نبیل
تکنیکی معاون
ماخذ: داستان غریب ہمزہ، بی بی سی اردو ڈاٹ کام
مزیدپڑھیں۔۔۔
اُردو میں ہمزہ کے استعمال سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ تو لاعلمی کے باعث اور کچھ اپنا نقطہء نظر دوسروں پر تھوپنے کی عادت کے باعث۔
انیسویں صدی کے کئی اُردو قواعد نویسوں نے ہمزہ کو حروفِ ابجد میں شامل کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری بھی اسے حروفِ تہجّی میں شامل کرتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق نے اسے زیر، زبر، پیش کی طرح ایک علامت قرار دیا ہے۔
قواعدِ اُردو میں مولوی صاحب رقم طراز ہیں:
’’ ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں۔‘‘
مولوی عبدالحق جیسے عالمِ اُردو اور جیّد قواعد داں نے بھی ہمزہ کے بیان میں ٹھوکر کھائی ہے کیونکہ ہمزہ ہرگز مدّ والا کام نہیں کرتا۔ یعنی آواز کو کھینچ کر لمبا نہیں کرتا۔
ابواللیث صدیقی اُردو کے ایک مُستند قواعد نویس ہیں انھوں نے ہمزہ کے مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن انھوں نے بھی چونکہ تجزیئے کے روائتی اوزار استعمال کئے ہیں اس لئے معاملے کو پوری طرح سلجھا نہیں سکے۔ مثلاً مولوی عبدالحق کے تتبع میں انھوں نے بھی لکھا ہے کہ ہمزہ ہمیشہ ی یا واؤ کے ساتھ آتا ہے لیکن ی اگر لفظ کے آخر میں ہو تو ہمزہ لکھنے کی ضرورت نہیں مثلاً رای یا راے پر ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں۔
اگر اس اصول کو درست مان لیا جائے تو پھر آئے، جائے وغیرہ میں بھی ہمزہ فالتو شمار ہونا چاہیئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ ہمزہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اِملاء کی نہیں صوتیات کی تفہیم ضروری ہے اور ہم اب اُسی طرف آنے والے ہیں لیکن پہلےہمزہ کی علامت کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔
عربی املاء میں کوئی رکن (سِلے بل --Syllable ) واول سے شروع نہیں ہوسکتا۔
ی اور واٰؤ جب لفظ کے شروع میں ہوں تو یہ حروفِ صحیح (کانسو نینٹ) شمار ہوتے ہیں اور جو الفاظ بظاہر الف سے شروع ہوتے ہیں وہ دراصل ’ء‘ سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ عربی میں الف بذاتِ خود کوئی آواز نہیں رکھتا اور محض ہمزہ کو واضح طور پر دکھانے کے لئے – یعنی اس کی نشان دہی کے لئے – ایک سیدھی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یاد رہے کہ عربی میں ہمزہ ایک واول نہیں بلکہ کانسونینٹ آواز ہے۔
انیسویں صدی کے کئی اُردو قواعد نویسوں نے ہمزہ کو حروفِ ابجد میں شامل کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری بھی اسے حروفِ تہجّی میں شامل کرتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق نے اسے زیر، زبر، پیش کی طرح ایک علامت قرار دیا ہے۔
قواعدِ اُردو میں مولوی صاحب رقم طراز ہیں:
’’ ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں۔‘‘
مولوی عبدالحق جیسے عالمِ اُردو اور جیّد قواعد داں نے بھی ہمزہ کے بیان میں ٹھوکر کھائی ہے کیونکہ ہمزہ ہرگز مدّ والا کام نہیں کرتا۔ یعنی آواز کو کھینچ کر لمبا نہیں کرتا۔
ابواللیث صدیقی اُردو کے ایک مُستند قواعد نویس ہیں انھوں نے ہمزہ کے مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن انھوں نے بھی چونکہ تجزیئے کے روائتی اوزار استعمال کئے ہیں اس لئے معاملے کو پوری طرح سلجھا نہیں سکے۔ مثلاً مولوی عبدالحق کے تتبع میں انھوں نے بھی لکھا ہے کہ ہمزہ ہمیشہ ی یا واؤ کے ساتھ آتا ہے لیکن ی اگر لفظ کے آخر میں ہو تو ہمزہ لکھنے کی ضرورت نہیں مثلاً رای یا راے پر ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں۔
اگر اس اصول کو درست مان لیا جائے تو پھر آئے، جائے وغیرہ میں بھی ہمزہ فالتو شمار ہونا چاہیئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ ہمزہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اِملاء کی نہیں صوتیات کی تفہیم ضروری ہے اور ہم اب اُسی طرف آنے والے ہیں لیکن پہلےہمزہ کی علامت کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔
عربی املاء میں کوئی رکن (سِلے بل --Syllable ) واول سے شروع نہیں ہوسکتا۔
ی اور واٰؤ جب لفظ کے شروع میں ہوں تو یہ حروفِ صحیح (کانسو نینٹ) شمار ہوتے ہیں اور جو الفاظ بظاہر الف سے شروع ہوتے ہیں وہ دراصل ’ء‘ سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ عربی میں الف بذاتِ خود کوئی آواز نہیں رکھتا اور محض ہمزہ کو واضح طور پر دکھانے کے لئے – یعنی اس کی نشان دہی کے لئے – ایک سیدھی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یاد رہے کہ عربی میں ہمزہ ایک واول نہیں بلکہ کانسونینٹ آواز ہے۔
مزیدپڑھیں۔۔۔