آج تک یہ نہیں سنا گیا کہ کسی نے آل عثمان سے کوئی علاقہ چھینا ہو ۔
ہر قسم کا اختیار اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہے عزت سے نوازے اور جسے چاہے ذلت کی تاریکیوں میں دھکیل دے ، سلطان تیونس اس دقیق نقطہ سے غافل تھا، اپنی غلطیوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اسے ذلیل کردیا ، الجزائر اب میری سلطنت ہے اور کسی انسانی طاقت کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اسے مجھ سے چھین سکے ، کیونکہ یہ ملک میری ملکیت نہیں بلکہ ہمارے سلطان معظم سلیم خان کی مملکت کاحصہ ہے اور آج تک نہیں سنا گیا کہ آل عثمان سے کوئی علاقہ چھینا گیا ہو ، یہ ایک حقیقت ہے اور اسے تسلیم کرنا لازم ۔
اور جوکوئی بھی اس حقیقت سے انکاری ہوگاوہ اپنے خلاف جرم کا ارتکاب کرے گا، اور اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھوں میں گرا دے گا۔
اہل الجزائر ہم سے محبت کرتے تھے اور ہماری قدروقیمت سے بخوبی واقف تھے ، جب سے ہم ان کے علاقے میں آئے ہم نے اس بڑے ملک میں مختلف امارتوں اور قبائل کو متحد کیا ، تجارت کئی گنا بڑھ گئی ، مسلمان ہسپانویوں کے ظلم وستم سے محفوظ ہو گئے ، اب وہ آزادی کے ساتھ سر اٹھا کر جی سکتے تھے ، یہ سب اس وجہ سے کیونکہ وہ دنیا کے سب سے بڑے سلطان کے تابع تھے ۔
اس کے باوجود کچھ قبائل نے سلطان تیونس کی تحریض پر لبیک کہا چنانچہ میں نے ان کی جانب 6 ہزار پیادہ اور 6 ہزار سواروں پر مشتمل فوج بھیجی ، ان قبائل کی سرزنش اور سرکوبی کی گئی اوردوسرو ں کیلئے باعث عبرت بنا دیا،جبکہ سلطان تلمسان نے مراکش کے سلطان کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیں ۔ اس دوران جب اہل تلمسان الزیانی کے درمیان حصول تخت کی باہمی جنگوں سے شدیدعاجز آچکے تھے ، جبکہ ہسپانوی تلمسان میں وقوع پذیر حالات سے بے حد خوش تھے ان دنوں بنوزیان کے شہزادوں میں میں سے ایک الجزائر اپنے بڑے بھائی کےخلاف مدد لینے کیلئے پہنچا ، چنانچہ میں نے اس کے ساتھ 3 ہزار سوار اور ایک ہزار پیادہ سواروں پر مشتمل فوج روانہ کی ، اس فوج کو روانہ کرنے کی وجہ میرے جاسوسوں نے مجھے اطلاع دی کہ اس کا سلطان مولای عبداللہ لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکا رہے ہیں ، اور ہمارے بارے میں طرح طرح کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں ، یہ سلطان جسے ہم نے ہسپانویوں کے ظلم سے نجات دلائی اس بات کا مستحق تھا کہ اسے اس کی احسان فراموشی اور ہمارے خلاف دشمنی کی ابتداء کرنے کی سزادی جاتی ،اسے جونہی ہمارے لشکر کی آمد کا علم ہوا توہسپانویوں سےمدد طلب کرنے وہران کی جانب راہ فرار اختیار کی ۔
تلمسان پر قبضہ
معززین تلمسان نے اپنے سلطان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اور یہ کہتے ہوئے براءت اختیار کر کی کہ:
سلطان کا بھائی امیرمسعود خیرالدین کی جانب سے بھیجی گئی طاقتور فوج کے ہمراہ آپہنچا ہے ، اب تمہیں جو مناسب لگتا ہے کرو ، اپنے معاملات خود نمٹاؤ اس معاملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔
سلطان کو ادراک ہو گیا کہ اس کا انجام انتہائی حسرتناک ہو گا اور اس کے سامنے ہسپانویوں کی پناہ میں آنے اور وہران کی جانب فرار اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ، جبکہ ادھر مسعود نے نے بڑے پرامن انداز میں بغیر خون بہائے فتح حاصل کی اور ہماری مہربانی سے شہر میں داخل ہو کر تخت نشیں ہو گیا ، میرے اور میرے لشکر کے حق میں دعائے خیر کی احتیاط کا تقاضہ یہ تھا کہ ہم ا س پر زیادہ اعتماد نہ کریں اور اب جبکہ اس نے اپنا مقصد اور تخت حاصل کر لیا ہے اس کی جانب سے مطمئن ہو کر بیٹھ نہ جائیں ۔
سلطان نے میری سپاہ کو انعام واکرام سے نوازا ، ان میں سے ہر ایک غازی کو 25 طلائی دینار دئیے جبکہ ہر عرب رضاکار کو جو اس کے ساتھ جنگ کیلئے نکلے تھے 10 طلائی دینا ر دئیے ، جبکہ میری جانب 50 ہزار طلائی دینار سالانہ خراج کے طور پر بھیجے ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے قیمتی تحائف احسان مندی کے طور پر بھیجے ، یہ سونا میں نے امارت کے خزانے کی جانب بھیج دیا ، جبکہ اکثر تحائف رؤساء بحر پر تقسیم کردئیے ۔
اور کچھ کو اپنے پاس محل میں محفوظ کر لیا ، پھر سلطان مسعود کی جانب خط بھیجا جس میں اسے کہا:
اب ہماری مہربانی سے تو اپنے اجداد کے تخت پر بیٹھ چکا ہے چنانچہ ایسے کاموں سے گریز کرو جوتیرے بھائی کی تخت سے محرومی کاسبب بنے ، مسلمانوں پر ظلم کرنے اور میرے احکامات کی ذرہ برابر بھی نافرمانی کرنے سے اجتناب کرو ، سالانہ خراج کی ادائیگی میں ایک دن کی بھی تاخیر مت کرنا اور میں تمہارے بارے میں قطعا یہ نہ سنوں کہ تم نے ہسپانویوں سے کسی قسم کا تعلق قائم کیا ہے وہ جب بھی موقع ملا تیرا خاتمہ کردیں گے ۔ اوریاد رکھنا تیرے دونوں بڑے بھائی وہران میں ہسپانویوں کے پاس پناہ گزیں ہیں اور اگر تو ان میں سےکسی کو اپنے تخت پر بیٹھا دیکھنا نہیں چاہتا تو اپنی جان اور تخت کی حفاظت کیلئے ضروری تدابیر اختیار کرو۔
مگر مسعود نے تخت نشین ہوتے ہی لوگوں پر ظلم وستم ڈھانا شروع کر دیا ، لوگوں سے ناحق مال لوٹنا جیسا کہ اس سے پہلے اس کے آباء کاوطیرہ تھا، اور مجھے معلوم ہو ا کہ اس نے میرا خط پڑھنے کے بعد پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا ، وہ اس حرکت کے نتیجے میں اپنے لئے منتظر نتائج وعواقب سے بے خبر تھا، وہران میں پناہ گزین اس کے بڑے بھائی نے جب اس کی اس حرکت کے بارے میں سنا تو میرے ساتھ رابطہ کیا اور کہا:
سیدی سلطان : آپ نے دیکھا کہ کس طرح آپ نے مجھے میرے آباء کے تخت سے محروم کرکے میری جگہ اس ناشکرے کو تخت پر بٹھایا جو آپ کی نعمت کا تحفظ نہیں کرتااور آپ کی نیکی کو خاطر میں نہیں لاتا ، اب وہ آپ کے خلاف سرکشی پر بھی اتر آیا ہے ۔ اگر آپ اپنی مہربانی اور احسان کرتے ہوئے میری اس تخت کی واپسی میں مدد کریں تو میں ساری زندگی آپ کا فرمانبردار غلام بن کر رہوں گا۔
ہمیں اس کے بھائی مسعود کی طرح اس سے بھی خیر کی کوئی امید نہ تھی مگر موجودہ سیاست کا تقاضہ یہ تھا کہ ہم اسے معاف کرکے اس کے ذریعے اس کے بھائی مسعود پر چوٹ لگائیں۔
اس دوران میں 22 جہازوں کے ساتھ مستغانم کے سواحل کے قریب لنگرانداز تھا ۔ جسے میں نے کسی خاص مشکل کے بغیر فتح کرلیا ، مستغانم "وہران" کے قریب واقع تھا جو کہ ہسپانویوں کے قبضہ میں تھا ، میں مستغانم میں تھا ، شہزادہ عبداللہ میرے پاس آیا اور بڑی عاجزی کے ساتھ میری چادر کو بوسہ دیا ، میں نے اپنی 2 ہزار پر مشتمل سپاہ اس کے ہمراہ تلمسان بھیجی ، جبکہ مستغانم کے اطراف میں 2285 اندلسی مہاجرین کی آبادکاری میں مصرف ہو گیا جنہیں میں ہسپانیہ سے اپنے ہمراہ جہازوں پر لایا تھا۔
میں نے انھیں زمینیں عطا کیں جسے انھوں نے درست کرکے اس میں کاشت کاری کرتے وہ ، بہت ماہر کارکن تھے ، ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی فن میں بے مثال مہارت رکھتا تھا۔
جنگی چال
مجھے علم ہوا کہ عبداللہ تلمسان پہنچ کر وہاں کا حاکم بن گیا ہے جبکہ اس کا بھائی قلعہ میں 25 دن تک محصور رہا، م جہازرانوں کو ادراک ہوگیا کہ یہ حصاربہت طول کھینچے گا ، کیونکہ ان کے پاس توپیں نہ تھیں جو اس قلعہ پر قبضہ میں ان کی مدد کرتیں ، چنانچہ انھوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہنے لگے :
ہم یہ حصار اٹھادیتے ہیں اور یہ ظاہرکرتے ہیں گویا پسپائی اختیار کر رہے ہوں ، یہ بدو جو ہر قسم کے اخلاق وتہذیب سے عاری ہیں ، فتح و ہزیمت کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے ان کے درمیان یہ خبر پھیل جائے گی کہ ترک بھاگ نکلے ، اور غنائم کالالچ انھیں ہمارے تعاقب پر مجبور کردے گا ، تب ہم ان کاخاتمہ کر کے اس قلعہ پر قبضہ کرلیں گے اور اسے امیرعبداللہ کے سپرد کرکے الجزائر لوٹ جائیں گے ۔
اور واقعتا پھر ایسا ہی ہوا ، مسعود کے قلعہ بند مددگار باہر نکلے اور جہازرانوں کا تعاقب کرنے لگے ، کچھ ہی دیر میں جہازرانوں نے ایک ناگہانی حملے میں انھیں دبوچ لیا اور ان کی اکثریت کا خاتمہ کرڈالا، ان بدوؤں کے پاس فنون حرب سے متعلق کچھ علم نہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ باقاعدہ افواج کی جنگ صحراء میں لوٹ مارکی جھڑپوں جیسی ہے ،جبکہ ہسپانوی فنون قتال سے واقفیت رکھنے والوں نے کئی بار ترک جہاز رانوں سے شکست کا تلخ ذائقہ چکھا تھا ، اگر ان بدوؤں کو عقل ہوتی تو کبھی بھی اپنے آپ کو ہلاکت کیلئے پیش نہ کرتے ۔
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ انسانی جان کوکوئی اہمیت نہ دیتے اپنے آپ کو بڑے احمقانہ انداز میں قتل کیلئے پیش کر دیتے اور یہ سمجھتے کہ یہ تمام تر اللہ کی جانب سے تقدیر کا حصہ ہے!!
حقیقتا وہ دلیر تھے ، بہترین سوار مگر ان کی سواری کا طریقہ انتہائی ابتدائی تھا ، اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اچھا اسلحہ بھی نہ تھا اور اگر آبھی جاتا تو اس کے صحیح استعمال سے ناواقف تھے ،اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اچھا آتشیں اسلحہ بھی موجود تھا۔
ان کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ان کا اجتماعی طور پر فنون قتال سے عدم واقفیت تھا ۔ اس طرح سے تلمسان کا قلعہ ترک جہاز رانوں کے ہاتھ آلگا، جبکہ سلطان مسعود اپنے 5 یا 10 افراد کےہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اس کے انجام کا کسی کو علم نہ ہوسکا۔
یہ ہر بے وقوف شخص کاانجام ہے ، یہ مسعو د کون ہوتا ہے جو کہ دنیا کے سلطان اعظم کے بیلر بای کو اس طرح چیلنچ کرے ، جبکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں اور میرا بھائی عروج – اللہ اسے اپنی وسیع جنتوں کا باسی بنائے- کئی بار ہسپانیہ کے بادشاہ کو شکست سے دوچار کرچکے ہیں ۔
یہ گھٹیا انسان مسعود ان 6 ہزار بدوؤں کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگ نکلا جو اس کے ساتھ قلعہ بند تھے ، یہاں تک کہ انھیں اطلاع تک نہ دی اور وہ اپنے آقا کے کامیاب فرار سے بے خبر میرے جہازرانوں کے خلاف لڑتے رہے ۔ جہازرانوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے سے قبل ان کے سردار میرے ساتھیوں سے کہنے لگے : معاذاللہ کہ ہم جان بوجھ کر الجزائر کے سلطان خیرالدین پاشا کے خلاف سرکشی میں حصہ لیں وہ تو ہمارا سردار ہے اور ترک ہمارے آباء ، اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ہم نے مسعود کے خوف سے تمہارے خلاف ہتھیار اٹھائے جو ہمیں ہسپانویوں کو بلوانے کی دھمکی دیتا تھا، وگرنہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو عروج رئیس کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شریک ہوئے ، ہم سے درگزر کیجئے ، ہم سے غلطی ہوئی ہے اور ہم آپ سے عفو ودرگزر کے طلبگار ہیں ۔
تلمسان کے اس معرکہ میں میرے جہازرانوں نے 5 ہزار باغی بدوؤں کو تلوار کی دھار پر رکھا ، اسلحہ پھینکنے والوں اور اطاعت قبول کرنے والوں کو معاف کردیا،
جمعہ کے دن بر وبحر کے سلطان سلیم خان کے نام کا خطبہ پڑھایا گیا اور ان کا بابرکت نام سکہ کے اوپر نقش کر دیا گیا۔
جہازرانوں نے سلطان عبداللہ کو الوداع کہا اور الجزائر واپس جانے کی اجازت مانگی ، مگر سلطان نے انھیں کچھ مدت مزید روکنے پر اصرار کیا ، جہازرانوں نے اسے آگاہ کیا کہ انھیں تلمسان سلطان کے سپرد کرنے کے بعد ایک دن بھی رکنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ان کیلئے الجزائر پہنچنا لازم ہے ، سلطان کے رکنے کے بیحد اصرار پر وہ اپنے 100 ساتھیوں کو ٹھہرانے پر راضی ہوگئے ۔
سلطان نے میرے جہازرانوں کا بے حد اکرام کیا، اپنے شاہی مطبخ سے ان کیلئے کھانا تیار کرواتا ، جبکہ باقی 900 جہازران 80 ہزار دینار اور بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ الجزائر واپس لوٹے ، میں نے سلطان عبداللہ کا بھیجا گیا خط پڑھا جسے انتہائی ادب واحترام کے ساتھ تحریر کیا گیا تھا۔
میں نے مسکراتے ہوئے جہاز رانوں سے کہا: اب یہ راہ راست پر آیا ہے ، آگے دیکھتے ہیں یہ تخت نشیں ہونے کے بعد کیا کرتاہے ،اپنے بھائی کے راستے پر تو نہیں چلتا؟
رؤساء میری بات سن کر ہنس پڑے ، جبکہ میں نے تلمسان کے مسئلہ سے فراغت کے بعد "ابن القاضی" کے مسئلہ پر سوچ بچار شروع کر دی۔
ابن القاضی الجزائر میں عرب سرداروں میں سے ایک سردار تھا میرے لئے اپنے دل میں انتہائی محبت بھرے جذبات واحساسات رکھتا تھا ، سلطان تیونس نے اسے میرے خلاف خروج پر تحریض دینے کی کوشش کی مگر اس نے اس پر موافقت نہ کی اور اسے بھی ترکوں کی اطاعت اور ان کی تابعداری قبول کرنے کی دعوت دی ، اب یہ عقلمند شخص فوت ہو چکا تھا، اور اس کی جگہ اس کا ناعاقبت اندیش بیٹا جو کہ ابن القاضی کے نام سے ہی جانا جاتا تھا سردار بن چکا تھا ۔ جس نےسب سے پہلا کام یہ کیا کہ سلطان تیونس کے ساتھ میرے خلاف یہ کہتے ہوئے اتحاد کیا کہ ہمیں ایک ہاتھ بن کر ترکوں کو بلاد عرب سے نکال باہر کرنا چاہئے ۔یہ خط جو اس بدبخت بیٹے نے سلطان تیونس کی جانب بھیجا میرے ہاتھ لگ گیا، ابھی اس کے والد کی وفات کو محض 2 ماہ ہی بیتے تھے ۔اس خط میں تحریر تھا:
میں اور تو ایک ہاتھ بن کر ترکوں کی شان وشوکت کو توڑ دیں اور خیرالدین کو الجزائر سے نکال دیں اور میں اس کی جگہ سلطان بن جاؤں گا ، سلطان بنتے ہی بہت سا مال غنیمت تمہاری خدمت میں پیش کروں گا ، میرا والد ترکوں سے بے حد محبت کرتا تھا جبکہ میرے نزدیک ان سے ناپسندیدہ قوم کوئی نہیں ۔
جب ابن القاضی کا سلطان تیونس کو بھیجا گیا خط میرے ہاتھ لگا تو میں جان گیا کہ یہ دونوں میرے خلاف سازشوں کاجال بُن رہے ہیں ۔
چنانچہ میں 12 ہزار افراد کے ساتھ سلطان تیونس کےخلاف جنگ کیلئے نکلا اور بلوط اور کشناد کے درختوں سے ڈھکی ایک وادی میں اترا ، سلطان تیونس نے جب مجھے دور سے دیکھا تو یہ سمجھا کہ میں اس کا حلیف ابن القاضی ہوں ، جبکہ میں نے اس پر گولوں کی بارش برسانا شروع کر دی ، جس سے اس کا لشکر تسبیح کے دانوں کی طرح منتشر ہو گیا ، سلطان کو گرفتار کر کےمیرے پاس لایا گیا، میرے سامنے اس کی باربار ان حرکتوں کی وجہ سے اسے نصیحت کرنے اور ڈرانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔
پھر میں نے اسے آزاد کرنے کاحکم دیا، میں جانتا تھا کہ اگر میں کبھی قیدی بن کر اس کے ہاتھ چڑھتا تو مجھے انتہائی برے طریقے سے قتل کیا جاتا ،مگر میرے اسے معاف کردینے اور اس کے ساتھ نرمی برتنے نے تمام اہل افریقہ کے دل جیت لئے اور لوگ ہم سے پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگے ۔
اس معرکہ کے دوران میں نے 300 خیموں پر قبضہ کیا اور انھیں الجزائر بھیجنے کاحکم دیا ، جبکہ میں اس علاقہ میں 10 یا 15 دن ٹھہرا رہا ۔ یہ انتہائی خوبصورت جگہ تھی ، ہر جانب چشمے بہتے تھے ، پرندوں کی چہچہاہٹ اس جگہ کو مزید خوبصورت بناتی ، ہم نے کچھ عرصہ یہاں ٹھہر کر لطف اٹھایا ، پھر میں نے الجزائر واپسی کیلئے حرکت کا حکم دے دیا۔
ہم ایک شدید تنگ گھاٹی سے گزر رہے تھے جہاں دو سوار بھی پہلو بہ پہلو نہ گزر سکتے تھے ، اس دوران ابن القاضی اور اس کے افراد وہاں گھات لگا کر بیٹھے تھے اور ہمیں اس وقت علم ہو ا جب وہ ہر جانب سے ہم پر حملہ آور ہو چکے تھے ، مجھے توقع نہ تھی کہ ہم اس طرح گھات میں پھنس جائیں گے ۔ اس جھڑپ میں میں نے اپنے بہت سے ساتھی کھوئے ، ساڑھے تین گھنٹوں تک یہ معرکہ جاری رہا جس کے بعد ہم اس تنگ گھاٹی کو عبور کرنے میں کامیاب ہو سکے اور الجزائر پہنچے ، اس معرکہ میں 750 جہازراں شہید ہوئے ، اس وجہ سے میں نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ میں اس حرامی ابن القاضی سے بدلہ لے کر رہوں گا اور کسی صورت بھی اسے معاف نہیں کروں گا۔
یہ تقدیر الٰہی تھی کہ جہاں میں نے سلطان تیونس اور اس کے لشکر کو شکست دی وہاں میں اس بدوی ابن القاضی کے خلاف فتح حاصل نہ کر سکا۔
جس وقت شاہان یورپ کے جرنیل محض باربروسہ کا نام سن کر کانپنے لگتے تھے الجزائر میں سرکشی وبغاوت کی تحریکیں سر اٹھانےلگیں ، ابن القاضی کا غرور وتکبر اپنی انتہاء کو پہنچ چکا تھا ، یہاں تک کہ وہ یہ بکنے لگا:
میں نے خیرالدین پاشا کو شکست دی ، ان شاء اللہ عن قریب میں اس کی گردن ماروں گا۔
مجھ تک یہ خبر پہنچی کہ اس نے اپنے گرد بہت سے اعرابی جمع کر لئے ہیں ، 500 ترکوں کو قید کرکے انھیں بھاری بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے اور انھیں چکی کے ساتھ باندھا ہے بیڑیوں میں جکڑ کر انھیں چکی کے گرد گھمایا جاتا۔
میں نے اس کی جانب خط لکھا کہ ان قیدیوں کو آزاد کردے ورنہ عن قریب اسے حسرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا، اس نے میرے مطالبے کا جواب نہیں دیا بلکہ ان پر مزید ظلم وتشدد جاری رکھا ۔ مجھے علم ہو گیا کہ وہ انھیں آزاد نہیں کرے گا کیونکہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر اس سے انتقام لیں گے۔اور دوسری جانب اس نے مختلف اطراف میں اپنے قاصد بھیج کر لوگوں کو جمع کرنا اور انھیں بغاوت پر قائل کرناشروع کر دیا: یہ ترک یہاں الجزائر کیوں آئے ہیں ، آؤ ہم اکٹھے ہو کر ان سے نجات حاصل کریں ۔
خائن جہاز راں
کچھ غافل احسان فراموش لوگوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا ، جو یہ فراموش کرچکے تھے کہ ترکوں نے انھیں ہسپانویوں کے ظلم وستم سے نجات دلائی ہے ، اس وقت میرے پاس 12 ہزار ترک جہاز راں تھے جن میں سے اکثر سمندر کے اندر تھے ، مجھ پر لازم تھا کہ نصاریٰ کی جانب سے کسی بھی ممکنہ حملے سے چوکنا رہوں ،اس وجہ سے میرے پاس اتنی گنجائش نہ تھی کہ اپنے تمام افرادکو جمع کرکے باغیوں کی سرکوبی کیلئے روانہ کروں ، ان حالات میں ہماری صفوں میں موجود کچھ ترکوں کے دل خیال پیدا ہوا کہ میرے لئے الجزائر کی حفاظت کرنا ممکن نہیں ، ان سادہ لوح دھوکہ کھائے جہازرانوں میں سے ایک قارۃ حسن تھا ، اس نے اپنے دل میں سوچا کہ میرے خلاف بغاوت کرکے میری جگہ تخت نشیں ہو جائے ، اس کم عقل شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے کرنے سے میں عاجز رہا۔اور جب مجھے اطلاع ملی کہ اس نے ابن القاضی کے ساتھ خط وکتابت شروع کردی ہے تو میں نے اسے سبکدوش کرکے جلاوطن کردیا۔
مجھے صورتحال کی سنگینی کا احساس تھا ، میں نے کہا اہل الجزائر کو ایسا سبق دینا چاہئے جسے وہ بھلانہ سکیں ، یہ ابن القاضی آتش شوق میں جل رہا تھا کہ الجزائر کا سلطان بن بیٹھے لیکن اگر میں الجزائر چھوڑتا تو یہ ایک بار پھر ہزار ٹکڑوں میں بٹ جانا تھا اور ان میں سے ہر ایک ٹکڑا یکے بعد دیگرے ہسپانویوں کی گود میں جا گرتا۔ جبکہ ابن القاضی الجزائر کو متحد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، نہ ہی اس کے پااس وہ عقل وشجاعت اور افواج تھیں جو اسے ہسپانویوں کا مقابلہ کرنے کی اہل بناتیں ، اور یہی نہیں اس کے پاس کوئی بحری بیڑہ تو دور کی بات کوئی کشتی بھی نہ تھی ، آپ کا کیا خیال ہے جب کفار کے بحری بیڑے سے افق تک سمندر ڈھک جائے یہ کس طرح سے سر اٹھا سکتا ہے ۔
ہماری آمد سے قبل یہاں کے لوگوں کی عادت تھی کہ وہ کفار کو دیکھتے ہی آسمان پر اڑنے والے پرندوں کے غولوں کی طرح بکھر جایا کرتے تھے ، 100 سال سے زائد عرصہ سے الجزائر میں نہ کوئی مملکت تھی اور نہ حکومت۔کفار اس بات سے بخوبی واقف تھے چنانچہ انھوں نے الجزائر کی بہترین بندرگاہ پر قبضہ کررکھا تھا ۔ اب ہماری بنائی ہوئی پوری عمارت ان مٹھی بھر سرکشوں کی وجہ سے پلک جھپکنے میں منہدم ہوسکتی تھی ، ہماری وجہ سے اس ملک میں آنے والی اقتصادی وتجارتی ترقی ہمارے الجزائر چھوڑنے کے ساتھ ہی رک جاتی ، مگریہ کم عقل لوگ اس حقیقت سے غافل تھے ۔ میں نے سوچا کہ کچھ عرصہ کیلئے الجزائر کو چھوڑ کر دور دراز کے علاقے کو اپنا مسکن بنا کر سمندری کاروائیوں میں مصروف ہو جاؤں اور خشکی سے متعلقہ کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کروں ، اور دیکھوں کہ الجزائری اپنے معاملات کس طرح منظم کرتے ہیں ، اپنی قوت کو کس طرح محفوظ بناتے ہیں اور اپنے ملک کا کس طرح دفاع کرتے ہیں ۔
مجھے پورایقین تھا کہ یہ وہی کریں گے جو چند سال قبل انھوں نے کیا ، اپنے قاصد میری جانب بھیج کر گڑگڑائیں گے کہ میں دوبارہ الجزائر واپس لوٹ آؤں اور اس وقت میں الجزائر واپس آؤں گا اور تب کوئی قوت دوبارہ مجھے الجزائر سے نکال نہیں سکے گی اور تب جا کر انھیں یقینی طور پر علم ہو گا کہ فوج اور امورسلطنت کو مہارت سے چلانا ترکوں کاخاصہ ہے ۔
ابن القاضی کی بغاوت
بالآخر بغاوت کا طوفان پھوٹ پڑا ، ابن القاضی نے اپنےبڑے لشکر سے جو کہ 40 ہزار افراد پر مشتمل تھا حملہ کیا، میں اس حملہ کیلئے تیار تھا کیونکہ مجھے پہلے سے اس حملے کی توقع تھی بلکہ میرے جاسوس ابن القاضی کی مجلس میں بھی موجود تھے ہاں کہی جانے والی ہر بات اور ہر منصوبہ فورا مجھ تک پہنچ جاتا۔
میں نے 10 ہزار جہازرانوں کو باغیوں کے حملے کی سرکوبی کیلئے بھیجا ، فریقین ایک بڑی جنگ میں ایک دوسرے سے ٹکرائے یہ معرکہ عصر تک جاری رہا اس معرکہ میں میں نے 2 ہزار شہید کھوئے اور 2 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ، مگر معرکے کا اختتام سرکشوں کی مکمل صفائی پر ہوا ، اور محض 700 کے لگ بھگ باغی بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکے جبکہ باقی یا تو میرے گئے یا انھیں قید کرلیا گیا، ان باغیوں کے سرغنوںمیں جو افراد ہاتھ لگے ان میں الجزائر کا شیخ بھی تھا،میں نے اس کے قتل اور اس کے جسم کو 4 ٹکڑے کر کے ہر ٹکڑے کو شہر کے مختلف دروازوں پر لٹکانے کا حکم دیا تاکہ دوسروں کیلئے عبرت بن سکے ۔
بغاوت کی آگ بجھانے کے بعد باغیوں کے گرفتار 185 سرکردہ افراد کو ہاتھ باندھ کر میرے سامنے لایا گیا ، میں نے الجزائر کے علماء کو جمع کیا اور انھیں کہا :مشائخ کرام! ہمارے دین اور شریعت میں ان قیدیوں کا کیا حکم ہے ؟
ان میں سے ایک بڑی عمر کے عالم نے جواب دیا: شریعت میں آپ اور آپ کی فوج کے خلاف خروج کرنے والے کا حکم موت ہے ، کیونکہ تم اس ملک میں بروبحر کے سلطان ہمارے آقا سلیمان خان کی نمائندگی کر رہے ہو ۔ اور اس کے امراء میں سے ایک امیر ہو ، اور اس سے بڑھ کر وہ تمام نعمتیں اور انعامات جن سے تو نے ہمارے ملک کو سرفراز کیا ، تم نے ہماری گردنوں کو کفار کی غلامی کی ذلت سے آزاد کروایا، اور تو ہمارے ملک میں خیر وبرکت کے دوگنا چوگنا اضافہ کا سبب ہے ، اللہ رب العزت نے تمہارے ہاتھ سے رزق اور رفاہ عامہ کے دروازے کھول دئیے اور ہم نے تیری اور تیرے بھائی کی حکومت میں وہ حسن انتظام اور حسن تدبیر دیکھی جو اس سے پہلے ہم نے کبھی نہ دیکھی تھی ۔
اور اب یہ 185 احسان فراموش انسان جنہیں کچھ مفسدین نے جھوٹی اور خوشنما امیدیں دلا کر دھوکا دیا اور انھوں نے جرم عظیم کاارتکاب کیا ، مگر ان کے درمیان وہ بہت سے جنگجو بھی ہیں جنہوں نے ہسپانوی کفار کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور آج انھوں نے غلطی اور احسان فراموشی کاارتکاب کیا ، اگر معافی کی کوئی گنجائش ہے تو ان سے درگزر کیجئے اور ان کی معذرت اور اپنے لئے اطاعت کو قبول فرمائیے ، قدرت پالینے پر معاف کردینا ہی مروت اور بزرگی کی نشانی ہے ۔
میں رؤساء بحر کی جانب متوجہ ہوا اور انھیں کہا تمہار ا کیا خیال ہے ؟
رؤساء میں سے ایک جواب میں کہنے لگا:سیدی پاشا ! اس معاملے کو آپ ہم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں ، ہم علماء دین نہیں ، ہم تو جنگجو سپاہی ہیں ، اور استنبول میں سلطان معظم کے سامنے جوابدہ اور اس بات کے پابند ہیں کہ ہمارے تمام افعال واقوال ان کی اطاعت میں ہوں ۔پس یہ معافی اور درگزر کرنے کا وقت نہیں ، آپ کا کیا خیال ہے اگر یہ سرکش ہم پر قدرت پا لیتے تو ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ؟
ان کے اعتراف کے ساتھ ان پر عائد کردہ جرم ثابت ہو چکا ہے ، اگر ہم ان سے درگزر کرتے ہیں تو یہ دوسروں کیلئے بری مثال بن جائے گی ، ہم یہاں شمالی افریقہ میں مٹھی بھر چند ترک ہیں جو اناضول سے کئی گنا بڑے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اور محض چند ہزار ترکوں کے ساتھ اس کو زیرنگیں کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس دوران ہمیں یورپ کی سب سے بڑی قوت ہسپانیہ کے حملوں کا بھی سامناہے ، میرے خیال میں حزم کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ ان کی گردنیں مارنے کاحکم دیں تاکہ یہ دوسروں کیلئے نشان عبرت بن جائیں ۔
اور میں نے الجزائر چھوڑدیا
میرے نزدیک رئیس کی کہی گئی بات ہی زیادہ صائب تھی ، چنانچہ میں نے سرکشی کے زعماء کی ان کے املاک اور اموال میں بغیر کسی تعرض کے گردنیں مارنے کا حکم دے دیا، یہ صادر کرکے میں بہت غمگین ہوا ، اس رات میں سو نہ پایا ۔ مگر مملکت کی حفاظت اسی کا تقاضہ کرتی تھی ،اس وسیع وعریض ملک پر ہمارے لئے سختی کے ساتھ حکومت کرنا ممکن نہ تھا، اور ہمارے اس فیصلہ کن اور قطعی موقف نے سرکشوں کے دل میں رعب ڈال دیا چنانچہ ان کے دلوں میں دوبارہ لمبا عرصہ تک سرکشی کرنے کا خیال سر نہ اٹھا سکے گا۔ مگر یہ صورتحال ہمارے مستقبل کیلئے راحت بخش نہ تھی ، اس ملک کے باسی ہمیں پسند نہ کرتے ہوں ، ہم سے خوش نہ ہوں تو ہمارے لئے مناسب یہی ہے کہ اپنے معاملات سمیٹ کر یہاں سے نکل جائیں ۔
اتنا کافی ہے کہ ہم اس علاقے کے باسیوں کی مدد کا بیڑہ اٹھا لیں جبکہ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ ہماری موجودگی سے خوش نہیں تو ان علاقوں کو چھوڑنا ہمارے لئے لازم ہوچکا تھا ، میں عرصہ دراز سے اس بارے میں سوچتا رہا ، چنانچہ اس سلسلے میں میں نے قطعی فیصلہ کرلیا ، مجھے پورا ادراک تھا کہ ہمارے انخلاء کے بعد عرب الجزائر کی حکومت نہیں چلا سکیں گے چہ جائیکہ وہ نصاریٰ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھیں ، اور ہمارا انخلاء یہاں کی تجارتی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچاتا جس کے اثرات تمام لوگوں پر مرتب ہونے تھے ۔
مجھے پورا یقین تھا کہ عرب میرے انخلاء کے بعد باہمی جھگڑوں میں مشغول ہو جائیں گے او ر یہاں کے باسی اس باہمی نزاع اور اور کشمکش کے نتیجے میں شدید مشکلات کا سامنا کریں گے پھر ان کے سامنے مشکلات سے نکلنے کیلئے دوبارہ میرے سہارے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہوگا اور مجھ سے دوبارہ اس علاقے پر حکومت کرنے کی درخواست کریں گے ، مجھے اس بات پر ایمان اور اعتقاد کی حد تک یقین تھا۔
اس رات میں نے خواب میں خضر علیہ السلام کو دیکھا اس خواب کو میں نے اپنے لئے نیک شگون خیال کیا اور میرے شعور میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ میرا لیا گیا فیصلہ درست ہے ۔
پھر ایک صبح میں نے اپنے جہازرانوں ، ان کے اہل وعیال اور اموال کو اپنی 25 کشتیوں میں سوار کیا جو کہ بندرگاہ پر لنگرانداز تھیں اور باقی کشتیاں جو کہ جنگ کیلئے نکلی تھیں یا سمندر کے طول عرض میں گشت کر رہی تھیں ان کی جانب پیغام بھجوایا کہ وہ الجزائر بندرگاہ کی بجائے جیجل بندرگاہ کا رخ کریں ۔
الجزائر شہر کے تمام باسی بندرگاہ میں اکٹھے ہو گئے ان کا خیال تھا کہ ہم ہسپانیہ کے سواحل کی جانب جنگ کیلئے جا رہے ہیں ، مگر جب انھوں نے دیکھا کہ ہم نے اپنی عورتیں اور سازوسامان بھی کشتیوں پر سوار کر لیا ہے تو وہ دہشت زدہ رہ گئے ۔
الجزائر چھوڑنے کا فیصلہ جان کر شہر کے اکثر باسی غمگین ہوگئے ، جب ہم نے کشتیوں پر سوار ہونا شروع کیا تو آہ وزاری اوررونے کی آوازیں بلند ہوگئیں ، وہ کہنے لگے : اگر کل ہسپانوی آگئے تو ہماری حفاظت کون کرے گا پھر وہ ابن القاضی کے خلاف بددعا کرنے لگے جو اس قدر کمزور اور ذلیل ہو چکا تھا کہ میرے پاس اپنی سرکشی اور بغاوت کی معذرت کیلئے خط لکھا اور التجاء کی کہ میں اسے اسی طرح معاف کر دوں جیسا کہ باپ اپنے نالائق بچے کو معاف کردیتا ہے ۔
میں نے اس کی معذرت قبول نہ کی اور اس کے قاصد سے کہا : یہ الجزائر قلعہ کی چابیاں اپنے آقا کے پاس لے جاؤ اور اس سلطنت و بادشاہی کے شوقیں کے حوالے کرو اور اسے کہو : الجزائر آ کر مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد یہاں تخت نشیں ہو جائے ، ہم بھی دیکھیں کہ وہ کس طرح سے امور سلطنت چلاتا ہے ۔
الجزائری صرف ہسپانویوں سے ہی خوفزدہ نہ تھے بلکہ سلطان سلیمان خان سے بھی ڈر رہے تھے کیونکہ وہ سلطان کے مقرر کردہ بیلر بای پر راضی نہ ہوئے ، تو اس خوف سے لرزاں تھے کہ سلطان ان کے ساتھ کیا سلوک کرتاہے ۔
اہل الجزائر نے علماء کا ایک بڑا وفد میری کشتی میں بھیجا ، انھوں نے میرے پاس آکر التجا کی کہ میں الجزائر چھوڑنے کے فیصلے میں تبدیلی کر لوں اور یہیں ٹھہرا رہوں ، میں اپنے فیصلے سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا ، لیکن میں نے بڑی نرمی اور شائستگی سے ان کی جمع خاطر کیلئے معذرت کر لی اور وہ حسرت و افسوس بھرے دلوں کے ساتھ میری کشتی سے واپس لوٹے ۔
ایک دن کے سفر کے بعد ہم "جیجل " پہنچے جہاں ایک خوبصورت بندرگاہ ہماری منتظر تھی ، یہ الجزائر کے سواحل پر پھیلی ہوئی ہے ، جیجل وہ پہلا قلعہ تھا جسے میں اور میرے بھائی نے فتح کیا تھا ۔
جیجل کے باسیوں کو جب ہماری آمد اور یہاں ٹھہرنے کا علم ہوا تو انھوں نے ہماری آمد کی خوشی میں بڑی محفل کا انعقاد کیا ، اب وہ تمام سازوسامان ، نعمتیں اور مال ودولت جو الجزائر جاتے تھے ، جیجل پر اترا کریں گے ۔ اگلے دن قبائل کے شیوخ ، الجزائر کے معززین بلکہ تیونس تک کے لوگ جیجل پہنچے انھوں نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ہمارے آقا سلطان سلیمان خان کیلئے اپنی اطاعت و وفاداری کا اعلان کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ وہ ان کے حکم کو سنیں گے اور اطاعت کریں گے، سالانہ خراج ادا کیا اور مجھے آگاہ کیا کہ وہ ہر قسم کی ضرورت میں میری مدد کرنے کیلئے آمادہ ہیں ، کہنے لگے :
اللہ کہ پناہ کہ ہم سلطان کی اطاعت سے باہر نکلیں ، ہم اس بات پر راضی نہیں کہ اس قبیح فعل کی نسبت ہماری جانب کی جائے ہم تو سلطان سلیمان خان کی اطاعت وفرمانبرداری کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ، الجزائر میں چلنے والی بغاوت اور سرکشی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔
میں نے جیجل میں زیادہ طویل قیام نہ کیا بلکہ جلد ہی جنگ کیلئے نکل کھڑا ہوا ، ہم صقلیہ کے سواحل جا پہنچے ، جہاں اس کے دارلحکومت PARLIRMO پر ہم نے گولہ باری کی ، اس دوران میں نے کفار کے 9 جہازون پر قبضہ کیا جن پر 40 سٹور بنے تھے جو کہ گیہوں ، جو ، زیتون ، خشک روٹی ، تختوں ، لوبیا ،چاول ، قہوہ ، کپڑا اور سکہ سے بھرے ہوئے تھے ۔
جیجل میں میں نے بہت سے گھر اور بیرکیں تعمیر کروائیں ، 36 ہز ار کیلا گندم انتہائی ارزاں قیمت پر نانبائیوں کو فروخت کی ، اسی طرح کشتیوں کی تیاری کیلئے ایک چھوٹا سا کارخانہ تیار کروایا۔
اسی موسم گرما میں میں نے اپنی کشتیوں کو دوبارہ جنگ کیلئے بھیجا ، اس دفعہ ان کا ہدف وینس کی خلیج تھی جہاں انھوں نے 3 جہازوں پر قبضہ کیا ان میں سے ہر اہر جہاز پر 10 ہزار طلائی Duka موجود تھے ، اس کے علاوہ سینکڑوں قیدی۔ ان جہازوں میں 60 مسلم قیدی بھی موجود تھے جنہیں میں نے فی الفور آزاد کرنے کا حکم دیا ، یہ جنگ23 دنوں پر محیط تھی ، 24 ویں دن میری کشتیاں بندرگاہ پر لنگر اندازہوئیں ، جہاں میں نے ایک جہاز کا سامان فقراء پر تقسیم کر نے کا حکم دیا باقی جہازوں کا سامان بیچ دیا گیا ، ہر جہازراں کے حصے میں 185 طلائی دوق
[1]ہ ، 4 بندوقیں ، 5 پستول ، ساڑھے آٹھ قنطار لوہا 17 گز وینس کا کپڑا اور 225 گز دوسرا کپڑا آیا۔
غنائم کی کثرت کی وجہ سے تاجر اور کشتیوں کے مالک جوق در جوق جیجل آ کر سازوسامان خریدتے جبکہ میں نے اپنے لئے 26 بادبانوں والی کشتی تیار کروائی جو کافی بڑی اور تیز رفتار تھی ، اس کشتی کا باقی کشتتیوں کے ساتھ مقابلہ کروایا تو یہ سب سے بازی لے گئی ۔
موسم سرما آنے پر ہم اپنی کشتیوں کو خشکی کی جانب لے آئے ، اور موسم بہار کی آمد پر ہم نے ان کی رنگائی ، مرمت اور تیاری کا کام شروع کر دیا ، پھر میں 15 جہازوں کو لے کر جنگ کیلئے نکلا ، سب سے پہلے میں جنیوا خلیج میں داخل ہوا جہاں 15 دن ٹھہرا رہا ، اس دوران میں نے آبنائے Messina عبور کی اور خلیج وینس میں داخل ہوا ، وہاں ہمیں ایک چھوٹا 3 کشتیوں پر مشتمل بیڑا دکھائی دیا جو نکلے ہوئے تیر کی تیزی سے بھاگ رہا تھا میں نے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ انھیں جالیا ۔ یہ سنان رئیس کی کشتیاں تھیں۔
سنان رئیس میری کشتی پر چڑھا ، میرے ہاتھ کو بوسہ دیا ، خوشی کی شدت سے رو پڑا ، ہم ایک طویل عرصہ بعد آپس میں ملے تھے ، پھر اس نے اپنی کشتیوں کو میرے بیڑے کے پیچھے آنے کا حکم دیا ، یہاں تک کہ ہم وینس خلیج سے نکل آئے ، اس دوران ہم نے کفار کے 9 بحری جہازوں پر قبضہ کیا ، اس طرح ہمیں غنیمت میں ملنے والے بحری جہازوں کی تعداد 30 تک جاپہنچی ، ان میں سے کچھ پر کپڑا لدا ہوا تھا کچھ خالص ریشم سے بھرے تھے ، کچھ میں شہد تھا کسی میں گندم ، کسی میں سیاہ مرچ جبکہ ایک جہاز جنگجوؤں سے بھرا تھا۔
[1] دوقۃ Dukaاٹلی کا طلائی سکہ جو خیرالدین باربروسہ کے زمانے میں بحرمتوسط پر پھیلے شہروں میں استعمال ہوتا تھا۔