسپتال کے چکر مارنے میں "رُل" جاتے ہیں اور آدھے مریضوں کے سفارش ڈھونڈنے کے چکروں میں۔ وزرا، ایم این اے، ایم پی اے، افسران کی پرچیاں چلتی ہیں تو بیچاروں کی باری دو سال سے کم ہو کر ایک ڈیڑھ سال میں آ جاتی ہے! دوسری طرف اسی ہسپتال میں پرائیوٹ علاج بھی ہوتا ہے، آپ پیسے دیں ایک ہفتے کے اندر اندر بائی پاس، انجیو پلاسٹی سب ہو جائے گا۔

یہی حال اس اسکیم کے سرکاری ہسپتالوں میں ہوگا۔ باقی رہے کچھ پرائیوٹ ہسپتال تو وہ شروع شروع میں شاید آسانی سے علاج کر دیں لیکن جب ان کی رقم حکومت کے پاس پھنسی اور اس کو نکلوانے کے لیے ان کو رشوت بھی دینی پڑی جو کہ پاکستان میں عام طور پر ہوتا ہے تو کس بزنس مین کا پرائیوٹ ہسپتال بغیر کرپشن کے اس اسکیم میں شامل رہے گا؟

ہم آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں مسئلہ قوانین یا نئی اسکیموں میں نہیں ہے بلکہ ان پر عمل در آمد کا ہے۔ اس اسکیم کا بھی وہی حشر ہوگا جو ایسی ویلفیئر اسکیموں کا ہمیشہ سے پاکستان میں ہوتا آیا ہے۔ بنیاد کو صحیح کیے بغیر جو بھی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا وہ زمین بوس ہی ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں مسئلہ قوانین یا نئی اسکیموں میں نہیں ہے بلکہ ان پر عمل در آمد کا ہے۔ اس اسکیم کا بھی وہی حشر ہوگا جو ایسی ویلفیئر اسکیموں کا ہمیشہ سے پاکستان میں ہوتا آیا ہے۔ بنیاد کو صحیح کیے بغیر جو بھی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا وہ زمین بوس ہی ہوگا
اس منصوبہ کی بنیاد خیبرپختونخواہ میں کئی سالہ تجربہ ہے جو ۲۰۱۶ سے جاری ہے۔ اگر یہ وہاں فیل ہو جاتا تو اس کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی
KP’s healthcare secret - Newspaper - DAWN.COM
 

جاسم محمد

محفلین
احسن قدم ہے، لیکن مجھے اس پر کچھ تحفظات ہیں۔

سب سے پہلے نمبرز کو دیکھتے ہیں:

حکومت سالانہ 18 ارب وقف کرے گی۔ جب کہ 60 لاکھ خاندانوں کے ساتھ فی خاندان 10 لاکھ کے حساب سے اس اسکیم کا ٹوٹل لے آؤٹ 6 ہزار ارب روپے کا بنتا ہے۔ صرف اور صرف ایک فیصد گھرانے (یعنی ساٹھ ہزار) بھی اگر اس سے مستفید ہوں تو حکومت کو 60 ارب کی ضرورت پڑے گی۔ 18 ارب روپے سے صرف اور صرف 18 ہزار گھرانوں کی ضرورت پوری ہو سکے گی یعنی اس سے کل آبادی کا صرف صفر اعشاریہ تین فیصد 0.30% حصہ ہی کور ہو سکے گا یعنی ایک ہزار میں سے صرف 3 گھرانے۔ عام مشاہدے کے مطابق بیماروں کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس تخمینہ کی بنیاد ہر خاندان کا ہر سال ۱۰ لاکھ روپے صحت پر خرچ کرنا ہے جو کہ میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ پہلے آپ یہ تخمینہ لگائیں کہ ایک عام پاکستانی خاندان صحت پر سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ اس پروگرام میں صرف ٹریٹمنٹ کے اخراجات شامل ہیں۔ پاکستان کے پاس فی الحال اتنے وسائل نہیں کہ مغربی یورپ کی طرح سارا علاج سرکاری خرچہ پر ادا کرے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس تخمینہ کی بنیاد ہر خاندان کا ہر سال ۱۰ لاکھ روپے صحت پر خرچ کرنا ہے جو کہ میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ پہلے آپ یہ تخمینہ لگائیں کہ ایک عام پاکستانی خاندان صحت پر سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ اس پروگرام میں صرف ٹریٹمنٹ کے اخراجات شامل ہیں۔ پاکستان کے پاس فی الحال اتنے وسائل نہیں کہ مغربی یورپ کی طرح سارا علاج سرکاری خرچہ پر ادا کرے۔
قبلہ میں بھی تو یہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ وسائل اتنے نہیں ہیں لیکن ڈھنڈورا 100 فیصد آبادی کا پیٹا جا رہا ہے اور اس ڈھنڈورے کو دنیا کی چند بہترین فلاحی ریاستوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔

یہ وہی چکر ہے جو وزیر اعظم نے کہا کہ اب بجلی سستی ملے گی، تھوڑا سا کریدنے پر علم ہوا کہ 2030ء کے بعد سستی ملے گی۔ :)
 
Top