ابن محمد جی
محفلین
دار العرفان تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کا مرکز
حاٖفظ غلام قادری
تبلیغ و اشاعت کے ساتھ تزکیہ نفس کا کام انبیاء علیہم السلام سے لیا جاتا رہا مگر نبی آخر الزماں ﷺ کی اس آخری امت میں اسکی ذمہ داری علمائے ربانیین پر عائد ہوتی ہے۔جو ورثۃ الانبیاء ہیں اور ہر مادی اور الحادی دور کی تحریکیوں میں روشن چراغ کی مانند ہوتے ہیں ۔موجودہ دور پر فتن میں اس زمہ داری کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے اس دور میں اسلام کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی دینی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہےکہ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم ﷺ سے انکا روحانی تعلق برائے نام ہی رہ گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حق کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہےاور اسکی رحمت یہ کب گوارہ کر سکتی ہےکہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے ۔چنانچہ ہر دور میں وہ اپنے خاص بندوں کے ذریعے حق کی حمایت اور اصلاح خلق کی خدمت لیتا رہا اور صوفیائے کرام نے جس خلوص اور للہیت سےیہ خدمات انجام دی ہیں اس کی مثال ممکن نہیں ۔
صوفیائے کرام کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح باطن کا طریقہ القائی اور انعکاسی ہےاور یہ تصوف کا عملی پہلو ہےجسکا انحصار صحبت شیخ پر ہے ۔جہاں تک تصوف کے عملی پہلو کا تعلق ہے صیح اسلامی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اسکی حقیقت سے عوام الناس کو روشناس کرانا نہایت ضروری ہے۔اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ عامتہ المسلمین کو صیح اسلامی تصوف اور لذت آشنائی اور محبت رسول ﷺسے آشنا کرنے کے لئے اور اصلاح قلب اور تزکیہ نفس کی تعلیم کے لئے ایک ایسامرکز قائم کیا جائے جو فیوضات و برکات کی تقسیم کا باعث ہو۔
1958ءمیں جب حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی کو سلسلہ عالیہ تقشبندیہ اوّیسیہ میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی تو آپ کے شیخ مجدد طریقت ،قلزم فیوضات ،بحر العلوم ،ھامل قرب عبدیت حضرت العلام مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ تعالیٰ کا وادی ونہارمیں آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ سلسلہ عالیہ کی تجدید کا دور تھا۔موجودہ دارلعرفان کے شمال میں پہاڑ کے دامن میں اسلامی سلوک کے طالبوں کی تربیت کے لئے اور ان کے قلوب میں اللہ ھو کا پودالگانے کے لئے ایک ڈھوک میں محافل ذکر منعقد ہوتی تھیںجہاں ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔جب بھی موسم گرما میں حضرت مولانا اللہ یار خان ؒتشریف لاتے تو اس دور دور افتادہ علاقہ میں یہ ڈھوک مرکز نزول تجلیات باری تعالیٰ بن جاتی۔1960ءکی دہائی میں جب سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اوّیسیہ کے متوسلین کی تعداد بڑھ گئی اور دوسرے بلاد میں بھی سلسلہ عالیہ کی خوشبو پہنچی تو یہحاضری اس ڈھوک سے منتقل ہو کر منارہ گاؤں کے ایک سکول میں آ گئی ۔یہ سکول موجودہ شیخ َسلسلہ عالیہ حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ کے گھر کے قریب تھااور ان خدائی مہمانوں کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل تھا۔جب سالانہ تعطیلات کےلئے سکول بند ہو جاتے تو احباب سلسلہ ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق کم و بیش ایک ماہ کے لئے منارہ کا رخ کرتے جہاں انہیں صیح اسلامی سلوک کی تربیت دی جاتی۔
1978ء کے سالانہ اجتماع میں حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ نے ہدایت فرمائی کہ ایک وسیع مسجداور رہائشی کمروں پرمشتمل ایک مرکز تعمیر کیا جائے جسکا نام دارلعرفان ہو۔مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی نے اس مقصد کےلئے 11کنال اراضی موجودہ دارلعرفان کی جگہ اپنے شیخ المکرم کی خدمت میں پیش کی جو آپ نے اپنی قیمتی زرعی زمین کے عوض حاصل کی ۔ دارلعرفان کی مجوزہ عمارت کی پلاننگ احباب سلسلہ نے کی ۔30 جولائی 1978ءکو قطبی ستارے کی مدد سے قبلہ کا تعین کیا گیا تا کہ دوسرے دن عصر کی نماز حضرت مولانا اللہ یار خان ؒیہاں پڑھا کر باضابطہ افتتاح کریں ۔حسب پروگرام عصر کے وقت حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ افتتاح کے لئے تشریف لائے۔یہاں کھلے میدان میں چھوٹے چھوٹےپتھر ترتیب دے کر عمارت کی نشاندہی کی گئی تھی اور مسجد کے محراب کی جگہ مصلیٰ اور پیچھےصفیں بچھائی گئی تھیں۔افتتاح کے بعد دعا ہوئی اس موقع پرحضرت جی ؒ نے ارشاد فرمایا:
اس مرکز کو ظہور مہدی تک قائم رہنا ہے یہ جماعت خوب پھیلے گی اور حضرت مہدیؒ کی نصرت کرے گی ،انشاء اللہ۔
افتتاح کے بعد دار العرفان کی تعمیر شروع ہوئی ۔تعمیر کے جملہ اخراجات احباب سلسلہ عالیہ کے ذاتی عطیات ہوئے ۔معمار اور مزدور سلسلہ عالیہ کے افراد تھے جس طرح مسجد نبوی ﷺ صحابہ نے اپنے ہاتھوں تعمیر فرمائی تھی ۔دوران ِتعمیر چشمِ فلک نے غالباً پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ برگیڈئیر رینک تک کے افسران خود مٹی دھو رہی ہیں اور گارہ اٹھا رہے ہیں ۔دارلعرفان کی تعمیر میں حصہ لینے والے اکثر حضرات فنا فی الرسول تھے اور برکات نبوی ﷺ کے امین جو درود شریف پڑھتے ہوئے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے تعمیر میں حصہ لے رہے تھے۔
1987ء میں جب صقارہ نظام تعلیم کے لئے دارلعرفان کی چار دیواری کے اندر صقارہ اکیڈمی کے نام سے پائلٹ پراجیکٹ شروع ہوا تو موجودشیخ المکرم حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ کے کول مائنز کے دفاتر سڑک کے پار منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا اس طرح مزید پانچ کنال اراضی دارلعرفان میں شامل ہو گئی ۔
ظلم کی سیاہ راتوں کو روشنیوں اور نور میں بدلنے والا یہ مرکزجس میں اصلاح قلب کے لئے ذکر قلبی سکھایا جاتا ہےطالبان سلوک کو معرفت الہٰی کی تربیت کی جاتی ہے،صیح اسلامی تصوف کی تعلیم دی جاتی ہے۔کلر کہار سے خوشاب روڈ پر 20 کلومیٹر 4000فٹ کی بلندی پر واقع دارلعرفان منارہ (چکوال) ہے جس میں مفسر قرآن شیخ سلسلہ نقشبندیہ اوّیسیہ حضرت امیر مھمد اکرم اعوان مد ظلہ العالیٰ علم سلوک کے پیاسوں کو سیراب کرتے ہیں ۔
دارلعرفان منارہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اوّیسیہ کا عالمی مرکز ہے ،جہاں اسلامی سلوک کے متلاشی حضرات اور سالکین کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ پورا سال مستقل طور پر جاری ساری رہتا ہے۔تقریباً پانچ ہفتے ہر سالانہ اجتماع پر پوری دنیا سے احباب سلسلہ تشریف لاتے ہیں ۔حضور اکرم ﷺ کے دست اقدس پر روحانی بیعت اسی مرکز فیوض وبرکات میں ہوتی ہے ۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی رونقیں دیکھنے کے لائق ہوتی ہیں جس میں معتکفین کی تعداد ہزاروں تک چلی جاتی ہے یہاں کا اعتکاف حرمین شریفین میں اعتکاف کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔اس اعتکاف میں ہر ساتھی ایک اجتماعی پروگرام کے تابع ہوتا ہے۔طویل ذکرو اذکار کیساتھ دینی تعلیمات کے پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں ۔آخر میں باقاعدہ امتحان ہوتا ہے اور کامیاب احباب کو اسناد دی جاتی ہیں ۔ دارلعرفان اعتکاف کثرت ذکر وفکر ،قلت کلام اور کلت نوم کا لازمی نتیجہ مشاھدات و محسوسات کی صورت میں نکلتا ہے جن سے ہر ساتھی حسب استطاعت اپنا حصہ وصول کرتا ہے ۔اس عالم میں لیلۃ القدر نصیب ہوتی ہے اور کئی احباب اس کے ادراکات سے بہرہ ورہوتے ہیں ۔
ان دو عظیم سالانہ اجتماعات کے دوران لنگر کے اخراجات کے لئے کسی سے چندہ نہیں مانگا جاتا،تمام اخراجات وہ ہستی خاموشی اور خوش اسلوبی سے پورا کرتی رہتی ہے جس کی مھنت سے سر شار طالبان سلوک و معرف ت الہٰی دنیا بھر سے جوق در جوق اس مرکزفیوض وبرکات میں امڈے چلے آتے ہیں ۔
سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ نے تربیت کا باقاعدہ نظام ترتیب دے رکھا ہے تا کہ سالک کو بیعت کے بعد دینی علوم کا ضروری حصہ پڑھایا جائے ۔وطن عزیز اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے طالبان سلوک کو صبح و شام انٹرنیٹ پر ذکر کرایا جاتا ہے۔تقریباً ہر قابل ذکر شہر میں دارلعرفان کے ذیلی مراکز قائم ہیں جن میں تربیت کر کے مراقبات کرائے جاتے ہیں اور جب سالک میں اہلیت اور استعداد پیدا ہو جائے تو اسے فنافی الرسول ﷺ کا مراقبہ اور روحانی بیعت حضرت امیر المکرم محمد اکرم اعوان مد ظلہ کراتے ہیں آپکا ارشاد ہے:
میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ میں ایک نگاہ میں ایک شخص کے وجود کے ایک ایک ذرے کو اللہ سکھا سکتا ہوں یہ مجھ پر اللہ کا احسان ہے جس کام کے لئےبڑے بڑے صوفی
برسوں کا وقت طلب کرتے ہیں ،مجھے اللہ نے یہ قوت بخشی ہے کہ وہ بات ایک لمحہ مین کر سکتا ہوں ،یہ اللہ کی عطا ہے۔
اسی تربیت کا اثر ہے کہ سلوک کے متلاشی احباب کے قلوب اللہ کی یاد سے منور ،چہرے سنت رسولﷺ سے مزین اور راتیں تہجد سے روشن ہیں ،ان کے قلوب محبت رسول ﷺ سے لبریز ہیں اسکے ساتھ ساتھ وہ عملی مسلمان ہیں جو راہبانہ زندگی گزارنے کی بجائے مجاہدانہ زندگی گزار ہے ہیں کیونکہ اللہ اللہ سکھانے کا مقصد گوشہ نشینی نہیں بلکہ وہ قوت اور جذبے حاصل کرنا مقصود ہے جو مردہ تنوں مین حیات ِنور پیدا کریں ،بے عمل کو باعمل بنائیں ،نااہل کو اہلیت عطا کریں۔
دارلعرفان کی توسیع ایک عرصہ سے پیش نظر تھی اس لئے کہ اس عمارت کی وسعت اعتکاف ،ماہانہ اجتماعات اور سالانہ اجتماعات کے لئے آنے والے احباب کی تعداد کے لحاظ سے سمٹ چکی تھی ۔الحمد للہ دارلعرفان کی توسیع کا کام صاحبزادہ عبد القدیر ناطم سلسلہ عالیہ کی زیر نگرانی مکمل ہو چکا ہے۔
اللہ کریم سلسلہ عالیہ کے اس روحانی مرکز کو تا قیامت قائم و دائم رکھے اور اس سے فیوضات و برکات نبویﷺ کے جو چشمے جاری ہیں اس سے چار دانگ عالم جملہ مسلمان خواتین و حضرات کو سیراب فرمائے۔
لاالہ کی تیغ کاٹے گی اندھیروں کا جگر گنبد خضریٰ سے روشن ہو گی اپنی سحر
اپنا خون دیکر اتنا ہم سیماب کر جائے گے نام آقا کا چمن میں پھر رقم کر جائیں گے
حاٖفظ غلام قادری
تبلیغ و اشاعت کے ساتھ تزکیہ نفس کا کام انبیاء علیہم السلام سے لیا جاتا رہا مگر نبی آخر الزماں ﷺ کی اس آخری امت میں اسکی ذمہ داری علمائے ربانیین پر عائد ہوتی ہے۔جو ورثۃ الانبیاء ہیں اور ہر مادی اور الحادی دور کی تحریکیوں میں روشن چراغ کی مانند ہوتے ہیں ۔موجودہ دور پر فتن میں اس زمہ داری کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے اس دور میں اسلام کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی دینی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہےکہ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم ﷺ سے انکا روحانی تعلق برائے نام ہی رہ گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حق کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہےاور اسکی رحمت یہ کب گوارہ کر سکتی ہےکہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے ۔چنانچہ ہر دور میں وہ اپنے خاص بندوں کے ذریعے حق کی حمایت اور اصلاح خلق کی خدمت لیتا رہا اور صوفیائے کرام نے جس خلوص اور للہیت سےیہ خدمات انجام دی ہیں اس کی مثال ممکن نہیں ۔
صوفیائے کرام کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح باطن کا طریقہ القائی اور انعکاسی ہےاور یہ تصوف کا عملی پہلو ہےجسکا انحصار صحبت شیخ پر ہے ۔جہاں تک تصوف کے عملی پہلو کا تعلق ہے صیح اسلامی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اسکی حقیقت سے عوام الناس کو روشناس کرانا نہایت ضروری ہے۔اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ عامتہ المسلمین کو صیح اسلامی تصوف اور لذت آشنائی اور محبت رسول ﷺسے آشنا کرنے کے لئے اور اصلاح قلب اور تزکیہ نفس کی تعلیم کے لئے ایک ایسامرکز قائم کیا جائے جو فیوضات و برکات کی تقسیم کا باعث ہو۔
1958ءمیں جب حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی کو سلسلہ عالیہ تقشبندیہ اوّیسیہ میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی تو آپ کے شیخ مجدد طریقت ،قلزم فیوضات ،بحر العلوم ،ھامل قرب عبدیت حضرت العلام مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ تعالیٰ کا وادی ونہارمیں آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ سلسلہ عالیہ کی تجدید کا دور تھا۔موجودہ دارلعرفان کے شمال میں پہاڑ کے دامن میں اسلامی سلوک کے طالبوں کی تربیت کے لئے اور ان کے قلوب میں اللہ ھو کا پودالگانے کے لئے ایک ڈھوک میں محافل ذکر منعقد ہوتی تھیںجہاں ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔جب بھی موسم گرما میں حضرت مولانا اللہ یار خان ؒتشریف لاتے تو اس دور دور افتادہ علاقہ میں یہ ڈھوک مرکز نزول تجلیات باری تعالیٰ بن جاتی۔1960ءکی دہائی میں جب سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اوّیسیہ کے متوسلین کی تعداد بڑھ گئی اور دوسرے بلاد میں بھی سلسلہ عالیہ کی خوشبو پہنچی تو یہحاضری اس ڈھوک سے منتقل ہو کر منارہ گاؤں کے ایک سکول میں آ گئی ۔یہ سکول موجودہ شیخ َسلسلہ عالیہ حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ کے گھر کے قریب تھااور ان خدائی مہمانوں کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل تھا۔جب سالانہ تعطیلات کےلئے سکول بند ہو جاتے تو احباب سلسلہ ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق کم و بیش ایک ماہ کے لئے منارہ کا رخ کرتے جہاں انہیں صیح اسلامی سلوک کی تربیت دی جاتی۔
1978ء کے سالانہ اجتماع میں حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ نے ہدایت فرمائی کہ ایک وسیع مسجداور رہائشی کمروں پرمشتمل ایک مرکز تعمیر کیا جائے جسکا نام دارلعرفان ہو۔مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی نے اس مقصد کےلئے 11کنال اراضی موجودہ دارلعرفان کی جگہ اپنے شیخ المکرم کی خدمت میں پیش کی جو آپ نے اپنی قیمتی زرعی زمین کے عوض حاصل کی ۔ دارلعرفان کی مجوزہ عمارت کی پلاننگ احباب سلسلہ نے کی ۔30 جولائی 1978ءکو قطبی ستارے کی مدد سے قبلہ کا تعین کیا گیا تا کہ دوسرے دن عصر کی نماز حضرت مولانا اللہ یار خان ؒیہاں پڑھا کر باضابطہ افتتاح کریں ۔حسب پروگرام عصر کے وقت حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ افتتاح کے لئے تشریف لائے۔یہاں کھلے میدان میں چھوٹے چھوٹےپتھر ترتیب دے کر عمارت کی نشاندہی کی گئی تھی اور مسجد کے محراب کی جگہ مصلیٰ اور پیچھےصفیں بچھائی گئی تھیں۔افتتاح کے بعد دعا ہوئی اس موقع پرحضرت جی ؒ نے ارشاد فرمایا:
اس مرکز کو ظہور مہدی تک قائم رہنا ہے یہ جماعت خوب پھیلے گی اور حضرت مہدیؒ کی نصرت کرے گی ،انشاء اللہ۔
افتتاح کے بعد دار العرفان کی تعمیر شروع ہوئی ۔تعمیر کے جملہ اخراجات احباب سلسلہ عالیہ کے ذاتی عطیات ہوئے ۔معمار اور مزدور سلسلہ عالیہ کے افراد تھے جس طرح مسجد نبوی ﷺ صحابہ نے اپنے ہاتھوں تعمیر فرمائی تھی ۔دوران ِتعمیر چشمِ فلک نے غالباً پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ برگیڈئیر رینک تک کے افسران خود مٹی دھو رہی ہیں اور گارہ اٹھا رہے ہیں ۔دارلعرفان کی تعمیر میں حصہ لینے والے اکثر حضرات فنا فی الرسول تھے اور برکات نبوی ﷺ کے امین جو درود شریف پڑھتے ہوئے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے تعمیر میں حصہ لے رہے تھے۔
1987ء میں جب صقارہ نظام تعلیم کے لئے دارلعرفان کی چار دیواری کے اندر صقارہ اکیڈمی کے نام سے پائلٹ پراجیکٹ شروع ہوا تو موجودشیخ المکرم حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ کے کول مائنز کے دفاتر سڑک کے پار منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا اس طرح مزید پانچ کنال اراضی دارلعرفان میں شامل ہو گئی ۔
ظلم کی سیاہ راتوں کو روشنیوں اور نور میں بدلنے والا یہ مرکزجس میں اصلاح قلب کے لئے ذکر قلبی سکھایا جاتا ہےطالبان سلوک کو معرفت الہٰی کی تربیت کی جاتی ہے،صیح اسلامی تصوف کی تعلیم دی جاتی ہے۔کلر کہار سے خوشاب روڈ پر 20 کلومیٹر 4000فٹ کی بلندی پر واقع دارلعرفان منارہ (چکوال) ہے جس میں مفسر قرآن شیخ سلسلہ نقشبندیہ اوّیسیہ حضرت امیر مھمد اکرم اعوان مد ظلہ العالیٰ علم سلوک کے پیاسوں کو سیراب کرتے ہیں ۔
دارلعرفان منارہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اوّیسیہ کا عالمی مرکز ہے ،جہاں اسلامی سلوک کے متلاشی حضرات اور سالکین کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ پورا سال مستقل طور پر جاری ساری رہتا ہے۔تقریباً پانچ ہفتے ہر سالانہ اجتماع پر پوری دنیا سے احباب سلسلہ تشریف لاتے ہیں ۔حضور اکرم ﷺ کے دست اقدس پر روحانی بیعت اسی مرکز فیوض وبرکات میں ہوتی ہے ۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی رونقیں دیکھنے کے لائق ہوتی ہیں جس میں معتکفین کی تعداد ہزاروں تک چلی جاتی ہے یہاں کا اعتکاف حرمین شریفین میں اعتکاف کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔اس اعتکاف میں ہر ساتھی ایک اجتماعی پروگرام کے تابع ہوتا ہے۔طویل ذکرو اذکار کیساتھ دینی تعلیمات کے پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں ۔آخر میں باقاعدہ امتحان ہوتا ہے اور کامیاب احباب کو اسناد دی جاتی ہیں ۔ دارلعرفان اعتکاف کثرت ذکر وفکر ،قلت کلام اور کلت نوم کا لازمی نتیجہ مشاھدات و محسوسات کی صورت میں نکلتا ہے جن سے ہر ساتھی حسب استطاعت اپنا حصہ وصول کرتا ہے ۔اس عالم میں لیلۃ القدر نصیب ہوتی ہے اور کئی احباب اس کے ادراکات سے بہرہ ورہوتے ہیں ۔
ان دو عظیم سالانہ اجتماعات کے دوران لنگر کے اخراجات کے لئے کسی سے چندہ نہیں مانگا جاتا،تمام اخراجات وہ ہستی خاموشی اور خوش اسلوبی سے پورا کرتی رہتی ہے جس کی مھنت سے سر شار طالبان سلوک و معرف ت الہٰی دنیا بھر سے جوق در جوق اس مرکزفیوض وبرکات میں امڈے چلے آتے ہیں ۔
سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ نے تربیت کا باقاعدہ نظام ترتیب دے رکھا ہے تا کہ سالک کو بیعت کے بعد دینی علوم کا ضروری حصہ پڑھایا جائے ۔وطن عزیز اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے طالبان سلوک کو صبح و شام انٹرنیٹ پر ذکر کرایا جاتا ہے۔تقریباً ہر قابل ذکر شہر میں دارلعرفان کے ذیلی مراکز قائم ہیں جن میں تربیت کر کے مراقبات کرائے جاتے ہیں اور جب سالک میں اہلیت اور استعداد پیدا ہو جائے تو اسے فنافی الرسول ﷺ کا مراقبہ اور روحانی بیعت حضرت امیر المکرم محمد اکرم اعوان مد ظلہ کراتے ہیں آپکا ارشاد ہے:
میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ میں ایک نگاہ میں ایک شخص کے وجود کے ایک ایک ذرے کو اللہ سکھا سکتا ہوں یہ مجھ پر اللہ کا احسان ہے جس کام کے لئےبڑے بڑے صوفی
برسوں کا وقت طلب کرتے ہیں ،مجھے اللہ نے یہ قوت بخشی ہے کہ وہ بات ایک لمحہ مین کر سکتا ہوں ،یہ اللہ کی عطا ہے۔
اسی تربیت کا اثر ہے کہ سلوک کے متلاشی احباب کے قلوب اللہ کی یاد سے منور ،چہرے سنت رسولﷺ سے مزین اور راتیں تہجد سے روشن ہیں ،ان کے قلوب محبت رسول ﷺ سے لبریز ہیں اسکے ساتھ ساتھ وہ عملی مسلمان ہیں جو راہبانہ زندگی گزارنے کی بجائے مجاہدانہ زندگی گزار ہے ہیں کیونکہ اللہ اللہ سکھانے کا مقصد گوشہ نشینی نہیں بلکہ وہ قوت اور جذبے حاصل کرنا مقصود ہے جو مردہ تنوں مین حیات ِنور پیدا کریں ،بے عمل کو باعمل بنائیں ،نااہل کو اہلیت عطا کریں۔
دارلعرفان کی توسیع ایک عرصہ سے پیش نظر تھی اس لئے کہ اس عمارت کی وسعت اعتکاف ،ماہانہ اجتماعات اور سالانہ اجتماعات کے لئے آنے والے احباب کی تعداد کے لحاظ سے سمٹ چکی تھی ۔الحمد للہ دارلعرفان کی توسیع کا کام صاحبزادہ عبد القدیر ناطم سلسلہ عالیہ کی زیر نگرانی مکمل ہو چکا ہے۔
اللہ کریم سلسلہ عالیہ کے اس روحانی مرکز کو تا قیامت قائم و دائم رکھے اور اس سے فیوضات و برکات نبویﷺ کے جو چشمے جاری ہیں اس سے چار دانگ عالم جملہ مسلمان خواتین و حضرات کو سیراب فرمائے۔
لاالہ کی تیغ کاٹے گی اندھیروں کا جگر گنبد خضریٰ سے روشن ہو گی اپنی سحر
اپنا خون دیکر اتنا ہم سیماب کر جائے گے نام آقا کا چمن میں پھر رقم کر جائیں گے