خیرالدین باربروسہ کی جنگیں (یادداشتیں )

ربیع م

محفلین
مختصر تعارف:

خیرالدین باربروسہ مسلم بحری تاریخ کے عظیم امیرالبحر گزرے ہیں جن کی ذات سے بہت سے کارنامے وابستہ ہیں ،بدقسمتی سے ان کی زندگی ،کارناموں اور معرکوں کے بارے میں کم ازکم اردو میں بہت کم مواد دستیاب ہے ۔

زیرنظر یادداشتیں خیرالدین باربروسہ نے اپنے بحری جہاد کے ساتھی رفیق کار ادیب اور شاعر"مرادی " کو سلطان سلیمان خان کے حکم سے لکھوائیں ۔

یہ کتاب اپنے اسلوب ، موضوع اور مقصد میں بڑی منفرد سی ہے ، طرزتحریر انتہائی سادہ اور دلکش ہے یہاں تک کہ جو شخص شمالی افریقہ اور الجزائر کے اس دور کے تاریخی پس منظر سے واقفیت نہیں بھی رکھتا اسےلئے بھی اس روداد کو سمجھنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

یہ کتاب سلطان سلیمان خان کے زمانے میں اس وقت کی مروجہ ترکی زبان میں لکھی گئی ، اس کتاب کے مختلف نسخے بہت سی لائبریریز میں موجود ہیں جیسا کہ استنبول ، برلن ، قاہرہ ، میڈرڈ، پیرس ، ویٹی کن وغیرہ۔ان میں ویٹی کن کا نسخہ سب سے قدیم سمجھا جاتا ہے۔لیکن اس کے اولین نسخے کے بارے میں جو خیرالدین باربروسہ نے املا کروایا یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

جدید ترک زبان میں اس خودنوشت کو کئی بار شائع کیا جا چکا ہے جن میں سب سے اہم ترکی کے مشہور مورخ اور صحافی یلماز اوزتونا ہیں جنہوں نے اسے جدید ترکی زبان میں پہلی بار ساٹھ کی دہائی میں استنبول سے شائع ہونے والے تاریخی مجلے الحیاۃ میں شائع کیا ۔ اس کے بعد 1989 ء میں یہ یادداشتیں مستقل کتاب کی شکل میں شائع ہوئیں ۔

اسی طرح ترک ادیب ارتوغرل دوزداغ نے 1975ء میں ان یادداشتوں کو ناول کی شکل میں شائع کیا۔

1995ءمیں ترک بحریہ نے اسے خیرالدین باربروسہ کی جنگوں کے نام سے شائع کیا۔

زیر نظر ترجمہ ترک ترجمہ کے بجائےالجزائر کے ڈاکٹر محمد دراج کے عربی ترجمہ کا اردو ترجمہ ہے ،جنہوں نے زیادہ تر ترک مورخ یلماز اوزتونا کی تحقیق سے استفادہ کیا ۔ کتاب میں موجود حاشیہ بھی ڈاکٹر محمد دراج کا ہے ۔ جبکہ کتاب میں عناوین کا اضافہ یلماز اوزتونا نے کیا ہے ۔

یہ یادداشتیں باربروسہ نے اپنی وفات سے کافی عرصہ قبل لکھوائیں اور پھر انھیں اس میں مزید اضافے کا موقع نہ مل سکا چنانچہ اس میں ان کی فرانس کی مہم کا ذکر نہیں ۔

میں اس کتاب کے مطالعہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ خیرالدین باربروسہ کی زندگی کے بہت سے گوشوں ۔ ان کی بہادری ودلیری سے واقفیت کے باوجود ہم ان کے حقیقی مقام مرتبے اور کارناموں کا صحیح طرح ادراک اس وقت کے مکمل تاریخی پس منظر کو جانے بغیر نہیں کر سکتے ۔
 

ربیع م

محفلین
سلطان سلیمان القانونی کے حکم پر اپنی یاداشتیں لکھنا شروع کیں

سلطان سلیمان خان کے ساتھ ملاقات کے بعدمیرے پاس سلطانی فرمان آیا جس میں لکھا تھا ۔

"تم اورتمہارا بھائی[1] عروج میڈیلی سے کس طرح نکلے اور الجزائر کو فتح کیا ،بحر وبر میں اب تک تم نے کون سی جنگیں لڑیں ان تمام واقعات کو بغیر کسی کمی بیشی کے ایک کتاب میں جمع کرو ۔ان کی تدوین سے فراغت کے بعد ایک نسخہ مجھے بھیجو تاکہ میں اسے اپنی لائبریری میں محفوظ کر سکوں "۔

جب یہ حکم ملا تو میں نے اپنے ایک قلمکار ساتھی المرادی کو جو بہت سے غزوات میں میرے ہمراہ رہ چکا تھا بلوایا اور اسے سلطان کے حکم سے آگاہ کیا۔چنانچہ ہم نے فی الفور ان واقعات کی تدوین شروع کر دی میں لکھواتا اور المرادی لکھتا جاتا ۔

میرے باپ یقوب آغا کا کامیڈیلی میں رہائش پذیر ہونا اور میری والدہ سے شادی

جب سلطان محمد الفاتح نے جزیرہ میڈیلی کو فتح کیا تو ترکوں کو اس جزیرے میں رہائش اختیار کر نے کا حکم دیا ۔میرا باپ ان ابتدائی آباد کاروں میں ایک تھا ایک سپاہیSIPAHI [2]کا بیٹا جبکہ وہ خود بھی سپاہی تھا۔

میرے باپ کے پاس SELANIKکے ہمسائے میں واردار VARDARکے علاقے میں زمین تھی ،جو اسے سلطان محمد الفاتح کےحکم پر اس جزیرے میں رہائش پذیر ہونے پر عطا کی گئی، اس طرح جب میرے والد کے کام نئے سرے سے منظم ہو گئے تو جزیرے کے باسیوں میں سے ایک کی بیٹی کے ساتھ شادی کی ۔میرے والد خوبصورت اور دلیر انسان تھے میری والدہ سے ہم چار بھائی ہیں۔ اسحاق جو ہم بھائیوں میں سب سے بڑا ہے ۔پھر میرا بھائی عروج پھر میں خضر، پھر الیاس۔ اللہ رب العزت نے سب کو لمبی عمر عطا فرمائی اور انھیں فتح ونصرت سے نوازا۔

میرا بھائی اسحاق میڈیلی قلعہ میں مقیم تھا، جبکہ میں اور میرا بھائی عروج سمندر کے سفر کے شوقین تھے ،اسی وجہ سے میرے بھائی نے ایک کشتی لی اور اس کے ذریعے سمندر میں تجارت شروع کر دی ۔جب کہ میں نے ایک اٹھارہ نشستوں والی کشتی لی۔

ابتدا ءمیں ہم سلانیک اور اغریبوذAGREBOZکے درمیان سفر کرتے وہاں سے سامان لاتے اور میڈیلی میں فروخت کرتے۔ لیکن میرا بھائی ان قریبی سفروں سے مطمئن نہیں تھا ۔وہ طرابلس شام جانا چاہتا تھا اور ایک دن میرے چھوٹے بھائی الیاس کے ساتھ میڈیلی سے طرابلس شام کا ر خ کیا ۔

میرے بھائی عروج کی روڈوس کے کفار کے ہاتھوں گرفتاری اور کچھ سال قید میں گزارنا

میرا بھائی عروج طرابلس شام تک نہ پہنچ پایا ،راستے میں ان کا ٹکراؤ روڈوس Rodusجزیرہ کے نائٹس سے ہوا۔دونوں کے درمیان سخت معرکہ بپا ہوا ،جس کے نتیجے میں میرا بھائی الیاس شہید ہو گیا جبکہ کفار نے ان کشتیوں پر قبضہ کر لیا ۔اور عروج کو اپنی کشتی میں قید کر کے زنجیروں میں جکڑ کر روڈوس لے گئے ۔جب یہ خبر میڈیلی پہنچی تو میں بے حد غمگین ہوا اور بہت زیادہ رویا ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ فی الفور اپنے بھائی کی رہائی کے لیے کوشش شروع کر دی ۔

میرا ایک کافر دوست کریغو KRIGOجزیرہ روڈوس کے ساتھ تجارت کرتا تھا میں نے اسے اپنے ساتھ کشتی میں لیا اور اسے اپنے ساتھ لے کر بود رومBODRUM چلا آیا اور اسے کہا: آج تمہاری دوستی کا علم ہو گا ۔یہ آٹھ ہزار اقجہ[3]لے لو ۔اور میرے بھائی کی رہائی میں میری مدد کرو ۔روڈوس جاؤ اور وہاں جا کر حالات کا جائزہ لو میں بود روم میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔

کریغو : "تمہارا حکم سر آنکھوں پر" یہ کہہ کر وہ روڈوس چلا گیا جہاں اس کی ملاقات میرے بھائی عروج رئیس سے ہوئی اور اس نے کہا :

"تمہارا بھائی خضر تمہیں سلام کہہ رہا ہے اور تمہارے لیے بہت زیادہ دعا گو ہے ۔کفار کے ہاتھوں تمہاری گرفتاری کی وجہ سے شدید غمگین ،دن رات شدت غم سے اس کے آنسو نہیں تھے اس نے مجھے تمہاری جانب بھیجا ہے اور بود روم میں تمہارے بارے میں کسی خوشخبری کا منتظر ہے" ۔

جب عروج نے کریغو سے یہ سنا تو شدت فرح سے رو پڑا اور اسے کہنے لگا :

میرے بھائی خضر کو میرا سلام کہو اور کسی کو اس جزیرہ پر تمہاری آمد کی وجہ کا علم نہ ہو ۔ہم پہلی دستیاب فرصت میں ملیں گے ۔

عروج رئیس روڈوس کے ایک مشہور آدمی کو جانتا تھا ۔ جس کا نام سانٹرلواو غلوSANTURLUOGLU تھا وہ کبھی کبھار میرے بھائی کے پاس آتا اور اس کے حالات سے آگاہی حاصل کرتا، میرے بھائی نے ایک دن اسے کہا :

روڈوس کے نائٹس مجھے میرے بھائی خضر کو کبھی بھی نہیں بیچیں گے لیکن تمہیں شاید بیچ دیں اگر تم مجھے اس جزیرے سے نکال دو تو میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔

سانٹرلواو غلو:۔بڑی خو شی سے ،اگر وہ تمہیں بیچیں تو میں خرید لوں گا لیکن میں براہ راست ان سےیہ مطالبہ کروں تو انھیں یہ معاملہ مشکوک لگے گا ،بہتر یہ ہے کہ جب تو شہر آئے تو میری دکان کے سامنے سے گزرنا اور میری دکان کی جانب ٹکٹکی لگا کر مت دیکھنا تاکہ وہ کہیں یہ نہ جان لیں کہ میں تمہیں پہچانتاہوں ۔اور میں یہ ظاہر کروں گا کہ میں نے اچانک تمہیں گزرتے ہوئے دیکھا ہے اور ان کے سامنے تمہارے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کروں گا اور مجھے امید ہے کہ یہ نائٹس تمہیں میرے ہاتھوں بیچ دیں گے۔

جب عروج نے یہ الفاظ سنے تو اتنا خوش ہوا گویا کہ اسے آزادی مل گئی ہو، قید کی زندگی اس کے لیے کتنی تکلیف دہ تھی ۔

اور پھر ایک دن سانٹرلواو غلواپنی دکان کے سامنے بیٹھ کر جزیرہ روڈوس کے نائٹس کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا۔کہ اچانک عروج رئیس کو اپنی دکان کے سامنے سے گزرتے دیکھا گویا وہ اپنے کام پر جارہا ہو ۔تو اس نے اپنے ساتھ بیٹھےجہازرانوں سے کہا :

یہ قیدی کس کا ہے میں اسے ہمیشہ یہاں سے گزرتا دیکھتا ہوں اور بڑی سر گرمی وچستی سے اپنا کام سر انجام دیتا ہے۔اگر اس کا مالک اسے بیچنا چاہے تو میں اسے خرید لوں ۔یہ سن کر اس کے پاس موجود کپتانوں میں سے ایک نے کہا :

میں اس کا مالک ہو ں اگر تم اسے خریدنا چاہتے ہو تو میں اسے بیچنے کے لیے تیار ہوں ۔

کتنے میں بیچو گے ؟

ایک ہزار دینا ر میں(1000) ۔

یہ تو بہت بڑی رقم ہے ۔

اچھا تمہارے لیے میں اسے 800 دینا ر میں بیچ دیتا ہوں ۔

اور پھر یہ سودا طے پائے جانے سے قبل ہی منسوخ کر دیا گیا ۔

روڈؤس کے نائٹس کو معلوم ہو گیا کہ عروج ایک معروف تاجر ہے وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے :

اس کا بھائی خضر رئیس بود روم میں موجود ہے اور اس کی رہائی کے بدلے 10000دینار دینے کے لیے تیار ہے۔اور ایسا قیدی جس کی قیمت دس ہزار دینار ہے اس کو 800 دینار میں بیچنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟

انہوں نے سانٹرلواو غلوکو اسکی قیمت واپس کی اور عروج واپس لے لیا ۔انھیں کریغو سے سے میری حقیقی قیمت کا علم ہو گیا جس نے میرے دیئے ہوئے (8آٹھ ہزار ) اقجہ بھی ہڑپ کر لیے اور نائٹس کو عروج کی رہائی کے لیے میری تیاری سے بھی آگاہ کیا ۔

اس حادثے کے نتیجہ میں روڈوسیوں نے عروج کو زیر زمیں ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا تا کہ اس کی رہا ئی کے لیے کسی بھی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکوں ۔اور اسے پہلے سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنا نے لگے اس کے ہاتھو ں گردن اور پاؤ ں میں بیڑیا ں ڈال دی صرف اتنی ہی خوراک دی جاتی جس سے اس کا رشتہ سانسوں کے ساتھ قائم رہ سکے ۔

عروج اس مشقت کوبہت زیادہ برداشت نہ کرپایا اوراس کوٹھری کے افسر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ۔ اس نے ملاقات کے لیے بلایا ۔

افسر پوچھنے لگا :تم کس لیے آئے ہو ؟

مجھے یہ سزا دے کر تم کیا حاصل کرنا چاہتے ہو ؟

"اے ترکی میں جانتا ہوں:تم نے کس طرح 800 دینارکے بدلے اپنی جان بچانے کی کوشش کی تیرا بھائی خیر الدین رئیس دنیا کے مال متاع کے ساتھ بود روم میں تمہاری رہائی کا منتظر ہے ۔تمہارا کیا خیا ل ہے کیا ہمیں اس کاعلم نہیں یا احمق ہیں ؟"

تم کیا چاہتے ہو اپنی آزادی کے لیے میں تمہیں کتنی رقم دوں ؟

تم کتنی دےسکتے ہو ؟اپنی جان کی کیا قیمت لگاتے ہو ؟

میں اپنی جان کی قیمت رومیلی کے "جو "کا تما م محصول اور انا ضول میں دیئے جانے والے تمام ٹیکس کے ساتھ ساتھ 1 لاکھ دینار تمہیں ادا کروں گا !!!

اے مجنون اپنا استہزا ء جاری رکھ عنقریب تم اپنا انجام دیکھ لو گے ۔

اس گفتگو کے بعد اس کینہ پرور افسر نے قیدیوں کے رئیس سے پہلے سے زیادہ سختی کرنے کا حکم دیا ۔ عروج اس صورتحا ل سے بہت گھبرا گیا ایک رات اپنی کوٹھڑی میں تنہا روتے ہوئے گڑگڑا کر د عا کرنے لگا:

اے رب تو ہی عاجزوں کےلیے کشادگی پیدا کرتا ہے ۔چنانچہ اپنے اس کمزور بندے کی مدد فرما،مجھے ان ظالم کفار سے جلد رہا ئی عطا فرما ۔

عروج نےیہ رات ذلت وانکساری کے ساتھ دعا کرتے گزاری یہاں تک کہ بخار کی شدت سے گر پڑا اور تھکاوٹ کی شدت سے نیند اس پر غالب آگی اس دوران اس نے خواب میں ایک روشن چہرے والے بزرگ کو دیکھا جو اسے کہہ رہے تھے :

"اے عروج اسلام کے راستے میں پہنچنے والی تکلیف سے غم زدہ مت ہو ۔پس تمہاری رہائی بہت قریب ہے۔"

عروج یہ خواب دیکھ کر انتہا ئی خوشی وفرحت سے بیدار ہوا، اس کے غم چھٹ چکے تھے، سینہ کھل چکا تھا ،اس صبح رڈوس کے تمام کپتان جمع ہو کر عروج کے بارے میں مشورہ کرنے لگے ۔ان میں سے ایک نے کہا۔

سمندر کے حالات متغیر ہوتے رہتے ہیں ۔ آج عروج ہے تو کل ہم ہوں گے، میرے خیال میں اس ترکی کے ساتھ اس تشدد کو جاری رکھنا درست نہیں ۔

اس بنیاد پر انھوں نے عروج کو اس تنگ کوٹھری سے نکال کر ایک کشتی میں قید کیا جہاں وہ قیدی کی حیثیت سے چپو چلاتا ۔اس کے باوجود وہ کہتا سمندر کی سطح پر چپو چلانا میرے لیے زیر زمین تکلیف اٹھانے کی نسبت بہت بڑی نعمت تھی ۔یا رب لک الحمد میں نے پھر سے دنیا کا چہرہ دیکھا لیا ۔

روڈوس کے نائٹس کی کشتی سے عروج کا فرار اور نجات

اس دوران شہزادہ قرقودKORKUT[4] انطالیہANTALYA کا والی تھا، ان کی یہ عادت تھی کہ ہر سال جزیرہ روڈوس کے نائٹس سے 100 ترکی قیدی خرید کر اللہ کے راستے میں آزاد کرتے۔ اس سال انھوں نے اپنے حاجب کو روڈوس قیدیوں کافدیہ اداکرنے کےلیے بھیجا ۔روڈوسیوں نے ان قیدیوں کی چھانٹی کی اور انھیں اس حاجب کے سپرد کر دیا۔ اس معاہدہ کے تحت یہ طے تھا کہ ان قیدیوں کو روڈوس کی کشتی میں بھر کر انطالیا کے سواحل تک لے جایا جائے گا اللہ رب العزت کی تقدیر یہ کہ قیدیوں کو منتقل کرنے کے لیے اس کشتی کا انتخاب کیا گیا جس پر عروج قید تھا ۔عروج کی قیمت کے پیش نظر روڈوسیوں نے اسے ان 100 قیدیوں میں شامل نہیں کیا تھا جنہیں آزاد کیا جانا تھا ۔

عروج رئیس کھلے مزاج کا آدمی تھا اور بہت سی زبان میں گفتگو کر سکتا تھا بالخصوص رومی[5] زبان پر اسے بے مثال عبور حاصل تھا ۔

اور اکثر اوقات وہ روڈوسی کپتانوں سے بات چیت کرتا رہتا تھا جو اس کی کشتی پر آتے جاتے رہتے تھے۔

ایک دن کپتانوں نے عروج سے کہا:

اے ترکی تو بڑی میٹھی باتیں کرتاہے بالخصوص ہماری زبان پر تجھے کافی مہارت ہے ۔توں نے اسلام میں کیا پایا ؟آؤہمارے د ین میں داخل ہوجاؤ،ہمارے درمیان تجھے بڑا مقام ملے گا!!!

عرو ج نے انھیں جواب میں کہا :اے جنونیو: ہرشخص اپنے دین کو پسند کرتا ہے کیا کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہے کہ میں اس پر ایمان لاؤں؟

پھر اسی حالت پر باقی رہ ،ہم دیکھیں گے کہ تجھے تیرا نبی ہمارے ہاتھوں سے کیسے رہائی دلاتا ہے ،اورچپو چلانے کا کام جاری رکھ …

عروج سے بچ کر رہو

جس کشتی میں عروج قید تھا ۔ اس کشتی کے راہب نے کپتانوں کو تنبیہ کرتے ہو ئے کہا :

عروج جو کہتا ہے اس سے محتاط رہو، اس کے ساتھ زیادہ بات چیت مت کرو، یہ بہت ہوشیار اور اسلام کے بارے میں اس سے زیادہ واقف ہے جس قدر میں مسیحیت کے بارے میں جانتا ہوں ۔ایسا نہ ہو کہ تم غافل ہو جاؤ یہ ملحد تم سب کو گمراہ کرنے پر قادر ہے ۔

روڈوسی کشتی انطالیہ کے قریب ایک ویران جگہ پر لنگر انداز ہوئی جہاں شہزادہ قرقود کا حاجب اور اس کے ساتھ 100 قیدی اتار دیئے گئے انھیں وہا ں چھوڑ دیا گیا ۔اس رات مخالف ہوائیں چل رہی تھیں ۔روڈوسیوں نے اسکی وجہ سے صبح کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پھر جہازسے چھوٹی کشتی اتاری اور مچھلی کے شکار کے لیے نکل پڑے ۔اس اثنا میں شدید تیز طوفان آگیا کشتی اس کی وجہ سے جہاز تک واپس نہ آسکی ،چنانچہ وہ ساحل سے دور ہی لنگر انداز ہو گئے ،عروج نے اس موقع سے فائدہ اٹھا یا ،شدید تاریکی چھائی ہوئی تھی، تاریکی کی شدت سے کوئی ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکتا تھا ،عروج نے اپنی بندشیں کھولیں اور سمندر میں "بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم" کہتے ہوئے چھلانگ لگا دی تیر تا رہا یہا ں تک کہ ساحل تک پہنچ گیا ۔ساحل پر پہنچ کر اس نے سجدہ شکر ادا کیا اور پھر پیدل سفر شروع کر دیا۔یہاں تک کہ ایک ترک بستی پہنچا اس دوران جب وہ دائیں بائیں گھوم پھر کرکسی ایسی چیز کی تلاش میں تھا جہاں سے اپنی موجودگی کی جگہ کی نشاندہی کر سکے اس کو ایک بڑھیا ملی جو اسے کہنے لگی :

بیٹا معلوم ہوتا ہے تم دور دراز کے سفر سے آئے ہو ۔آؤ میرے پاس یہ رات مہمان کے طور پر گزارو۔

یہ بڑھیا عروج کو اپنے گھر لے گئی اسے کھانا کھلایا ،اس کا لباس تبدیل کروایا ۔ عروج نے اس بستی میں 10 دن گزارے ۔جس کے باسی اس کی میزبانی کے حصول کے لیےہر رات آپس میں جھگڑتے تھے ۔

جبکہ روڈوسیوں نے صبح ہونے پر عروج کی جگہ کو خالی پایا تو انھیں علم ہوا کہ عروج فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے اور جب وہ اس پر قبضہ پانے میں ناکام ہوگئے ۔تو حیرت و قلق سے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کس منہ سے روڈوس جائیں گے ؟

حسرت بھرے دلوں سے وہ روڈوس واپس پلٹے ، جبکہ کشتی کا راہب انھیں بتلا رہا تھا کہ عروج کے پاس موجود جادو کےعلم نے فرار میں اس کی مدد کی۔

عروج نے اس بڑھیا کو الوداع کہا اور بستی چھوڑ کر میڈیلی کا رخ کیا ۔3 دن بعد وہ انطالیہ پہنچا۔وہاں ایک مشہور آدمی علی رئیس سے ملا جس کے پاس قلیون [6]Kalyonنوعیت کی کشتی تھی جس کے ذریعے وہ اسکندر اور انطالیہ کے درمیان تجارت کرتا تھا اس تک عروج کی شہرت پہنچ چکی تھی ۔چنانچہ اس نے اسے مرحبا کہتے ہوئے کہا :

اھلا وسھلا اے میرے بیٹے !یہ کشتی صرف میری ہی نہیں بلکہ تمہاری بھی ہے اور پھر عروج ،علی رئیس کی کشتی کا نائب کپتان بن گیا ۔

اس اثنا میں بودوروم میں انتظار سے مایوس ہو گیا ۔چنانچہ میں میڈیلی واپس لوٹا جب میرا بھائی اسکندریہ پہنچا تو وہا ں سے اس نے میڈیلی خط بھیجا ۔جہاں اپنے اوپر بیتنے والے حالات سے آگاہ کیا ۔اپنے بھائی کی نجات اورقید سے رہائی کی خبر سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی ۔


[1] تمام ترک مصادر ومراجع میں اوروج نام لکھا گیا ہے –تاء کا شین میں ادغام یعنی پڑھنے میں اوروتش- لیکن میں نے عربی مصادر ومراجع میں مذکورعروج لکھنے کو ترجیح دی ، تاکہ کسی الجھن سے بچا جا سکے۔

[2] یہ ایک اصطلاح ہے جن کا اطلاق ایسے سواروں پر ہوتا ہے جنہیں مملکت عثمانیہ مختلف علاقوں کی زمینیں ان کو دے کر بھرتی کرتی تھی ، جس کا سالانہ خراج یہ ادا کرتے تھے اس کے علاوہ ان پر لازم تھا کہ جنگ کے اخراجات اٹھانے میں یہ مدد کریں گے اور ضرورت پڑنے پر خود بھی جنگ میں شریک ہوں گے دیکھئے:

M.Zeki Pakalm, Osmanh Tarikh Deyimleri ve Terimleri sozlugu Istanbul 1993, 3/92

[3] چاندی کا سکہ جو کہ مملکت عثمانیہ میں استعمال ہوتا تھا اس کے بالمقابل اس زمانے میں درہم مستعمل تھا (بحوالہ سابقہ مصدر)

[4] شہزادہ قورقود سلطان بایزید ثانی کا تیسرا بیٹا اور سلطان سلیم اول کا بڑا بھائی تھا ، جو ترک جہازرانوں کی حفاظت کیلئے مشہور تھا ، سلطان سلیم اول نے تخت نشین ہونے کے بعد اسے قتل کروا دیا ۔

[5] شاید اس کی وجہ یہ کہ اس کی ماں رومی تھی جس کے بارے میں بابروسہ نے شروع میں تذکرہ کیا ، اور لازمی بات ہے کہ انسان اپنی ماں کی زبان میں مہارت رکھتا ہے۔

[6] قلیون ہوائی بادبانوں والی جنگی کشتی ہے ، جسے جنگی قیدی چپو چلا کر چلاتے تھے اور دخانی کشتیوں کی ایجاد سے پہلے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔
 

ربیع م

محفلین
میرا بھائی سلطان مصر کی خدمت میں

سلطان مصر نے میرے بھائی کی شہرت سنی تو اسے اپنے پاس آنے کی دعوت دی ، جب اسے سلطان کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے اسے اپنی خدمت میں داخل ہونے کی پیشکش کی ،کیونکہ سلطان" ہند" [1]کے سواحل کی جانب ایک بحری بیڑہ بھیجنا چاہتا تھا ،جب عروج نے سلطان کی پیشکش پر موافقت ظاہر کی تو سلطان نے اسے اس بیڑے کا قائد مقرر کر دیا ۔

سلطان نے اضنۃ ADANAکے والی کے نام حکومتی فرمان لکھا جس میں اسے حکم دیا کہ وہ خلیج اسکندریہ میں "پایاس" کی بندر گاہ پر لکڑی کے تختے بھیجے جو 40بحری جہاز بنانے کے لیے کافی ہو ں ۔ اضنۃ کے والی نے مطلوبہ لکڑی تیار کروائی اور اسے پا یا س کی بندر گاہ پر بھجوایا ،عروج 6 کشتیوں میں پاپاس کی بندر گاہ کی جانب روانہ ہوا تاکہ لکڑی کے ان تختوں کو لے کر مصر کا رخ کرے ۔

روڈوسیو ں کو علم ہوگیا کہ عروج سلطان مصر کے بحری بیڑے کا قائد بن چکا ہے ۔چنانچہ وہ اس کا خاتمہ کرنے کے موقع کی تاک میں رہنے لگے جب ان تک اس کے پایاس آنے کی اطلاع ملی تو انھوں نے ایک بڑے بحری بیڑے کے ساتھ اس پر حملہ کر دیا ۔

عروج رئیس کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہو گیا چنانچہ وہ اپنی تمام کشتیوں کو نکال کر خشکی کی جانب لے گیا اور اپنے جہازرانوں کے ہمراہ عثمانی اراضی میں داخل ہو گیا ۔جہاں سے انھیں ان کے علاقوں میں لوٹا دیا ۔جبکہ اس دوران خود انطالیہ واپس لوٹا اور وہا ں 18 نشستوں والی کشتی کی تیاری کا حکم دیا ۔

اور پھر اس کے ذریعے روڈوس کے سواحل پر حملے شروع کئے اور کافروں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع نہ دیا ۔

ان کے استاد اعظم [2]نے کہا :ایک بحری قزاق جس کا نا م عروج رئیس ہے نمودار ہواہے جس کے پاس 18 نشستوں کی کشتی ہے اس سے کوئی بھی بچ نہیں پاتا وہ ہمارے اموال پر قبضہ کر تا ہے ،ہمارے شہروں کو جلا تاہے ،ہمارے بچوں کو قید کر کے طرابلس وشام کے بازاروں میں بیچ دیتا ہے یہاں تک کے ہم اس کے شر سے سمندر میں سوار ہونے کی ہمت نہیں کر پاتے ۔ میں نے تمہیں پہلے بھی تنبیہ کی تھی اور کہا تھا کہ اس ترکی کو زیر زمین کوٹھڑی سے مت نکالو لیکن تم نے میری بات نہ سنی، اسے نکالا اور کشتی میں چپو چلانے پر لگا دیا ۔اب جاؤاور جتنی جلدی ممکن ہوسکے اس سے چھٹکارا حاصل کرو ۔

روڈوسی عروج کے تعاقب میں 5 یا 6 بحری جہاز وں پر نکلے اور ہر جگہ اسے تلاش کرنے لگے اور بالآخر انھوں نے ایک بندر گاہ پر لنگر انداز حالت میں اس کی کشتی کو پا لیا چنانچہ انھوں نے اس کشتی کو جلا دیا مگر میرا بھائی اپنے ساتھ موجود جہازرانوں کے ہمراہ بچ نکلنے میں کامیاب رہا اور انطالیہ لوٹ آیا ۔

عروج کی کشتی روڈوس کی بندر گاہ پر لائی گئی ، روڈوس کی عوام میں اس کا شہرہ پھیل گیا مگر نائٹس کے عروج کو گرفتار نہ کر پانے نے روڈوس کے استاداعظم کو غضبناک کر دیا اور اس نے انھیں غصے سے چیختے ہوئے کہا :

ہاں یہ عروج کی کشتی ہے لیکن وہ خود اس میں موجود نہیں !!

عروج جس وقت انطالیہ لوٹا شہزادہ قرقود بن سلطان بایزید ثانی انطالیہ چھوڑ کر ساروخان جا چکا تھا اور وہاں کا والی تھا۔شہزادہ قرقود کا ایک خزانچی جس کا نام پیالی بائی تھا ،اسے عروج نے ایک افرنگی غلام تحفہ دیا تھا اس طرح ان دونوں کے درمیان گرم جوش دوستی پائی جاتی تھی ،عروج کو جب ان مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کشتی سے محروم ہوگیا تو پیالہ بائی نے اپنے آقا شہزادہ قرقود سے اس کا تذکرہ کیا اوراسے کہا :

عروج ریئس آپ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہے جو دن رات کفار کے ساتھ جہاد میں مصروف رہتا ہے ۔اور ان کے خلاف بہت سے معرکوں میں فتح حاصل کر چکا ہے ۔لیکن اب اپنی کشتی کھو بیٹھا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ آپ اس پر احسان کرتے ہوئے اے کشتی عطاکریں تاکہ وہ کفار کے خلاف جہاد کر سکے ۔

شہزادہ قرقود تک عروج کی شہرت پہنچ چکی تھی چنانچہ اس نے بڑی خوشی سے عروج کی خواہش پوری کر نے پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا عروج کو جب شہزادے کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے بڑا پرجوش استقبال کیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا :

مایوس مت ہو، میں تمہیں کشتی کے بغیر نہیں چھوڑو ں گا اور فی الفور قاضی ازمیر کے نام خط لکھا جس میں کہا :

جب تم تک میرا یہ خط پہنچے تو بلا تاخیر میرے بیٹے عروج کی خواہش کے مطابق ایک قالیتہ KALITE[3]کشتی کی تیاری کا حکم دو تا کہ وہ اس پرکفار کے خلاف جہاد کر سکے ۔

اسی طرح پیالہ بائی نے ازمیر کے رئیس کے نام ایک خط میں لکھا :

عروج دنیا وآخرت میں میرا بھائی ہے ،چنانچہ اسے اپنی مدد سے محروم مت کرنا ،ایک 22 نشستوں کی کشتی کی تیاری کا حکم دو اور خود اس کی تیاری کی نگرانی کرو۔اسی طرح تمہیں چاہیے کہ ہر ممکن قریب ترین وقت میں اسے عروج کے سپرد کرو کشتی کی تیاری اور اس کے سازوسامان کے تمام اخراجات آقا قرقود کے حساب میں لکھو۔

عروج ازمیر آیا جہاں دونوں کشتیاں مقرر وقت میں اس کے سپرد کر دی گئیں جس میں سے ایک شہزادہ قورقود نے اسے تحفہ دی تھی جبکہ دوسری پیالہ بائی کی ملکیت تھی جسے اس نے عروج کےتصرف میں دے دیا۔

عروج کی کشتی 24 نشستوں کی تھی جبکہ پیالہ بائی کی کشتی 22 نشستوں کی تھی یہ کشتیاں ساڑھے تیں ماہ میں تیا ر کی گئیں۔

عروج نے دونوں کشتیوں کو تیا ر کیا اپنےجہاز رانوں کو اکھٹا کیا اور انھیں لیکر فوجا Focaبندر گاہ چلا آیا وہاں سے مانیسا کا رخ کیا جہا ں پیالہ بائی کے محل میں شہزادہ قورقود کے سامنے پیش ہونے سے قبل 3 دن ٹھہرا رہا ۔

شہزادہ نے اس کی تعریف میں فراخدلی سے کام لیا اور جنگوں میں اس کے لیے نصرت وفتح کی دعاکی ۔

عروج نےشہزادہ قورقود اور پیالہ بائی کو الوداع کیا اور پھر فوجا لوٹ آیا ،یہ رات دعا اور عبادت میں مصروف رہ کر گزاری ۔اگلے دن صبح سویرے اپنی کشتیوں کا لنگراٹھا یا ۔اور روانگی کے کچھ دن بعد کھلے سمندر میں اس کا سامنا وینس (VENEDIK)کی دوکشتیوں سے ہوا ۔عروج نے ان دونوں پر قبضہ کر لیا ان کشتیوں میں 24 ہزار دینا ر تھے ۔یہ مال ودولت اور اس کے علاوہ دوسرے غنائم جمع کر لیےگئے ۔جہاز راں اس مال کے ساتھ مال دار ہوگئے اور کیسے مال دار نہ ہوتے جبکہ وہ ابن عثمان شہزادہ قورقود کی دعا حاصل کر چکے تھے ۔اور جو کوئی بھی سلطان کی دعا پانے میں کامیاب ہو جائے اس کا انجام بہتر ہوتا ہے ۔اور جس کے خلاف سلطان دعا کر دیں ۔وہ مصائب کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے ۔جس سے اسے کوئی راہ نجات نہیں ملتی ۔

عروج نے یہ معرکہ پو لیاPULYA[4]کے سواحل پر لڑا ،اس کے بعد روم کے سواحل کا رخ کیا ۔

جہاں جزیرہ اغریبوز [5]کے پانیوں میں اس کا سامنا مزید 3 وینس کی کشتیوں سے ہوا ۔جب وینس کے کفار نے عروج رئیس کی کشتیوں کو دیکھا تو اس پر گولے باری شروع کر دی ،عروج نے اپنے جہازرانوں کو پر جوش نعروں کے ساتھ تحریض دلانی شروع کی اور انھیں ان کشتیوں پر حملہ کی جانب ابھارا۔جنہوں نے اپنی توپوں کے گولوں سے سمندر کو جہنم میں بدل دیا تھا ۔

کشتیا ں ایک دوسرے کی نزدیک آئی تو جہازرانوں نے کفار کی کشتیوں پر چھلانگ لگا کر دھاوا بول دیا اور اس پر قابض ہوگئے ۔جس میں انہوں نے (285)افراد کو قید کیا اور (120 )جہاز راں مارے گئے ۔

ان کشتیوں میں موجود مال و دولت عروج رئیس کی کشتیوں پر منتقل کیا گیا کشتیاں اپنے اوپر لدے غنائم کے بوجھ سے کچھوے کی مانند دکھائی دیتی تھیں ۔اور ان کشتیوں کے ہمراہ میڈیلی ایک بڑے جلوس کی شکل میں آئے ۔

میں او ر میرے بھائی اسحاق نے اپنے تمام رشتہ داروں کے ہمراہ بندرگاہ میں عروج کا استقبال کیا ،ہم نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور بڑی گرمجوشی اور وفور محبت سے معانقہ کیا۔کیونکہ عروج رئیس کو میڈیلی چھوڑے ہوئے کئی سال گذر چکے تھے ۔

میرے بھائی عروج نے میڈیلی سے ازمیر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے ولی نعمت شہزادہ قرقودا ور اپنے بھائی پیالہ بائی سے ملاقات کر سکے اس اثنا ءمیں ہمیں سلطان سلیم خان کے تخت نشین ہونے اور اپنے بھائی شہزادہ قرقود خان کے ساتھ دشمنی کی اطلاع ملی جو شدت خوف سے فرار ہوگیا تھا ۔

میرابھائی عروج اس خبر سے بہت غمگین ہوا ،میرے بڑے بھائی اسحا ق نے اسے کہا :

تجھے چاہیے کہ تو یہاں سے جلد از جلد نکل جاؤاور موسم سرما اسکندریہ میں گزارو ،پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا پیش آتا ہے ۔تمہارے پاس موجود کشتی شہزادہ قرقود کا احسان ہے جو تجھے نقصان پہنچا سکتی ہے ۔

اور یوں ہماری محبت کی پیاس بجھنے سے قبل سے ہی عروج نے ہمیں الوداع کیا ۔اور میڈیلی سے روانہ ہوگیا ۔

عروج نے جزیرہ کرپۃ KERPEپر دشمن کی 7کشتیوں پر قبضہ کیا اور انہیں ہانک کر اسکندریہ لے گیا ۔عروج جب وہاں پہنچا تو سلطان کو یحییٰ رئیس اور7سات غنائم سے بھری کشتیوں کے ساتھ اس کی آمد کا علم ہوا ۔ عروج رئیس سلطان مصر کی عطا کردہ کشتیوں کے کھوجانے کی وجہ سے جن پر پایاس کے قریب روڈوسیوں نے حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا سلطان مصر سے شدید شرمندہ تھا ۔ چنانچہ سلطا ن سے عفوو درگزر کے حصول کے لیے مال غنیمت سے لدی بہت سی کشتیا ں، 4 لونڈیا ں اور 4 غلام سلطان کی خدمت میں پیش کیے ۔سلطان ان تحائف سے بے حد خوش ہوا ۔اس کی اور اس کے رفقاء کی اچھی آؤ بھگت کی اور پھر کہا :

یقینا اللہ رب العزت معاف کرنے والا ہے اور عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے عروج کپتان میں نے بھی تجھے معاف کردیا ۔حقیقت یہ ہے کہ تو نے 16 جہازوں کو جلنے کے لیے تو چھوڑ دیا لیکن ان میں موجود جہازرانوں میں سے کسی ایک کو بھی کوئی تکلیف نہ آنے دی ۔ان سب کو بچالایا اورکسی ایک کو بھی نہ چھوڑا کہ وہ گرفتار ہوجائے مجھے اپنے کشتیوں کے جلنے کا افسوس نہ تھا ۔کیونکہ یہ دن تو بدلتے رہتے ہیں اور ہر چیز کا وقوع پذیر ہونا ممکن ہے ۔مجھے تیرےاپنے پاس نہ آنے کا افسوس تھا یقینا میں نے تجھے معاف کر دیا اور تیرا شکر گزار ہو ں کہ تو نےایک بار پھر میرا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی ۔

اس کے ساتھ میرے بھائی کی تکریم میں بہت مبالغہ کیا اور اور اس کے دئیے گئے تحائف سے کہیں زیادہ انعامات سے نوازا۔

میرے بھائی نے اجازت طلب کی اور قاہرہ سے اسکندریہ لوٹ آیا سلطان نے گورنر سکندریہ کے نام خط لکھا جس میں اسے میرے بھائی اور اس کے رفقاء کے اکرام کا حکم دیا ۔ چنانچہ گورنر نے ان کاخوب اکرام اور اچھی مہمان نوازی کی ،جس کی وجہ سے میرے بھائی کا وہاں اچھا وقت گذرا۔

موسم بہار آچکا تھا میرے بھائی نے سلطان کو خط لکھ کر جنگ پر جانے کی اجازت مانگی سلطان نے اجازت دے دی ، عرو ج نے سمندر پر سوار ہو کر سواحل قبر ص کا رخ کیا جہاں وینس کے 5 جہازوں پر قبضہ کیا اور وہاں سے مغرب کا رخ کیا اور تیونس کے قریب جزیرۃ جربۃ پہنچا جہاں جزیرہ کے تاجروں کے ہاتھوں اپنے غنائم فروخت کئے ، ہر جہاز راں کے حصے میں 25 گز وینس کا جوخ ( کپاس سے بنے گئے کپڑے کی قسم ) 4 بندوقیں ، 4 پستول اور 171 اور نصف دینا ر آیا۔

عروج کو وہاں سکندریہ جانے والی ایک کشتی ملی جس کے ذریعے سلطان مصر کی خدمت میں گراں قسم کے جوخ ، بندوقیں ، پستول ، اور اس کے ساتھ 13 یا 14 سالہ غلام بھجوایا ، سلطان تک جب یہ تحائف پہنچے تو انھوں نے کہا: اگر اس دنیا میں کوئی ایسا شخص ہے جو حق نعمت کا خیال رکھتا ہے اور اہل فضل کی قدروقیمت سے واقف ہے تو وہ میرا بیٹا کپتان عروج ہے ۔

سلطان نے اپنے بیٹے کو بہت سی دعائیں دیں، دونوں کے درمیان محبت کے رشتے مضبوط ہوئے ، جبکہ میرا بھائی "جربہ "کے ساحل پر دشمن کی کشتیوں کے شکار میں مصروف رہا ، جہاں مزید غزوات میں 5- 10 کے درمیان مزید کشتیوں کو بطور غنیمت چھینا ۔

میں گویا پوری دنیا کا مالک بن گیا۔

آئیے ذرا اس وقت کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں ، سلطان سلیم خان جب تخت نشین ہوئے تو ان کے اور ان کے بھائی شہزادہ قورقود کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ، سلطان سلیم نے اس کے تعاقب کیلئے ایک لشکر بھیجا ، جس نے ہر جگہ انھیں تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اس کے باوجود وہ شہزادے کو پا لینے میں کامیاب نہ ہوسکے ، اس دوران کپتان پاشا[6] سکندر پاشا انتہائی ظلم وستم ڈھاتا تھا ، کسی ایک کوسمندر میں سوار ہونے کی اجازت نہ دیتا ، اگرچہ وہ چھوٹی دو چپوؤں والی کشتی ہی کیوں نہ ہو ، اور اکثر جہازرانوں کو اس بہانے تکلیف پہنچاتا کہ وہ شہزادہ قورقود کے حامی افراد ہیں ، جب مجھ تک اس کے ظلم و جور کی خبریں پہنچیں تو میں نے میڈیلی کو چھوڑ نے کا فیصلہ کیا۔

میں نےاپنی کشتی کو گیہوں سے بھرا پھر تیزی سے طرابلس شام کا رخ کیا، جہاں گیہوں کے بدلے جو حاصل کیا ، پھر میں پروزۃ کی جانب گیا جہاں میں نے جو بیچا اور کچھ گھوڑے اور خچر خریدے ، پھر پروزۃ کے سامنے " ایاماوری" جزیرہ میں لنگر انداز ہو گیا وہاں میں نے بندرگاہ میں 24 نشستوں والی کشتی لنگر انداز دیکھی جو مجھے بے حد پسند آئی ، میں نے اس کے مالک کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ ایک ترک فتاح کپتان کی کشتی ہے ۔

کپتان فتاح کچھ عرصہ قبل ہی فوت ہوا تھا اس کے ورثاء نے اس کشتی کو یہاں بیچنے کیلئے بھیجا تھا، میں اس پر بری طرح فریفتہ ہو چکا تھا، اس کے مالکا ن کی جانب سے طلب کردہ ہر رقم دینے کو تیا ر تھا ، اور بالآخر ان کے ساتھ چاندی کے 6 کیسہ[7] میں سودا طے پا گیا ۔ جب میں نے یہ کشتی خریدی تو مجھے یوں محسوس ہوا گویا ساری کی ساری دنیا میری ملکیت میں آگئی ہو ۔ میں اپنی کشتی میں سوار ہوا ، باقی کشتیوں کو ہمراہ لیا اور بحر متوسط کے طول وعرض میں گھومتا پھرتا جزیرۃ جربہ جا پہنچا۔ جہاں اپنے بھائی عروج سے ملاقات ہوئی ، اس دوران جب ہم اپنی نئی منزل کے بارے میں سوچ رہے تھے تو ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمیں تیونس کا رخ کرنا چاہئے اور ہم نے کہا: " جب موت ہی ہر زندہ چیز کا انجام ہے تو پھر یہ اللہ کے راستے میں ہونی چاہئے "۔

میں ، میرا بھائی اور یحییٰ رئیس ہم میں سے ہر ایک اپنی کشتی پر سوار ہوئے اور تیونس چلے آئے ،جہاں سلطان سے ملاقات کی ، ان کی خدمت میں تحائف پیش کئے اور پھر اسے کہا:

ہم چاہتے ہیں کہ آپ مہربانی کرتے ہوئے ہمیں جگہ عطاء فرمائیں جہاں ہم اپنی کشتیوں کو محفوظ رکھ سکیں اور اس دوران ہم اللہ کے راستے میں جہاد کریں ، ہم اپنے تمام غنائم تیونس کے بازاروں میں بیچیں گے جس سے مسلمان مستفید ہوں گے اور تجارت پھلے پھولے گی ، اسی طرح ہم مملکت کے خزانے میں اپنے غنائم کا آٹھواں حصہ جمع کروائیں گے ۔

تمہاری بات معقول ہے ، اہلا وسہلا یہ ملک تمہار ا ہی ہے ۔سلطان نے جواب میں کہا۔

اللہ رب العزت تمہار غزوہ مبارک کرے

سلطان نے حلق الوادی میں ہمیں لنگر انداز ہونے کی اجازت دے دی چنانچہ موسم سرما ہم نے وہاں گزارا، موسم بہار کی آمد پر ہم 5 بحری جہازوں میں سمندر پر سوار ہوئے ۔ میری کشتی ان سب میں تیز تھی۔ہم جزیرہ سرڈینیا پہنچے وہاں ہم نے قزاقوں کی ایک کشتی پر قبضہ کیا جس میں 150 قیدی تھے ۔

اسی اثناء میں افق پر ایک جہاز نمودار ہو ا گویا وہ کشیش[8] پہاڑ ہو ، میرے دست راست دلی محمد نے جو ہماری ایک کشتی کا کپتان تھا اور اپنی شجاعت میں معروف تھا کہنے لگا:

میرے آقا کپتان : مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اس جہاز پر قبضہ کرنے کیلئے جانے کی اجازت دیں گے ۔

دلی محمد کی دلجوئی کی خاطر میں نے اسے اجازت دی کہ وہ جا کر اس پر قبضہ کر لے ، اس کی کشتی دشمن کے جہاز کے سامنے انتہائی چھوٹی دکھائی دیتی ۔ جبکہ ہم نے بھی دلی محمد کی کشتی کا تعاقب کیا جب ہم اس جہاز کے قریب پہنچے تو اسے بالکل خالی پایا۔

بحری قزاق ہماری کشتیاں دیکھ کر چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر فرار ہوچکے تھے ، ہم اس جہاز پر چڑھے تو اسے گیہوں سے بھرا پایا ، ہم نے یہ دلی محمد کے سپرد کیا اور اسے کہا : یہ غزوہ مبارک ہو ۔

اگلی صبح ہم نے مزید دو کشتیوں پر قبضہ کیا جن میں سے ایک شہد ، زیتون اور پنیر سے بھری ہوئی تھی ، جبکہ دوسری کشتی جنیوا[9] کی تھی جو لوہے سے بھری ہوئی تھی۔ ہم توپوں کی گھن گرج میں پہاڑ جیسے مال غنیمت کے ساتھ تیونس پہنچے ، تمام جنگجوؤں نے اپنا حصہ الگ کیا ، سلطان کا حصہ الگ کیا گیا ،اور بہت سا مال ودولت فقراء پر صدقہ کر کے ان کی دعاؤں کے مستحق ٹھہرے ۔


[1] اس دورانئے میں پرتگالی افریقہ کے گرد چکر کاٹ کر ہند کا راستہ دریافت کرچکے تھے ، پرتگیزی قزاق ہندوستان سے سامان لیکر آنے والے مسلمانوں کے جہازوں پر حملہ کرتے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ حجاج کی کشتیوں پر گھات لگاتے ، انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی کشتیوں پر قبضہ کر لیتے یا انھیں غلام بنا لیتے ، اور انھوں نے اسی پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہندوستان اور مشرقی افریقہ کے بحراحمر اور بحر ہند پر پھیلے اسلامی سواحل پر بھی حملے شروع کر رکھے تھے ، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی جہاز رانی کیلئے بڑا خطرہ بنتے جارہے تھے ، جس نے مملکوک سلطان کو ایسا بحری بیڑہ تیار کرنے پر مجبور کیا جو کہ وہاں اسلامی سواحل کی حفاظت کرسکے اور اس کی قیادت کسی اہل کپتان کے سپرد کرسکے ، چنانچہ عروج کا انتخاب بھی اسی زمرے میں کیا گیا۔

[2] استاذاعظم : یہ لقب اس زمانے میں روڈوس جزیرہ کے سربراہ پر بولا جاتا تھا ، دیکھئے : استاذ یلماز اوزتونا کا خیرالدین باربروسہ کی یادداشتوں کے حاشیہ پر تبصرہ ص :17

[3] جنگی کشتیوں میں سے ایک جو دخانی کشتی کی ایجاد سے قبل استعمال کی جاتی تھیں ، یہ 20-25 نشستوں پر مشتمل ہوتیں جنہیں خاص طور پر دشمن کی کشتیوں کا پیچھا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا۔

[4] ترک اٹلی کے جنوب مشرق میں واقعہ صوبہ اپولیا کو پولیا کا نام دیتے ہیں ۔ دیکھئے: استاذ یلماز اوزتونا کا یادداشتوں پر تبصرہ ص 19

[5] یونانی جزیرہ ہے جو کہ یونان کے جنوب مشرق میں بحر ایجۃ کے ساحل پرواقع ہے ۔

[6] کپتان پاشا یا قبودان پاشا :عثمانی بحری افواج کا سربراہOsmanli Tarihi Deyimleri.c.

[7] الکیسۃ اصل تحریر میں اسی طرح لکھا ہے ، یہ باربروس کے زمانے میں لین دین کیلئے استعمال ہونے والی نقدی کی اکائی ہے ، مملکت عثمانیہ کے دور میں مالی معاملات واضح کرنے والی مختلف تحقیقات کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ 16 ویں صدی میں الکیسۃ کا لفظ چاندی کی نقدی کی حفاظت کیلئے استعمال ہونے والے تھیلے پر بولا جاتا تھا، جبکہ سونے کی نقدی کی حفاظت کیلئے استعمال ہونے والے تھیلے کو "الصرۃ" کہا جاتا تھا ، اور یہ دونوں لفظ بڑے مالی رقم کیلئے استعمال کئے جاتے تھے ، الکیسۃ اور الصرۃ کی مقدار میں مختلف زمانوں میں اختلاف رہا ہے ، سلطان سلیم اول کے زمانے میں الکیسۃ کی مقدار 30 ہزار اقجۃ یعنی چاندی کا درہم ، یا 10 ہزار طلائی دینار تھی ، اورپھر 16 صدی کے وسط میں الجزائر میں دارالسکۃ قائم ہوگیا تو طلائی دینار ڈھالا گیا جسے سلطانی کا نام دیا گیا ، الکیسۃ کی مقدار اس وقت 30 ہزار سلطانی دینار مقرر کی گئی ، اس تاریخ کے بعد سے الکیسۃ اور الصرۃ کی قیمت میں یہ تبدیلی قائم رہی یہاں تک کہ 1877 میں اس نقدی کو ختم کردیا گیا۔

[8] کشیش پہاڑ : ترکی میں مشہور پہاڑ ہے جو کہ بورسۃ شہر میں واقع ہے اورآجکل اولوداغ پہاڑ کے نام سے معروف ہے ، بلندی کیلئے اسے ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

[9] جمہوریہ جنیوا کے ماتحت جو اس زمانے میں اٹلی کی جمہوریتوں میں سے ایک تھی۔
 

ربیع م

محفلین
کفار ہم سے دہشت زدہ رہنے لگے ۔


یہ موسم سرما بھی ہم نے تیونس میں ہی گزارا ، موسم بہار کی آمد پر ہم جنگ کیلئے نکلے ، 13 دنوں کے سفر کے بعد ہم جزیرہ مورۃ میں ناپولی بندرگاہ پہنچے ،جہاں ہمارا سامنا ایک بڑے جہاز سے ہوا جو اسپین کی جانب جا رہا تھا ۔ اس میں 300 سے 400 جنگجو تھے ، ہم نے اپنے سنہری پرچم بلند کئے اور ان پر گولہ باری شروع کردی ۔ ہم نے 7 بار اس جہاز کےقریب آنے کی کوشش کی 7ویں دفعہ ہم اس کے قریب آنے میں کامیاب ہوگئے ،ایک خوں ریز جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں ہم اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ، اس معرکہ میں ہم نے 150 شہداء پیش کئے اور 86 رفقاء زخمی ہوئے ، معرکہ کے بعد علم ہوا کہ اس جہاز پر 525 افراد سوار تھے جن میں سے 183 افراد کو ہم نے قید کیا ، جبکہ باقی افراد مارے گئے ۔ مقتولین میں اسپین کے ایک بڑے علاقے کا گورنر بھی تھا ، اس کے بعد ہم نے ایک اور کشتی پر قبضہ کیا۔ اور ہم تیونس واپس لوٹ آئے جہاں میرے بھائی عروج کا علاج کیا گیا جو ان معرکوں میں زخمی ہوگیا تھا۔


ان معرکوں میں حاصل ہونے والے غنائم میں 70 یا 80 طوطے اور 20 باز بھی شامل تھے جو ہم نے سلطان تیونس کو ہدیہ دئیے ۔


اس معرکہ کے بعد تمام کفارممالک میں ہمارا چرچا پھیل گیا چنانچہ وہ ہمارا خاتمہ کرنے پر متفق ہو گئے اور کہنے لگے :


دو ترکی جن کے نام عروج اور خیرالدین خضر ہیں ، نمودار ہوئے ہیں ان دونوں سانپوں کو اژدھا بننے سے قبل کچلنا ضروری ہے ، ہمیں چاہئے کہ ان کا نام تک روئے زمین سے مٹا ڈالیں ، اگر ہم نے انھیں پھلنے پھولنے کا موقع دیا تو یہ ہمارے لئے بہت سی مشکلا ت کھڑی کریں گے ۔


اس طرح سے کفار نے 10 عدد قادرغہ[1] نوعیت کے جہاز تیار کئے انھیں اچھی طرح سے مسلح کیا اور ہماری گرفتاری کیلئے نکل کھڑے ہوئے ، لیکن ہم ان کے پہنچنے سے قبل ہی سمندر میں سوار ہو چکے تھے ، ہم جنیوا کا رخ کرنا چاہتے تھے ، مگر مخالف ہواؤں کی وجہ سے ہم نے الجزائر کے سواحل کا رخ کیا اور بجایہ قلعہ کے سامنے ہم لنگر انداز ہو گئے ۔ جبکہ ہسپانوی کشتیوں نے جب ہمیں جنیوا کے سواحل پر نہ پایا تو بجایۃ کا رخ کیا۔ ساحل پران کے ساتھ جھڑپ میں شدید خطرات تھے چنانچہ ہم تیزی سے سمندر پر سوار ہوئے ۔ کفار کی کشتیوں نے سمجھا کہ ہم ان کے خوف سے فرار ہو رہے ہیں ، چنانچہ وہ ہمارے تعاقب میں نکل پڑے ، جب ہم ساحل سے کافی فاصلہ طے کر چکے تو میرے بھائی عروج نے ہمیں واپس پلٹنے اور کفار کی کشتیوں کے قریب آنے کا حکم دیا ۔ کفار اس غیر متوقع ناگہانی حملے سے دہشت زدہ ہو گئے ، ایک بڑی جنگ چھڑی جس کے دوران ہم نے کمانڈ کشتی پر تابڑ توڑ حملے کئے اور اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اس کے ساتھ ساتھ 3 دوسری کشتیاں بھی ہمارے قبضے میں آ گئیں ۔


جبکہ باقی کشتیوں نے بجایۃ کا رخ کیا اور وہاں جا کر قلعہ بند ہو گئے ۔ میرے بھائی عروج نے قلعہ پر حملہ کرکے باقی جہازوں پر قبضہ کرنا چاہا ، میں نے صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے اسے اس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ ہمارے لئے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان 4 کشتیوں کو لیکر تیونس کارخ کریں اور باقی 6 جہازوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔


4 کشتیاں 14 بن گئیں ۔


میرے بھائی نے میری بات نہیں سنی بلکہ بجایۃ قلعہ پر حملہ کرنے کے احکامات دینے شروع کر دئیے ، جو کہ ہسپانوی سپاہ سے بھرا ہوا تھا ۔ اور اب ان کے ساتھ ان کے وہ ساتھی بھی آن ملے تھے جو کشتیوں سے فرار ہو کر قلعہ کی دیواروں میں پناہ لینے پہنچے تھے ۔


میرے بھائی نے قلعہ پر حملہ شروع کیا ، جو توپوں کے گولے بارش کی مانند ہم پر برسا رہا تھا ، اس دوران ہم نے 60 شہداء کھوئے ، بہت سے ساتھی زخمی ہوئے ۔ ہم قلعہ پر قبضہ کرنے کے قریب تھے مگر اس دوران جبکہ جنگ کے شعلے پوری شدت سے بھڑک رہے تھے میرا بھائی بائیں بازو میں گولہ لگنے کی وجہ سے زخمی ہو گیا۔


جب ہسپانویوں نے یہ دیکھا تو انھوں نے قلعہ کے دروازے کھول دئیے اور ہم پر حملہ آور ہوئے ۔ میں اپنے بھائی کے شدید زخمی ہونے کی وجہ سے بیحد غمگین تھا او ر ہسپانویوں کے خلاف شدید کینہ وبغض کی وجہ سے میں نے اپنے 300 یا 400 جنگجوؤں کے ساتھ ان پر شدید حملہ کیا ، اور انھیں تلوار کی دھار پر رکھا ، ہم انھیں دھکیل کر قلعہ کی دیواروں تک لے گئے یہاں تک کہ مجبورا انھیں قلعہ کے دروازوں کے پیچھے جا کر جان بچانی پڑی اس حملے میں ہم نے 300 ہسپانویوں کو قتل کیا ، جبکہ 150 ان میں سے گرفتا ہوئے ۔


قلعہ کے سامنے زیادہ عرصہ ٹھہرنا مناسب نہ تھا ، جبکہ میرا بھائی زخموں کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا ۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور جہازوں پر سوار ہونے کا حکم دیا ، جبکہ اس دوران ہم پر مسلسل گولہ باری جاری تھی۔ مگر اللہ کے خاص فضل وعنایت سے ہم میں سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچا اور اس طرح ہم تیونس واپس 14 بحری جہازوں میں پہنچے ۔


جراحوں نے میرے بھائی کے زخم صاف کئے ، مگر دن بدن اس کی درد کی شدت بڑھتی گئی ۔ جرح آپس میں سر جوڑ کر مشورہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے : اگر تیرے بھائی کا بازو نہ کا ٹا گیا تو حالت زیادہ خراب ہو جائے گی اور اس صورت میں ہم ذمہ دار نہ ہوں گے ۔


جبکہ اہلیان تیونس ہمیں دیکھ کر شدید خوش ہوئے ، ہم 4 کشتیوں میں روانہ ہوئے تھے اور 14 کشتیوں کے ہمراہ لوٹے لیکن جب انھیں میرے بھائی عروج کے زخمی ہونے کا علم ہوا تو وہ شدت غم سے ہچکیاں لے کر رونے لگے۔


میں نے جراحوں سے کہا کہ جو میرے بھائی عروج کا بازو بچائے گا میں اس کے وزن کے برابر سونا اور اس کی پسند کے 10 غلام انعام دوں گا۔


میرے بھائی عروج کا بازو کاٹ دیا گیا۔


جراح ایک بار پھر مشاورت کیلئے اکٹھے ہوئے ، لیکن بازو کاٹنے کے علاوہ انھیں اس کا کوئی حل نظر نہ آیا ۔ چنانچہ میں نے انھیں اجازت دے دی ، اور انھوں نے میرے بھائی کا بازو کاٹ دیا ۔ اور میرے بھائی کے زخموں کا علاج کیا۔ میں اس نقصان پر رویا ، تو میرے بھائی نے کہا : تم کیوں روتے ہو یہ تو اللہ کا فیصلہ اور تقدیر ہے ، میں تو اللہ کی تعریف بیان کرتا ہوں کہ میں نے اس کے راستے میں جنگ کے دوران اپنا بازو کھویا مجھے یہی نعمت کافی ہے ۔


اس موسم سرما میں میرا بھائی صحت یاب ہو چکا تھا ، موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی جب طبیعت میں پوری طرح نشاط آ چکی تھی ہم 8 جہازوں پر جنگ کیلئے نکلے اور اندلس کے سواحل جا پہنچے ، جہاں اسلامی شہر غرناطہ کا کچھ عرصہ قبل ہی ہسپانویوں کے ہاتھوں سقوط ہوا تھا۔


ہسپانوی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاتے تھے ، وہاں کے مسلمان خفیہ مساجد میں جنہیں زیر زمین تعمیر کیا جاتا اللہ کی عبادت کرنے پر مجبور تھے ، ہسپانویوں نے تمام مساجد کو تباہ اور نذر آتش کر دیا تھا ، اور اگر کسی نماز پڑھنے والے یا روزہ دار کو پکڑ لیتے تو اسے اور اس کی اولاد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور جلنے کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس دوران ہم نے بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں سے نجات دلائی اور انھیں الجزائر اور تیونس منتقل کیا۔


اس دوران جب ہم المریۃ کے سواحل پر تھے ہمارے سامنے کفار کی 7 کشتیاں نمودار ہوئیں ہم نے اس میں سے ایک کا پیچھا کیا اور اس پر قبضہ کر لیا جبکہ ہواؤں کی مخالفت کی وجہ سے دوسری کشتیوں کو نہ پاسکے ، جس کشتی پر ہم نے قبضہ کیا یہ ہالینڈ کی تھی جس پر ہندوستان سے لایا گیا سازوسامان لدا ہواتھا ، وہاں سے ہم نے جزیرہ مینورقہ کا رخ کیا ، جہاں ہم ایک خلیج میں داخل ہوئے ، تیونس سے ہمیں نکلے ہوئے 50 یا 60 دن گذر چکے تھے ، ہم جزیرۃ مینورقہ کے اندر داخل ہوئے ، اچانک ہمارا سامنا لگ بھگ 200 جنگجوؤں سے ہوا جو کہ مکمل طور پر مسلح ایک نہر کے کنارے بیٹھے تھے ۔ دنبے کا گوشت بھونا جار ہا تھا ، شراب کے جام لنڈھائے جارہے تھے ، ان میں سے اکثر اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھے ، ہم نے 70 یا 80 کفار کو قتل کیا ۔ 5 یا 6 ڈھیر مال غنیمت پر قبضہ کیا ، ان کے قائد کو میرے پاس لایا گیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس سمت جانا چاہتے تھے ، اس نے کہا: میرے آقا ہمیں مینورقہ میں آپ کے لنگرا ندا ز ہونے کی خبر مل چکی تھی ، 10 عدد قادرغہ نوعیت کی کشتیاں آپ آپ کی جانب روانہ ہوئیں ، طے یہ پایا کہ وہ سمندر سے آپ پر حملہ آور ہوں گے جبکہ ہم خشکی سے آپ پر حملہ آور ہوں گے ، جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے قیدیوں کو باندھنے اور کشتیوں پر 2،2 کی شکل میں قیدیوں کو تقسیم کرنے کا حکم دیا ، پھر ہم مینورقہ سے جنیوا کی جانب نکلے ، اس دوران راستے میں سامنے آنے والے چار جہازوں پر ہم نے قبضہ کر لیا ۔ ان مہمات کےنتیجے میں سارے کفار ممالک میں ہمارا چرچا پھیل گیا اور ہم ان کی نظروں میں ڈرمائی کردار بن گئے ۔ ہم نے کورسیکا کے جزیرہ پر حملہ کیا اور پھر اپنے بھائی کے ساتھ 7 جہازوں میں میڈیلی کا رخ کیا۔


وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ، صحیح عربی ضرب المثل ہے ۔جب ہم اپنے اہل وعیال سے ملے تو ہمارے قلوب و ارواح خوشی سے سرشار ہوگئے ، ہمارے تمام اقرباء اور دوست ہمارے پاس آ کر ہمارے حالات کے بارے میں دریافت کرنے لگے ۔ وہاں ہم نے ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا ، جو 7 شب وروز تک جاری رہی ۔ اس دوران ہم نے جزیرۃ کے فقراء کو کھانا کھلایا ، بچوں کے ختنے کئے ، کنواری لڑکیوں کی شادیاں کیں ، اور انھیں خوش کرنے کیلئے بڑی محفلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ہمارے جہاز رانوں کی جیبیں سونے سے بھر گئیں یہاں تک کہ وہ ایک اقجہ کی کنیز 5 اقجہ میں خریدنے لگے ،تاکہ اطراف کے دور دراز کے تاجر زیادہ منافع حاصل کریں اور یہ ان کی دعا حاصل کرنے میں کامیاب ہوں ۔ میڈیلی کے باشندے ہمارا بھرپور اکرام کرتے ، ہمارا خیال رکھتے اور ہماری خدمت میں انھوں نے کسی قسم کی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ ہمارے پاس انواع قسم کے کھانے اور پھل لیکر آتے کہ ہم انھیں قبول کریں ۔


سمندر سے محبت ہمارے لئے ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔


ہم چاہتے تھے کہ موسم سرما جزیرہ میں گزاریں ، اس دوران ہم نے مال غنیمت سے اپنے تمام اقارب کا اکرام کیا، خاص طور پر اپنے بڑے بھائی اسحاق[2] کو بڑی تعداد میں مال اور وینس کا سونا دیا او ر ان کی بابرکت دعاؤں سے فیضیاب ہوئے ۔ مگر جب اس نے عروج کا کٹا ہوا بازو دیکھا تو شدید غمگین ہوا ۔


ایک بار میرے بھائی عروج نے ارادہ کیا کہ شادی کرکے میڈیلی میں رہائش اختیا ر کی جائے ، لیکن جلد ہی وہ اپنی اس سوچ سے باز آ گیا ، کیونکہ سمندر کیلئے اس کی محبت ہر چیز کی محبت پر غالب تھی ، بلکہ اس کے نزدیک اس کے برابر کوئی چیز نہیں ہو سکتی ۔


اور ایک صبح وہ ہم سے کہنے لگا : کہ میں نے گزشتہ رات ایک خوبصورت خواب دیکھا ، میں نے وہی سفید ریش بزرگ جنہوں مجھے روڈوس میں قید کے دوران نجات کی خوشخبری سنائی تھی دیکھے جو مجھے مخاطب کر کے کہہ رہے تھے ، اے عروج : مغرب کا رخ کر بیشک اللہ رب العزت نے وہاں تیرے لئے بہت سے معرکے اور عزت و شرف لکھ دیا ہے ۔


وہاں سے گزرنے والی تمام کشتیاں میڈیلی لنگرانداز ہوتیں ، کیونکہ کپتان یہاں سے قیدی خرید کر انھیں چپو چلانے کیلئے استعمال کر سکیں ۔ میں نے ایک دن ان کپتانوں میں سے ایک سے کہا:


میرے پاس 827 خلاصی ضرورت سے زائد ہیں جنہیں میں تمہارے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہوں ۔


اس طرح سے میں نے یہ تمام تر خلاصی عثمانی تاجر کپتانوں کے ہاتھوں فروخت کردئیے ان میں سے کچھ کی قیمت 500 دینا ر بعض 300 دینا ر اور کچھ اس سے بھی کم قیمت کے تھے ۔


میں نے قیدیوں سے متعلق تمام دستاویزی کاروائیاں جنہیں میں فروخت کرنا چاہتا تھا مکمل کیں اور بندرگاہ کے رؤساء کو ان کے حقوق بھیج دیئے ، اسی طرح اسلامی اوقاف کو کچھ غلام عطیہ کئے ۔


اس طرح سے میں نے اپنے کمائے ہوئے مال کا نصف حصہ خرچ کر دیا اور اس میں سے باقی بچنے والے مال اپنے بھائی عروج کے ساتھ تقسیم کر دیا ، ہم مال ذخیرہ نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے ہم نے اپنے تمام مال کو کشتیوں کی بہترین تیاری پر خرچ کردیا اور باقی ماند اپنے جہاز رانوں پر تقسیم کردیا ان میں سے ہر ایک کے حصے میں 90 دینا رآئے ، جبکہ رؤساء کے حصے میں ہر رئیس کو 195 دینا ر پہنچے ۔


جہاز راں اپنے کھانے پینے پر اپنی جیب سے خرچ نہیں کرتے تھے ۔ہر کشتی کا خاص مطبخ تھا اس طرح سے جہازرانوں کو ہفتہ میں دوبار گوشت دیا جاتا مگر اس کے باوجود وہ کھانے پر اپنے خاص مال میں سے خرچ کرتے کیونکہ کشتیوں میں دیا جانے والا کھانا انھیں پوری طرح سیراب نہیں کرتا تھا ۔


موسم سرما آنے پر میں نے ان جہازرانوں کو جو اناضول اور رومیلی کے قریب بستے تھے یہ موسم سرما اپنے گھر گزارنے کی اجازت دی ، جبکہ جن کے گھر دور تھے انھوں نے یہ موسم سرما ہمارے ساتھ میڈیلی میں گزارا۔


اس موسم سرما میں نے دارلصناعۃ کو 3 کشتیاں بنانے کا حکم دیا ، جن میں سے ایک 25 چپوؤں والی جبکہ باقی 2 عد د 24 چپوؤں والی تھیں ، اس طرح سے موسم بہار کی آمد تک ہمارے پاس 10 بحری جہاز ہوگئے ۔


جب ہم نے اپنی کشتیوں کو اچھی طرح سے تیار کر لیا تو ان نئی کشتیوں میں سے ایک پر عروج اور دوسری کشتی پر میں سوار ہوا۔


موسم بہار قریب آنے پر اناضول اور رومیلی کے بہادر نوجوان جوق در جوق ہمارے پاس میڈیلی آنے لگے جن تک ہماری شہرت پہنچ چکی تھی ۔ اس امید پر کہ ہم انھیں بطور جہاز راں قبول کریں گے ۔چنانچہ ہم نے ان میں سے جن میں دلیری و جارحانہ پن کی علامات دیکھیں ان کا انتخاب کر لیا۔


وقت رخصت ہم نے اپنے بڑے بھائی اسحاق کے ہاتھ کا بوسہ لیا ، اپنے اقارب واحباب کو الوداع کہا اور اس موسم کی ایک مبارک گھڑی میں سمندر پر سوار ہو گئے ۔


فقراء ہماری راہ تکتے تھے


راستے میں ہم نے 15 یا 16 بحری جہازوں پر قبضہ کیا ان میں سے اچھی حالت کے جہازوں کو ہم نے اپنے پاس محفوظ رکھا اور جن کی حالت بری تھی انھیں ہم نے غرق کر دیا ۔ جو کشتیاں ہمیں غنیمت میں ملی تھیں ، ان میں سے پانچ پر گیہوں ، 2 پر زیتون کا تیل جبکہ ان میں سے پر ہاتھی دانت لدا ہوا تھا ، جبکہ باقی کشتیاں مختلف سازوسامان اور اموال سے بھری ہوئی تھیں ۔ قیدیوں کی مجموعی تعداد 471 عورتیں اور بے شمار مرد تھے ،


میڈیلی سے نکلنے کے 29 دن بعد ہم 7 کشتیوں پر تیونس کی بندرگا ہ حلق الوادی میں داخل ہوئے تو ہم نے بندرگاہ کو وہاں کے باسیوں سے بھرا ہوا پایا جو ہمارا استقبال کرنے آئے رھے ، ہم نے ہوا میں توپوں کے گولے داغ کر ان کو سلامی دی ۔


یہاں کے باسی ہم سے بے پنا ہ محبت کرتے تھے او ر ان کی محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ہمارے تیونس واپس نہ آنے پرشدید مضطرب تھے ، بالخصوص فقراء بڑے اشتیاق سے ہماری آمد کے منتظر تھے ۔ہم نے گیہوں فقراء اور محتاجوں پر تقسیم کی جبکہ باقی غنائم کو ہم نے فروخت کردیا ، اسی طرح سلطان تیونس کو اس کاحصہ جو کہ 5 ہزار وینس کا دوقہ دو لونڈیاں ، 4 جنیوا کے غلام ، غلاموں اور لونڈیوں کی عمریں 15-16 سال کے درمیان تھیں ، جو انتہائی خوبصورت تھیں ، جنہیں اگر فروخت کیا جاتا تو انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ۔


جبکہ سلطان نے ہمیں خوبصورت گھوڑے تحفے میں دیئے ، میں اور عروج اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر سلطان کے محل گئے ، جس نے یہ کہتے ہوئے ہمارا استقبال کیا : تم نے میری مملکت کو شرف بخشا اللہ رب العزت دنیا و آخرت میں تمہارے چہرے روشن کرے ، تم ہمارے سردار ہو۔


اس ملاقات سے فراغت کے بعد سلطان نے مجھے اور عروج کو خلعت عطا کی اسی طرح ہمارے ساتھ موجود جہازرانوں کا بھی بے حد اکرام کیا۔


یہ موسم سرما ہم نے تیونس میں گزارا۔


موسم بہار کی آمد پر ایک مبارک گھڑی میں ہم 12 کشتیوں میں نکلے اور جزیرہ صقلیہ کے ایک قلعہ پر حملہ کیا اور 300 کے قریب افراد کو قیدی بنایا انھیں ہم نے کشتیوں پر تقسیم کر دیا تاکہ وہ چپو چلانے کا کام کرسکیں ۔ ۔ اسی طرح دلی محمد رئیس نے بندرگا ہ میں لنگر انداز ایک تجارتی کشتی پر قبضہ کیا جوکہ چینی سے بھری ہوئی تھی ۔ جب ہم نے اس کشتی میں شمار کیا تو 650 صندوق شکر سے بھرے ہوئے تھے ۔ میں نے دلی محمد رئیس کو حکم دیا کہ وہ یہ غنائم تیونس کی جانب لے جائے ۔ اگلے دن ہم نے 4مزید جہازوں پر قبضہ کیا جن میں سے 2 اونی کپڑے سے بھرے ہوئے تھے ، جبکہ ایک بادبانی کشتیاں بنانے کیلئے لکڑی کے تختوں سے لدا تھا ، جسے فرانس بھیجا جارہا تھا ، جبکہ چوتھی کشتی بارود سے بھری ہوئی تھی مختصرا یہ کہ چاروں کشتیاں بہترین غنائم پر مشتمل تھیں ۔


ہم 33 دن بعد تیونس واپس پہنچے اس دوران ہم نے بہت بڑی مقدار میں اونی کپڑا حاصل کیا ۔ یہاں تک کہ ہم نے کشتی پر اس سے فرش بچھا یا ، ہرجہازراں کو ساڑھے سات قنطار[3] شکر ، 12 تھا ن اونی کپڑا ، 125 تھان کپڑا آیا ، جبکہ غنیمت میں ملنے والی لکڑی کے تختے انتہائی عمدہ نوعیت کی لکڑی کے تھے ۔


جو انتہائی مضبوط اور لمبے تھے اور لمبی کشتیوں کی تیاری کیلئے بہت مناسب تھے ۔ ہم نے ان تختوں کو اپنے سلطان معظم سلیم خان کی خدمت میں ہدیتا بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ اس طرح ہم نے 200 غلاموں کا انتخاب کیا جنہیں ان تختوں کے ساتھ بھیجا جانا تھا ۔ اور یہ فیصلہ کیا کہ محی الدین پیری رئیس[4]Piri REIS انھیں لے کر استنبول جائے ۔پیری رئیس محیی الدین کمال رئیس[5] کا بھانجا تھا ، انتہائی باظرف علم دوست عالم اور سلطانی آداب سے واقف تھا ۔ پیری رئیس ایک مبارک گھڑی میں تیونس سے استنبول کی جانب روانہ ہو ا۔


سلطان کی دعا پا کر ہم دنیا وآخرت میں غالب ومعزز ٹھہرے ۔


پیری رئیس نے 6 بحری جہازوں میں تیونس چھوڑا ، روانگی کے 21 دن بعد استنبول پہنچا جہاں سلطان کو توپوں کی سلامی دیتے ہوئے سرای بورنو کے سامنے لنگر انداز ہوا۔ سلطان نے پیری رئیس کا استقبال کیا اور میرا خط خود پڑھ کر مجھے عزت بخشی ، سلطان کو میرے اور عروج کے غزوات سے بے حد خوشی پہنچی ، میرا خط پڑھنے کے بعد انھوں نے اپنے مبارک ہاتھ ہمارے اور ہمارے ساتھیوں کے حق میں دعا کیلئے اٹھا ئے :


اے اللہ میرے دونوں خادموں عروج اور خیرالدین کے چہرے دنیا وآخرت میں روشن فرما، اے اللہ ان کا نشانہ کر ، ان کے دشمنوں کو رسوا کر اور بر وبحر میں ان کی نصرت فرما۔


اس طرح سے ہم سلطان معظم کی دعا حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرے ، اور اس کے دن کے بعد کبھی بھی مغلوب نہ ہوئے ۔ دنیا وآخرت میں معزز ٹھہرے ، سلطان نے ہمارے ساتھی پیری رئیس کا خوب اکرام کیا، اسے 12 عدد صندوق اقجہ کے دئیے ، اور بنفس نفیس خلعت سلطانی پہنائی ، ہمارے بھیجے گئے تحائف قبول فرما کر ہمیں عزت بخشی ، اور ہر ایک کا خود معائنہ کیا۔


باوجوداس کے کہ آج تک کسی کشتی نے محل کے بالمقابل ساحل پر آنے کی جرات نہیں کی ، سلطان معظم نے پیری رئیس کی کشتیوں کو محل کے قریب لنگر انداز ہونے کا حکم دیا ۔ پیری رئیس نے 200 غلاموں کو سلطان کی جانب بھیجے گئے تحائف اٹھانے کا حکم دیا کہ وہ اپنے کندھوں پر منظم قطار کی شکل میں پیش کیا ان کے ساتھ 200 جہاز راں چاندی کے تاروں سے منقش لباس میں ساحل سے عسکری پریڈ کی شکل میں سلطان کے سامنے پیش ہوئے ، سلطان سلیم خان نے ان میں سے ہر ایک کو 50 سونے کے دینا ر دیئے اور مملکت کے خزانے سے ان کی رہائش کا انتظام کر نے کا حکم دیا۔


جبکہ محیی الدین کی رہائش کیلئے ایک بڑا گھر مخصوص کیا گیا۔


سلطان نے کشتیوں کو دارلصناعۃ بھجوانے کا حکم دیا جہاں ان کی رنگائی اور مرمت کے ساتھ ساتھ انھیں ضروری عسکری سازوسامان کے ساتھ لیس کیاگیا، اسی طرح دو عدد 27 نشستوں والی قادرغہ کشتیوں کی تیاری کا حکم دیاجو سلطان کی جانب سے ایک میرے لئے اور دوسری میرے بھائی عروج کیلئے تحفہ بھیجی جانی تھی ۔ ان کشتیوں کا نچلا حصہ سونے کے طلاء سے مزین کیا گیا تھا ، جبکہ ان کشتیوں پر بڑی مقدار میں گولے لدے تھے ، جو دارلصناعۃ سے ابھی ابھی تیار ہونے کی وجہ سے چمک رہے تھے ۔ اسی طرح پیری رئیس نے تمام وزراء سے ملاقات کی اور انھیں ہمارے بھیجے گئے تحائف پیش کئے ۔ اور ایک دن سلطان سلیم خان نے نے پیری رئیس کو بلوایا ، جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوا تو سلطان نے اسے 2 تلواریں عطاء کیں جن کی مٹھی الماس سے مزین تھی ، ان میں سے ہر ایک کی قیمت بلاد روم کے خراج[6] کے برابر تھی ۔ اسی طرح خلعت سلطانی اور دو نیشان عطا کئے اور کہا: ان دونوں کشتیوں میں سے ایک پر خیر الدین اور دوسری پر عروج سوار ہو ۔ اور ایک نیشان خیرالدین زیب تن کرے اور دوسرا عروج ، تلواروں میں سے ایک خیرالدین کیلئے اور دوسری عروج کیلئے ۔ اور انھیں بتلا دو کہ ہم نے ان کے بھیجے گئے تحائف قبول کر لئے ہیں ، میں تمہیں اللہ کے سپر د کرتا اور اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تم پر اپنی مضبوط نصرت قائم رکھے ، تمہیں جس چیز کی بھی ضرورت ہو تم اسے بلاجھجک ہمارے سامنے پیش کرسکتے ہو ۔


پیری رئیس نے خط ہمایوں[7] لیا ، اس کا 3 بار بوسہ لیا سر پر رکھا ، پھر جھک کر احتراما 7 بار سلام کیا ، سلطان کے مبارک ہاتھوں کا بوسہ لیا اور انتہائی خوشی و سرور میں سلطا ن سے رخصت ہوا۔


پیری رئیس سلطان کی عطاکردہ کشتیوں میں سے ایک پر سوار ہوا اور باقی کشتیوں کو اپنے ہمراہ آنے کا حکم دیا ، پھر 8 بحری جہازوں کے ساتھ "سرای بورنو " کے قریب لنگر انداز ہوا ، سلطان کو سلام پیش کیا، اس دوران سلطان ہمارے جہازوں کا معائنہ کرنے کیلئے ساحلی محل پر موجو د تھے ، پھر پیری رئیس نے استنبول سے تیونس کا رخ کیا ۔


اس دوران جب پیری رئیس استنبول تھا میں اور میرا بھائی دس بحری جہازوں میں نکلے ، ہمار ا ارادہ آبنائے سبت[8]ہ جانے کا تھا ، جو کہ بحر متوسط کے آخر میں واقع ہے کہ وہاں سے گذر کر ہم اندلس جائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے دینی بھائیوں کو نجات دلائیں ۔


اس اثناء میں الجزائری شہر بجایۃ سے ایک وفد ایک خط لیکر آیا ، جس میں تحریر تھا :


اگر ہمارے لئے امید کی کوئی کرن باقی ہے تو مجاہدین ابطال وہ تمہاری جانب سے ہونی چاہئے ، ہسپانویوں کے ظلم وستم کی وجہ سے ہم نہ تو نماز ادا کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دے سکتے ہیں۔اب ہم اپنا معاملہ تمہارے سامنے رکھتے ہیں ، اللہ رب العزت تمہیں ہماری رہائی کا سبب بنائے ، ہمارے شہر کا رخ کرنے میں جلدی کرو اور ہمیں جلد ازجلد ان کفار کے ظلم سے نجات دلاؤ۔


جب ہم "بجایۃ " کی جانب سفر کا ارادہ کر رہے تھے اس وقت پیری رئیس تیونس کے سواحل میں داخل ہوا ، ہم اسے فورا اپنی کشتی میں لے آئے اور بڑے اشتیاق سے استنبول کا احوال پوچھنے لگے ، پیری رئیس جس کشتی پر سوار تھا اسے دیکھتے ہی تعجب وپسندیدگی کی شدت سے مجھے یو ں لگا کہ میری عقل پرواز کر جائے گی ، اس کی ضخامت اور عمدگی بتا رہی تھی کہ وہ سلطان کا ہم پر انعام واکرام ہے ، چنانچہ میرا دل سرور سے بھر گیا۔


اور جب میں نے سلطان معظم سلیم خان کا بھیجا گیا خط ہمایوں پڑھا تو میری خوشی کئی گنا بڑھ گئی اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔


میں نے خط ہمایوں کو سات بار بوسہ دیا ، اسے اپنے سر پر رکھا اور اللہ کی بہت زیادہ حمد بیان کی ، جس نے مجھے اس طرح سلطان کی خدمت میں آنے کی توفیق دی جبکہ میرے بھائی عروج نے جب سلطان کی عطا کردہ کشتی دیکھی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ، سلطان کیلئے اتنی شاندار کشتی کا انعام دینے پر بہت زیادہ دعائیں کیں ۔


سلطان سلیم خان نے سلطان تیونس کی جانب بھی ایک خط ہمایوں روانہ کیا تھا ، جسے میں خود اس کے پاس لیکر گیا ، اور اس کے سپرد کیا ، اس نے 7 بار اس کا بوسہ لینے کے بعد اپنے سر پر رکھا اور پھر کھولا ، جس میں تحریر تھا : امیرتیونس کی جانب ، جب تم تک یہ خط پہنچے تو تجھے چاہئے کہ اس پر عمل کر ، اور اس کی مخالفت کرنے سے بچو، اور ہمارے خادموں عروج اور خیر الدین کی مدد کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی مت کرو۔


اور ایک بڑی محفل میں جہاں اشراف تیونس سلطان کی خدمت میں حاضر تھے پیری رئیس نے مجھے سلطان سلیم کی عطا کردہ تلوار باندھی اور سلطان کی عطا کردہ خلعت پہنائی ، جبکہ مشائخ کی زبانوں پر سلطان کیلئے دعا اور تعریف رواں تھی ۔


سلطان تیونس نے ہمیں سلطان سلیم خان کی جانب سے ملنے والی محبت وتکریم دیکھی تو اسے ادراک ہو گیا کہ سلطان سلیم خان نے باوجود اس کے کہ بڑے بڑے سلاطین کو تعریف وعزت افزائی سے محروم رکھا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے لئے اپنی خصوصی توجہ واکرام کا مظاہرہ کیا ، چنانچہ اس کا ہمارے ساتھ معاملہ تبدیل ہو گیا : یقینا تیرا اور تیرے بھائی عروج رئیس کے راستے کا اختتام مملکت عثمانیہ کی بحریہ کی قیادت پر ہو گا ، چنانچہ تمہیں یہ سب مبارک ہو ۔


اس وقت سے سلطان کا ہمارے ساتھ موقف بدل گیا ، اور ہمارے خلاف دل میں حسد وکینہ چھپانے لگا، اسے ادراک ہو گیا کہ ہم محض مایوس قسم کے بحری قزاق نہیں جو ہر قسم کی مدد سے محروم ہوں ، بلکہ ہم سلطان معظم کی خدمت وحفاظت میں ہیں ۔ چنانچہ اس وقت سے وہ ہمارے بارے میں تحفظات کا شکار ہو گیا اور ہم سے اس خوف سے دور ہوتا چلا گیا کہ کہیں ہم اس کی مملکت سلطان سلیم خان کے نام پر چھین نہ لیں ۔




[1] قادرغۃ : جنگی بادبانی کشتیوں میں سے ایک جسے دخانی کشتیوں کی ایجاد سے قبل استعمال کیا جاتا تھا، یہ 25 نشستوں پر مشتمل ہوتی تھی ، ہر چپو کو 4 سے 5 خلاصی (چپو چلانے والے) دھکیلتے تھے ، اپنی لمبائی اور ہلکے وزن کی وجہ سے ممتاز تھیں ، اس کا عملہ 35 ملاحوں 196 خلاصیوں اور 100 جہازرانوں پر مشتمل ہوتا ، اسی طرح اس پر 13 توپیں نصب ہوتیں ۔


[2] اسحاق رئیس خیرالدین بابروس کے بڑا بھائی ، جو الجزائر میں ان سے آملا اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شرکت کی ، اور قلعہ سیدی راشد الجزائر میں 1518 کو ہسپانویوں کے خلاف شہید ہوئے ۔


[3] قنطار: وزن کی اکائی ہے جس کا وزن جگہ اور وقت کے اعتبار سے مختلف رہا ہے عثمانی قنطار 56.452 کلو گرام کے برابر ہے جسے ترکی میں Kantar کہا جاتا ہے ،


[4] پیری رئیس ترک جہاز راں اور ماہر جغرافیہ تھے ، جو اپنے چچا کمال رئیس کے ساتھ بحرمتوسط کے مغربی حصے میں مسلمانان اندلس کی مدد کیلئے آئے تھے ، اپنی کتاب "کتاب البحریۃ " کی وجہ سے شہرت پائی جس میں انھوں نے بحرمتوسط کے سواحل بندرگاہوں اور شہروں کے تفصیلی نقشہ جات بنائے ۔


[5] کمال رئیس ترک جہاز راں جنہوں نے سقوط غرناطہ کے اہل اندلس کی مدد کے خط کے بعد سلطان بایزید دوم کےحکم سے ہسپانیہ کے سواحل پرحملہ کیا، اسی طرح پیری رئیس نے بہت بڑی تعداد میں اندلس کے مسلمانوں اور یہودیوں کو وہاں سے نکال کر اناضول میں آباد کیا۔


[6] شاید یہاں یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ وہ بے حد قیمتی تھی ، چنانچہ اس میں مبالغہ کیلئے یہ تعبیر استعمال کی ۔


[7] خط ہمایوں : شاہی یا سلطانی حکم جسے رعایا یا مملکت کے افراد کیلئے صادر کیا جاتا۔


[8] یعنی آبنائے جبل الطارق جو کہ مراکش اور اندلس (ہسپانیہ)کے درمیان حد فاصل ہے ۔

 

ربیع م

محفلین
دشمن کی کشتیوں پر شدید حملہ


اگلے دن میں اور میرا بھائی سلطان کی عطا کردہ کشتیوں پر سوار ہوئے ، ان میں سے ایک کشتی 27 نشستوں اور 16 توپوں پر مشتمل تھی ، ہم 12 جہازوں کے ہمراہ روانہ ہوئے ، اور شمع سے لدی ایک کشتی پر قبضہ کیا ، جس پر 25 کافر سوار تھے ۔ اس کشتی میں 40 ہمارے اندلسی بھائی قید تھے ۔ ہم نے انھیں آزاد کروا کر دلی محمد رئیس کے ہمراہ ایک کشتی پر تیونس بھجوا دیا۔ میں دلی محمد سے بہت محبت کرتا تھا ، یہ نوجوان بے حد دلیر اور خوف سے حد درجہ ناآشنا تھا ۔ اگر 15 یا 20 افراد سے تنہا مقابلہ کرے تو ان پر غالب آجائے ۔ ہم الجزائر کے شہر "بجایۃ "کی بندرگاہ پر آئے ۔ ہمارے ہمراہ 2333 جہازراں ، 10 عدد قادرغہ کشتیاں ، 150 توپیں اور ہزاروں قیدی تھے جو خلاصیوں کا کام کرتے تھے ۔


بجایہ قلعہ ہسپانویوں کے ہاتھ میں تھا، ہماری ان سے جھڑپ شروع ہوگئی ، جو ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی۔ جس میں بہت سے کفار مارے گئے ، جب اطراف کے بدوؤں کو ہماری فتح کا علم ہوا تو 20 ہزار افراد ہماری مدد کیلئے ساتھ آملے ، مگر وہ فنون قتال سے اچھی طرح واقف نہ تھے ، کفار کی ایک ٹولی قلعہ بند ہو گئی اور انھوں نے 29 دن تک مزاحمت جاری رکھی ، ہم پر قلعہ پر قبضہ کے قریب تھے مگر قلعوں کے خلاف بمباری کیلئے استعمال ہونے والی توپوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم قلعہ میں بڑا شگاف بنانے میں ناکام رہے ۔


اس دوران ہم تک اطلاع پہنچی کہ ہسپانویوں کی ایک بڑی سپا ہ جزیرہ مینورقہ سے ہماری جانب رواں ہے ، چنانچہ ہم نے"بجایہ " کو چھوڑا اور "جیجل" کی جانب نکل پڑے تاکہ مینورقہ سے آنے والی سپاہ کی راہ میں گھات لگائی جاسکے ۔ اور بالآخر ہمارے سامنے افق پر 10 عدد بڑی قادرغہ کشتیاں نمودارہوئیں ، جو اسلحہ اور عسکری سازوسامان سے لدی ہوئی تھیں ، میرا بھائی عروج کہنے لگا کہ یہ اللہ کی نعمت ہے جو ہماری جانب ہانک کر لائی جا رہی ہے ۔


ہمارے جہازرانوں نے ہسپانوی کشتیوں پر تہلیل وتکبیر کے نعرے بلند کرتے ہوئے حملہ کیا ، دشمن کے خلاف شدید جھڑپ چھڑ گئی ، جس کے نتیجے میں بالآخر ہم نے ان 10 کشتیوں پر قبضہ کر لیا ، ہسپانوی سپاہیوں میں سے 78 سپاہیوں کے علاوہ کوئی بھی زندہ نہ بچا ، جنہیں ہم نے گرفتار کرکے چپو چلانے کیلئے قید کر لیا۔


ہسپانیہ کے خلاف جنگ


ہم نے 10 ہسپانوی کشتیوں پر صلیبی پرچم لہرائے اور 500 جہازرانوں کو اس میں چھپنے کا حکم دیا اور واپس "بجایہ" کا رخ کیا ، ہسپانوی کفار "بجایہ " میں قلعہ بند "مینورقہ" سے اپنی کمک کیلئے آنے والے جہازوں کے منتظر تھے ، جب انھوں نے ہمیں دور سے دیکھا تو یہ سمجھا کہ ہم ان کے دینی بھائی ہیں ، چنانچہ وہ اپنے چمکدار خود ہوا میں لہرا کر خوشی کا اظہار کرنے لگے ، اس طرح سے ہم جھوٹی خوشی میں غرق قلعہ کے قریب تر ہوتے چلے گئے ۔


کفار نے قلعہ کے دروازے کھولے اور اپنی کمک کیلئے آنے والی کشتیوں کے استقبال کیلئے ساحلی محلات پر چڑھ گئے ، اور اچانک میں نے اپنے جہاز رانوں کو ساحل کی طرف نکلنے کا حکم دیا اور جونہی کفار نے تکبیر وتہلیل کے نعرے سنے ان کی صفوں میں اضطرا ب پیدا ہو گیا اور وہ شکست خوردہ انداز میں پیٹھ پھیر کر بھاگے ، اور ہم قلعہ فتح کرنے میں کامیاب ٹھہرے ۔ اس دوران ہسپانوی سپاہی امان طلب کرنے کیلئے "ماینا سینیور" چلاتے رہے ۔


قلعہ کی فتح کے بعد تمام شیوخ اور ہمسایہ علاقوں کے سردار " بجایہ " آئے اور ہماری بیعت کی ، یہاں سے میں اور میرا بھائی ان علاقوں کے حاکم بن گئے ۔


میں اپنے بھائی عروج سے ملاقات کیلئے جیجل لوٹا ، جب میں اس سے ملا تو اس نے میری آنکھوں پر بوسہ دیتے ہوئے مجھے "بجایہ " کی فتح کی مبارک باد دی جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل قلعہ تھا[1]۔


اس حملے میں ہم نے 800 بارود کے ڈرموں کے ساتھ ساتھ بے شمار غنائم حاصل کئے ، ہمیں خاص طور پر بارود حاصل کرنے پر بے پناہ خوشی ہوئی ، کیونکہ ہمارے پاس موجود بارود ختم ہونے کے قریب تھا اور سلطان تیونس نے ہمیں مزید بارود نہ دیا ، بلکہ ہم دن بدن اس کا ہماری جانب سے اعراض کئے جانا دیکھ رہے تھے ۔ چنانچہ ہم نے طے کیا کہ اپنی مشکلات کو خود ہی حل کیا کریں گے ۔ یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس اجنبیت میں ہمارے لئے ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھنا لازم ہے ۔


ہسپانیہ میں کفار تک جب ہمارے ہاتھوں قلعہ کے فتح کی خبر پہنچی تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی وہ غم وپریشانی کے سمندر میں ڈوب گئے ، جبکہ شاہ اسپین" کارلوس[2]" نے بجایہ کو چھڑوانے اور ترکوں کے ہاتھوں ہسپانوی قیدیوں کو آزاد کروانے کے احکامات جاری کر دئیے ۔


اور دوسری جانب اہل الجزائر نے دیکھ لیا کہ ترک ہسپانویوں کی کمر توڑنے کی قوت رکھتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ وہ عدل قائم کرتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں ۔


جب میں اپنے بھائی کے ساتھ "جیجل " میں مقیم تھا تو الجزائری شہروں سے مختلف وفود ہم تک آتے ۔ ان میں اہم ترین وفد الجزائر شہر کا وفد تھا جو ان علاقوں کیلئے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اہل الجزائر ہسپانویوں کے ظلم وجور کی شکایت کرتے اور اپنی آزادی کیلئے ہم سے مداخلت کے طلبگار تھے ، چنانچہ میرے بھائی عروج نے مجھے " جیجل " میں اپنا قائم مقام مقر ر کیا اور 500 جہازرانوں کے ہمراہ الجزائر شہر روانہ ہوگیا۔


جب میرا بھائی عروج رئیس الجزائر فتح کرنے کیلئے روانہ ہوا تو میں نے "جیجل سے "تیونس " کا رخ کیا جہاں کا سلطان ہماری دشمنی میں بہت آگے تک جا چکا تھا ، مگر جب اس نے مجھے 10 بحری جہازوں کے ہمراۃ آتے دیکھا تو خوفزدہ ہو گیا اور اسے اپنی جان اور سلطنت کے لالے پڑ گئے ، بظاہر وہ ہماری تعریف کرنے لگا اور ہمارے حق میں اپنی کوتاہی پر معذرت خواہ ہوا۔


میں نے اسے کہا: تمہیں بارود فراہم کرنے سے کس چیز نے روکا ؟


اس نے جوابا کہا : مجھے بارود کیلئے تمہاری ضرورت کا علم نہ تھا اور نہ ہی میرے معاون نے مجھے اس کی اطلاع دی اور اس کوتاہی کی وجہ سے میں نے اس کی گردن مارنے کا حکم جاری کیا ہے ۔


سلطان نے واقعتا اس کی گردن مارنے کا حکم دیا لیکن اس وجہ سے نہیں کہ اس نے اسے بارود کی ہماری ضرورت سے آگاہ نہیں کیا تھا ، بلکہ کسی اور وجہ سے ۔


میں نے اسے اس مسئلہ پر رسوا کرنا پسند نہ کیا ، بلکہ یہ ظاہر کیا کہ میں اس کی بات سے مطمئن ہو گیا ہوں ، میں نے سلطان کے ہمراہ گھوڑے کی پشت پر تیونس شہر کاچکر لگایا اور پھر بندرگاہ لوٹ آیا ، میرے ساتھ میرا بڑا بھائی اسحاق رئیس ، مصلح الدین ، کورداوغلو ، ولی محمدرئیس اور دوسرے مشہور سالار تھے ۔ میں نے ان رؤساء کو بحر متوسط کےمشرق کی جانب قبرص کے نواح میں جنگ کیلئے جانے اور پھر واپس الجزائر آنے کا حکم دیا ، جبکہ خود اپنے بھائی اسحاق کےہمراہ الجزائر لوٹ آیا۔


ان رؤساء[3] بحر نے 7 بحری جہازوں پر مشرق کا رخ کیا ، راستے میں ان کا سامنا عثمانی بحری بیڑے سے ہوا جو مصر اور قبرص کے درمیان رواں تھا بحری بیڑے کی کشتیوں نے سمندر کے پانیوں کو ڈھک رکھا تھا ، جہازراں اس اتفاقیہ ملاقات سے بے حد خوش ہوئے ۔ مصلح الدین رئیس بیڑے کے قریب ہوا اور بیڑے کے سالار کے جہاز پر چڑھا ، جہاں اسےقبطان داریا[4]( امیر البحر)" جعفر بای "کے سامنے پیش کیا گیا ، جس نے اسے مخاطب ہو کر کہا : کیا تم جانتے نہیں کہ سلطان مصر میں موجود ہیں ؟تمہیں کس چیز نے ہمایوں بحری بیڑےکے ساتھ شریک ہونے سے روکا ؟


مصلح الدین بڑا عقلمند شخص تھا اس نے جواب میں کہا: میرے آقا کپتان : معاذ اللہ کہ ہم سلطان کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی برتیں ، ہم جیسا کہ آپ جانتے ہیں دوردراز کے صوبے میں ہیں اور ہمیں جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں کسی بات کا علم نہیں تھا ، اگر آپ یہ اطلاع دینے کیلئے اپنے کتوں میں سے کوئی کتا بھی ہمارے پاس بھیج دیتے تو ہم فی الفور بغیر کسی تاخیر کے پوری سمع وطاعت کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ، مملکت کی خدمت کرنا ہمارے لئے عظیم شرف ہے ۔


امیر البحر کو مصلح الدین رئیس کا جواب پسند آیا اور اس نے اس کے حسن جواب پر اسے خوش ہو کر کہا: اللہ تمہار چہرا کبھی رسوا نہ کرے ۔


مصلح الدین اپنے سات بحری جہازوں کے ہمراہ ہمایوں بحری بیڑے کے ہمراہ روانہ ہو گیا ، اور اسکندریہ بندرگاہ میں داخل ہوا ، اس اثناء میں سلطان فتح مصر کے بعد اپنی فوج کے ہمراہ قاہرہ میں مقیم تھے ، جب انھیں اسکندریہ میں اپنے بیڑے کے پہنچنے کی اطلاع ملی تو بندرگاہ آئے اور اس کا معائنہ کیا۔


سلطان نے مصلح الدین کو بڑی گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا اور سپاہیوں اور سامان حرب کے ساتھ اس کی مدد کی ، مصلح الدین یہ سب لیکر الجزائر لوٹ آئے ۔


عروج رئیس کی فتح


مصلح الدین کا سفر 2 ماہ پر مشتمل تھا ، میرا بھائی اپنے جہازوں کی واپسی اور ان کےہمراہ سلطان کی جانب سے بھیجے گئے سپاہیوں ، توپوں اور سامان حرب کو پا کر بہت خوش ہوا ۔ عروج کی الجزائر شہر میں موجودگی کے دوران میں "جیجل " میں مقیم تھا ۔


ہم نے الجزائر کا بہت سا حصہ زیرنگیں کر لیا تھا ، ساحلی قلعوں میں موجود ہسپانوی اس صورتحال سے شدید مضطرب تھے ، چنانچہ انھوں نے 40 بحری جہاز تیا رکئے ،اور تیونس چلے آئے ، حلق الوادی میں لنگرانداز ہوئے ، مگر جب انھیں ہمارے علاوہ اور کوئی ملااور انھیں ادراک ہو گیا کہ وہ ہم پرحملہ کرنے سے عاجز ہیں تو ہم سے رخ پھیر کر الجزائر بندرگاہ کا رخ کیا ، ان کا مقصد الجزائر شہر کی سب سے بڑی بندرگاہ کو عروج سے چھیننا تھا ۔


میرے بھائی عروج نے یہ رات اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدے کی حالت میں گڑگڑا کرگزاری کہ اللہ رب العزت اپنی خاص نصرت وفتح کے ذریعے احسان فرمائے ، سورج طلوع ہونے پر اس نے اپنے تمام جہازرانوں کو اکٹھا کیا ، اس کے پاس کافی تعداد میں عرب بربر اور اندلسی مجاہدین بھی تھے ۔ مگر وہ ترکوں کی طرح فنون قتال سے واقف نہ تھے بلکہ مشکل صورتحال پیش آنے پر راہ فرار اختیارکر لیتے ۔ ان کی تعداد 5 سے 6 ہزار کے درمیان تھی ، دشمن نے لگ بھگ 10 ہزار سپاہی ساحل کی جانب اتارے اس کے علاوہ کافی تعداد میں 40 بحری جہازوں پر بھی سپاہ موجود تھی ۔


میرے بھائی عروج نے شہر کے برجوں پر اپنے پرچم لہرانے کا حکم دیا اور دشمن کو پیسنے کیلئے ایک مضبوط عسکری دستہ تشکیل دیا ۔ جب رات کی تاریکی پھیل گئی تو عروج خفیہ طور پر 3 ہزار مجاہدین کے ہمراہ الجزائر کےقلعہ کے ایک دروانے سے نکلے اور پہاڑوں[5] کے گرد چکر کاٹ کر ہسپانویوں کے پیچھے معسکر زن ہوئے ۔ یہ شدید طوفان والی سخت تاریک رات تھی ، اللہ رب العزت نے اپنے مجاہدین اولیاء کی مدد میں عجلت کی ، ہسپانویوں کو 2 مشکلات کا سامنا تھا ، طوفان کی ہولناکی اور سخت تاریکی ۔ چنانچہ وہ عروج رئیس کی نقل وحرکت کا بالکل بھی اندازہ نہ لگا پائے ، جس نے اچانک حملہ کر کے ان پر ناگہانی وار کیا اور ان کا صفایا کرنا شروع کر دیا ۔ اس دوران شدید طوفان کے ساتھ ساتھ شدید ژالہ باری بھی شروع ہو گئی ۔ ہسپانوی ناگہانیت کی ہولناکی کا شکارہو کر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے ، تھوڑی ہی دیر میں انھوں نے بحری جہازوں پر موجود تمام سپاہ کو بھی خشکی پر اتار لیا ۔ چنانچہ ان کی تعداد 20 سے 30 ہزار کے درمیان تک جا پہنچی لیکن تاریکی کی شدت سے ان میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کو دیکھ نہیں پا رہا تھا ، عروج رئیس نے ان کے فوجی دستوں کا خاتمہ کرنا جاری رکھا ۔ یہ انتہائی خوں ریز جنگ تھی جو دشمن کی ہزیمت پر اختتام کو پہنچی ۔ رات کے آخر میں الجزائر کے قلعہ سے مزید ایک ہزار مجاہد نکلے اور انھوں نے بھی ہسپانوی سپاہ کا صفایا کرنا شروع کر دیا، چنانچہ ان تمام کفار کا خاتمہ کر دیا گیا جبکہ باقی ماندہ کو گرفتار کر لیا گیا۔


غازی عروج نے قیدیوں کو شمار کرنے کا حکم دیا تو ان کی تعداد 2700 تک جا پہنچی ، جبکہ ہمارے شہداء کی تعداد 300 تھی ، جنہیں دفن کر دیا گیا۔ عساکر اسلام غالب رہے ، ترکوں کاپرچم بلند ہوا ، ہسپانیہ جو کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی کافر مملکت تھی اسے میرے بھائی عروج کے سامنے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا، کارلوس کا ناک خاک آلود ہو ا، اللہ رب العزت نے کفار کا چہرہ سیاہ آلود کیا۔


عروج نے مجھے خط لکھ کر اس فتح مبین کی خوشخبری سنائی ، جب مجھے یہ خط ملا تو میرا بڑا بھائی اسحاق بھی میرے ہمراہ تھا ، ہم 10 بحری جہازوں میں الجزائر اپنے بھائی عروج کی مدد کیلئے جانے کو تیار تھے اور جب ہمارے جانے کی ضرورت باقی نہ رہی تو ہم جنگ کیلئے نکل پڑے ۔ ہم نے کفار کی 16 کشتیوں پر قبضہ کیا جن پر بارود ، سکہ ،تختے ، تارکول ،تیل چاول ، گیہوں لدے ہوئے تھے ۔ 29 دن کے بعد ہم "جیجل" واپس پلٹے ۔ جہاں مال غنیمت میں سے ایک گیہوں کی کشتی میں نے فقراء پر تقسیم کی۔


پھر مجھے عروج رئیس کا ایک اور خط ملا جس میں اس نے مجھے عرب شیوخ منافقین میں سے ایک کی گرفتاری کا حکم دیا ، چنانچہ میں فورا 500 جہازرانوں کے ہمراہ پہاڑوں کی جانب نکلا ، جہاں اس منافق شیخ کو گرفتار کیا ، اور اس کی گردن مارنے کا حکم دیا جبکہ اس کی جگہ دوسرے شیخ کو متعین کیا ۔ کچھ دن آرام کرنے کے بعد ہم 20 کشتیوں پر سوار ایک مبارک گھڑی میں الجزائر بندرگاہ پہنچے ، جہاں میرا بھائی عروج ، اسحاق اور میں اکٹھے ہوئے ، ہم بہت دیر تک آپس میں باتیں کرتے رہے ، اس طرح ہم نے یہ موسم سرما یہیں گزارا۔


موسم بہار آچکا تھا ، زمین مختلف انواع کے پھولوں سے مزین ہو چکی تھی ، کشتیوں نے بندرگاہ کو چھوڑ کر سمندر کے پانیوں کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔ الجزائر کا ایک شہر "تنس" تھا ، جس پر امراء عرب میں سے ایک شخص حاکم تھا۔باہمی اختلاف ، جھگڑوں کی وجہ سے شہر کی صورتحال بہت ابتر تھی اور اس کی تلخی شہر کے عام باسیوں کو برداشت کرنا پڑتی ، چنانچہ ہسپانویوں کیلئے اس شہر پر قبضہ کرنا بے حد آسان تھا ۔ میرابھائی غازی عروج اس شہر کو اپنی حکومت میں شامل کرنا چاہتا تھا ، اس اثناء میں اسپین کےبادشاہ کارلوس نے 10 بحری جہاز بھیجے ، بظاہر ان کا مقصد امیر تنس کی حفاظت کرنا تھا لیکن حقیقی مقصد وہاں کے مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانا تھا ۔ تنس کے سلطان کی حفاظت کیلئے ہسپانوی دستہ متعین تھا ، مگر وہ اس کے زیر تسلط علاقے میں وہاں کے باسیوں کی ملکیت ہر چیز لوٹنے کھسوٹنے اور اسے ہسپانیہ بھیجنے میں مصروف رہتا ۔


میرے دونوں بھائی اسحاق اور عروج الجزائر شہر میں ٹھہرے جبکہ میں نے 10 جہازوں کے ہمراہ تنس کا رخ کیا ، جہاں ہمارا سامنا 4 ہسپانوی جہازوں سے ہوا جو بندرگاہ پر لنگرانداز تھے ، جونہی ہسپانویوں نے ہمیں دیکھا شدت دہشت سے ان کے دل پھٹ گئے ، اور اپنے جہاز چھوڑ کر انھوں نے قلعہ کی مضبوط دیواروں کے پیچھے پناہ لی ۔ ہم نے ان کے جہازوں ، توپوں اور بندوقوں پر قبضہ کیا وہ ہر چیز چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے ۔ جبکہ میں 1500 سپاہیوں کے ہمراہ خشکی پر اترا اور ہم قلعہ کے گرد صف آراءہوگئے ، مجھے شدید مزاحمت کی توقع تھی مگر مجھے قلعہ کے دروازے کھلے ملے ، سینکڑوں مسلمان ہمیں خوش آمدید کہنے ہمارے استقبال کو نکلے ۔


اے مجاہدین : تمہیں خوش آمدید!ہسپانویوں نے اپنے حلیف امیر کے ساتھ رات کو یہ قلعہ چھوڑ دیا ، ان کی تعداد 11ہزار کے لگ بھگ تھی امیر کے حامی تمام افراد بھی نکل چکے ہیں ، جبکہ شہر میں موجود باقی ماندہ لوگ آپ اور آپ کے بھائی سلطان عروج کے علاوہ اور کسی پر راضی نہیں ۔


جونہی میں نے یہ خبر سنی میں نے ہسپانویوں اور ان کے حلیف امیر کے تعاقب میں 2 ہزار غازی بھیجے تاکہ وہ مفرورین کا تعاقب کریں ، انھوں نے اگلے دن انھیں پالیا اور چیخ کر انھیں کہنے لگے:


اے ملحدو! لٹیرو : کہاں بھاگے جارہے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ آج تمہارے لئے کوئی راہ فرار نہیں ۔


آپس میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد دونوں فریق تلواروں کے ذریعے آپس میں لڑنے لگے ، دشمن ہماری تلواروں کی ضرب اور اور بندوقوں کی آگ کو برداشت نہ کر پایا جس نے انھیں چڑیوں کی طرح شکار کیا ، معرکے کا اختتام 350 کفار کی گرفتاری پر ہوا ، جبکہ باقی تلوار کی دھار سے کٹ گئے ، ہم نے 70 یا 80 شہداء کھوئے ، اللہ رب العزت انھیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔


تنس قلعہ کی فصیل پر میں نے غازیوں کا استقبال کیا ، اور انھیں فتح کی خوشخبری سنائی ، شہداء کیلئے دعا کی ، اس جنگ میں ہر غازی کے حصے میں 500 دینار آئے ، جبکہ مجموعی طور پر ہمیں ملنے والا مال غنیمت 150 کیلا (100 کلو گرام ) سیاہ مرچ ، 75 کیلا دارچینی ، 25 ہزار گز کپڑا اور اتنا ہی ریشم ، 400 کیلا شہد ، 600 کیلا چھتوں میں موجود شہد ، ایک ہزار تھا ن کپڑا ، اور اس کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عسکری سازوسامان ہاتھ آیا۔


میں نے اپنے افسروں میں سے ایک کو تنس پر نائب مقرر کیا ، اور پھر ایک مبارک گھڑی میں 16 کشتیوں پر سوار ہو کر الجزائر چلا آیا ، جہاں اپنے بھائیوں سے ملاقات کی ، ہم نے بڑی گرمجوشی اور اشتیاق سے معانقہ کیا ، رئیس الغزاۃ عروج نے مجھے مبارکباد دیتے ہوئے کہا:


اللہ تمہاری جنگ میں برکت دے اے میرے بھائی


امیر تنس جو کہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا سلطان تلمسان کا بھتیجا تھا ، اس نے ہم سے کھائی چوٹ سے کوئی سبق نہ سیکھا بلکہ ان الفاظ کے ساتھ بکواس کرتا ہوا سنا گیا۔


شاہ ہسپانیہ کو خوش آمدید ! عنقریب وہ ان ترکوں سے انتقام لے گا ۔


ہمارے لئے یہ بات بالکل واضح ہو چکی تھی کہ اس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی اسلام باقی نہ رہا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ہسپانوی ہمارے ہاتھوں سے الجزائر چھین لینے کی قوت رکھتے ہیں اور اسے الجزائر کا سلطان بنائیں گے ۔ اس طرح سے وہ اپنی تصوراتی دنیا کے خیالات بنتا رہتا۔


پھر ہمیں علم ہوا کہ سلطان تلمسان کا بھتیجے نے اپنے گرد کے اعراب اور ہسپانویوں کی مدد سے "تنس " پر قبضہ کر لیا ہے اور اہل تنس جنہیں ہم نے ہسپانویوں کے ظلم سے نجات دلائی تھی اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ وہ ان کا امیر بن جائے ۔


جب عروج تک یہ خبر پہنچی تو اس کے دل میں انتقام نے جوش کھایا اور اس نے خود جانے کا فیصلہ کیا ، چنانچہ اس نے الجزائر کے علماء کو جمع کیا اور ان سے پوچھنے لگا :


معزز ین کرام : شریعت میں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو ہسپانوی کفار سے دوستی کرے ، اسلامی زمین شاہ ہسپانیہ کو بیچ ڈالے جو کہ ہمارے دینی بھائیوں کے قتل کیلئے نکلے ہیں ۔ اور ہماری نصیحت و خیرخواہی کو طنز واستہزاء اور ناشکری کی نظر سے دیکھے ۔


علماء کا جواب تھا: اس کو قتل کرنا واجب ، اس کا خو ن رائیگاں اور مال مباح ہے ، پھر انھوں نے یہ فتویٰ لکھ کر عروج کے حوالے کیا۔




[1] یاد رہے کہ بجایہ کو مکمل طور پر فتح اورہسپانویوں کو پوری طرح یہاں سے نہیں نکالا جاسکا ، ایسا صالح رئیس بیلربای کے دور حکومت میں 1545 کو ممکن ہو سکا ، خیرالدین کی تحریر سے مراد صرف شہر کا قلعہ فتح کیا گیا۔




[2] کارلوس: ترکی مصادر میں اسی طرح معروف ہے ، جبکہ عربی مصادر میں یہ شارل خامس(چارلس پنجم) یا شارلکان کے نام سے معروف ہے ، ہسپانیہ اور جرمنی کا بادشاہ ، سلطان سلیمان القانونی کا ہم عصر، 16 ویں صدی کے نصف اول میں اس کا شمار یورپ کےسب سے بڑے بادشاہ کے طور پر ہوتاتھا۔


[3] رئیس لفظ عموما ترک عسکری جہازرانوں پر بولا جاتاہے ، چاہے یہ مملکت کی خدمت میں ہوں یا خودمختار حیثیت سے سمندر میں جنگ لڑ رہے ہوں ۔ انھیں ترکی میں (Levent) کہا جاتا ہے ، مؤرخین اور محققین نے عثمانی تاریخ میں اس کا استعمال کیا ہے ، ہم دوسرے عسکری عہدوں سے تمیز کیلئے اس کا استعمال کریں گے ۔


[4] قبطان داریا: عثمانی بیڑے کا قائد عام ، یہ عثمانی بحریہ میں سب سے اعلیٰ رتبہ تھا۔


[5] الجزائر شہر کے گرد موجود پہاڑ

 

ربیع م

محفلین
خائن کی گردن زنی

میرے بھائی عروج نے ہمیں الوداع کہا اور تنس کی جانب روانہ ہو گیا ، جب اہل تنس نے دیکھا کہ عروج شہر کے قریب آگیا ہے تو وہ معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سلطان تلمسان کے بھتیجے کو گرفتار کرکے عروج کے پاس لے آئے اور کہنے لگے : آپ سلطان اور ہم آپ کے غلام ہیں ، ہم سے غلطی ہوئی اورہم معافی کے طلبگار ہیں ۔اور اس طرح سے منافقانہ جملے بولنے لگے ، میرا بھائی رقیق القلب شخص تھا ، منافقت اور دوغلے پن کو ناپسند کرنے والا ، احسان ودرگزر کرنے والا ، کشادہ دل کا مالک ، چنانچہ اس نے اہل تنس کو معاف کردیا ۔

پھر ان کے امیر کو بلایا اور اسے ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا : اے گھٹیا انسان ، تو نے وہ کام کیا ہے جس کے کرنے کی جرات آج تک کسی انسان کو نہیں ہوئی ، مجھے تیری ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں جو تو نے میرے بارے میں پھیلارکھی ہیں کہ میں قزاق ہوں ، سمندروں میں ڈاکہ زنی کے علاوہ اور مجھے کوئی کام نہیں ۔ لیکن اے ملعون تو نے اپنے آپ کو ہسپانیہ کے بادشاہ کا غلام بنا رکھا ہے ۔کیا تو نہیں جانتا کہ تیرے بادشاہ نے اندلس میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل کیا ۔ ہم قزاق نہیں بلکہ مجاہد ہیں اور اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں ۔ واللہ الحمد

پھر جلاد کو حکم دیا کہ اس خائن کی گردن مار دی جائے ، پھر اس کے بعد رؤساء عرب کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا اور انھیں کہا کہ تمہیں چاہئے تھا کہ جب یہ تمہارے پاس آیا اس ملعون کی مشکیں کس کر میرے پاس بھیج دیتے ۔

اور مجھے دیکھنے کے بعد تم نے جو کچھ کیا اس سے تمہاری ذمہ داری معاف نہیں ہو جاتی ، کیا تم نے بطور سلطان میری بیعت نہیں کی تھی ؟ کیوں تم نے اپنی قسموں کو توڑا، پھر ان کی بھی گردنیں مارنے کاحکم دے دیا۔

جب اہل تنس نے دیکھا کہ معاملہ حد درجہ سنگین ہے تو ان سب نے عروج رئیس کی دوستی اور امارت کا حلف اٹھایا اور وعدہ کیا کہ وہ اس کے علاوہ کسی سلطان پر راضی نہ ہوں گے ۔

میرا بھائی عروج جانتا تھا کہ تلمسان ہی تمام فتنوں کا مرکز ہے ۔ یہ بہت بڑا شہر تھا جو الجزائر کے مغرب کی آخری حدود میں " فاس" کی سرحد کے قریب واقع ہے ، اس کے اوپر عرصہ دراز سے ایک خاندان کی حکومت تھی[1] ۔

عروج رئیس کی شہادت

سلطان تلمسان انتہائی حقیر وعاجز ہسپانیہ کے کفار کا تابع بادشاہ تھا، جبکہ وہاں کے باسیوں کو ہسپانویوں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے سلطان کے ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ عرصہ دراز سے اہل تلمسان "الجزائر " میرے بھائی کے پاس اپنی فریادیں لے کر آتے کہ وہ ظالموں سے ان کا حق چھین کر دے جبکہ میرے بھائی کا ارادہ " تلمسان " پر قبضہ کرنے کا تھا ،لیکن وہ انتہائی دور فاس کی حدود پر واقع تھا ، اسی طرح وہ کوئی ساحلی شہر بھی نہ تھا کہ جہاں تک کشتیوں کے ذریعے پہنچا جا سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے سلطان کے پاس عربوں اور ہسپانویوں پر مشتمل ایک بڑی فوج تھی ، تلمسان الجزائر کا سب سے بڑاشہر تھا ، اور اس کی فتح انتہائی مشکل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی طے تھی کہ جب تک تلمسان کو فتح نہ کرلیا جاتا الجزائر میں استحکام نہیں آسکتا تھا ۔

اس دوران اہل تلمسان نے بغاوت کی جس کے نتیجے میں سلطان وہاں سے فرار ہوگیا ، اورانھوں نے میرے بھائی عروج کی جانب وفد بھیجا اور سلطان کے طور پر اس کی بیعت کی ، میرا بھائی بغیر کسی جنگ وجدل کے اسے اپنی سلطنت میں شامل ہونے پر بے حد خوش ہوا۔

اہل تلمسان کی عروج کو سلطان بننے کی دعوت نے ہسپانیہ میں لرزہ طاری کر دیا ،افریقہ میں ہسپانیہ کا سب سے بڑاسالار" وہران " قلعہ میں مقیم تھا جوکہ مغربی الجزائر کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی ۔ اسی طرح وہ ہسپانیہ کے بالمقابل واقع تھی ، اس کے ساتھ ساتھ وہاں ایک مضبوط قلعہ تھا جہاں ہزاروں سپاہی رہ سکتے تھے ۔ اس وقت تک تلمسان وہران میں موجود ہسپانوی سپاہیوں کے زیر تسلط تھا ، جب میرا بھائی تلمسان کا حاکم بن گیا تو اس نے وہران سے تمام تعلقات ختم کرنے کاحکم دیا۔

دوسری جانب وہران میں ہسپانوی سالار کے پاس کافی تعداد میں سپاہ موجودتھی مگراس کے باوجود اس نے ہسپانیہ سےمزید کمک طلب کی ۔

عروج نے فیصلہ کیا کہ یہ موسم سرما تلمسان میں گزارے گا اس کے ساتھ 4 ہزار سپاہی تھے ، مگر یہ بات بھی قابل قبول نہ تھی کہ الجزائر کا قلعہ جو ابھی کچھ عرصہ پہلے فتح ہوا تھا پورے موسم سرما میں سپاہیوں سے خالی چھوڑا جائے ، کیونکہ الجزائر شہر کو کھودینے کا مطلب ہے پورا الجزائر کھو دینا ۔

چنانچہ اس نے تلمسان میں اپنے ہمراہ محض ایک ہزار سپاہ رکھی ، میرا بھائی چاہتاتھا کہ موسم بہار کی آمد پر تلمسان سے وہران کا رخ کرے اور جس وقت وہ اپنی فوج کے ساتھ تلمسان میں تھا میں الجزائر میں تھا ، اس نے میری جانب 15 حملا چاندی کے سکے اور 3 ہزار سپاہی بھیجے ۔

تلمسان میں عروج کو محض ہسپانوی خطرے کا ہی سامنا نہ تھا بلکہ شہر سے مفرور سلطان کا خطرہ بھی درپیش تھا جس نے اپنے گرد بہت سے اوباش جمع کرلئے تھے جو اس کے پاس لوٹ مار اور نوچ کھسوٹ کیلئے جمع ہوئے تھے اور پھر وہ ایسے موقع کی تلاش میں رہنے لگے جب میرے بھائی کا خاتمہ کرسکیں ۔

دوسری جانب سلطان تلمسان نے وہران میں موجود قابض کافر سالار کو خط لکھ کر اسے عروج کے خلاف مدد کرنے پر تحریض دلائی اور کہا:

میں ترک قزاقوں کے ہاتھ لگ گیا ہوں اور اپنے اموال ان سے چھڑوانے کی قوت نہیں رکھتا ، کہاں ہے تمہارے بادشاہ کی عظمت اور شان وشوکت ، کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ تم مٹھی بھر قزاقوں کے خوف سے اپنا سر بھی نہیں اٹھاسکو گے ۔

وہران میں موجود ہسپانوی سالار نے سلطان تلمسان کی جانب 20 ہزار دینار بھیجے اور اسے آگاہ کیا کہ وہ ایک بڑا لشکر تیار کررہا ہے ۔

یہ بات طے تھی کہ یہ سالار موسم بہار کی آمد پر وہران سے ایک بڑا لشکر (عرب اورہسپانوی سپاہ پر مشتمل ) لے کر عروج کے خلاف جنگ کیلئے نکلے گا ۔ جبکہ سلطان تلمسان نے بہلا پھسلا اور جھوٹے سچے خواب دکھا کر اپنے گرد 20 ہزار کے قریب بربر جمع کر لئے ، پھر وہران سے ہسپانوی سالار کی قیادت میں 10 ہزار افراد پر مشتمل ایک اور لشکر بھی ان سے آملا، یہ ہسپانوی کتا انتہا درجے کا مغرور اورشیخی خور تھا!!

عروج نے کھلی فضاء میں اس لشکر کا مقابلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا ، چنانچہ شہر کو خالی کرنے اور قلعہ بند ہونے کاحکم دے دیا، کفار تلمسان شہر میں داخل ہوئے اور ایسے مظالم ڈھائے جنہیں عقل تسلیم کرنے سے عاجز ہے ۔ پھر قلعہ کا محاصرہ کر لیا ۔ میں الجزائر شہر میں تھا مجھے اطلاع مل رہی تھی کہ تلمسان کی صورتحال برابر بگڑتی جارہی ہے ،چنانچہ میں نے 2 ہزار ترک سپاہی اور 2 ہزار عرب سوار اپنے بھائی اسحاق کی قیادت میں دئیے اور اسے تاکید کی کہ وہ جلد ازجلد عروج تک پہنچنے کی کوشش کرے تاکہ اس کی مدد کی جائے ، میرا بھائی اسحاق اس سپاہ کے ساتھ نکلا ، اس کے ساتھ اس کا وکیل اور معاون سکندر رئیس بھی تھا ۔

جب عروج کو علم ہواکہ اسحاق ہسپانویوں کےخلاف جنگ کیلئے اس کی مدد کو نکل کھڑا ہوا ہے تو دونوں سپاہ کو یکجا کرنے کیلئے قلعہ سے نکلا ، تلمسان شہر سلطان کے ہاتھ میں جا چکا تھا ۔ عروج اور اسحاق رئیس کی سپاہ آپس میں مل گئی اور میرا بھائی تلمسان شہر کی واپسی کیلئے سوچنے لگا۔

سلطان تلمسان اس خاندان کاآخری بادشاہ تھا جس نے کئی سو سال اس شہر پر حکومت کی ، بلکہ بسا اوقات کچھ عرصہ کیلئے ان کی حکومت پھیل کر پورے الجزائر پر محیط ہو گئی ۔ ان باتوں کے پیش نظر میرا بھائی عروج اس خاندان کو ان کی سلطنت اور تاج سے محروم نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ محض یہ چاہتا تھا کہ کہ سلطان ہسپانویوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے سے باز آجائے اور ہماری عظیم سلطنت کا مطیع بن جائے ، پس اگر وہ دونوں شرائط قبول نہیں کرتا تو ہم اس کا وجود مٹانے کیلئے مجبور تھے ۔

عروج 2 ہزار سپاہ کے ساتھ تلمسان لوٹا جہاں اس کا سامنا 10 ہزار افراد پر مشتمل ہسپانویوں اور عرب بدوؤں کے لشکر سے ہوا۔ دونوں کے درمیان شدید جنگ چھڑگئی جو ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی ، تلواریں خون سے رنگین ہوگئیں اس خوں ریز معرکہ کے نتیجے میں زیادہ تر کفار مارے گئے اور محض 300 یا 400 باقی بچے جنہیں قید کرکے الجزائر لے جایا گیا۔

شاہ ہسپانیہ کارلوس نے وہران میں موجود اپنے گورنر کے نام حکم بھیجا جس میں اسے کہا: اگر تم اپنا سر سلامت رکھنا چاہتے ہو تو عروج رئیس اور اس کے ساتھ موجود تمام ترکوں کا خاتمہ کرو ، عروج رئیس کو زندہ گرفتار کرکے میری جانب بھیجو ، میں قتل کے ایسے اذیتناک طریقوں سے واقف ہوں جو کہ صرف اسے ہی چکھانا چاہتا ہوں ۔

اس حکم کی بنیاد پر وہران کا حاکم 30 سے 40 ہزار کے لشکر کے ہمراہ میرے بھائی کی جانب روانہ ہوا، ان دونوں کے درمیان 3 ماہ تک شدید جھڑپیں چلتی رہیں مگر میرے بھائی نے ہتھیار نہ ڈالے ۔ چنانچہ گورنر نے اپنے تمام سالاروں کو اکٹھا کیا اور کہا: ترک سخت ضدی قوم ہیں اور کبھی بھی ہتھیار ڈالنے پر راضی نہ ہوں گے اگرچہ یہ سب کے سب مارے جائیں ، ہم کب تلک قلعہ کی دیواروں تلے انتظار کرتے رہیں گے ، ہم ان کی جانب قاصد بھیج کر انھیں یہ پیشکش کرتے ہیں کہ وہ اپنا اسلحہ ہمراہ لے جائیں اور یہ قلعہ ہمارے لئے چھوڑ دیں ، یقینا جب ان کی رسد کے ذخائر ختم ہو جائیں گے تو وہ یہ پیشکش قبول کرلیں گے ۔جبکہ اگر ان کی رسد ختم نہیں ہوئی تو یہ اس وقت تک ہتھیار نہیں ڈالیں گے جب تلک ان کا ایک شخص بھی زندہ باقی ہے ۔

اگلی صبح ہسپانوی قاصد عروج کے سامنے پیش کیا گیا ، اس سے ملاقات کے بعد میرے بھائی نے اپنے ہمراہ موجود سپاہ سے کہا: اے بیٹو! اس قاصد کی بات تم نے سن ہی لی ہے ، تمہاری کیا رائے ہے ؟

سپاہیوں نے جواب میں کہا: یقینا زندگی موت سے زیادہ بہتر ہے ، ہم الجزائر نکل جاتے ہیں اور پھر دوبارہ اس قلعہ کو واپس لینے کیلئے لوٹیں گے ، یہ ہماری رائے ہے لیکن فیصلے کا اختیار تیرے پاس ہے تم ہم سے زیادہ معاملہ فہم ہو۔

عروج قلعہ کفار کے حوالے کرنے پر راضی ہو گیا ، کفار کو اس سے بے حد خوشی ہوئی ، کیونکہ ان کا مقصد مذاکرات میں طے شدہ باتوں پر عمل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ عروج اور اس کے ہمراہ موجود ساتھیوں کا قلعہ سے نکلنے پر خاتمہ کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے دل میں ذرہ بھر بھی ایفائے عہد کی نیت نہ تھی ، اگر شاہ کارلوس کو علم ہو جاتا کہ انھوں نے ترکوں کو زندہ نکل جانے دیا ہے تو وہ گورنر وہران کا سر قلم کرنے کا حکم صادر کرتا۔

عروج اپنے ساتھ موجود سپاہ کے ساتھ قلعہ سے نکلا، جن میں سے اکثریت یا تو زخمی تھی یا بھوک کی شدت اور طویل عرصہ کی مسلسل بیداری کی وجہ سے شدید تھکاوٹ کا شکار تھی ، ان کے موجود اسلحہ اور ذخیرہ ختم ہو چکا تھا ۔ ابھی انھوں نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ ہسپانوی فوج ٓکا ایک دستہ جو کہ 15 سے 20 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا سے ان کا سامنا ہو ا، اس لشکرکے سالار نے انھیں کہا : اپنا اسلحہ ہمارے حوالے کر دو ،کیاتمہارے لئے اتنا ہی کافی نہیں کہ تمہیں زندہ سلامت واپس جانے دیا جارہاہے ؟

عروج نے جواب دیا: اسلحہ تمہارے حوالے کرنے سے موت زیادہ افضل ہے ، ہم موت سے نہیں ڈرتے ، انسان ایک بار ہی مرتاہے لیکن اس کا نام ہمیشہ باقی رہ جاتا ہے ۔ اس طرح سے یہ معرکہ شروع ہوا ، ترک سپاہیوں نے کفار کے خلاف اپنا دفاع شروع کیا ، میرا بھائی اپنے سامنے آنے والے ہر کافر کوکاٹ رہا تھا ، لیکن ہر حملے میں بہت سے شہداء گرتے ، ترکوں کی تعداد 300 یا 400 افراد سے زائد نہ تھی ، میرا بھائی اور اس کے ساتھ موجود سپاہی دریا تک پہنچے اور دریا عبور کرنے کا ارادہ کیا ، نصف ترکوں نے دریا عبور کر لیا مگر ہسپانوی انھیں آلینے میں کامیاب ہو گئے ۔میرا بھائی اپنے ساتھیوں کی پکار کو برداشت نہ کر سکا جو اسے مدد کیلئے بلا رہے تھے ، وہ ان سے ایک والد کی اولاد کی طرح محبت کرتا تھا چنانچہ اس کیلئے واپسی کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔

حزم کاتقاضہ یہ تھا کہ وہ اپنے ساتھ موجود سپاہیوں کے ہمراہ جان بچا کر الجزائر کارخ کرتا اور پھر اپنی قوتوں کو مجتمع کرکے اپنے بھائیوں کا انتقام لینے کیلئے دوبارہ واپس آتا ۔ لیکن ترک جہازراں عروج رئیس کو بابا کے نام سے پکارتے تھے ، اور کیا کسی باپ کیلئے ممکن ہے کہ وہ اپنی اولاد کو تلوار کی دھار پر چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرے ۔

عروج واپس پل کی جانب پلٹا اور دشمن کی صفوں میں گھس گیا ، ہر سامنے آنے والے دشمن کو نوک شمشیر پر رکھا ، مگر جہازرانوں کے اندر لڑنے کی قوت باقی نہ رہی ، بلکہ انھیں اتنی شدید تھکاوٹ پہنچ چکی تھی کہ ان میں سے کئی ایک تلوار اٹھانے کی قوت بھی نہیں رکھتے تھے ، یہ شدید گرم دن تھا ، پیاس کی شدت سے ہونٹ پھٹ چکے تھے ۔

میرے بھائی نے شہید ہونے سے قبل تقریبا 100 ہسپانویوں کو قتل کیا ، شہادت کے بعد انھوں نے اس کا مبارک سر کاٹ کر شاہ کارلوس کو بھیجا ، جبکہ میرا بڑا بھائی اسحاق اس سے کچھ ماہ قبل "القلاع" قلعہ میں شہید ہو چکاتھا۔

ہم چار بھائی تھے ، ان میں سے 3 اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ، اللہ رب العزت کی ذات کتنی حکمت والی ہے میں وہ تنہا بچا تھا جس کے مقدر میں شہادت نہیں تھی ، جس کا مطلب یہ کہ میرے 3 بھائی اللہ کے نزدیک مجھ سے زیادہ افضل ہیں ، اللہ رب العزت ان تمام کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔

جب میرے بھائی کی شہادت کی خبر الجزائر پہنچی تو میں نے فیصلہ کیا کہ صرف ایک ہی مقصد کیلئے زندگی گزاروں گا اور وہ ہے اسی راہ پر گامزن رہنا جس پر میرا بھائی چلتارہا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے افریقہ اور بحر متوسط میں کفار کا جینا حرام کرناہے ، میرے بھائی کی شہادت کے بعد زندگی کی کیاقیمت؟

یہ کمزوری اور اظہار غم کا موقع نہ تھا ، بلکہ ہمارے پاس تو رونے کا بھی وقت نہ تھا ، ہم افریقہ میں محض چند مٹھی بھر ترک تھے ، پلک جھپکنے کی غفلت میں ہمارا خاتمہ ہو سکتا تھا ، میں نے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کیں ،لیکن دشمن کو الجزائر کی جانب پیشقدمی کرنے کی ہمت نہ ہو سکی ۔

یہ موسم سرما میں نے پوری تیاری حالت میں گزارا ، میں اپنے آپ کو فرصت کا ایک لمحہ بھی نہ دیتا تاکہ اپنے بھائی کے بارے میں سوچنے کا موقع نہ مل سکے ۔ جبکہ رات کے وقت وہ خواب میں دکھائی دیتا ، میں بیدار ہوجاتا ،اور میرادل غم سے بھر جاتا، میں اپنے آپ کو کام میں مصروف کر لیتا تاکہ اپنی توجہ کو ہٹا سکوں ۔اس دوران میں نے اپنی تمام کشتیوں ،توپوں ، اورسامان کی مرمت کی ، ان میں بہتری پیدا کی ۔

ہسپانوی کہتے تھے : عیسی ٰ کا شکر ہے کہ ہم ایک بڑی آزمائش سے راحت پا گئے ، اب ہمیں چاہئے کہ جلد ازجلد اس چھوٹی مصیبت سے چھٹکارہ پالیں ، اس سے پہلے کہ یہ سانپ اژدھے میں بدل جائے ۔

میرے پاس شاہ ہسپانیہ کا قاصد آیا اور کہنے لگا: تیرا بھائی مرچکا اور اس کے اکثر سپاہی مارے جاچکے ، تیرا ایک بازو کٹ گیا، تو کس گھمنڈ میں ہے کہ اپنے بھائی کے بغیر سب سے طاقتور مسیحی بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوسکے ؟ تو کیا کر سکتاہے ؟ اپنی کشتیاں اور آدمی سنبھالو اور فی الفور الجزائر سے نکل جاؤ، اور خبردار کبھی تمہارے قدم دوبارہ افریقا کی سرزمین پر لگیں ، یہ آخری تنبیہ ہے جو میں تمہیں کررہا ہوں ، عنقریب میں سمندر کو کشتیوں سے بھر دوں گا اور جلد الجزائر لوٹوں گا ، پس اگرمیں نے تمہیں یہاں پا لیا تو جان لو کہ تمہارا انجام بہت حسرتناک ہو گا۔

میں الجزائر کا سلطان ، اور کے ساتھ الجزائر کے بیلر بائی کے منصب کے طور پر آل عثمان کا ایک خادم ، مگر مجھے یورپ میں الجزائر کے بادشاہ کے نام سے جانا جاتا تھا، جب ہسپانیہ کے بادشاہ نے مجھے اس قدر حقارت بھرے لہجے میں مخاطب کیا تو اسے اس کی حد میں رکھنا لازم ہو چکا تھا، اس لئے میں نے اس کی جانب انتہائی سخت لہجے میں خط بھیجا۔

جب اس تک میرا جواب پہنچا تو اس نے اپنے بحری بیڑے روانہ کئے ، جنہوں نے افق کو ڈھانپ لیا ، جس میں شاہان ناپولی ، صقلیہ جرمنی ، بلجیکا شریک تھے ، جو کہ کارلوس کے تابع تھے ، ان کے جہاز الجزائر کے گرد لنگرانداز ہوئے ، جہاں سے انھوں نے اپنی فوج خشکی پر اتاری ۔

میں موسم سرما سے ہی اس کیلئے اچھی طرح تیاری کر رہا تھا، کیونکہ مجھے ان کے ردعمل کا اندازہ تھا ، چنانچہ جونہی انھوں نے اپنی سپاہ کو اتارا ،ہم نے انھیں تلوار کی کی دھار پر رکھا ، ان میں سے بہت سے مارے گئے ،جبکہ 20 ہزار میں سے 700 سے 800 کے درمیان کفار نے ہتھیار ڈال دئیے ، جبکہ باقیوں نے فرار ہو کر اپنی کشتیوں میں پناہ لی ۔ کارلوس کے بھیجے گئے بادشاہ اور سالار ہزیمت کی دم گھسیٹتے ہوئے الجزائر کی سرزمین میں ناک خاک آلود کر کے واپس لوٹے ، اس معرکہ کے نتیجے میں افریقہ میں ترکوں کی شان وشوکت میں اضافہ ہوا ، اور یورپ کے کونے کونے تک ہمارا چرچا پھیل گیا۔

الجزائر میں 13 ہزار قیدی تھے جن میں سے 24 بڑے کپتان تھے جو فرنگیوں کے ہاں ایڈمرل کے نام سے جانے جاتے تھے ، ان کو کنٹرول میں رکھنا انتہائی مشکل کام تھا ،ایک مرتبہ انھوں نے اپنی بیڑیاں توڑیں اور فرار کی کوشش کی اور ہم ایک بڑی جنگ کے بعد ہی ان پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے جس کے نتیجے میں ان میں سے 300 افراد مارے گئے۔

میں نے سکے ڈھالنے اور سلطان سلیم خان کے نام کا خطبہ پڑھنے کا حکم دیا ،میرا مقصد یہ تھا کہ سلطان سلیم خان کے نام کے علاوہ کسی اور سلطان کے نام کے سکے نہ ڈھالے جاسکیں اور نہ ہی ان کےعلاوہ کسی اور کے نام کا خطبہ پڑھایا جائے۔

اس دوران مراکش کا حکمران افریقا میں عرب حکمرانوں میں سب سے بڑا سمجھا جاتا تھا ، میرا یہ خیال تھا کہ جب تک مراکش کے حکمران کو تابع نہیں کیا جاتا تب تلک افریقا پر ترکوں کا اقتدار مضبوط کرنا مشکل ہے ، اور ایک دن میں نے امراء عرب کو اپنے پاس الجزائر میں طلب کیا اور انھیں مخاطب کر کے کہا:

سلطان معظم سلیم خان اب خلیفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، چنانچہ تمہارے لئے کس طرح یہ لائق ہے کہ تم خلیفۃ المسلمین اور سلطان عالم کو چھوڑ کر مراکش کے سلطان کا سکہ چلاؤ اور اس کے نام کا خطبہ پڑھو…؟!

یقینا تمہارا اور تمہارے علاقوں کا مستقبل سلطان معظم کےنام کا سکہ جاری کرنے کے ساتھ وابستہ ہے اور اگر تم نے مخالفت کی یا نافرمانی کی تو تمہارے لئے ہلاکت ہو …

میں نے حاجی حسین آغا جو میرے آدمیوں میں سے معتمد ترین شخص تھا اس کی قیادت میں ایک وفد سلطان سلیم خان کی جانب روانہ کیا ، 21 دن کے سمندری سفر کے بعد حسین آغا دنیا کے قیمتی ہیرے اتنبول شہر پہنچے ، سلطان نے ساحلی محل میں ان کا استقبال کیا ، حسین آغا نے سلطان کی خدمت میں میرے بھیجے گئے متواضع تحائف پیش کئے ، ان تحائف کو 20 افرنگی غلام اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے ، سلطان نے ان تحائف کو قبول کر کے ہمیں عزت بخشی اور اپنی خصوصی مہربانی و عزت افزائی کے ساتھ ان کیلئے اظہار پسندیدگی کیا،

سلطان نے آغا کوخلعت سلطانی پہنائی اور میرے کپتانوں کے اکرام اور شاہی مہمان خانے میں کو ٹھہرانے کا حکم دیا ، آغانے سلطان سے ملاقات کے بعد بقیہ مملکت کے ارکان سے ملاقات کی اور ان کی جانب ہمارے بھیجے گئے عاجزانہ تحائف پیش کئے۔

آغا دنیا کے اس دارلحکومت استنبول میں 41 دن ٹھہرا ، میرے کپتانوں نے یہ دن کھانے پینے آرام و عیش میں گذارے ، اور جب ان کے سفر کی گھڑی آن پہنچی تو سلطان نے حکم دیا کہ الجزائری کشتیاں اس کے ساحلی محل کے قریب سے گذریں تاکہ وہ ان کا معائنہ کر سکے ، چنانچہ کشتیاں ان کے سامنے سے پریڈ کرتی ہوئی سلامی کے گولے داغتی ہوئی گذریں ۔ استنبول چھوڑنے سے قبل آغا سلطان سے الوداعی ملاقات کیلئے ملا ، جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوا تو اس کے سامنے زمین کو 7 بار بوسہ دیا ، اس ملاقات میں سلطان نےاسے شاہی فرمان عطاء کیا جو سلطان نے خود تحریر کیا تھا جس میں میری الجزائر کے بیلربائی کے طور پر تعییناتی کا حکم تھا ، پھر اسے ایک مرصع تلوار، طلائی خلعت اور پرچم امارت حوالے اور اسے کہا:

سنو اے رئیس: یہ تلوار خیرالدین پاشا کے سپرد کرو تاکہ وہ اسے پوری عزت و شرف کے ساتھ باندھے ، یہ خلعت سلطانی زیب تن کرے اور میرا یہ پرچم ہمیشہ اس کے ساتھ ہو اس سے کبھی جدا نہ ہو ، میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں کہ اللہ رب العزت تمہاری نصرت فرمائے اور الجزائر میں موجود میں خادم مجاہدین کے چہرے روشن کرے ۔ آمین

آغا حسین نے جب استنبول چھوڑا تو اس کی کشتیاں جنوب مورۃ میں واقعہ قورون بندرگاہ میں لنگرانداز ہوئیں ۔بندرگاہ میں وینس کے 8 جہاز اور بے شمار ترک کشتیاں کھڑی تھیں ،حسین آغا نے وینس کے جہاز کے ایڈمرل سے ملاقات کی اور اسے کہا:

الجزائر سلطان سلیم کے تابع ہو چکا ہے اور ہمارے آقا خیرالدین پاشا الجزائر کے بیلر بائی ہیں ، اسی طرح ہمار بیڑہ عثمانی بحری بیڑے کا ایک حصہ ہے ، اس لئے اب ہم استنبول سے آنے والے احکامات کے مطابق چلیں گے اگر تو تم ہمارے سلطان کے حلیف ہو تو الجزائر کی کشتیوں سے تمہیں کوئی خوف نہیں ، جبکہ اگر تم سلطان کے دشمن ہو تو ہم یہ سمندر تمہارے لئے تنگ کر دیں گے ۔

حسین آغا قورون سے 8 دن بعد الجزائر پہنچا ، اس طرح سے اس کا استنبول سے الجزائر کا سفر 16 دنوں پر مشمل تھا۔

میں نے فی الفورحسین آغا اور اس کے ساتھ استنبول سے لوٹنے والے کپتانوں کو بلایا جب وہ میرے سامنے پیش ہوئے تو میں نے پورے عزت واحترام سے سلطان کے بھیجے گئے تحائف وصول کئے ، ان کا بوسہ لیا ، اور انھیں اپنے سر پر رکھا ۔ تلوار باندھی ، خلعت سلطانی زیب تن کی ، پرچم امارت اپنے قریب ایک بلند جگہ پر نصب کیا ، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا گویا میں مسرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوں ، آج کے بعد ہسپانوی مجھے کسی پریشانی میں مبتلا نہیں کر سکیں گے ، کیونکہ سلطان معظم سلیم خان میری پشت پر ہیں ، اور میں ان سے جو طلب کروں گا وہ اپنے کرم وعنایت سے میرے مطالبے کو پورا کرنے میں بالکل بھی متردد نہیں ہوں گے ۔

اس رات میں نے ایک بڑی محفل کا انعقاد کیا ، حسین آغا کو اس کی حسن سفارت اور اس کے ذمہ سپرد کی گئی مہم کی بطریق احسن ادائیگی پر بطور انعام الجزائر میں ایک بڑے منصب پر متعین کیا ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں تھا ہمارے سب سے بڑے دشمن ہسپانوی کافر ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ دوسری کافر اقوام مثلا جنیوا سے بھی ہم حالت جنگ میں تھے ، مگر جب سے ہم الجزائر میں ٹھہرے تھے ہم الجزائر ، تیونس ومراکش کے مقامی امراء اور ان جیسے افراد کے ساتھ مشغول ہونے پر مجبور تھے ۔

مراکش پر ایک قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والا سلطان حاکم تھا، مگر آخری ایام میں اندرونی جنگوں کے سبب وہ اپنی قوت واستحکام کھو بیٹھا تھا اور شمالی افریقہ میں مراکش کی مملکت کے علاوہ اور کوئی مملکت باقی نہ بچی تھی ، جبکہ تیونس اور تلمسان جہاں الحفصیوں اور بنو عبدالوادی حاکم تھے ان کی بالکل کوئی اہمیت باقی نہ رہی تھی۔

تیونس اور تلمسان کے امراء نے ہسپانیہ کے کفار کے ساتھ ہمارے خلاف اتحاد قائم کرنا اور خفیہ واعلانیہ ہمارے خلاف سازشوں کاسلسلہ شروع کر دیا ، وہ جانتے تھے کہ ہم پہلی میسر فرصت میں ان سے چھٹکارہ پائیں گے ، کیوں ؟

میں اس کی وضاحت کرتا ہوں :

جب ہم بحرمتوسط کے مشرق سے مغرب میں آئے اور تیونس کے حفصی سلطان کے ساتھ معاہدہ کے مطابق وہاں رہنے لگے ، ہماری مہربانی سے اہل تیونس مالدار ہو گئے ، تیونسی شہر بربادی کے بعد پھلنے پھولنے لگے ، اور ہماری مہربانی سے سلطان تیونس ہسپانویوں اور اہل جنیوا کے شر سے محفوظ ہو گیا، خزانہ ہمارے دئیے گئے خراج کی وجہ سے مال ودولت سے بھرنے لگا ، ہم اس پر بہت خوش تھے ، اللہ گواہ ہے ہمارے لئے اس کے مال ومملکت میں کوئی طمع نہ تھی ، وگرنہ اگر ہم ایسا کرنا چاہتے تو ہمیں ایسے بہت سے مواقع میسر آئے جس میں ہم اس کا خاتمہ کرسکتے تھے لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔

ان حالات میں ہم نے الجزائر فتح کیا، اور ہمارے قبضے میں تیونس سے بڑی مملکت آگئی اور ہم نصرانی مملکت کے خلاف جنگ کے ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے جس میں سستی وکوتاہی کی کوئی گنجائش نہ تھی ،اسلام کے ناطے سے سلطان تیونس پر لازم تھا کہ وہ اس جنگ میں ہماری مدد کرتا لیکن وہ عثمانیوں کی حمایت میں داخل ہونے اور سلطان سلیم خان سے اعلان وفاداری کرنے سے پہلے ہی ہم سے خوفزدہ تھا۔

ہم جانتے تھے کہ آل عثمان ایک عالمی مملکت کا حاکم خاندان ہے اور سلطان سلیم خان نے چند سالوں میں وہ ملک فتح کئے جو تیونس سے رقبہ میں 100 گنا بڑے تھے ، سلطان تیونس کا گمان تھا کہ ہمارے سلطان معظم سلیم خان اس کی حقیرسلطنت میں طمع رکھتے ہیں اور وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ ہمارے سلطان کے بیلر بای تیونس سے زیادہ سرسبزوشاداب علاقوں کے مالک ہیں اور ان کی عسکری فوج اس کی افواج سے کہیں بڑی ہیں اور میں سلطان سلیم خان کا بیلر بای جو ہسپانیہ کے بادشاہ پر غالب رہا جو نصف یورپ پر حکومت کرتاتھا ۔ اس طرح سے ہمارے اور سلطان تیونس کے درمیان دوری بڑھتی گئی ۔

یہ سلطان تنہا میرا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتا تھا ، اس لئے کبھی ہسپانویوں سے میرے خلاف مدد طلب کرتا اور کبھی مقامی امراء کو میرے خلاف بھڑکاتا ، اس کی تحریک پر لبیک کہنے والوں میں سرفہرست تلمسان کا معزول سلطان تھا جسے ہم نے بنوزیان کےعرش سے محروم کیا تھا ۔ یہ سلطان میرے ماتحت تھا مگر اس کے باوجود وہ ہسپانویوں کے ساتھ رابطہ کرنے اور ان کے ساتھ خفیہ اتحاد قائم کرنے میں متردد نہ ہوا۔ میرے ہاتھ میں سلطان تیونس کا سلطان تلمسان کی جانب بھیجا گیا خط لگا ، اس خط کا خلاصہ یہ تھا:

یہ خیرالدین نامی شخص انتہائی طاقتور ہے بلکہ اپنے بھائی عروج سے بھی بڑی آزمائش ہے اور اب اسے سلطان سلیم خان کا بھی سہارا مل چکا ہے ، چنانچہ اس کے غرور کی کوئی حد نہ رہی ، اس کے ذہن میں عالمی مملکت کے قیام کے افکار پرورش پارہے ہیں ، جس میں ہسپانیہ بھی شامل ہو ۔ سلطان سلیم خان اسے اپنی مملکت کا حقیقی خیرخواہ سمجھتے ہیں چنانچہ انھوں نے اسے بیلر بای اور پاشا کا منصب عطاکیا ، مرصع تلوار خلعت سلطانی اور سلطانی سنجق اس کی جانب بھیجا اور اسے اس بات کی اجازت دی کہ اناضول سے جتنے افراد، اسلحہ اور عسکری سازوسامان کی ضرورت ہو طلب کر سکتا ہے ۔ ہمارے لئےسب سے مناسب یہ ہے کہ ہم اکٹھے ہو جائیں اور افریقہ میں کسی بھی ترک کو نہ چھوڑیں ۔یہ شمالی افریقہ میں داخل ہونے کے 10 سال بعد ہم پر آقا بن بیٹھے ہیں۔


[1] اس سے مراد خاندان بنو زیان ہے جس کی بنیاد یغمراسن نے رکھی اور ان کی حکومت لگ بھگ 300 تک جاری رہی اور بالآخربیلربای صالح رئیس نے 1555 میں ان کا خاتمہ کر دیا ، جبکہ یہ فساد وشر کی انتہاء کو پہنچ چکے تھے ، مملکت ہسپانویوں کے ہاتھ میں کھلونا بن چکی تھی اور اس کی سیاست اپنی مرضی کے مطابق چلاتے تھے ۔
 

ربیع م

محفلین
آج تک یہ نہیں سنا گیا کہ کسی نے آل عثمان سے کوئی علاقہ چھینا ہو ۔

ہر قسم کا اختیار اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہے عزت سے نوازے اور جسے چاہے ذلت کی تاریکیوں میں دھکیل دے ، سلطان تیونس اس دقیق نقطہ سے غافل تھا، اپنی غلطیوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اسے ذلیل کردیا ، الجزائر اب میری سلطنت ہے اور کسی انسانی طاقت کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اسے مجھ سے چھین سکے ، کیونکہ یہ ملک میری ملکیت نہیں بلکہ ہمارے سلطان معظم سلیم خان کی مملکت کاحصہ ہے اور آج تک نہیں سنا گیا کہ آل عثمان سے کوئی علاقہ چھینا گیا ہو ، یہ ایک حقیقت ہے اور اسے تسلیم کرنا لازم ۔

اور جوکوئی بھی اس حقیقت سے انکاری ہوگاوہ اپنے خلاف جرم کا ارتکاب کرے گا، اور اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھوں میں گرا دے گا۔

اہل الجزائر ہم سے محبت کرتے تھے اور ہماری قدروقیمت سے بخوبی واقف تھے ، جب سے ہم ان کے علاقے میں آئے ہم نے اس بڑے ملک میں مختلف امارتوں اور قبائل کو متحد کیا ، تجارت کئی گنا بڑھ گئی ، مسلمان ہسپانویوں کے ظلم وستم سے محفوظ ہو گئے ، اب وہ آزادی کے ساتھ سر اٹھا کر جی سکتے تھے ، یہ سب اس وجہ سے کیونکہ وہ دنیا کے سب سے بڑے سلطان کے تابع تھے ۔

اس کے باوجود کچھ قبائل نے سلطان تیونس کی تحریض پر لبیک کہا چنانچہ میں نے ان کی جانب 6 ہزار پیادہ اور 6 ہزار سواروں پر مشتمل فوج بھیجی ، ان قبائل کی سرزنش اور سرکوبی کی گئی اوردوسرو ں کیلئے باعث عبرت بنا دیا،جبکہ سلطان تلمسان نے مراکش کے سلطان کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیں ۔ اس دوران جب اہل تلمسان الزیانی کے درمیان حصول تخت کی باہمی جنگوں سے شدیدعاجز آچکے تھے ، جبکہ ہسپانوی تلمسان میں وقوع پذیر حالات سے بے حد خوش تھے ان دنوں بنوزیان کے شہزادوں میں میں سے ایک الجزائر اپنے بڑے بھائی کےخلاف مدد لینے کیلئے پہنچا ، چنانچہ میں نے اس کے ساتھ 3 ہزار سوار اور ایک ہزار پیادہ سواروں پر مشتمل فوج روانہ کی ، اس فوج کو روانہ کرنے کی وجہ میرے جاسوسوں نے مجھے اطلاع دی کہ اس کا سلطان مولای عبداللہ لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکا رہے ہیں ، اور ہمارے بارے میں طرح طرح کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں ، یہ سلطان جسے ہم نے ہسپانویوں کے ظلم سے نجات دلائی اس بات کا مستحق تھا کہ اسے اس کی احسان فراموشی اور ہمارے خلاف دشمنی کی ابتداء کرنے کی سزادی جاتی ،اسے جونہی ہمارے لشکر کی آمد کا علم ہوا توہسپانویوں سےمدد طلب کرنے وہران کی جانب راہ فرار اختیار کی ۔

تلمسان پر قبضہ

معززین تلمسان نے اپنے سلطان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اور یہ کہتے ہوئے براءت اختیار کر کی کہ:

سلطان کا بھائی امیرمسعود خیرالدین کی جانب سے بھیجی گئی طاقتور فوج کے ہمراہ آپہنچا ہے ، اب تمہیں جو مناسب لگتا ہے کرو ، اپنے معاملات خود نمٹاؤ اس معاملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔

سلطان کو ادراک ہو گیا کہ اس کا انجام انتہائی حسرتناک ہو گا اور اس کے سامنے ہسپانویوں کی پناہ میں آنے اور وہران کی جانب فرار اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ، جبکہ ادھر مسعود نے نے بڑے پرامن انداز میں بغیر خون بہائے فتح حاصل کی اور ہماری مہربانی سے شہر میں داخل ہو کر تخت نشیں ہو گیا ، میرے اور میرے لشکر کے حق میں دعائے خیر کی احتیاط کا تقاضہ یہ تھا کہ ہم ا س پر زیادہ اعتماد نہ کریں اور اب جبکہ اس نے اپنا مقصد اور تخت حاصل کر لیا ہے اس کی جانب سے مطمئن ہو کر بیٹھ نہ جائیں ۔

سلطان نے میری سپاہ کو انعام واکرام سے نوازا ، ان میں سے ہر ایک غازی کو 25 طلائی دینار دئیے جبکہ ہر عرب رضاکار کو جو اس کے ساتھ جنگ کیلئے نکلے تھے 10 طلائی دینا ر دئیے ، جبکہ میری جانب 50 ہزار طلائی دینار سالانہ خراج کے طور پر بھیجے ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے قیمتی تحائف احسان مندی کے طور پر بھیجے ، یہ سونا میں نے امارت کے خزانے کی جانب بھیج دیا ، جبکہ اکثر تحائف رؤساء بحر پر تقسیم کردئیے ۔

اور کچھ کو اپنے پاس محل میں محفوظ کر لیا ، پھر سلطان مسعود کی جانب خط بھیجا جس میں اسے کہا:

اب ہماری مہربانی سے تو اپنے اجداد کے تخت پر بیٹھ چکا ہے چنانچہ ایسے کاموں سے گریز کرو جوتیرے بھائی کی تخت سے محرومی کاسبب بنے ، مسلمانوں پر ظلم کرنے اور میرے احکامات کی ذرہ برابر بھی نافرمانی کرنے سے اجتناب کرو ، سالانہ خراج کی ادائیگی میں ایک دن کی بھی تاخیر مت کرنا اور میں تمہارے بارے میں قطعا یہ نہ سنوں کہ تم نے ہسپانویوں سے کسی قسم کا تعلق قائم کیا ہے وہ جب بھی موقع ملا تیرا خاتمہ کردیں گے ۔ اوریاد رکھنا تیرے دونوں بڑے بھائی وہران میں ہسپانویوں کے پاس پناہ گزیں ہیں اور اگر تو ان میں سےکسی کو اپنے تخت پر بیٹھا دیکھنا نہیں چاہتا تو اپنی جان اور تخت کی حفاظت کیلئے ضروری تدابیر اختیار کرو۔

مگر مسعود نے تخت نشین ہوتے ہی لوگوں پر ظلم وستم ڈھانا شروع کر دیا ، لوگوں سے ناحق مال لوٹنا جیسا کہ اس سے پہلے اس کے آباء کاوطیرہ تھا، اور مجھے معلوم ہو ا کہ اس نے میرا خط پڑھنے کے بعد پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا ، وہ اس حرکت کے نتیجے میں اپنے لئے منتظر نتائج وعواقب سے بے خبر تھا، وہران میں پناہ گزین اس کے بڑے بھائی نے جب اس کی اس حرکت کے بارے میں سنا تو میرے ساتھ رابطہ کیا اور کہا:

سیدی سلطان : آپ نے دیکھا کہ کس طرح آپ نے مجھے میرے آباء کے تخت سے محروم کرکے میری جگہ اس ناشکرے کو تخت پر بٹھایا جو آپ کی نعمت کا تحفظ نہیں کرتااور آپ کی نیکی کو خاطر میں نہیں لاتا ، اب وہ آپ کے خلاف سرکشی پر بھی اتر آیا ہے ۔ اگر آپ اپنی مہربانی اور احسان کرتے ہوئے میری اس تخت کی واپسی میں مدد کریں تو میں ساری زندگی آپ کا فرمانبردار غلام بن کر رہوں گا۔

ہمیں اس کے بھائی مسعود کی طرح اس سے بھی خیر کی کوئی امید نہ تھی مگر موجودہ سیاست کا تقاضہ یہ تھا کہ ہم اسے معاف کرکے اس کے ذریعے اس کے بھائی مسعود پر چوٹ لگائیں۔

اس دوران میں 22 جہازوں کے ساتھ مستغانم کے سواحل کے قریب لنگرانداز تھا ۔ جسے میں نے کسی خاص مشکل کے بغیر فتح کرلیا ، مستغانم "وہران" کے قریب واقع تھا جو کہ ہسپانویوں کے قبضہ میں تھا ، میں مستغانم میں تھا ، شہزادہ عبداللہ میرے پاس آیا اور بڑی عاجزی کے ساتھ میری چادر کو بوسہ دیا ، میں نے اپنی 2 ہزار پر مشتمل سپاہ اس کے ہمراہ تلمسان بھیجی ، جبکہ مستغانم کے اطراف میں 2285 اندلسی مہاجرین کی آبادکاری میں مصرف ہو گیا جنہیں میں ہسپانیہ سے اپنے ہمراہ جہازوں پر لایا تھا۔

میں نے انھیں زمینیں عطا کیں جسے انھوں نے درست کرکے اس میں کاشت کاری کرتے وہ ، بہت ماہر کارکن تھے ، ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی فن میں بے مثال مہارت رکھتا تھا۔

جنگی چال

مجھے علم ہوا کہ عبداللہ تلمسان پہنچ کر وہاں کا حاکم بن گیا ہے جبکہ اس کا بھائی قلعہ میں 25 دن تک محصور رہا، م جہازرانوں کو ادراک ہوگیا کہ یہ حصاربہت طول کھینچے گا ، کیونکہ ان کے پاس توپیں نہ تھیں جو اس قلعہ پر قبضہ میں ان کی مدد کرتیں ، چنانچہ انھوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہنے لگے :

ہم یہ حصار اٹھادیتے ہیں اور یہ ظاہرکرتے ہیں گویا پسپائی اختیار کر رہے ہوں ، یہ بدو جو ہر قسم کے اخلاق وتہذیب سے عاری ہیں ، فتح و ہزیمت کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے ان کے درمیان یہ خبر پھیل جائے گی کہ ترک بھاگ نکلے ، اور غنائم کالالچ انھیں ہمارے تعاقب پر مجبور کردے گا ، تب ہم ان کاخاتمہ کر کے اس قلعہ پر قبضہ کرلیں گے اور اسے امیرعبداللہ کے سپرد کرکے الجزائر لوٹ جائیں گے ۔

اور واقعتا پھر ایسا ہی ہوا ، مسعود کے قلعہ بند مددگار باہر نکلے اور جہازرانوں کا تعاقب کرنے لگے ، کچھ ہی دیر میں جہازرانوں نے ایک ناگہانی حملے میں انھیں دبوچ لیا اور ان کی اکثریت کا خاتمہ کرڈالا، ان بدوؤں کے پاس فنون حرب سے متعلق کچھ علم نہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ باقاعدہ افواج کی جنگ صحراء میں لوٹ مارکی جھڑپوں جیسی ہے ،جبکہ ہسپانوی فنون قتال سے واقفیت رکھنے والوں نے کئی بار ترک جہاز رانوں سے شکست کا تلخ ذائقہ چکھا تھا ، اگر ان بدوؤں کو عقل ہوتی تو کبھی بھی اپنے آپ کو ہلاکت کیلئے پیش نہ کرتے ۔

اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ انسانی جان کوکوئی اہمیت نہ دیتے اپنے آپ کو بڑے احمقانہ انداز میں قتل کیلئے پیش کر دیتے اور یہ سمجھتے کہ یہ تمام تر اللہ کی جانب سے تقدیر کا حصہ ہے!!

حقیقتا وہ دلیر تھے ، بہترین سوار مگر ان کی سواری کا طریقہ انتہائی ابتدائی تھا ، اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اچھا اسلحہ بھی نہ تھا اور اگر آبھی جاتا تو اس کے صحیح استعمال سے ناواقف تھے ،اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اچھا آتشیں اسلحہ بھی موجود تھا۔

ان کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ان کا اجتماعی طور پر فنون قتال سے عدم واقفیت تھا ۔ اس طرح سے تلمسان کا قلعہ ترک جہاز رانوں کے ہاتھ آلگا، جبکہ سلطان مسعود اپنے 5 یا 10 افراد کےہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اس کے انجام کا کسی کو علم نہ ہوسکا۔

یہ ہر بے وقوف شخص کاانجام ہے ، یہ مسعو د کون ہوتا ہے جو کہ دنیا کے سلطان اعظم کے بیلر بای کو اس طرح چیلنچ کرے ، جبکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں اور میرا بھائی عروج – اللہ اسے اپنی وسیع جنتوں کا باسی بنائے- کئی بار ہسپانیہ کے بادشاہ کو شکست سے دوچار کرچکے ہیں ۔

یہ گھٹیا انسان مسعود ان 6 ہزار بدوؤں کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگ نکلا جو اس کے ساتھ قلعہ بند تھے ، یہاں تک کہ انھیں اطلاع تک نہ دی اور وہ اپنے آقا کے کامیاب فرار سے بے خبر میرے جہازرانوں کے خلاف لڑتے رہے ۔ جہازرانوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے سے قبل ان کے سردار میرے ساتھیوں سے کہنے لگے : معاذاللہ کہ ہم جان بوجھ کر الجزائر کے سلطان خیرالدین پاشا کے خلاف سرکشی میں حصہ لیں وہ تو ہمارا سردار ہے اور ترک ہمارے آباء ، اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ہم نے مسعود کے خوف سے تمہارے خلاف ہتھیار اٹھائے جو ہمیں ہسپانویوں کو بلوانے کی دھمکی دیتا تھا، وگرنہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو عروج رئیس کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شریک ہوئے ، ہم سے درگزر کیجئے ، ہم سے غلطی ہوئی ہے اور ہم آپ سے عفو ودرگزر کے طلبگار ہیں ۔

تلمسان کے اس معرکہ میں میرے جہازرانوں نے 5 ہزار باغی بدوؤں کو تلوار کی دھار پر رکھا ، اسلحہ پھینکنے والوں اور اطاعت قبول کرنے والوں کو معاف کردیا،

جمعہ کے دن بر وبحر کے سلطان سلیم خان کے نام کا خطبہ پڑھایا گیا اور ان کا بابرکت نام سکہ کے اوپر نقش کر دیا گیا۔

جہازرانوں نے سلطان عبداللہ کو الوداع کہا اور الجزائر واپس جانے کی اجازت مانگی ، مگر سلطان نے انھیں کچھ مدت مزید روکنے پر اصرار کیا ، جہازرانوں نے اسے آگاہ کیا کہ انھیں تلمسان سلطان کے سپرد کرنے کے بعد ایک دن بھی رکنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ان کیلئے الجزائر پہنچنا لازم ہے ، سلطان کے رکنے کے بیحد اصرار پر وہ اپنے 100 ساتھیوں کو ٹھہرانے پر راضی ہوگئے ۔

سلطان نے میرے جہازرانوں کا بے حد اکرام کیا، اپنے شاہی مطبخ سے ان کیلئے کھانا تیار کرواتا ، جبکہ باقی 900 جہازران 80 ہزار دینار اور بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ الجزائر واپس لوٹے ، میں نے سلطان عبداللہ کا بھیجا گیا خط پڑھا جسے انتہائی ادب واحترام کے ساتھ تحریر کیا گیا تھا۔

میں نے مسکراتے ہوئے جہاز رانوں سے کہا: اب یہ راہ راست پر آیا ہے ، آگے دیکھتے ہیں یہ تخت نشیں ہونے کے بعد کیا کرتاہے ،اپنے بھائی کے راستے پر تو نہیں چلتا؟

رؤساء میری بات سن کر ہنس پڑے ، جبکہ میں نے تلمسان کے مسئلہ سے فراغت کے بعد "ابن القاضی" کے مسئلہ پر سوچ بچار شروع کر دی۔

ابن القاضی الجزائر میں عرب سرداروں میں سے ایک سردار تھا میرے لئے اپنے دل میں انتہائی محبت بھرے جذبات واحساسات رکھتا تھا ، سلطان تیونس نے اسے میرے خلاف خروج پر تحریض دینے کی کوشش کی مگر اس نے اس پر موافقت نہ کی اور اسے بھی ترکوں کی اطاعت اور ان کی تابعداری قبول کرنے کی دعوت دی ، اب یہ عقلمند شخص فوت ہو چکا تھا، اور اس کی جگہ اس کا ناعاقبت اندیش بیٹا جو کہ ابن القاضی کے نام سے ہی جانا جاتا تھا سردار بن چکا تھا ۔ جس نےسب سے پہلا کام یہ کیا کہ سلطان تیونس کے ساتھ میرے خلاف یہ کہتے ہوئے اتحاد کیا کہ ہمیں ایک ہاتھ بن کر ترکوں کو بلاد عرب سے نکال باہر کرنا چاہئے ۔یہ خط جو اس بدبخت بیٹے نے سلطان تیونس کی جانب بھیجا میرے ہاتھ لگ گیا، ابھی اس کے والد کی وفات کو محض 2 ماہ ہی بیتے تھے ۔اس خط میں تحریر تھا:

میں اور تو ایک ہاتھ بن کر ترکوں کی شان وشوکت کو توڑ دیں اور خیرالدین کو الجزائر سے نکال دیں اور میں اس کی جگہ سلطان بن جاؤں گا ، سلطان بنتے ہی بہت سا مال غنیمت تمہاری خدمت میں پیش کروں گا ، میرا والد ترکوں سے بے حد محبت کرتا تھا جبکہ میرے نزدیک ان سے ناپسندیدہ قوم کوئی نہیں ۔

جب ابن القاضی کا سلطان تیونس کو بھیجا گیا خط میرے ہاتھ لگا تو میں جان گیا کہ یہ دونوں میرے خلاف سازشوں کاجال بُن رہے ہیں ۔

چنانچہ میں 12 ہزار افراد کے ساتھ سلطان تیونس کےخلاف جنگ کیلئے نکلا اور بلوط اور کشناد کے درختوں سے ڈھکی ایک وادی میں اترا ، سلطان تیونس نے جب مجھے دور سے دیکھا تو یہ سمجھا کہ میں اس کا حلیف ابن القاضی ہوں ، جبکہ میں نے اس پر گولوں کی بارش برسانا شروع کر دی ، جس سے اس کا لشکر تسبیح کے دانوں کی طرح منتشر ہو گیا ، سلطان کو گرفتار کر کےمیرے پاس لایا گیا، میرے سامنے اس کی باربار ان حرکتوں کی وجہ سے اسے نصیحت کرنے اور ڈرانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔

پھر میں نے اسے آزاد کرنے کاحکم دیا، میں جانتا تھا کہ اگر میں کبھی قیدی بن کر اس کے ہاتھ چڑھتا تو مجھے انتہائی برے طریقے سے قتل کیا جاتا ،مگر میرے اسے معاف کردینے اور اس کے ساتھ نرمی برتنے نے تمام اہل افریقہ کے دل جیت لئے اور لوگ ہم سے پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگے ۔

اس معرکہ کے دوران میں نے 300 خیموں پر قبضہ کیا اور انھیں الجزائر بھیجنے کاحکم دیا ، جبکہ میں اس علاقہ میں 10 یا 15 دن ٹھہرا رہا ۔ یہ انتہائی خوبصورت جگہ تھی ، ہر جانب چشمے بہتے تھے ، پرندوں کی چہچہاہٹ اس جگہ کو مزید خوبصورت بناتی ، ہم نے کچھ عرصہ یہاں ٹھہر کر لطف اٹھایا ، پھر میں نے الجزائر واپسی کیلئے حرکت کا حکم دے دیا۔

ہم ایک شدید تنگ گھاٹی سے گزر رہے تھے جہاں دو سوار بھی پہلو بہ پہلو نہ گزر سکتے تھے ، اس دوران ابن القاضی اور اس کے افراد وہاں گھات لگا کر بیٹھے تھے اور ہمیں اس وقت علم ہو ا جب وہ ہر جانب سے ہم پر حملہ آور ہو چکے تھے ، مجھے توقع نہ تھی کہ ہم اس طرح گھات میں پھنس جائیں گے ۔ اس جھڑپ میں میں نے اپنے بہت سے ساتھی کھوئے ، ساڑھے تین گھنٹوں تک یہ معرکہ جاری رہا جس کے بعد ہم اس تنگ گھاٹی کو عبور کرنے میں کامیاب ہو سکے اور الجزائر پہنچے ، اس معرکہ میں 750 جہازراں شہید ہوئے ، اس وجہ سے میں نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ میں اس حرامی ابن القاضی سے بدلہ لے کر رہوں گا اور کسی صورت بھی اسے معاف نہیں کروں گا۔

یہ تقدیر الٰہی تھی کہ جہاں میں نے سلطان تیونس اور اس کے لشکر کو شکست دی وہاں میں اس بدوی ابن القاضی کے خلاف فتح حاصل نہ کر سکا۔

جس وقت شاہان یورپ کے جرنیل محض باربروسہ کا نام سن کر کانپنے لگتے تھے الجزائر میں سرکشی وبغاوت کی تحریکیں سر اٹھانےلگیں ، ابن القاضی کا غرور وتکبر اپنی انتہاء کو پہنچ چکا تھا ، یہاں تک کہ وہ یہ بکنے لگا:

میں نے خیرالدین پاشا کو شکست دی ، ان شاء اللہ عن قریب میں اس کی گردن ماروں گا۔

مجھ تک یہ خبر پہنچی کہ اس نے اپنے گرد بہت سے اعرابی جمع کر لئے ہیں ، 500 ترکوں کو قید کرکے انھیں بھاری بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے اور انھیں چکی کے ساتھ باندھا ہے بیڑیوں میں جکڑ کر انھیں چکی کے گرد گھمایا جاتا۔

میں نے اس کی جانب خط لکھا کہ ان قیدیوں کو آزاد کردے ورنہ عن قریب اسے حسرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا، اس نے میرے مطالبے کا جواب نہیں دیا بلکہ ان پر مزید ظلم وتشدد جاری رکھا ۔ مجھے علم ہو گیا کہ وہ انھیں آزاد نہیں کرے گا کیونکہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر اس سے انتقام لیں گے۔اور دوسری جانب اس نے مختلف اطراف میں اپنے قاصد بھیج کر لوگوں کو جمع کرنا اور انھیں بغاوت پر قائل کرناشروع کر دیا: یہ ترک یہاں الجزائر کیوں آئے ہیں ، آؤ ہم اکٹھے ہو کر ان سے نجات حاصل کریں ۔

خائن جہاز راں

کچھ غافل احسان فراموش لوگوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا ، جو یہ فراموش کرچکے تھے کہ ترکوں نے انھیں ہسپانویوں کے ظلم وستم سے نجات دلائی ہے ، اس وقت میرے پاس 12 ہزار ترک جہاز راں تھے جن میں سے اکثر سمندر کے اندر تھے ، مجھ پر لازم تھا کہ نصاریٰ کی جانب سے کسی بھی ممکنہ حملے سے چوکنا رہوں ،اس وجہ سے میرے پاس اتنی گنجائش نہ تھی کہ اپنے تمام افرادکو جمع کرکے باغیوں کی سرکوبی کیلئے روانہ کروں ، ان حالات میں ہماری صفوں میں موجود کچھ ترکوں کے دل خیال پیدا ہوا کہ میرے لئے الجزائر کی حفاظت کرنا ممکن نہیں ، ان سادہ لوح دھوکہ کھائے جہازرانوں میں سے ایک قارۃ حسن تھا ، اس نے اپنے دل میں سوچا کہ میرے خلاف بغاوت کرکے میری جگہ تخت نشیں ہو جائے ، اس کم عقل شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے کرنے سے میں عاجز رہا۔اور جب مجھے اطلاع ملی کہ اس نے ابن القاضی کے ساتھ خط وکتابت شروع کردی ہے تو میں نے اسے سبکدوش کرکے جلاوطن کردیا۔

مجھے صورتحال کی سنگینی کا احساس تھا ، میں نے کہا اہل الجزائر کو ایسا سبق دینا چاہئے جسے وہ بھلانہ سکیں ، یہ ابن القاضی آتش شوق میں جل رہا تھا کہ الجزائر کا سلطان بن بیٹھے لیکن اگر میں الجزائر چھوڑتا تو یہ ایک بار پھر ہزار ٹکڑوں میں بٹ جانا تھا اور ان میں سے ہر ایک ٹکڑا یکے بعد دیگرے ہسپانویوں کی گود میں جا گرتا۔ جبکہ ابن القاضی الجزائر کو متحد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، نہ ہی اس کے پااس وہ عقل وشجاعت اور افواج تھیں جو اسے ہسپانویوں کا مقابلہ کرنے کی اہل بناتیں ، اور یہی نہیں اس کے پاس کوئی بحری بیڑہ تو دور کی بات کوئی کشتی بھی نہ تھی ، آپ کا کیا خیال ہے جب کفار کے بحری بیڑے سے افق تک سمندر ڈھک جائے یہ کس طرح سے سر اٹھا سکتا ہے ۔

ہماری آمد سے قبل یہاں کے لوگوں کی عادت تھی کہ وہ کفار کو دیکھتے ہی آسمان پر اڑنے والے پرندوں کے غولوں کی طرح بکھر جایا کرتے تھے ، 100 سال سے زائد عرصہ سے الجزائر میں نہ کوئی مملکت تھی اور نہ حکومت۔کفار اس بات سے بخوبی واقف تھے چنانچہ انھوں نے الجزائر کی بہترین بندرگاہ پر قبضہ کررکھا تھا ۔ اب ہماری بنائی ہوئی پوری عمارت ان مٹھی بھر سرکشوں کی وجہ سے پلک جھپکنے میں منہدم ہوسکتی تھی ، ہماری وجہ سے اس ملک میں آنے والی اقتصادی وتجارتی ترقی ہمارے الجزائر چھوڑنے کے ساتھ ہی رک جاتی ، مگریہ کم عقل لوگ اس حقیقت سے غافل تھے ۔ میں نے سوچا کہ کچھ عرصہ کیلئے الجزائر کو چھوڑ کر دور دراز کے علاقے کو اپنا مسکن بنا کر سمندری کاروائیوں میں مصروف ہو جاؤں اور خشکی سے متعلقہ کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کروں ، اور دیکھوں کہ الجزائری اپنے معاملات کس طرح منظم کرتے ہیں ، اپنی قوت کو کس طرح محفوظ بناتے ہیں اور اپنے ملک کا کس طرح دفاع کرتے ہیں ۔

مجھے پورایقین تھا کہ یہ وہی کریں گے جو چند سال قبل انھوں نے کیا ، اپنے قاصد میری جانب بھیج کر گڑگڑائیں گے کہ میں دوبارہ الجزائر واپس لوٹ آؤں اور اس وقت میں الجزائر واپس آؤں گا اور تب کوئی قوت دوبارہ مجھے الجزائر سے نکال نہیں سکے گی اور تب جا کر انھیں یقینی طور پر علم ہو گا کہ فوج اور امورسلطنت کو مہارت سے چلانا ترکوں کاخاصہ ہے ۔

ابن القاضی کی بغاوت

بالآخر بغاوت کا طوفان پھوٹ پڑا ، ابن القاضی نے اپنےبڑے لشکر سے جو کہ 40 ہزار افراد پر مشتمل تھا حملہ کیا، میں اس حملہ کیلئے تیار تھا کیونکہ مجھے پہلے سے اس حملے کی توقع تھی بلکہ میرے جاسوس ابن القاضی کی مجلس میں بھی موجود تھے ہاں کہی جانے والی ہر بات اور ہر منصوبہ فورا مجھ تک پہنچ جاتا۔

میں نے 10 ہزار جہازرانوں کو باغیوں کے حملے کی سرکوبی کیلئے بھیجا ، فریقین ایک بڑی جنگ میں ایک دوسرے سے ٹکرائے یہ معرکہ عصر تک جاری رہا اس معرکہ میں میں نے 2 ہزار شہید کھوئے اور 2 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ، مگر معرکے کا اختتام سرکشوں کی مکمل صفائی پر ہوا ، اور محض 700 کے لگ بھگ باغی بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکے جبکہ باقی یا تو میرے گئے یا انھیں قید کرلیا گیا، ان باغیوں کے سرغنوںمیں جو افراد ہاتھ لگے ان میں الجزائر کا شیخ بھی تھا،میں نے اس کے قتل اور اس کے جسم کو 4 ٹکڑے کر کے ہر ٹکڑے کو شہر کے مختلف دروازوں پر لٹکانے کا حکم دیا تاکہ دوسروں کیلئے عبرت بن سکے ۔

بغاوت کی آگ بجھانے کے بعد باغیوں کے گرفتار 185 سرکردہ افراد کو ہاتھ باندھ کر میرے سامنے لایا گیا ، میں نے الجزائر کے علماء کو جمع کیا اور انھیں کہا :مشائخ کرام! ہمارے دین اور شریعت میں ان قیدیوں کا کیا حکم ہے ؟

ان میں سے ایک بڑی عمر کے عالم نے جواب دیا: شریعت میں آپ اور آپ کی فوج کے خلاف خروج کرنے والے کا حکم موت ہے ، کیونکہ تم اس ملک میں بروبحر کے سلطان ہمارے آقا سلیمان خان کی نمائندگی کر رہے ہو ۔ اور اس کے امراء میں سے ایک امیر ہو ، اور اس سے بڑھ کر وہ تمام نعمتیں اور انعامات جن سے تو نے ہمارے ملک کو سرفراز کیا ، تم نے ہماری گردنوں کو کفار کی غلامی کی ذلت سے آزاد کروایا، اور تو ہمارے ملک میں خیر وبرکت کے دوگنا چوگنا اضافہ کا سبب ہے ، اللہ رب العزت نے تمہارے ہاتھ سے رزق اور رفاہ عامہ کے دروازے کھول دئیے اور ہم نے تیری اور تیرے بھائی کی حکومت میں وہ حسن انتظام اور حسن تدبیر دیکھی جو اس سے پہلے ہم نے کبھی نہ دیکھی تھی ۔

اور اب یہ 185 احسان فراموش انسان جنہیں کچھ مفسدین نے جھوٹی اور خوشنما امیدیں دلا کر دھوکا دیا اور انھوں نے جرم عظیم کاارتکاب کیا ، مگر ان کے درمیان وہ بہت سے جنگجو بھی ہیں جنہوں نے ہسپانوی کفار کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور آج انھوں نے غلطی اور احسان فراموشی کاارتکاب کیا ، اگر معافی کی کوئی گنجائش ہے تو ان سے درگزر کیجئے اور ان کی معذرت اور اپنے لئے اطاعت کو قبول فرمائیے ، قدرت پالینے پر معاف کردینا ہی مروت اور بزرگی کی نشانی ہے ۔

میں رؤساء بحر کی جانب متوجہ ہوا اور انھیں کہا تمہار ا کیا خیال ہے ؟

رؤساء میں سے ایک جواب میں کہنے لگا:سیدی پاشا ! اس معاملے کو آپ ہم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں ، ہم علماء دین نہیں ، ہم تو جنگجو سپاہی ہیں ، اور استنبول میں سلطان معظم کے سامنے جوابدہ اور اس بات کے پابند ہیں کہ ہمارے تمام افعال واقوال ان کی اطاعت میں ہوں ۔پس یہ معافی اور درگزر کرنے کا وقت نہیں ، آپ کا کیا خیال ہے اگر یہ سرکش ہم پر قدرت پا لیتے تو ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ؟

ان کے اعتراف کے ساتھ ان پر عائد کردہ جرم ثابت ہو چکا ہے ، اگر ہم ان سے درگزر کرتے ہیں تو یہ دوسروں کیلئے بری مثال بن جائے گی ، ہم یہاں شمالی افریقہ میں مٹھی بھر چند ترک ہیں جو اناضول سے کئی گنا بڑے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اور محض چند ہزار ترکوں کے ساتھ اس کو زیرنگیں کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس دوران ہمیں یورپ کی سب سے بڑی قوت ہسپانیہ کے حملوں کا بھی سامناہے ، میرے خیال میں حزم کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ ان کی گردنیں مارنے کاحکم دیں تاکہ یہ دوسروں کیلئے نشان عبرت بن جائیں ۔

اور میں نے الجزائر چھوڑدیا

میرے نزدیک رئیس کی کہی گئی بات ہی زیادہ صائب تھی ، چنانچہ میں نے سرکشی کے زعماء کی ان کے املاک اور اموال میں بغیر کسی تعرض کے گردنیں مارنے کا حکم دے دیا، یہ صادر کرکے میں بہت غمگین ہوا ، اس رات میں سو نہ پایا ۔ مگر مملکت کی حفاظت اسی کا تقاضہ کرتی تھی ،اس وسیع وعریض ملک پر ہمارے لئے سختی کے ساتھ حکومت کرنا ممکن نہ تھا، اور ہمارے اس فیصلہ کن اور قطعی موقف نے سرکشوں کے دل میں رعب ڈال دیا چنانچہ ان کے دلوں میں دوبارہ لمبا عرصہ تک سرکشی کرنے کا خیال سر نہ اٹھا سکے گا۔ مگر یہ صورتحال ہمارے مستقبل کیلئے راحت بخش نہ تھی ، اس ملک کے باسی ہمیں پسند نہ کرتے ہوں ، ہم سے خوش نہ ہوں تو ہمارے لئے مناسب یہی ہے کہ اپنے معاملات سمیٹ کر یہاں سے نکل جائیں ۔

اتنا کافی ہے کہ ہم اس علاقے کے باسیوں کی مدد کا بیڑہ اٹھا لیں جبکہ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ ہماری موجودگی سے خوش نہیں تو ان علاقوں کو چھوڑنا ہمارے لئے لازم ہوچکا تھا ، میں عرصہ دراز سے اس بارے میں سوچتا رہا ، چنانچہ اس سلسلے میں میں نے قطعی فیصلہ کرلیا ، مجھے پورا ادراک تھا کہ ہمارے انخلاء کے بعد عرب الجزائر کی حکومت نہیں چلا سکیں گے چہ جائیکہ وہ نصاریٰ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھیں ، اور ہمارا انخلاء یہاں کی تجارتی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچاتا جس کے اثرات تمام لوگوں پر مرتب ہونے تھے ۔

مجھے پورا یقین تھا کہ عرب میرے انخلاء کے بعد باہمی جھگڑوں میں مشغول ہو جائیں گے او ر یہاں کے باسی اس باہمی نزاع اور اور کشمکش کے نتیجے میں شدید مشکلات کا سامنا کریں گے پھر ان کے سامنے مشکلات سے نکلنے کیلئے دوبارہ میرے سہارے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہوگا اور مجھ سے دوبارہ اس علاقے پر حکومت کرنے کی درخواست کریں گے ، مجھے اس بات پر ایمان اور اعتقاد کی حد تک یقین تھا۔

اس رات میں نے خواب میں خضر علیہ السلام کو دیکھا اس خواب کو میں نے اپنے لئے نیک شگون خیال کیا اور میرے شعور میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ میرا لیا گیا فیصلہ درست ہے ۔

پھر ایک صبح میں نے اپنے جہازرانوں ، ان کے اہل وعیال اور اموال کو اپنی 25 کشتیوں میں سوار کیا جو کہ بندرگاہ پر لنگرانداز تھیں اور باقی کشتیاں جو کہ جنگ کیلئے نکلی تھیں یا سمندر کے طول عرض میں گشت کر رہی تھیں ان کی جانب پیغام بھجوایا کہ وہ الجزائر بندرگاہ کی بجائے جیجل بندرگاہ کا رخ کریں ۔

الجزائر شہر کے تمام باسی بندرگاہ میں اکٹھے ہو گئے ان کا خیال تھا کہ ہم ہسپانیہ کے سواحل کی جانب جنگ کیلئے جا رہے ہیں ، مگر جب انھوں نے دیکھا کہ ہم نے اپنی عورتیں اور سازوسامان بھی کشتیوں پر سوار کر لیا ہے تو وہ دہشت زدہ رہ گئے ۔

الجزائر چھوڑنے کا فیصلہ جان کر شہر کے اکثر باسی غمگین ہوگئے ، جب ہم نے کشتیوں پر سوار ہونا شروع کیا تو آہ وزاری اوررونے کی آوازیں بلند ہوگئیں ، وہ کہنے لگے : اگر کل ہسپانوی آگئے تو ہماری حفاظت کون کرے گا پھر وہ ابن القاضی کے خلاف بددعا کرنے لگے جو اس قدر کمزور اور ذلیل ہو چکا تھا کہ میرے پاس اپنی سرکشی اور بغاوت کی معذرت کیلئے خط لکھا اور التجاء کی کہ میں اسے اسی طرح معاف کر دوں جیسا کہ باپ اپنے نالائق بچے کو معاف کردیتا ہے ۔

میں نے اس کی معذرت قبول نہ کی اور اس کے قاصد سے کہا : یہ الجزائر قلعہ کی چابیاں اپنے آقا کے پاس لے جاؤ اور اس سلطنت و بادشاہی کے شوقیں کے حوالے کرو اور اسے کہو : الجزائر آ کر مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد یہاں تخت نشیں ہو جائے ، ہم بھی دیکھیں کہ وہ کس طرح سے امور سلطنت چلاتا ہے ۔

الجزائری صرف ہسپانویوں سے ہی خوفزدہ نہ تھے بلکہ سلطان سلیمان خان سے بھی ڈر رہے تھے کیونکہ وہ سلطان کے مقرر کردہ بیلر بای پر راضی نہ ہوئے ، تو اس خوف سے لرزاں تھے کہ سلطان ان کے ساتھ کیا سلوک کرتاہے ۔

اہل الجزائر نے علماء کا ایک بڑا وفد میری کشتی میں بھیجا ، انھوں نے میرے پاس آکر التجا کی کہ میں الجزائر چھوڑنے کے فیصلے میں تبدیلی کر لوں اور یہیں ٹھہرا رہوں ، میں اپنے فیصلے سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا ، لیکن میں نے بڑی نرمی اور شائستگی سے ان کی جمع خاطر کیلئے معذرت کر لی اور وہ حسرت و افسوس بھرے دلوں کے ساتھ میری کشتی سے واپس لوٹے ۔

ایک دن کے سفر کے بعد ہم "جیجل " پہنچے جہاں ایک خوبصورت بندرگاہ ہماری منتظر تھی ، یہ الجزائر کے سواحل پر پھیلی ہوئی ہے ، جیجل وہ پہلا قلعہ تھا جسے میں اور میرے بھائی نے فتح کیا تھا ۔

جیجل کے باسیوں کو جب ہماری آمد اور یہاں ٹھہرنے کا علم ہوا تو انھوں نے ہماری آمد کی خوشی میں بڑی محفل کا انعقاد کیا ، اب وہ تمام سازوسامان ، نعمتیں اور مال ودولت جو الجزائر جاتے تھے ، جیجل پر اترا کریں گے ۔ اگلے دن قبائل کے شیوخ ، الجزائر کے معززین بلکہ تیونس تک کے لوگ جیجل پہنچے انھوں نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ہمارے آقا سلطان سلیمان خان کیلئے اپنی اطاعت و وفاداری کا اعلان کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ وہ ان کے حکم کو سنیں گے اور اطاعت کریں گے، سالانہ خراج ادا کیا اور مجھے آگاہ کیا کہ وہ ہر قسم کی ضرورت میں میری مدد کرنے کیلئے آمادہ ہیں ، کہنے لگے :

اللہ کہ پناہ کہ ہم سلطان کی اطاعت سے باہر نکلیں ، ہم اس بات پر راضی نہیں کہ اس قبیح فعل کی نسبت ہماری جانب کی جائے ہم تو سلطان سلیمان خان کی اطاعت وفرمانبرداری کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ، الجزائر میں چلنے والی بغاوت اور سرکشی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔

میں نے جیجل میں زیادہ طویل قیام نہ کیا بلکہ جلد ہی جنگ کیلئے نکل کھڑا ہوا ، ہم صقلیہ کے سواحل جا پہنچے ، جہاں اس کے دارلحکومت PARLIRMO پر ہم نے گولہ باری کی ، اس دوران میں نے کفار کے 9 جہازون پر قبضہ کیا جن پر 40 سٹور بنے تھے جو کہ گیہوں ، جو ، زیتون ، خشک روٹی ، تختوں ، لوبیا ،چاول ، قہوہ ، کپڑا اور سکہ سے بھرے ہوئے تھے ۔

جیجل میں میں نے بہت سے گھر اور بیرکیں تعمیر کروائیں ، 36 ہز ار کیلا گندم انتہائی ارزاں قیمت پر نانبائیوں کو فروخت کی ، اسی طرح کشتیوں کی تیاری کیلئے ایک چھوٹا سا کارخانہ تیار کروایا۔

اسی موسم گرما میں میں نے اپنی کشتیوں کو دوبارہ جنگ کیلئے بھیجا ، اس دفعہ ان کا ہدف وینس کی خلیج تھی جہاں انھوں نے 3 جہازوں پر قبضہ کیا ان میں سے ہر اہر جہاز پر 10 ہزار طلائی Duka موجود تھے ، اس کے علاوہ سینکڑوں قیدی۔ ان جہازوں میں 60 مسلم قیدی بھی موجود تھے جنہیں میں نے فی الفور آزاد کرنے کا حکم دیا ، یہ جنگ23 دنوں پر محیط تھی ، 24 ویں دن میری کشتیاں بندرگاہ پر لنگر اندازہوئیں ، جہاں میں نے ایک جہاز کا سامان فقراء پر تقسیم کر نے کا حکم دیا باقی جہازوں کا سامان بیچ دیا گیا ، ہر جہازراں کے حصے میں 185 طلائی دوق[1]ہ ، 4 بندوقیں ، 5 پستول ، ساڑھے آٹھ قنطار لوہا 17 گز وینس کا کپڑا اور 225 گز دوسرا کپڑا آیا۔

غنائم کی کثرت کی وجہ سے تاجر اور کشتیوں کے مالک جوق در جوق جیجل آ کر سازوسامان خریدتے جبکہ میں نے اپنے لئے 26 بادبانوں والی کشتی تیار کروائی جو کافی بڑی اور تیز رفتار تھی ، اس کشتی کا باقی کشتتیوں کے ساتھ مقابلہ کروایا تو یہ سب سے بازی لے گئی ۔

موسم سرما آنے پر ہم اپنی کشتیوں کو خشکی کی جانب لے آئے ، اور موسم بہار کی آمد پر ہم نے ان کی رنگائی ، مرمت اور تیاری کا کام شروع کر دیا ، پھر میں 15 جہازوں کو لے کر جنگ کیلئے نکلا ، سب سے پہلے میں جنیوا خلیج میں داخل ہوا جہاں 15 دن ٹھہرا رہا ، اس دوران میں نے آبنائے Messina عبور کی اور خلیج وینس میں داخل ہوا ، وہاں ہمیں ایک چھوٹا 3 کشتیوں پر مشتمل بیڑا دکھائی دیا جو نکلے ہوئے تیر کی تیزی سے بھاگ رہا تھا میں نے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ انھیں جالیا ۔ یہ سنان رئیس کی کشتیاں تھیں۔

سنان رئیس میری کشتی پر چڑھا ، میرے ہاتھ کو بوسہ دیا ، خوشی کی شدت سے رو پڑا ، ہم ایک طویل عرصہ بعد آپس میں ملے تھے ، پھر اس نے اپنی کشتیوں کو میرے بیڑے کے پیچھے آنے کا حکم دیا ، یہاں تک کہ ہم وینس خلیج سے نکل آئے ، اس دوران ہم نے کفار کے 9 بحری جہازوں پر قبضہ کیا ، اس طرح ہمیں غنیمت میں ملنے والے بحری جہازوں کی تعداد 30 تک جاپہنچی ، ان میں سے کچھ پر کپڑا لدا ہوا تھا کچھ خالص ریشم سے بھرے تھے ، کچھ میں شہد تھا کسی میں گندم ، کسی میں سیاہ مرچ جبکہ ایک جہاز جنگجوؤں سے بھرا تھا۔


[1] دوقۃ Dukaاٹلی کا طلائی سکہ جو خیرالدین باربروسہ کے زمانے میں بحرمتوسط پر پھیلے شہروں میں استعمال ہوتا تھا۔
 

ربیع م

محفلین
الجزائر کی دگرگوں حالت

اس اثناء میں قورداغلورئیس ( جو میرے ماتحت رؤساء میں سے ایک تھا) جیجل 3 جہازوں کے ہمراہ پہنچا اور مجھے 10 ہزار طلائی دوکہ دئیے جنہیں میں نے مملکت کے خزانہ کی جانب بھیج دیا ، ان دنوں کوئی ایسا ہفتہ نہ گزرتا جب میرے رؤساء جیجل کی بندرگاہ پر کفار کی کوئی کشتی نہ لیکر آئے ہوں ، جس پر انھوں نے قبضہ کیا ہوتا۔

اس دوران ہمارے پاس الجزائر سے بھی وفد آتے تھے ، ہمارے الجزائر چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد ہی وہاں کے باسی ہماری قدر وقیمت سے بخوبی واقف ہو چکے تھے ، شہر کا نظام امن بری طرح تباہ ہو چکا تھا ، شہر کے حالات انتہائی دگرگوں تھے ، جس کے نتیجے میں ابن القاضی کے خلاف فضاء پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو چکی تھی ، اور بالآخر اہل شہر ابن القاضی کے پاس ایک وفد بنا کر آئے اور اسے کہنے لگے :

ہم سمجھتے ہیں کہ خیرالدین پاشا کو بلانے میں ہم سب کی بھلائی ہے ، اس کے شہر چھوڑتے وقت یہاں کے باسی پرامن اور بے خوف تھے ، شہر کی ترقی کمال کو پہنچ چکی تھی ، کیا اس سے قبل اس جیسا کوئی حاکم آیا ؟ چنانچہ ہم آپ کے پاس یہ امید لے کر آئے ہیں کہ آپ ہمیں خیرالدین کو جیجل سے یہاں بلوانے کی اجازت دیں اور آپ اپنے قبیلے کی جانب لوٹ جائیں ۔

ابن القاضی نے جواب میں کہا: احمقو! تم نہیں جانتے کہ خیرالدین نے یہ شہر میرے خوف سے چھوڑا ہے ؟

قارۃ حسن جسے اپنی خدمت سے الگ کرنے سے قبل میرے پاس جہازراں تھا ، ابن القاضی کا یہ دعویٰ برداشت نہ کرسکا اور کہنے لگا:

میرے آقا سلطان خیرالدین جسے میں جانتاہوں اللہ کےسوا کسی سے نہیں ڈرتا ، پس یہ مت گمان کرو کہ اس نے فلاں یا فلاں کے ڈر سے شہر چھوڑ دیا یہ کام اس نے اپنے ارادے سے کیا ہے اور یہ تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے تمہارے خوف سے یہ شہر نہیں چھوڑا۔

ابن القاضی حسن قارۃ کی یہ بات سن کر شدید غصے میں آگیا مگروہ اس بات پر قادر نہیں تھا کہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکے ، اس دوران اس نے اس وفد کے سربراہ کا سر قلم کرنے کا حکم دیا جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ مجھے الجزائر شہر بلانے کی دعوت دی جائے یہ سربراہ ایک عرب عالم تھا۔

یہ واقعات اس بات کا پیش خیمہ تھے کہ الجزائر ہماری واپسی کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ، اس سب کے باوجود یہ ضروری تھا کہ ہم کچھ عرصہ مزید انتظار کرتے یہاں تک کہ حالات کلی طور پر ہمارے حق میں ہو جائیں ، ابن القاضی کا اثر ونفوذ دن بدن کم ہوتا جارہاتھا ، اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اہل الجزائر کے اندر اس کی قیمت و اہمیت ختم ہوتی جا رہی تھی ۔

الجزائر شہر کو عملی طور پر قارۃ حسن چلا رہا تھا ، جس کی کچھ کشتیاں بندرگاہ میں لنگرانداز تھیں ، مگر اس میں جنگ کیلئے نکلنے کی قوت نا تھی کیونکہ اس کے پاس جہازراں نہ تھے ، اسی طرح تھوڑا وقت گذرنے کے ساتھ ہی ان کشتیوں کو سخت توجہ کی ضرورت تھی اور جب ان کی حفاظت نہ کی جاتی تو یہ بہت جلد پرانی اور ناقابل استعمال ہو جاتیں ، جس کا نتیجہ اس شہر میں تجارت کے خاتمے کی صورت میں نکلتا۔

الجزائر شہر کو چھوڑے 3 سال گذر چکے تھے ، اس دوران الجزائر سے پے درپے وفود آکر ہم سے الجزائر واپسی کا مطالبہ کرتے رہے۔

اس اثناء میں سنان رئیس 9 کشتیوں پر سوار جنگ کیلئے نکلا ، اور کفار کی 12 کشتیوں پر قبضہ کیا ، اور آبنائے جبل طارق کے اندر تک گھس گیا ، یہاں تک کہ ہسپانیہ کے جنوبی سواحل پر حملہ کیا ، اور 800 اندلسی مسلمانوں کو ہسپانیوں کے مظالم سے نجات دلائی ، ان سب کو اپنے ہمراہ اپنی کشتیوں پر سوار کر کے الجزائر لے آیا ۔ میں نے ان کیلئے ضرورت کی ہر چیز اور لوازمات مہیا کرنے کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کیلئے الجزائر میں رہائش پذیر ہونا آسان ہو جائے۔

ایک دن میں نے سنان پاشا کو انتہائی پریشان دیکھا تو میں نے اسے کہا:

"سنان…ان شاء اللہ خیریت ہی ہو گی…کیا معاملہ ہے؟"

سنان جواب میں کہنے لگا:

اے پاشا آپ کو کیا توقع ہے کہ کیا ہو گا؟…میں تو ان پیش آنے والے حالات کو برداشت رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا …تم اور تمہارے بھائی عروج رئیس اللہ اسے جنت میں مقام عطاء فرمائے نے بھرپور کوششیں خرچ کر کے اور بہت بڑی قربانیاں دے کر یہ الجزائر حاصل کیا اور اب جب کہ تمہیں اس پر حکومت حاصل ہو گئی ، آہ …اب شمالی افریقہ کی یہ ایک خوبصورت بندرگاہ ایک ناشکرے بدو کے ہاتھ میں ہے ، جسے یہ نہیں معلوم کہ اس سے کس طرح فائدہ اٹھائے ، اور نا ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے دیتا ہے۔ جب میں اندلس سے واپس آرہاتھا تو میں نے سوچا کہ الجزائر کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوں گا ، لیکن انھوں نے توپوں کے گولوں سے میرا استقبال کیا ، میں ان توپوں کو خاموش کروانا اور شہر پر کسی خاص مشکل کے بغیر قبضہ کرنا جانتا تھا، لیکن مجھے یہ ڈر تھا کہ آپ مجھ پر غصہ کریں گے ، چنانچہ مجھے ایسا کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ اور اب مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس ابن القاضی نام کے کتے کو نکال باہر کروں اور ہم الجزائر کو پہلے کی طرح اپنا ٹھکانہ بنائیں !"

بربروس ایک بار پھر الجزائر میں

اہل الجزائر کے وفود ہمارے پاس آنا تھمے نہیں تھے ، بالآخر میں نے سنان رئیس کو بلایا اور کہا :

اے رئیس سنو ! حالات سے لگتا ہے کہ الجزائر جانے کا راستہ کھل رہا ے ، یہ موسم سرما اللہ کے حکم سے آخری موسم سرما ہو گا جو ہم جیجل میں گذاریں گے ، اور موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی ہم الجزائر کا رخ کریں گے، شہر میں کوئی بھی ابن القاضی سے خوش نہیں ، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کوئی ہفتہ نہیں گزرتا جب الجزائر سے کوئی وفد نہ آیا ہو جو ہم سے الجزائر واپسی کی درخواست کرتا ہے ، حد سے زیادہ نخرہ بھی عاشق کو متنفر کرتا ہے ، ہمیں چاہئے کہ اس گرم لوہے پر چوٹ لگائیں ، ہماری واپسی کا وقت آگیا ہے ، اس لئے میں تجھے یہاں چھوڑتا ہوں ، تو میرے اہل ، ان کشتیوں اور جہازرانوں میں میرا نائب ہے ، جبکہ میں الجزائر کا رخ کرتا ہوں ، الجزائر داخل ہونے کے بعد میں تمہیں حالات کی مناسبت سے بتاؤں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔

سنان رئیس نے جواب میں کہا:" جو آپ کا حکم پاشا "اور نکل گیا۔

اس موسم سرما میں میں نے بہت کام کیا ، اس دوران میں نے اپنی کشتیوں کو تیار کیا اپنی توپوں کی مرمت کی ، دن تیزی سے گزرتے چلے جارہے تھے ہمیں محسوس تک نہ ہوا اور موسم بہار ایک بار پھر سر پر آن پہنچا ۔ پھول دوبارہ سے کھلنے لگے ، الجزائر اور دوسرے علاقوں سے ہمارے پاس وفود آنے لگے ، یہ سب مجھ سے درخواست کررہے تھے کہ میں واپس الجزائر لوٹ آؤں اور نئے سرے سے وہاں کا انتظام سنبھالوں ، انھیں میں سے ایک وفد نے مجھے سرخی مائل سفید رنگ گھوڑا تحفے میں دیا ، جو اتنا خوبصورت تھا کہ زبان اس کی خوبصورتی بیان کرنے سے عاجز ہے ، میں نےبڑی احسان مندی سے اسے قبول کیا ۔

میں نے 12 ہزارجہازرانوں کے ساتھ جیجل سے حرکت کی ، جن میں 4 ہزار سوار اور آٹھ ہزار پیادہ تھے ، اور جیجل میں سنان رئیس کے پاس محض 300 جہازراں چھوڑے۔

راستے میں مضافات سے ہزاروں سوار ہم سے آملے ، یہ سب ہمارے ساتھ مل کر الجزائر میں داخل ہوناچاہتے تھے۔جب ہم شہر کے قریب پہنچے تو ابن القاضی کے فراد ہمارا مقابلے میں آئے ، میں نے اسے اور اس کے افراد کو دہشت زدہ کرنے کیلئے فورا ان کے مقابلے کا حکم دیا، اس معرکے میں ان کے 800 افراد مارے گئے۔

ابن القاضی کا قتل

ابن القاضی کو جب ہماری الجزائر کے قریب ہونے جا علم ہوا تو اس کی رگوں میں خون جامد ہو گیا ، اس کے پاس دس ہزار سوار اور 8 ہزار پیادہ تھے ، مگر اسے ان کی جنگی صلاحیتوں اور ہارے مقابلے میں آنے کی ہمت و خواش کے بارے میں شکوک وشبہات تھے ، اور اگر یہ سب ہمارے خلاف ہتھیار اٹھا بھی لیتے تو یہ اس قوت کیلئے ہمیں الجزائرداخل ہونے سے روکنا ممکن نا تھا، مگر اس کے باوجود ابن القاضی نے اپنا زور بازو آزمانے کی کوشش کی۔

اسی طرح ایک رات اس نے ہمارے 3 معسکرات پر جو ہم نے الجزائر کے راستے میں نصب کئے تھے ان پرحملہ کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اسے اپنے 185 افراد اور 97 گھوڑوں سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ اس دوران ہمارے ایک بھی سپاہی ضائع نہیں ہوا۔اگلی صبح طلوع ہونے پر ابن القاضی نے ایک بار پھر ہم پر حملہ کیا ، اس کے سپاہی بظاہر تو لڑ رہے تھے لیکن حقیقت میں وہ محض ادھر ادھر بھاگ کر پہاڑوں اور ٹیلوں پر اپنے لئے پناہ ڈھونڈ رہت تھے اور راہ نجات تلاش کر رہے تھے۔

یہ عجیب وغریب لڑائی شام تک جاری رہی جس میں اس کا سالار قارۃ حسن مارا گیا جو کہ پہلے میرا جہازراں تھا، پھر میرے خلاف سرکشی کر کے اس کے ساتھ جا ملا ، چنانچہ اب ابن القاضی کیلئے کوئی راہ نجات نہ بچی ، اور جب وہ فرار کا سوچ رہا تھا تو ایک عرب شیخ نے اسے نیزہ مارا جو اس کی پشت سے نکلا ، پھر شیخ نے اس کا سر کاٹ کر میرے پاس بھیجنے کا حکم دیا !!

میں نے اس شیخ کو ابن القاضی جس گھوڑے پر سوار تھا اور 100 طلائی دوقہ دینے کا حکم دیا یہ انتہائی قیمتی گھوڑا تھا اور اس کی قیمت کسی طرح بھی 1 ہزار دوقہ سے کم نہ تھی ۔

ابن القاضی کے قتل کے بعد اس کی سپاہ نے ہتھیار پھینک دئیے اور زمین پر لیٹ گئے جو اس بات کا علان تھا کہ وہ طالب امان ہیں ، ان مایوس اور کمزور لوگوں کو سزا دینے کا کوئی فائدہ نہ تھا ، میں نے ان کو معادف کر دیا اور ان کی راہ چھوڑ دی ، جبکہ کچھ نے مجھ سے درخواست کی کہ وہ میری خدمت میں آنا چاہتے ہیں ، میں نے ان کی بات مان لی۔

یہ بدو کسی نظام اور اطاعت سے واقف نہ تھے انھوں نے کسی مملکت کے سائے تلے کبھی زندگی بسر نہ کی کہ جس کی جانب یہ منسوب ہوتے ، اسی طرح آتے اور اسی طرح اپنی زندگی گذارتے ، مگر میرے کچھ جہاز راں جو اناضول سے آئے تھے اور ابن القاضی کے ساتھ جاملے تھے ، انھوں نے اپنی اس خیانت کی وجہ سے ترکوں کا چہرہ سیاہ کیا ، ابن القاضی کی ہلاکت کے بعد وہ سب اکٹھے ہوکر آئے اور میرے سامنے سر جھکا کر اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر کھڑے ہو گئے اس طرح سے وہ اپنی اطاعت اور سر تسلیم خم کرنے کا اظہار کر رہے تھے ، کیونکہ ترک عربوں کی طرح زمین پر نہیں لیٹتے تھے۔

میری عادت تھی کہ میں بہت جلد فیصلہ لے لیتا ، لیکن اپنے جہازرانوں کے معاملے میں میں تھوڑامتردد ہوا ، اس کی وجہ یہ کہ ان میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے ہمارے لئے بہت سی خدمات سرانجام دی تھیں ، اور بہت سے ایسے تھے جن کے سر پر بہت سے ہسپانویوں کے سر کاٹنے اور ان کے جہازوں پر قبضے کا سہرہ بندھتا تھا،

میرے ہزاروں ساتھی جہازراں صف میں کھڑے تھے ، انھوں نے اپنی سانسیں روک تھیں ، کہ جان سکیں کہ میں ان کے ساتھیوں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہوں ، ان جہازرانوں کو معاف کر دینا بہت سے خطرات اور تنبیہات سے ڈھکا ہو اتھا ، ان میں سب سے اہم یہ کہ اس معاملے کو استنبول میں کس نظر سے دیکھا جائے گا ، کیونکہ ان جہازرانوں کو میرے خلاف شورش اور سرکشی کی وجہ سے سلطان کے خلاف باغی تصور کیا جائے گا۔

اس دوران جبکہ میں سوچ میں مشغول تھا مجھے اپنے اندر سے ایک آواز ابھرتی محسوس ہوئی ، جو مجھے اس بات پر اکسا رہی تھی کہ میں انھیں معاف کر دوں اور اچانک میں نے کہا: میں نے تم سب کو معاف کر دیا …اپنا اسلحہ اٹھا لو …

ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ، اور انھوں نے اپنا اسلحہ اٹھا لیا ، شرمندگی کے مارے وہ اپنا سر بھی نہیں اٹھا پارہے تھے ، میں نے اپنے پیچھے کھڑے چنیدہ جہازرانوں کی جانب دیکھا تو ان کی آنکھیں خوشی اور احسان مندی کے جذبات سے بھری تھیں۔

آگے چل کر مجھے اپنے اس فیصلے کی درستگی کا احساس ہوا ، کیونکہ ان جہازرانوں نےمیرے خلاف بغاوت کے نتیجے میں ملنے والی اس عار اور شرمندگی کو ختم کرنے کیلئے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی یہاں تک کہ یہ سب اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے اللہ ان پر رحم فرمائے۔

الجزائر میں داخلہ

ابن القاضی اور اس سے متعلقہ امور سے فراغت کے بعد میں نے سفر کے احکامت دئیے ، اور ایک ساعت بعد ہم الجزائر پہنچ ، معززین شہر باہر ہمارے استقبال کیلئے نکل آئے ، جب ہم شہر میں داخل ہوئے تو شہر کی سڑکیں وہاں کے باسیوں سے بھری پڑی تھیں جو کہ بڑی گرمجوشی سے ہماری آمد پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے، ہم چلتے رہے یہاں تک کہ اپنے پرانے گھروں کو جا پہنچے جہاں ہم اس سے پہلے مقیم تھے۔

الجزائر میں ٹھہرنے کے بعد میں نے وہاں نظام حکومت کی بحالی اور امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی ، اور اس کے ساتھ سنان رئیس کی جانب پیغام بھیجا کہ وہ میرے اہل وعیال اور میری کشتیوں کو لے آئے ، سنان رئیس جیجل سے 33 کشتیوں میں نکلا ، جب وہ الجزائر بندرگاہ میں داخل ہو رہے تھے تو انھوں نے اپنی کشتیوں سے توپ کے گولے داغ کر سلامی دی، میں نے جواب میں الجزائر کے قلعہ سے توپوں کے گولے داغے۔

الجزائر کی یہ صورتحال تھی ، جبکہ تلمسان میں جس کے سلطان کو میں نے تخت پر بٹھایا اس نے الجزائر سے میرے نکلنے کا فائدہ اٹھا یا اور ہمارے سلطان معظم کے نام کا سکہ ختم کر کے اس کی جگہ اپنے نام کا سکہ جاری کیا۔الجزائر میں صورتحال مستحکم بنانے کے بعد میں نے اسے لکھا:

تجھے چاہئے کہ خلیفہ وقت کے نام کا سکہ جاری کرے اور بلاتاخیر پچھلا تمام خراج الجزائر روانہ کرو جو 39 ہزار دوقہ تک جا پہنچتا ہے ، خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے سکوں کو ختم کر کے تم نے عظیم جرم کا ارتکاب کیا ہے تجھے چاہئے کہ فورا اپنے ایمان کی تجدید کرو، وگرنہ میں تمہیں اس روئے زمین سے اس طرح مٹا دوں گا جیسا کہ میں نے ابن القاضی کے ساتھ کیا۔

سلطان عبداللہ کو جب میرا خط ملا تو اس نے اسے پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر کے پھینک دیا، اس کے نتیجے میں میں نے کے بیٹے شہزداہ محمد کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ، جس نے اپنے باپ کو تخت سے سبکدوش کرنے اور خود سلطنت تلمسان حاصل کرنے کیلئے بغاوت کی تھی اور اپنے دو ہزارو سواروں کے ہمراہ پہاڑوں میں روپوش ہو گیا تھا۔

میں ایک لشکر تیار کرکے تلمسان کی جانب روانہ ہو گیا ، راستے میں شہزادہ محمد بھی ہم سے آملا ، اس نے میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور میرے لشکر میں شامل ہو گیا ۔ اس دوران سلطان عبداللہ بھی تلمسان سے اپن الشکر لے کر ہمارے مقابلے میں آگیا ، مازونۃ کے مقام پر ہمارا ٹکراؤ ہوا ، جہاں میرے لشکر نے اس کی فوجوں کو اپنے حملوں سے تتر بتر کر دیا ، سلطان عبداللہ کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا ۔ میں نے فی الفور اس کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔اور اس کے بیٹے کو سلطانی خلعت پہنائی اور تلمسان کے تخت پر بٹھا دیا۔

میں نے 400 جہازرانوں کو نئے امیر کے ساتھ تلمسان جانے کا حکم دیا ، محمد نے تلمسان پہنچتے ہی پچھلا تمام خراج ادا کیا جو کہ 90 ہزار دوقہ تک پہنچتا تھا[1]شہزادہ محمد نے یہ خراج میرے جہازرانوں کے حوالے کیا جنہوں نے اسے الجزائر بھیج دیا ، اہل تلمسان اپنے نئے امیر سے بہت خوش تھے۔

اس دوران میرے جہازرانوں نے ابن القاضی کے بھتیجے کو گرفتار کر کے میرے پاس لے آئے ، اس نے یہ عذر پیش کرتے ہوئے مجھ سے معافی طلب کی کہ اس کا اپنے چچا ابن القاضی کی بغاوت سے کوئی تعلق نہیں ، اور میرے ساتھ یہ عہد کیا کہ مجھے 20 ہزار دوقۃ ادا کرے گا اور میرا خادم اور وفادار رہے گا ۔ میں نے اس کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں وہ اس بات کا پابند تھا کہ میری اجازت کے بغیر قبائل کے پہاڑوں سے نہیں اتر سکے گا ، اور ہر سال 20 ہزار دینار ، ایک ہزار اونٹ ایک ہزار گائے دو ہزار بکریاں اور 20 گھوڑے ادا کرے گا۔

الجزائر واپس لوٹ کر میں نے اپنے بحری بیڑوں کو چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ، اور سنان رئیس کی قیادت میں انھیں جنگ کیلئے روانہ کر دیا ، جنگ کیلئے روانگی سے پچھلی رات میں نے ایک نیک خواب دیکھا جس سے مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اس جنگ کا نتیجہ بابرکت رہے گا، اورواقعتامیری 6 کشتیاں کفار کی غنیمت میں ملی 6 کشتیوں کو کھینچتی ہوئی واپس آئیں ۔ ان میں سے ایک بارود ، سکہ توپ کے گولوں اور اس کے ساتھ ساتھ 60 عدد برونز کے گولوں سے سے بھری ہوئی تھی۔مجھے ان غنائم کی بے حد خوشی ہوئی کیونکہ ہمیں ان کی ضرورت تھی۔

جبکہ دوسری کشتی تیل، تارکول ،ستونوں اور تختوں سے بھری تھی ، تیسری پر زیتون اور زیتون کا تیل لدا تھا ، چوتھی کشتی پر چینی لدی تھی اور باقی دو کشتیاں نفیس اور عمدہ اموال سے بھری تھیں۔

پہلا بیڑہ دوسری بیڑوں سے زیادہ غنائم سے لدا ہوا لاجزائر پہنچا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ میری 35 کشتیوں میں سے کسی ایک کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا ، الحمدللہ حمدا کثیرا علیٰ فضلہ

ہسپانویوں نے سمندر کے درمیان میں ایک پتھریلی چٹان پر مضبوط قلعہ قائم کر رکھا تھا جس کا نام Penon تھا ور یہ الجزائر کی بندرگاہ سے 300 میٹر کی دوری پر واقع تھا ، اس قلعے کو سینکڑوں سپاہیوں کے پہرے اور سینکڑوں توپوں کے ساتھ مضبوط بنایا گیا تھا ، ان کا سالار ایک بوڑھا انتہائی دانا شخص جس کا نام مارٹن ڈی فیرگاس تھا ، کہا جاتا تھا کہ مشہور ترین کپتانوں میں سے ایک ہے۔ ہسپانویوں کیلئے اس قلعہ میں تنگ رقبے کی وجہ زیادہ سپاہی رکھنا ممکن نہ تھا ، اسی طرح یہ سپاہی خشکی پر بھی نہیں اتر سکتے تھے یہاں تک کہ ان کے پینے کا پانی بھی جزائر بلیار سے آتا تھا۔

پہلے ہسپانوی الجزائر بندرگاہ پر بارش کی طرح توپ کے گولے برساتے تھے ، اور شہر کے باسی ان کی اطاعت کرنے اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے مجبور تھے ، لیکن اب ہمارے ڈر سے وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔مگر ہم سمجھتے تھے کہ اس چٹان کا ہسپانیوں کے قبضے میں چھوڑدینا کسی طور بھی صحیح نہیں ۔ چنانچہ میں نے قلعہ ے سالار ڈون مارٹن کو تجویز دی کہ وہ قلعہ چھوڑ کر یہاں سے اپنے سپاہیوں سمیت نکل جائے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا ، لیکن اس نے میر ی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ چنانچہ میں نے قلہ پر بمباری شروع کروا دی جو 20 دن تک مسلسل دن رات جاری رہی یہاں تک کہ ہم نے اس قلعہ پر قبضہ کر لیا، ایک بڑی جنگ کے بعد ڈون مارٹن نے اپنے 700 سپاہیوں کے ہمراہ ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔

کافر کو توپ کے دہانے پر رکھ کر سمندر میں پھینکنا

قلعہ جب ہسپانویوں کے قبضے میں تھا تو وہ جب بھی اذان سنتے تو مساجد پر بمباری کرتے ، ایسا وہ صرف وقت گذاری اور اپنا غم غلط کرنے کیلئے کرتے ، لیکن جب ہم الجزائر میں آگئے تو وہ ہمارے خوف سے ایسی گھناؤنی حرکت کرنے سے کرنے سے باز آگئے اور انھیں اس تفریح کا موقع کھو دینے کا افسوس تھا ۔

اور جب ہم نے قلعہ پر قبضہ کر لیا تو توپخانے کے سالار کو میرے پاس لایا گیا ، جس نے بہت سی اذان گاہوں کو تباہ اور کئی مؤذنوں کو جب وہ بلند اواز میں اذان کہتے شہید کیا تھا ۔ میں نے اسے کہا:

" اے کافر …تو ماہر نشانہ باز ہے …ایک گولے سے مینار تباہ کرتا ہے …اب تو دیکھ کہ حقیقی گولہ باری کس طرح کی جاتی ہے!"

پھر میں نے اس کافر کو توپ کے دہانے پر باندھنے اور سمندر میں پھینکنے کا حکم دیا ، اس کے معاون اور توپخانے کے دس سپاہیوں کا سر قلم کیا ، جبکہ باقیوں کو میں نے کوٹھریوں میں ڈالنے کا حکم دیا ۔

ہمیں ا س قلعہ کی ضرورت نہ تھی چنانچہ میں نے اس چٹان کو بارود کے دھماکوں سے ختم کروا دیا ۔ اس کے بعد میں نے 30 ہزار کافروں کو جو جیلوں میں بند پڑے تھے جمع کیا اور انھیں قلعہ کی چٹانیں جمع کرنے میں استعمال کیا تاکہ قلعہ اور بندرگاہ کے درمیان Break water(ساحلی رکاوٹ )بنائی جا سکے ، اس طرح سے ہم نے الجزائر شہر کی بندرگاہ کو محفوظ اور خوبصورت بنا لیا ۔

اس قلعہ پر میرے قبضے نے شاہ کارلوس کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا اور جو قاصد اس کے پاس یہ خبر لے کر گیا اس نےیہ کہتے ہوئے اس کا سر قلم کر دیا کہ: قلعوں پر قبضہ کرنا میرے جیسے عظیم بادشاہوں کاکام ہے ، یہ باربروس جیسے سمندری قزاقوں میں سے ایک قزاق کو کیسے ہمت ہوئی کہ میرا قلعہ چھین سکے ؟ایسے وقت میں جبکہ میں نے شاہ فرانس کو قیدکرکے میڈریڈ کی ایک کوٹھڑی میں ڈال رکھا ہے میں ان جیسے قزاقوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا َ؟! یقینا اس کی وجہ بروبحر میں موجود میرے سالاروں کی نالائقی ہے ، تم نے میرا چہرہ خاک آلود کر دیا …اس کو میرے سامنے سے دور لے جاؤ…!

میری عادت تھی کہ میں کفار کے سالاروں ، کپتانوں ، عہدیداروں ، پادریوں اور مختلف فنون میں ماہر لوگوں کو بلوا کر اپنے سامنےبٹھا کر ان سے مختلف موضوعات پر باتیں کرتا ، میں ان سے معلومات حاصل کرے کے انداز میں بات چیت نہیں کرتا تھا ، بلکہ میرا انداز یہ ہوتا گویاکوئی دوست اپنے دوست کے ساتھ بات چیت کر رہا ہو۔ اس طرح سے میں ان سے بہت سی اہم معلومات حاصل کر لیتا تھا۔ بلکہ مجھے ان کے بہت سے ایسے محلاتی رازوں سے بھی واقفیت تھے جن سے یورپ تک کے لوگ ناواقف تھے ، اور ایک اور حقیقت جسے میں یہاں بیان کرن اچاہتا ہوں وہ یہ کہ بحر متوسط کے ہر ملک میں میرے جاسوس موجود تھے ، مگر قیدیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے بات چیت کرنے سے بہت سی نئی معلومات ملتیں ۔ شاہ کارلوس کی Penon قلعہ پر میرے قبضے کے بعد کی گئی یہ گفتگو بھی قیدیوں سے بات چیت کے ذریعے میرے تک پہنچی۔

اسی طترح مجھے قیدیوں سے علم ہوا کہ شاہ کارلوس اب برشلونہ میں ہے اور اس نے جنیوا کی جانب جانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ جنیوا بھی بہت سے دوسرے یورپی ممالک کی طرح شاہ کارلوس کے زیر تسلط تھا ، اس طرح اس کا سب بڑا ایڈمرل Andera Doria بھی جنیوا سے تعلق رکھتا تھا۔

اس قلعہ کو تباہ کرنے اور اس چٹان کا ہر نشان مٹا دینے کے بعد ایک چھوٹا ہسپانوی بیڑہ ہسپانوی سپاہ کیلئے کمک اور سازوسامان لیکر آیا ، اس کے کپتانوں و علم نہیں تھا کہ قلعہ پر ہمارا قبضہ ہو چکا ہے ، ہسپانوی کشتیاں جب قریب آئیں اور انھیں قلعہ نظر نہ آیا تو انھوں نے سمجھا کہ وہ راستہ بھول چکے ہیں ، ابھی وہ راستہ تلاش کرنے میں ہی مشغول تھے کہ اچانک میری پانچ کشتیوں نے انھیں وہاں کے باسیوں کے سامنے جو اس منظر کو دیکھ رہے تھے ہر جانب سے گھیر لیا ، ہم نے کشتیوں پر موجود اکثر لوگوں کا خاتمہ کر دیا ، جبکہ 335 افراد نے ان مین سے ہتھیار ڈال دئیے۔جنہیں جیل بھیج دیا گیا، اس واقعے نے گہرا اثر ڈالا اور ہسپانوی کشتیوں میں الجزائر کے سواحل کے قریب آنے کی جرات بھی نہ رہی ۔

اس دوران میرا بڑا کپتان سنان رئیس بیمار پڑ گیا ، چنانچہ میں نے Aydin Reis کو قیادت سونپی ، آیڈین سمندری معاملات میں بہت ماہر اور سنان رئیس سے زیادہ شجاعت کا مالک تھا ۔ میں نے ایک دن آیڈین کو بلایا اور اسے کہا:

"میرے بیٹے آیڈین …اس سال تو بحر متوسط کے مغرب میں جنگ کیلئے نکلے گا، تجھے چاہئے کہ آگے بڑھتا جائے یہاں تک کہ آبنائے سبتہ[2]کے اندر تک گھس جائے ،اور واپسی کے دوران پسپانیہ کے سواحل پر انھیں اپنے قریب پھٹکنے کا موقع دئیے نبغیر قبضہ کر ۔ پھر اپنی کشتیوں پر غرناطہ کے پہاڑوں میں پناہ گزین جتنے مسلمان سوار کر سکتا ہے سوار کر اور انھیں اپنے ہمراہ صحیح سلامت الجزائر لے آ۔میری دعائیں تیری جنگ میں تیری حفاظت کرتی رہیں گی ، اسباب اختیار کرنے میں کسی قسم کی کمی اور کواہی مت برتنا۔

"آپ کا حکم سر آنکھوں پر"

یہ کہہ آیڈین نے مجھے الوداع کیا اور رخصت ہو گیا۔

آیڈین رئیس نے 10 کشتیوں کے ساتھ الجزائر بندرگاہ سے روانہ ہوا ، اور میرے حکم کے مطابق بحر ابیض کے مغرب میں اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ آبنائے سبتۃ جا پہنچا ۔راستے میں ان کا ٹکراؤ 5 قادرغہ قسم کے بڑے جہازوں سے ہوا ، دونوں فریق ایک دوسرے کے محاذ آراء ہوئے اور ایک بڑے معرکے کے بعد ان تمام جہازوں پر قبضہ کر لیا ، پھر ان پر ترک جہازراں سوار کر کے انھیں الجزائر بھیج دیا۔ان کی الجزائر سے روانگی کے 11 ویں دن 5 جہاز الجزائر بندرگاہ میں لنگر انداز تھے ، مجھے اس سے بے حد خوشی ہوئی ،کیونکہ یہ جنگی کشتیاں انتہائی عمدہ تھیں۔

دوسری جانب آیڈین رئیس نے ہسپانیہ کے جنوبی ساحل پر واقع شہروں اور قصبوں پر اپنے حملے جاری رکھے، اور توپوں کے ساتھ ان پر گولہ باری کرتا رہا۔اس کے ہاتھ میں جو بھی ہسپانوی لگتا اسے قید کر لیتا اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے ہراہ کشتیوں میں سوار کرتا رہا یہاں تک کہ کشتی میں ایک قدم کی جگہ بھی باقی رہی۔

ہسپانوی بادشاہ کو جب علم ہوا کہ آیڈین رئیس نے اپنی کشتیوں میں ہزاروں مسلمانوں کو سوار کیا ہے تو اس نے اپنے سب بڑے ایڈمرل Portondo کو حکم دیا کہ آیڈین رئیس کا راستہ روکے ، او ر اس سے وعدہ کیا کہ اس مہم میں کامیابی کے بعد اسے انعام میں 10 ہزار دوقۃ عطاء کرے گا۔

پورٹونڈوکا اپنے دیو ہیکل بحری بیڑے کے ساتھ ہسپانیہ کے جنوبی ساحل پر آیڈین رئیس کے ساتھ سامنا ہوا ۔ آیڈین رئیس نے قوزداغلی صالح رئیس جو کہ اس کے ساتھ موجود رؤساء میں سے ایک تھا مشورہ کیا کہ ہسپانوی بحری بیڑہ کا کس طرح مقابلہ کیا جائے ۔دونوں اس رائے پر پہنچے کہ کارگراور بہترین طریقے جنگ لڑنے کیلئے ان کا اندلسی مہاجرین کو اتارنا ضروری ہے اور جب وہ ہسپانی حملہ آوروں کے مسئلہ سے فارغ ہو جائیں تو واپس انھیں سوار کر کے الجزائر لے آئیں۔

جب اندلسیوں کو اس فیصلے کا علم ہوا تو انھیں شدید صدمہ پہنچا ، آہ و بکاء اور چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگیں ، اور انھوں نے کشتیوں سے اترنے سے انکار کر دیا۔ ان میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی، چنانچہ آیڈین رئیس اور صالح رئیس انھیں زبردستی اتارنے پر مجبور ہو گئے۔معرکہ کے دوران ان کی کشتیوں پر موجودگی بہت سے خطرات سے ڈھکی تھی ، اس کے ساتھ ساتھ ان کی موجودگی جہازرانوں کیلئے ان کی حفاظت میں مصروف ہونے کی وجہ سے رکاوٹ بنتی۔

ایڈمرل Portondo کی کشتیاں انتہائی قریب آگئیں ، آیڈین رئیس اور صالح رئیس نے ایک ناگہانی اور تیزرفتار حملے کے ذریعے ان کا سامنہ کیا اور دونوں ایک خوں ریز معرکے کا آغاز کرتے ہوئے دشمن پر جھپٹ پڑے ، جس کا اختتام ہسپانویوں کی سات بڑی کشتیوں پر قبضے کی صورت میں ہوا ۔ Portondo جس نے مسلمانوں کو ظلم و تشدد کی چکی میں پیسے رکھا تھا مارار گیا ، اسی طرح اس کے ساتھ تمام کپتان بھی مارے گئے۔

آیڈین رئیس صالح رئیس کی مدد کے ساتھ ایک اہم اور فیصلہ کن فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ صالح رئیس جو اپنے ناگہانی جارحانہ حملے میں بہت مشہور تھا یہاں تک کہ اس کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہا جاتا کہ وہ اپنی بھٹ سے نکلے ہوئے بھیڑئیے کی مانند حمل کرتا ہے ۔ اس معرکہ سے نصاریٰ نے ترکوں کا لقب چوٹ لگانے والا شیطان اور چوٹ لگانے والا کافر رکھ دیا۔

غنیمت میں ملی ان بڑی ہسپانوی کشتیوں کے علاوہ375 ہسپانوی کافر قید ہوئے۔ جبکہ باقی تمام سپاہ کا اس جنگ میں خاتمہ ہوا، اس کے ساتھ ساتھ چپو چلانے والے مسلم قیدیوں کو رہائی نصیب ہوئی ، جبکہ اندلسی جنہیں کشتیوں سے اتار دیا گیا تھا وہ ساحل پر کھڑے ہو کر انگاروں کے ڈھیر پر اس معرکے کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔ یہاں تک کہ یہ معرکہ ختم ہو گیا ، اس کے بعد دوبارہ انھیں کشتیوں میں سوار کر کت الجزائر لے آئے۔

اس دوران سنان رئیس فوت ہو گیا۔ میں آیڈین رئیس کو اس کی وفات کے کچھ دن بعد بلایا ، وہ میرے پاس آیا ، میرے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ میں نے اسےسنان رئیس مرحوم کی جگہ بحری بیڑے کا قائد اور صالح رئیس کو اس کا نائب مقرر کیا۔

میں نے آیڈین رئیس کوجب وہ استنبول تھاتو اس کی عثمانی بحری بیڑے کے کچھ حصوں کی قیادت کے پیش نظر استنبول بھیجنے کا ارادہ کیا ،آیڈین رئیس سلطان بایزید ثانی رحمہ اللہ کے پاس تھا ،جنہوں نے اسے مصر بھیجا تاکہ وہ مملکوک سلطان کی خدمت کر سکے۔ اور وہاں سے الجزائر چلا آیا اور میرے بھائی عروج رئیس کا ساتھی بن گیا۔

اسے استنبول بھیجنے سے قبل میں 3 عدد قادرغہ کشتیاں تیار کروائیں ، ان میں تمام ضروری سامان رکھا۔ اسی طرح کشتی کے مستوں کو مزین کیا۔یہاں تک کہ دور سے سورج کی شعائیں پڑنے پر وہ چمکتیں ، واقعتا یہ منظر اتنا خوبصورت دکھائی دیتا کہ زبان اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔ میں نے ہر کشتی میں 200 جہازراں رکھے اور ان کیلئے مضبوط ترین خلاصیوں کا انتخاب کیا۔ اس طرح 300 قیدیوں کا انتخاب کیا ، جنہیں آیڈین رئیس نے بروبحر کے بادشاہ سلطان سلیمان خان کی خدمت میں ہدیہ پیش کرنا تھا۔

جہازرانوں نے جب اپنی تیاری مکمل کر لی تو میرے پاس آئے ، میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا ، اور توپوں کی گھن گرج میں الجزائر بندرگاہ سے روانہ ہوگئے۔


[1] سابقہ خراج میں اختلاف ہے ایک جگہ 39000 دوقۃ ذکر کیا ہے جبکہ یہاں 90 ہزار دوقۃ ذکر کیا ہے ، شاید ایسا سہوا ہوا ہے یہاں مزید کوئی اور خراج بھی ہو جسے پچھلے خراج میں شامل کر لیا گیا ہو۔

[2] جو بعد میں آبنائے جبل طارق کے نام سے مشہور ہوئی
 

ربیع م

محفلین
آیڈین رئیس سلطان کے سامنے

ایک بابرکت گھڑی میں آیڈین رئیس استنبول بندرگاہ میں داخل ہوا، سلامی توپوں کی گونج سے فضا لرز اٹھی ، کشتیاں لنگر انداز ہوئیں اور ان سے 300 قیدی خوشنما عبا اوڑھے اترے ہر ایک نے مختلف قسم کے ٖغنائم اٹھا رکھے تھے، اس دوران اہل استنبول جوق در جوق بندرگاہ کی جانب جانئ والے راستوں اور سڑکوں پر امڈ آئے تاکہ الجزائر سے آنے والے بحری بیڑے کا مشاہدہ کر سکیں ۔

آیڈین رئیس کو دوسرے جہازرانوں کے ساتھ سلطان معظم سلیمان خان نے شرف ملاقات بخشا ، آیڈین نے میرا بھیجا گیا خط سلطان ی خدمت میں پیش کیا ، جسے سلطان نے خود پڑھ کر عزت بخشی، خط پڑھنے کے بعد آیڈین رئیس کا شکریہ ادا کیا اور اس کی تعریف کی ۔ملاقات کے آخر میں سلطان نے آیڈین رئیس کو 400 دینار اور اس کے ساتھ دوسرے جہازرانوں کو 300 دینار دینے کا حکم دیا۔ اس کےساتھ ساتھ میرے 9 کپتانوں کو 200 دینار ، کشتیوں کے اماموں کو 100 دینار اور ہر آفیسر کو 50 دینار دینے کا حکم دیا ۔ اسی طرح آیڈین رئیس کو مرصع تلوار خلعت سلطانی اور جنگی دوربین کا تحفہ دیا ۔ جبکہ جہازرانوں کو کشتیوں کے کارخانے میں موجود ضیافہ میں لےجانے اور وہاں ان کی مہمان نوازی اور تکریم کرنے کا حکم دیا۔

سلطان نے آیڈین رئیس کو ہدایات دیں ، پھر آیڈین رئیس نے تمام وزراء اور اہم کپتانوں سے ملاقات کی۔

آیڈین رئیس ایک ماہ تک استنبول میں ٹھہرا رہا ، اس کے بعد روانگی سے قبل ایک بار پھر سلطان کی خدمت میں پیش کیا گیا، سلطان نے اسےمرصع تلوار ، خنجر اور خلعت جس میں سونے کے دھاگےوں کی کشیدہ کاری کی گئی تھی ، سونے کی تاروں سے بنا پرچم ، اور دو مرصع نیشانین ان کے ساتھ قیمتی کمر بند عطاء کئے اور حکم دیا کہ یہ میرے سپرد کی جائیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک20 نشستو ں والی قادرغہ کشتی دینے کا حکم دیا ، ان میں توپوں کے گولے رکھے گئے جنہیں کچھ عرصہ قبل ہی ڈھالا گیا تھا۔اسی طرح کشتی کے سٹور اس کے راستوں تک کو سامان سے بھر دی گیا۔ جس میں قیادت کے کیبن کو مختلف قسم کے جنگی سازوسامان کے ساتھ اس کے ساتھ ساتھ ستون ، اشرعۃ ، تارکول ، تیل مضبوط رسے جن کے ساتھ کشتیوں کو کھینچا جاتا ہے وغیرہ شامل تھیں۔ کشتی کی گذرگاہوں میں ایک قدم جگہ بھی خالی نہ تھی ، اور کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کی ہمیں ضرورت پڑ سکتی ہو اور وہ اس سامان میں نہ ہو، سازوسامان کی کثرت کی وجہ سے بڑی بڑی کشتیاں اپنے بوجھ کی وجہ سے سمندر میں ڈوب رہی تھیں۔

جب آیڈین رئیس نے سلطان کی خدمت سے نکلنے کا ارادہ کیا ، تو سلطان نے اسے ایک نیشان عطاء کیا جسے جواہرات سے مزین کیا گیا تھا۔ آیڈین رئیسسامان سے بھری ان سو کشتیوں کے ملنے پر انتہائی فرحت و سرور کے عالم میں محل سے نکلا، سلطان کی جانب سے ملنے والی تکریم کی شدید خوشی اس کے علاوہ تھی۔

اس کے بعد سلطان ہمارے بحری بیڑے کا معائنہ کرنے کیلئے ساحل پر پھیلے ساحلی محل Saray Bornu تشریف لے آئے ، جہاں ہماری کشتیاں واپسی کیلئے کھلے سمندر میں داخل ہونے سے قبل محل کے سامنے سے سلامی کے گولے داغتی ہوئی گذر رہی تھیں ۔

آیڈین رئیس نے دراش [1]سواحل سے گزرتے ہوئے Avlonya اولونیا سواحل کو عبور کیا۔

یہاں تک کہ خیج وینس پہنچا ، وہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد خلیج کو چھوڑا اور صقلیہ سے گذرتے ہوئے جزائر بیلیار پہنچا ، وہاں دشمن پر حملہ کیا اورجزیرۃ میورقہ سے بہت سے غنائم اور قیدیوں کی ایک بڑی تعداد حاصل کرنے کے بعد الجزائر کا رخ کیا۔

آیڈین رئیس الجزائر سے 10 قادرغہ کشتیوں میں نکلا تھا، اور واپسی میں سلطان کی عطاء کردہ تین کشتیوں کے علاوہ 15 دوسری چھوٹی کشتیوں کے ہمراہ لوٹا ، جنہیں الجزائر واپسی کے دوران معرکوں میں غنیمت بنایا تھا۔چنانچہ اس کے بیڑے کی تعداد 28 کشتیوں تک جا پہنچی۔آیڈین رئیس کو الجزائر کی بندرگاہ میں داخل ہوتے دیکھ کر ہمیں بے انتہاء خوشی پہنچی۔

اس کے ساتھ آیڈین کی غنیمت میں حاصل کردہ کشتیوں میں بری مقدار میں قہوہ ، چاول ،ریشم ، آئینے ، پستول اور بندوقیں لدی تھیں۔

میں نے آیڈین رئیس کا استقبال کیا ، اس نے مجھے سلطان کا عطاء کردہ خط دیا جو کہ اونی کپڑے سے لپٹے ایک ڈبے میں لپٹا ہوا تھا، میں نے اسے انتہائی احترام سے لیا ، 3 بار بوسہ دیا، سلطان کی تعظیم میں اسے اپنے سر پر رکھا ، پھرکھول کر اس کواپنے قدموں پر کھڑے ہو کر پڑھاجس میں تحریر تھا:

الجزائر کے بیلر بای خیر الدین پاشا : ہم تک تمہاری خبریں پہنچیں ، اور ہمارے علم میں تمہارے احوال آئے، ہم نے تمہارےتحفہ میں بھیجے گئے 300 قیدی قبول کئے ، اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تیری اور تیرے مجاہد بھائیوں کی نصرت فرمائے، دنیا آخرت میں تمہارے چہرے روشن رکھے ۔ میں نے تمہاری جانب جنگی سازوسامان بھیجا ہے تاکہ تم ہمارے دشمنوں ہسپانوی کفار کے خلاف جنگ کر سکو،انھیں لمحہ بھر بھی چین نہ لینے دو۔ میرا بھیجا گیا نیشان اپنے عمامے میں لگاؤ ۔ میرا پرچم اپنی کشتی کے سب سے بلند بادبان پر نصب کرو۔ جبکہ میرا سفید پرچم جس پر سونے کی کشیدہ کاری کی گئی ہے اسے ایسی جگہ پر نصب کرو جو تمہاری شرف و عزت کا ااظہار ہو اور کبھی سرنگوں نہ ہو۔

میں نے پرچم سلطانی کو الجزائر کے باب اشویۃ کے نزدیک ایک بلند جگہ پر نصب کیا ۔ ہم ہر روز غروب آفتاب کے وقت مراسم سلطانی ادا کرتے ، عثمانی فوجی ساز کے ساتھ اس پرچم کو اتارا جاتا اور غلاف میں لپیٹ دیا ۔ اگلی صبح طلوع آفتاب کے ساتھ ہی فوجی ساز کی آواز کے ساتھ ہی پھر لہرا دیا جاتا ۔اور جب ہم جنگ کیلئے نکلتے تو میں اس پرچم سلطانی کو کشتی کے سب سے بلند بادبان پر نصب کرتا۔

اس سال میں نے یتیموں اور الجزائر شہر کے فقراء کے بچوں ، بچیوں اور ان کے رشتہ داروں کو جو شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں جمع کیا، بچوں کے ختنے کئے گئے، بیٹوں کی شادیاں کیں ، اسی طرح ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق مال دیا گیا۔جن مساکین کے گھر نہیں تھے ان کو گھر دینے کا حکم دیا۔اور بے روزگاروں کو کام مین مصروف کرنے کا حکم دیا۔

مجھے پورا یقین تھا کہ اللہ رب العزت ہماری ہر نیکی کااور ہمارے ہر خرچ کا کئی گنا زیادہ بدلہ عطاء کرتے ہیں ، میں نے اہپنی طویل زندگی میں اس کا کئی بار مشاہدہ کیا۔ جب کبھی میں نے اپنی دولت مین سے کچھ خرچ کیا اللہ رب العزت نے اپنے راستے میں اس خرچ کردہ مال سے کئی گنا زیادہ عطاء فرمایا۔

تم نے مجھے بادشاہوں کے سامنے تماشہ ومذاق بنا دیاہے !!

تم نے مجھے بادشاہوں کے سامنے تماشہ و مذاق بنا کر رکھ دیا ہےتم میں کوئی ایسا نہیں جو باربروس کامقابلہ کر سکے…

ان الفاظ کے ساتھ ہسپانیہ کا بادشاہ اپنے سالاروں اور ایڈمرلز پر برس پڑا…

یہاں جنیوا کا ایڈمرل انڈریا ڈوریا جوکہ اس مجلس میں موجود تھا گھٹنوں کے بل بدشاہ کے سامنے بیٹھ کر جھکا اور کہنے لگا:

میرے آقا آپ مطمئن رہئے، میں پوری سرعت سےمسیحیت کے دشمن اس باربروسہ نامی شخص کو بیڑیوں میں جکڑ کر آپ کے سامنے پیش کروں گا ، تاکہ آپ اس کے قتل کا حکم جاری کریں اور اس کی خبیث روح بھی جہنم کی تہہ میں اپنے بھائی عروج کی روح سے جا ملے۔

شاہ ہسپانیہ کا چہرہ ان الفاظ کو سن کر کھل اٹھا ، اسے انڈریا ڈوریا پر بھرپور اعتماد تھا ، اور اسے یقین تھا کہ جنیوا کا ایڈمرل کچھ کر سکتا ہے۔

اس مجلس میں کی گئی باتیں بہت جلد مجھ تک پہنچ گئیں ۔ میرے جاسوس یورپ کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے تھے، جو ہر چھوٹے بڑے پیش آنے والے واقعہ کی اطلاع مجھ تک پہنچاتے ، اور اس کے مقابلے میں نصاریٰ کے مفادات کیلئے کام کرنے والے جاسوس بھی الجزائر اور دوسرے اسلامی شہروں میں پھیلے تھے جو انھیں درکار معلومات ان کو فراہم کرتے رہتے تھے۔

الجزائر سے معلومات کے اخراج کے سدباب کیلئے میں بالکل طبیعی انداز میں کام کرتا اور انتہائی زیادہ محتاط رہتا ۔مگر اس کے باوجود الجزائر بندرگاہ جو کہ دنیا تجارتی سرگرمیوں کے لحاظ سے مصروف ترین بندرگاہ تھی ، میں ہماری عسکری نقل وحرکت سے متعلق خبروں کو باہر نکلنے سے روکنا تقریبا ناممکن تھا۔

ڈوریا اس امید پر نکلا کہ وہ مجھے قید کر کے اپنے بادشاہ کے پاس لے جائے گا ، بادشاہ نے اس کے زیر کمان 20 ہسپانوی کشتیاں اور 10 جنیوا کی کشتیاں بھیجیں ، یہ تمام تر قادرغہ تھیں ، یہ دیو ہیکل کشتیاں ہماری کشتیوں سے کہیں بڑی تھیں ۔ مگر ہماری کشتیاں زہادہ ہلکی اور ا ن کی کشتیوں سے زیادہ کارگر تھیں۔

اس دوران الجزائر میں میرے پاس 35 قادرغہ کشتیاں تھیں میں نے قورد اوغلو مصلح الدین رئیس کو ان پر قائد مقرر کیا ، اور اسے حک دیا کہ وہ آنے والے کیلئے تیار رہے۔

مجھےڈوریا کی جزائر بلیبار سے میورقہ آمد کی اطلاع ملی۔ لیکن باوجود اس کے کہ اس نے بادشاہ سے مجھے گرفتار کر کے لانے کا وعدہ کیا تھا مگر اس کے باوجود اسے الجزائر پر حملہ آور ہونے کی جرات نہ ہوسکی ، چنانچہ اس نے شرشال کی بندرگا ہ پر حملہ کر دیا ، جس کی حفاظت کیلئے محض چند سو جہازراں متعین تھے ۔

جہازرانوں نے جب ڈوریا کے بیڑے کو شرشال کے قریب آتا دیکھا تو وہ قلعہ کو مضبوطی سے بند کر کے وہاں قلعہ بند ہو گئے۔ اور جب دشمن کے افراد بندرگاہ اور شہر میں لوٹ مار میں مصروف تھے، جہازرانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور قلعہ کے دروازے کھول کر ڈوریا کے افراد پر ناگہانی حمل کر دیا۔ ڈوریا کو اس اچانک حملے کی توقع نہ تھی کیونکہ اس کے خیال میں خوف نے ترکوں کو اس قلعہ میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔

جہازراں شہر کی گلیوں کوچوں میں پھیل گئے اور ان کے بکھرنے اور ایک معسکر میں جمع ہونے سے عاجز آجانے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو تہہ و تیغ کرنے لگے، اس طرح ان میں سے سینکڑوں لوگ مارے گئے جبکہ باقی راہ نجات تلاش کرتے ہوئے کشتیوں کی جانب فرار ہو گئے ، اور 1700 افراد قیدی بنے۔

جب مجھے ڈوریا کے شرشال پر حملہ کی خبر ملی تو میں 40 بحری جہازوں پر ان کی جانب نکلا ، اور جونہی انھیں میری آمد کا علم ہوا وہ شرشال چھوڑ کر بھاگ نکلے اور میرے سامنے سوائے ایک چھوٹے بحری بیڑے کے اور کوئی نہ تھا جس پر ایک شدید معرکے کے بعد میں قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔

معرکہ جب اپنی پوری شدت پر تھا تو ہسپانوی کشتیوں میں موجود بیڑیوں میں جکڑے مسلم قیدیوں نے اپنی بیڑیاں توڑ ڈالیں اور یا اللہ کے نعرے لگانے لگے…

معرکے کا اختتام ہمارے 300 افراد کی شہادت پر ہوا جبکہ ہم نے تمام بیڑے پر قبضہ کر لیا۔

میرے جہازوں کی تعداد 60 تک جا پہنچی جن میں وہ کشتیاں بھی شامل تھیں جن پر ہم نے دشمن سے قبضہ کیا تھا ، میں ان سب کو لے کر شرشال بندرگاہ لے آیا ، میرے بیڑے کے 7 جہازوں کو سنان رئیس جربہ سے لیکر آیا تھا۔

اس دوران میں نے مسلم قیدیوں کو شمار کیا جنہیں ہم نے آزاد کروایا تھا تو ان کی تعداد 2200 قیدیوں تک جا پہنچی میں نے ان سب کو آزاد کر دیا جبکہ ان میں سے کچھ نے میری خدمت میں رہنے کو پسند کیا جبکہ باقیوں کو ضرورت کے مطابق مال اور سازوسامان دے کر ان کے علاقوں کی جانب روانہ کر دیا۔

جبکہ کفار کی کشتیوں سے قیدی بننے والے قیدیوں کی تعداد 2980 کافروں تک جا پہنچی ، ان میں افرنگیوں کے ایڈمرل کے رتبہ کے بحری سالاروں کے ساتھ ساتھ بہت سے بڑے کپتان بھی تھے۔ میں نے ان سب کو کشتیوں کے چپوؤں کے سا تھ باندھنے کا حکم دیا تا کہ وہ قید کے دوران چپو چلانے کا کام کریں۔

جبکہ میں شرشال میں کچھ گھنٹوں کیلئے ہی ٹھہرا اور اس کے بعد الجزائر کا رخ کیا ، یہ تمام سفر 3 دن پر مشتمل تھا۔

آیڈین رئیس بحر اوقیانوس میں

میں انڈریا ڈوریا کو گرفتار کرنا چاہتا تھا ، اس مقصد کے حصول کیلئے میں نے آیڈین رئیس کی قیادت میں ایک بڑا بحری بیڑا دیا اور اسے ڈوریا کے تعاقب کا حکم دیا ۔ آیڈین رئیس اپنے بحری بیڑے میں اس کے تعاقب میں نکلا اور سبتۃ جا پہنچا ، اور وہاں سے دشمن کے سواحل کے اندر گھستا ہو اجبل الطارق پہنچا اور وہاں سے آبنائے طارق عبور کر کے بحر اوقیانوس جا پہنچا مگر دشمن کا کوئی نشان نہ پا سکا ۔

جس کے نتیجے میں مجبورا اسے واپس الجزائر لوٹنا پڑا ، واپسی کے دوران اس نے جزائر بیلیار پر حملہ کیا ، جزیرۃ میورقۃ اور بحر متوسط پر پھیلے ہسپانوی سواحل پر بمباری کی ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 3000 کافروں کو قید کر کے اپنی کشتیوں میں سوار کیا۔اور دشمن کی سرزمیں میں گھستاچلا گیا یہاں تک کہ برشلونہ بندرگاہ کے قریب پہنچا

برشلونہ کے قریب ایک دیر تھا ہسپانیہ کے بادشاہوں کی عادت تھی کہ وہ ہرسال اس کی زیارت کیلئے آتے تھے ، چنانچہ آیڈین رئیس نے اس دین پر حملہ کیا اور 80 راہبو ں کر گرفتار کیا اور اس کلیسا کے 36 خزانے کے صندوقوں پر قبضہ کیا ، صرف وہاں موجود چاندی کی قندیلوں کا وزن 25 کیلا[2]چاندی تھا ۔یہ حملہ شاہ کارلوس کی کمر توڑ دینے کے مترادف تھاہم نے اس کی ناک خاک آلود کر دی ۔ اس حملہ میں جن کشتیوں پر آیڈین رئیس نے قبضہ کیا ان کی تعداد 55 تک پہنچی ہے جن میں بڑے جہاز اور چھوٹی کشتیاں شامل ہیں ، جن سب کو وہ اپنے ہمراہ الجزائر کی بندرگاہ پرلے آیا ،ان حملوں کے ذریعے ہم نے ڈوریا کو اس کے شرشال پر حملے کا خاطر خواہ جواب دے دیا۔

ان غنائم کی بدولت الجزائر شہر ایک مثالی نمونہ بن گیا اور اس کے بازاروں کی ارزانی کا ہند کے علاقوں میں چرچا ہونے لگا کہ تاجر الجزائر سے ایک درہم کا سامان خرید کر دس دراہم میں فروخت کرتے ہیں ۔

کوٹھریوں میں موجود قیدیوں کی تعداد 16 ہزار تک جاپہنچی کشتیوں میں موجود چپو چلانے والے اور گھروں میں خدمت کیلئے مخصوص قیدی ان کے علاوہ تھے میں نے انھیں عثمانی بحری بیڑے میں کام کیلئے استنبول بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔اور اس مہم کیلئے آیڈین رئیس کا انتخاب کیا جس نے انھیں 15 قادرغہ نوعیت کے جہازوں میں استنبول منتقل کیا۔

آیڈین رئیس الجزائر سےنکلنے کے بعد 27 ویں روز استنبول پہنچا جہاں اسے سلطان عالم سلیمان خان کے سامنے پیش کیا گیا جنہوں نے بذات خود میرے خط کو پڑھ کر مجھے تکریم بخشی ۔

آیڈین رئیس نے وزراء اور ان کے علاوہ دوسرے مملکت کے عہدیداران سے ملاقات کی اور میرے بھیجے گئے تحائف پیش کئے اور ان سے بے حد عزت و قدر افزئی حاصل کی ، جبکہ سلطان سلیمان نے ایک بار پھر آیڈین رئیس کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا اور اسے مخاطب کر کے کہا :

اے رئیس سنو:الجزائر کے بیلربائی خیرالدین کے تمام کاموں کو مجھ سے پسندیدگی اور قبولیت کا درجہ حاصل ہے اس لئے میں تمہیں 5 عدد قادرغہ قسم کی کشتیاں عطا کرتا ہوں جو تم خیرالدین کے حوالے کرو اسی طرح میں نے قبطان پاشا کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہیں ضرورت کی ہر چیز گولے آلات حرب مہیا کرے بالخصوص بحری توپوں کے گولے جتنے تم اٹھا سکتے ہو کشتیوں پر رکھ لو ، اور اس کے ساتھ میں توپوں کے انجینئرز تمہارے ہمراہ بھیجتا ہوں جو تمہاری خدمت میں ہوں گے ، الجزائر میں ہما را بحری بیڑہ انتہائی طاقتور اور ہر لمحہ جنگ کیلئے مستعد ہونا چاہیے مجھ تک یہ اطلاعات پہنچی ہیں کہ شاہ کارلوس الجزائر کے حوالے سے انتہائی برے ارادے رکھتا ہے ۔ چنا نچہ تمہیں کسی بھی قسم کی غفلت سے بچنا چاہیے اور ضروری احتیاطی تدابیر کو لازم پکڑو ،

آیڈین رئیس استنبول سے روانگی کے 41 دن بعد الجزائر پہنچا وہ 15 عدد قادرغہ نوعیت کی کشتیوں کے ساتھ چلاتھا ان میں سے پانچ کشتیاں سلطان سلیمان خان کا تحفہ تھیں جبکہ واپسی کے دوران اس نے 7 کشتیوں پر قبضہ کیا ان شب پر اس نے کفار کے شہروں پر حملہ کرکے قبضہ کیا تھا ان جنگوں میں وہ 700 قیدی پکڑنے میں بھی کامیاب رہا۔

آیڈین رئیس نے مجھے سلطان کا آل عثمان کی مہر سے مہر بند خط میرے حوالے کیا ، میں نے اس پر موجود غلاف کا تین بار بوسہ لیا اور اسے اپنے سر پر رکھا ، سلطان کی تعظیم کی تعبیر کے طور پر ۔

پھر خط کو نکال کر انتہائی توجہ سے پڑھا تاکہ دل کی گہرائیوں سے ہمارے آقا سلطان کے فرامین کی تعمیل کر سکوں۔جب میں اس سے فارغ ہوا تو آیڈین رئیس سے سلطان کے بھیجے تحائف وصول کئے جن میں خلعت سلطانی جو فر سے بنی ہوئی تھی اور انتہائی قیمتی تھی اس کے ساتھ ایک طلائی گھڑی اور جواہر سے مرصع تلوار اور علم عثمانی شامل تھا ۔

اسی اثناء میں شاہ کارلوس ہم سے مشغول ہو گیا اس کے بھائی شاہ فرنینڈو نے ویانا سے اس سے مدد طلب کی تھی اس دوران ہمارے آقا سلطان سلیمان خان ہنگری کی حدود میں اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ وہ شاہ فرنانڈو اپنے علاقے میں جنگوں کی وجہ سے سکون کا سانس نہ لے سکے ۔

شاہ کارلوس کو یقین ہوگیا کہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ اس نے شاہ تلمسان کو ہمارے خلاف بغاوت اور شورش کھڑی کرنے کیلئے بھڑکانا شروع کر دیا ، اس کی جانب بہت سا مال ودولت روانہ کیا اور اس سے وعد ہ کیا کہ اسے الجزائر کا سلطان بنائے گا ۔ اور چونکہ یہ سلطان اپنے آپ کو اس ملک کا اصل سلطان تصور کرتا تھا چنانچہ شاہ کارلوس اس کو انھیں وعدوں اور تحریض کے ذریعے پھسلا رہا تھا ۔

شاہ کارلوس نے اپنے بہت سے تجربات سے جان لیا تھا کہ ان علاقوں پر قبضہ کرنا یا انھیں اپنے تسلط اور اثرونفوذ میں شامل کرنا ممکن نہیں ان پر قبضہ کرنے کا سب سے آسان اور مختصر طریقہ یہ ہے کہ اس کی جانب رال ٹپکانے والے حلفاء اور زعماء اور چھوٹے بادشاہوں پر مال خرچ کیا جائے ۔

سلطان تلمسان نے ان وعدوں کو سچ جانتے ہوئے سرکشی کا اعلان کردیا تب میں نے دلی محمد رئیس کو حکم دیا کہ سمندر میں جنگ کیلئے نکلے جبکہ میں تلمسان کی جانب روانہ ہوا یہاں تک کہ اس وسیع علاقے تک آپہنچا جو مملکت فاس کی حدود پر واقع ہے ۔

مجھے محض تھوڑی سی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد سلطان تلمسان نے راہ فرار اختیار کی اور اس کے بعد میری جانب علماء بھیج کر عفودرگزر کا طلبگار ہوا ۔میں نے انھیں جواب میں کہا : کہ میں اسے اس وقت معاف کروں گا جب وہ خود میرے پاس معذرت کیلئے آئے گا ۔

چنانچہ یہ سرکش سلطان میرے پاس آیا اور مجھے باقی ماندہ خراج ادا کیا جس کی مقدار ایک لاکھ دس ہزار دینار تھی ، پھر اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میرے پاؤں کے ساتھ چمٹ گیا !! میں نے اسے کہا: اس کو چھوڑ دو اے کافر اوراپنے ایمان کی تجدید کرو …تو نے ہمارے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ دوستی کی اور میرے خلاف خروج کیا اور تو جانتا ہے کہ میں خلیفۃ المسلمین او ر سلطان عالم کا نمائندہ ہوں اس کے باوجود تو نے اپنی تلوار میرے چہرے پر سونتی!!

سلطان تلمسان نے شہادتین پڑھ کر اپنی توبہ کا اعلان کیا اور دوبارہ سے اسلام میں داخل ہوا اسی طرح اپنی ان بیویوں سے دوبارہ تجدید نکاح کیا جن سے اس کا نکاح اسلام سے ارتداد کی وجہ سے فسخ ہو چکا تھا۔

جب میں تلمسان میں تھا تو دلی محمد رئیس کا اپنے بحری بیڑے کے ساتھ جو کہ 40 کشتیوں پر مشتمل تھا ہسپانیہ کے بحری بیڑے سے ٹکراؤ ہوا جو کہ 35 عدد قادرغہ قسم کے جہازوں پر مشتمل تھا ۔ دونوں فریق تیزی سے سمندر کی چوڑائیوں میں ایک ددوسرے سے ٹکرا گئے اور جب جنگ کی آگ بھڑکی تو 29 کشتیوں نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا جبکہ باقی چھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔

جب اس فیصلہ کن فتح کی خبر جس میں ترکوں نے ہسپانوی بیڑے کو ذلت آمیز شکست سے دوچارکیا شاہ ہسپانیہ کے کانوں تک پہنچی تو وہ بغض وکینے سے موت کے قریب جا پہنچا ، وہ مایوسی سے اپنی سر نہیں اٹھا سکتا تھا جو اسے سلطان سلیمان خان کے ہاتھوں جرمنی میں شکست کے بعد پہنچی تھی۔


[1] البانیہ کا ساحل جو کہ بحر آڈریاٹک میں واقع ہے

[2] ترکی نسخہ میں چاندی کی قندیلوں کا وزن 25 قنطار تحریر ہے۔اور جیسا کہ پیچھے گذرچکا ہے کہ عثمانی قنطار کا وزن 56.452 کلو گرام ہے دیکھئے
 
Top