حسن رضا داستانِ اہلیبیت ۔ باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت

باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوان ِاہلبیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلبیت

کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلبیت
مدح گوئے مصطفے ہے مدح خوانِ اہلبیت


ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیہء تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلبیت


مصطفے عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلبیت


ان کے گھر بے اجازت جبریل آتے نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلبیت


مصطفٰے بائع خریدار اس کا اللہ اشتری
خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلبیت


رزم کا میدان بنا ہے جلوہ گاہِ حسن و عشق
کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلبیت


پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلبیت


حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگار
خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلبیت


ہو گئی تحقیقِ عید، دیدِ آبِ تیغ سے
اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلبیت


جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلبیت


اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا
کٹ ریا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلبیت


کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے
دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہلبیت


خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات
خاک تجھ پر دیکھ تو سوکھی زبانِ اہلبیت


خاک پر عباس و عثمانِ علمبردار ہیں
بیکسی اب کون اٹھائے گا نشانِ اہلبیت


تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں
پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبانِ اہلبیت


قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر
وارثِ بے وارثوں کو کاروانِ اہلبیت


فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہلبیت


وقتِ رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ
لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہلبیت


ابرِ فوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے
فاطمہ کا چاند مہرِ آسمانِ اہلبیت


کس مزے کی لذ تیں ہیں آبِ تیغِ یار میں
خاک و خوں میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہلبیت


باغ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا
اے زہے قسمت تمھاری کشتگانِ اہلبیت


حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سر کھولے ہوئے
آج کیسا حشر ہے برپا میانِ اہلبیت


کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بیکسی
آج کیسا ہے مریض نیم جانِ اہلبیت


گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلبیت


سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدا نے قدر و شانِ اہلبیت


دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا مین خوب ہی چمکی دوکانِ اہلبیت


زخم کھانے کو تو آبِ تیغ پینے کو دیا
خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہلبیت


اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے
کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہلبیت


اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں
لعنۃ اللہ علیکم دشمنانِ اہلبیت


بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دو اے حسؔن
یوں کہا کرتے ہیں سنی داستانِ اہلبیت
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوان ِاہلبیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلبیت

کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلبیت
مدح گوئے مصطفے ہے مدح خوانِ اہلبیت

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیہء تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلبیت

مصطفے عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلبیت

ان کے گھر بے اجازت جبریل آتے نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلبیت

مصطفٰے بائع خریدار اس کا اللہ اشتری
خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلبیت

رزم کا میدان بنا ہے جلوہ گاہِ حسن و عشق
کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلبیت

پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلبیت

حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگار
خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلبیت

ہو گئی تحقیقِ عید، دیدِ آبِ تیغ سے
اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلبیت

جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلبیت

اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا
کٹ ریا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلبیت

کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے
دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہلبیت

خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات
خاک تجھ پر دیکھ تو سوکھی زبانِ اہلبیت

خاک پر عباس و عثمانِ علمبردار ہیں
بیکسی اب کون اٹھائے گا نشانِ اہلبیت

تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں
پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبانِ اہلبیت

قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر
وارثِ بے وارثوں کو کاروانِ اہلبیت

فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہلبیت

وقتِ رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ
لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہلبیت

ابرِ فوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے
فاطمہ کا چاند مہرِ آسمانِ اہلبیت

کس مزے کی لذ تیں ہیں آبِ تیغِ یار میں
خاک و خوں میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہلبیت

باغ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا
اے زہے قسمت تمھاری کشتگانِ اہلبیت

حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سر کھولے ہوئے
آج کیسا حشر ہے برپا میانِ اہلبیت

کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بیکسی
آج کیسا ہے مریض نیم جانِ اہلبیت

گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلبیت

سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدا نے قدر و شانِ اہلبیت

دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا مین خوب ہی چمکی دوکانِ اہلبیت

زخم کھانے کو تو آبِ تیغ پینے کو دیا
خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہلبیت

اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے
کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہلبیت

اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں
لعنۃ اللہ علیکم دشمنانِ اہلبیت

بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دو اے حسؔن
یوں کہا کرتے ہیں سنی داستانِ اہلبیت
بہت ہی اعلیٰ منقبت۔۔
 
Top