نوائے وقت نے اس صفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت
پیر سید غلام معین الحق گیلانی ۔گولڑہ شریف
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے اسلام کے ابدی پیغام حق کو پھیلانے اور عوام کو راہ حق دکھانے میںجو بے مثل کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ اسلام کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔خدائے بزرگ و برتر کے ان مقبول و محبوب بندوں نے دنیاوی اسباب اور سازوسامان کے بغیر جس طرح کروڑوں انسانوں کے قلوب کو مسخّر کیا اور انہیں گمراہیوں اور گناہوں کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و ایقان کی روشنی سے آشنا کیا۔ اپنے افعال و اعمال اور گفتار و کردار سے انہیں متاثر کیا۔ یہ سب حقائق ان کی روحانی عظمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ خاصانِ خدا پیغام ِ حق لے کر اجنبی سر زمینوں پر پہنچے۔ ان کے پاس تیر و تفنگ تھا‘ نہ شاہانہ افواج ‘ مال و دولت تھی نہ تخت و تاج لیکن’ ’ در دست نہ تیر است نہ بر دوش کمان است۔ ایں سادگی¿ ہست کہ بسمل دو جہان است“ کے مصداق مخلوقِ خدا کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے ان بندگانِ حق کے پاس ایمان کی دولت تھی۔ اسلام کے لازوال پیغام کی قوت تھی اور اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی طاقت تھی جس سے انہوں نے کفر و جہالت کی تاریکیوں میں چراغِ حق روشن کیا اور بھٹکتی انسانیت کو دینِ مبین کی راہ دکھائی۔
برِّصغیر میں یہ تاریخی کارنامہ جن اولوالعزم اور واجب الاحترام حضرات نے سرانجام دیا، ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ العزیز کی ذاتِ گرامی کو نہایت ارفع واعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔انہوں نے صدیوں پہلے غزنی سے آ کریہاں جو شمع حق جلائی تھی اس کی روشنی اور تابندگی آج بھی دلوں کو نور بخشتی ہے اور اَن گنت لوگ ان کے در سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ ان کی حیاتِ پاک کا پوری طرح احاطہ کرنے کے لیے تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور بیشمار اہل علم اور اہل دل حضرات نے ان کی زندگی ‘ تعلیمات اور دینی و علمی خدمات کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے جسے پڑھ کر ان کی روحانی شان و شوکت ‘ عظمت و حشمت اور علم و معرفت میں درجہءکمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی برگزیدہ ہستیوں کے احوال کا مطالعہ قلب و نظر کی رہبری کا وسیلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے والے اولیائے کرام کی زندگی کامطالعہ ان کی ظاہری صحبت کی طرح فیضیاب کرتا ہے جس کے بارے میں حضرت مولانا روم ارشاد فرماتے ہیں۔” یک زمانہ صحبتِ با اولیاء۔ بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا“ آئیے اس مینارئہ نور کی روشنی سے فیضیاب ہوں۔
آپ کا نام علی بن عثمان ہے۔ ابوالحسن کنیت اور گنج بخش لقب ہے۔ آپ حسنی سادات سے ہیں۔ آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کا سلسلہءنسب اس طرح بیان کیا ہے۔ حضرت علی ہجویری ،بن عثمان، بن علی ،بن عبدالرحمن ،بن شجاع(عبداللہ) ، بن ابوالحسن علی ،بن حسن اصغر ، بن زید، بن امام حسنؓ، بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
آپ کی والدہ ماجدہ حسینی سادات سے تھیں۔ عابدہ، زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں۔ اعزہ و اقارب کے حقوق کی ادائےگی اور مسکین نوازی میں ممتاز تھیں۔ گویا حضرت داتا گنج بخش نجیب الطرفین سید تھے۔
متقی و متورع والدین کی آغوش میں پرورش پا کر آپ نے کیا کچھ حاصل کیا ہوگا اس کا اندازہ آپ کے مقاماتِ عالیہ سے لگایا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں تذکرہ نویس خاموش ہیں اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت غزنی علماءوفضلا ءکا مرکز تھا اور شہر میں کئی مدارس قائم تھے جو علومِ قرآنی کے فروغ کے لئے خدمات انجام دے رہے تھے۔آپ نے تحصیلِ علومِ دینیہ کرنے کے بعد تزکیہ نفس کی خاطر بہت زیادہ مجاہدات کیے ۔
آپ نے اپنے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی کے علاوہ اور بہت سے مشائخ کے فےضِ صحبت کا شرف حاصل کیا۔جن میں ابوسعید ابوالخیر اور رسالہ قشیریہ کے مصنف امام ابوالقاسم قشیری شامل ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش سلطان مسعود بن محمود غزنوی کے آخری دورِ حکومت میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مختلف ممالک کا سفر کرتے ہوئے لاہورتشریف لائے اور اس جگہ قیام کےا جہاں آپ کا مزارِ مبارک زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
فوائد الفواد میں ہمیں آپ کے لاہور تشریف لانے کی تفصیلات ملتی ہیں۔ حضرت نظام الدین محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں۔
”شیخ حسین زنجانی اور شیخ علی ہجویری دونوں ایک ہی پیر کے مرید تھے اور ان کے پیر اپنے عہد کے قطب تھے۔ حسین زنجانی عرصہ سے لاہور میں مقیم تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے پیر نے خواجہ علی ہجویری سے کہا کہ لاہور میں جاکر قیام کرو۔ شیخ علی ہجویری نے کہا کہ وہاں شیخ حسین زنجانی موجود ہیں لیکن ان کے پیر نے پھر فرمایا کہ تم لاہور جاو¿۔ جب علی ہجویری اپنے پیر کے ارشاد کی تعمیل میں لاہور آئے تو رات تھی۔ صبح کو شیخ حسین زنجانی کا جنازہ باہر لایا گیا“۔
یہاں آپ نے ایک مسجد بنوائی۔ جسے تبلیغِ دین کا مرکز بنایا۔ دارا شکوہ اپنی کتاب سفینة الاولیاءمیں لکھتا ہے”حضرت علی ہجویری لاہور میں دن کے وقت تعلیم دیتے اور رات کو طالبانِ حق کو ہدایت کیا کرتے۔ ان کی رہبری میں ہزاروں جاہل عالم بن گئے، کافروں نے اسلام قبول کیا، گمراہوں نے ہدایت کی راہ پائی، دیوانے ہوش مند ہو گئے، جن کا علم ناقص تھا کامل ہوئے، فاسق و فاجر پارسا بن گئے“۔
آپ کی اپنی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آپ کو آپ کی زندگی میں ہی گنج بخش کے لقب سے پکارنا شروع ہو گئے تھے۔ کشف الاسرار میں آپ تحریر فرماتے ہیں ”اے علی! لوگ تجھے گنج بخش کہتے ہیں حالانکہ تو خود محتاج ہے اور تیرے پاس تو ایک دانہ تک نہیں۔ تو اس پر فخر نہ کر۔ گنج بخش رنج بخش خدا تعالیٰ کی ذات ہے“۔
لیکن ”گنج بخش“ لقب کی وجہِ شہرت جو ہر ایک کی زبان پر اور ہر تذکرہ میںموجود ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلطان الہند خوا جہ ءخواجگان حضرت معین الدین چشتی اجمیری آنجناب کے مزارِ پُر انوار پر حاضر ہوئے اور ایک حجرہ میں چالیس دن تک مصروف ِعبادت و ریاضت رہے۔ اس عرصہ میں حضرت داتا گنج بخش کی روحِ پرفتوح سے کیافیض حاصل ہوا، کتنے مقامات طے ہوئے ،ان کے بحرِ سخاوت سے کس قدر سےراب ہوئے اس کا اندازہ آپ کے اس خراجِ عقیدت سے لگایا جا سکتا ہے جو بوقت ِرخصت ایک شعر کی شکل میں آپ کی زبانِ حق ترجمان پر جاری ہوا :
گنج بخش ِ فیضِ عالم مظہرِ نور خدا
ناقصاں را پیر ِ کامل کاملاں را رہنما
ایک مردِ حق آگاہ کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ زبان زدِ خاص و عام ہوگیا اور آپ گنج بخش کے پیارے لقب سے مشہور ہوئے۔
حضرت داتا گنج بخش بلند پایہ عالم اور جامعِ معقول و منقول تھے۔ آپ نے متعدد عنوانات پر تصانیف لکھیں لیکن افسوس کہ ان میں سے کشف المحجوب کے سوا کوئی کتاب نہیں ملتی۔ خود آ پ کے بیان کے مطابق آپ کی بہت سے تصانیف نام نہاد مدعیانِ طریقت نے مستعار لیں اور نام بدل کر اپنے نام سے شائع کرادیں۔ چند اوراق کا چھوٹا سا رسالہ ”کشف الاسرار“ بھی آپ کی قابل ِقدر تحریر ہے اور شائع ہو چکا ہے ۔ کشف المحجوب میں آپ نے اپنی جن دوسری تصانیف کا تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں:
۱۔ منہاج الدین ۲۔ کتاب الفنا والبقا ۳۔ اسرارالخلق المﺅنات ۴۔ کتاب البیان لاہل العیان ۵۔ بحرالقلوب ۶۔ الرعا یة لحقوق اللہ ۷۔رسالہ در شرحِ کلامِ منصور الحلاج ۸۔ دیوان
حضرت نظام الدین محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں:
”کشف المحجوب حضرت شیخ علی ہجویری کی تصنیف ہے۔ اگر کسی کا پیر نہ ہو تو جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو یہ کتاب اس کے پیر کا کام دے گی۔ میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے“۔ دارا شکوہ نے لکھا:
”حضرت علی ہجویری کی بہت سی تصانیف ہیں لیکن کشف المحجوب مشہور و معروف ہے کسی کو اس پر لب کشائی کا موقع نہیں ملا۔ یہ کتاب راہروانِ طرےقت کے لئے مرشدِ کامل ہے۔ تصوف کی کتابوں میں فارسی زبان میں اس خوبی کی کوئی دوسری کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔“
حضرت داتا گنج بخش خود اس کتاب کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ کتاب راہِ حقیقت کو نمایاں کرتی ہے۔ تحقیقِ امور کی شرح کرتی ہے اور شریعت کے پردوں کو اٹھاتی ہے۔ اس کا نام کشف المحجوب ہی ہونا چاہئے تھا اور حقیقت میں کشف، محجوب کی ہلاکت ہے۔“
ایک عرصہ تک برِّصغیر کو اسلامی تعلیمات کے نور سے منور کرنے والا آفتابِ ولایت ۴۶۵ھ میں جہانِ فانی سے عالم بقا کے لیے رخصت ہوا لیکن ان کا فیض کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے اور رہتی دنیا تک تشنگانِ حقیقت ان کے میخانہ ءعرفاں سے اپنی تشنگی بجھاتے رہیں گے۔ مزارِ اقدس کے کتبہ پر جامی لاہوری کے یہ اشعار کندہ ہیں۔
خانقاہِ علی ہجوےر است
خاکِ جاروب از درش بردار
طوطےا کن بدیدہ¿ حق بیں
تا شوی واقفِ درِ اسرار
چوں کہ سردارِ ملکِ معنٰی بود
سالِ وصلش برآید از سردار