داستان گو

با ادب

محفلین
داستان گو.
گھپ اندھیرا چھایا ہے .. سکوت ایسا کہ سوئی بھی گرتی ہے تو آواز آئے .. دسمبر کی بارش کا شور باہر بہت دور سے آتا سنائی دیتا ہے ...کسی کے ہاتھ میں موبائل نامی بلا نہیں ہے .. کمرے میں بیٹھا چار سالہ بچہ اپنی ماں سے درخواست گزارتا ہے کہ وہ اسے کہانیاں سنائیں دور دیسوں کی جہاں شہزادے ظالم جادوگروں سے لڑائیاں لڑتے ہیں ان کے گھوڑوں کی ٹاپیں حق کی صدائیں لگتی ہیں جن سے ظالموں کے دل دہل جاتے ہیں ..
ماں داستان کا آغاز کرتی ہے ... سپر ہیروزکے کارٹونز دیکھنے والا بچہ گنگ نئی دنیا سے آشنا ہوتا ہے داستان گو کی دنیا سے ....
اور یہ اکیسویں صدی ہے ...
..........................................................
یہ ان زمانوں کی بات ہے جب دیہات ابھی بجلی کی نعمت اور زحمت دونوں سے محروم تھے .. ہمارا شمار ان بچوں میں ہوتا تھا جو " بوریت " نامی عفریت سے ناواقف تھے .. ہمارے پاس اپنے تخیل کی ایک بہترین دنیا موجود تھی جو ہر قسم کے کرداروں کو تخلیق کر کے انکو ذہن کے پردے پہ ہر آئیڈیلزم میں مبتلا کر سکتی تھی ان سے ہر کام کروا سکتی تھی.
ان تخیلاتی کہانیوں کے مصنف بھی ہم خود ہی تھے اور ان کہانیوں کے سپر ہیروز بھی ہم ہی تھے ہر وہ کام جو زندگی میں ہم انجام دینا چاہتے تھے اور ہماری پہنچ سے دور ہوتا اسکے لیے ذہن ایک لائحہ ترتیب دیتا ایک سٹیج سجایا جاتا اور ہم اس اسٹیج کے وہ کردار ہوتے جنہیں کسی بھی حال میں کوئی شکست نہیں دے سکتا .. تخیل کی یہی دنیا ہماری حقیقی دنیا میں آہستہ آہستہ آن بسی .. ہم نے تسلیم کیا کہ کوئی کام نا ممکن نہیں اور جو ناممکن ہیں وہ اللہ نے ہمارے لیے نہیں تخلیق کیے اسلیے ان پہ راضی بہ رضا رہیے اور انکے فراق میں زندگی اجیرن کرنے سے بچے رہیے ..
ان ہی قسم کے خیالات و جذبات میں قید ہم گرمی و سردی ہر دو چھٹیوں میں سامان لادے والدہ محترمہ کے ساتھ گاؤں کوچ فرما لیا کرتے ...
سخت سردی میں جب باہر برف پڑ رہی ہوتی ہم نانی کے گھر میں بیٹھے انگھیٹی کے قریب آگ تاپتے اور نانی سے کہانیاں سنا کرتے ... ہماری نانی کے پاس کہانیوں کا ایک جہان آباد تھا اور وہ ان کہانیوں کو پوری شد مد اور مکمل جزئیات کے ساتھ سنایا کرتیں .. سالو راجہ کی کہانی ' شہزادی بدر جمال ' نیک اور بد ' بزرگ جمیل ' اور جانے کیا کیا کہانیاں تھیں جنکو سننے کے لیے ہم دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو جایا کرتے .. گاؤں میں بجلی نامی کوئی شے موجود نہ تھی ... سر شام لوگ باگ اپنے گھروں میں گھس جاتے اور آس پڑوس کے لوگ کسی ایک گھر میں جمع ہو کر کہانیاں سنا کرتے یا پرانے وقتوں کے قصے دہرائے جاتے ... شہر سے جانے والی بچی کے لیے اتنے بہت سارے افراد کا ایک انگھیٹی کے آگے جمع ہونا دم سادھے قصے کہانیاں سننا انتہائی مسحور کن ہوتا ...
عصر کی اذانوں کے وقت اندھیرا افق کے کناروں پہ پھیل جاتا تو ہر گھر کے آگے بنے تندور میں سے آگ کے شعلے بلند ہوتے اور شفق کی سرخی میں اپنا حصہ ڈالتے ... ہم نانی کے ساتھ تندور کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھتے .. وہ مکئی کی روٹی بناتیں گرم گرم روٹی میں ماچس کی تیلی سے سوراخ کرتیں اور اس پہ مکھن کا پیڑا رکھ کے ہمارے آگے رکھ دیتیں ... مکھن روٹی کی گرمائش سے پگھل کے ان سوراخوں میں آن جمتا اور ذائقہ امر ہوجاتا ... یخ بستہ ہواؤں میں اس روٹی کی گرمائش اور نانی کی شفقت کا کوئی مول نہ تھا ...
رات کو جب تک آنکھ بند نہ ہوجاتی تب تک نانی کہانیاں سنائے چلی جاتیں .. اور آنکھیں موندتے ہم ضرور کسی نہ کسی کوہ قاف میں موجود ہوتے جہاں پہاڑ کھلتے اور بند ہوتے ہیں جہاں پریاں رہتی ہیں اور جہاں ظالم دیو موجود ہیں ...
اور یہ بیسویں صدی کا اخیر تھا ..
..........................................................
ہمارے تخیل کے پردے پہ ان گنت واقعات ہیں جب اردو کی کتاب پڑھتے ہوئے پشاور کے قصہ خوانی بازار کا ذکر آتا ہے اور تصاویر میں لوگ گھیرا ڈال کے قہوے کی پیالیاں رکھے بیٹھے ہوتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ کہانیاں سننے کی محفل جمی ہے ...
اور جب اسلامیات کی کتاب میں پڑھتے کہ عرب لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے انکا دارومدار حافظے اور روایت پر تھا تو روایت سے سمجھ جاتے تھے کہ جیسے ہماری نانی اور گاؤں کے چند بزرگ پرانے قصے اور واقعات سنایا کرتے تھے اور یہ واقعات ایک نسل سے دوسری نسل تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے اسی طرح عرب بھی روایات سنایا کرتے ہونگے ..
.....................................................
لیکن پھر اکیسیویں صدی آگئی ... اور جادو کے ڈبے نے ہماری تخیل کی دنیا اجاڑ دی ... ہم کوشش کرتے بچوں کو کہانی سنائیں نانی کی طرح آغاز کرتے ...
ایک محمد بن قاسم تھا بہت بہادر ..
بچے فٹ سے بولتے ...کِسنا جیسا ..
ارے نہیں اس سے کئی زیادہ ...
جب قوم کی بیٹی نے اسے اپنی مدد کے لیے پکارا تو راجہ داہر سے جنگ لڑنے آیا ..
موغلی کی طرح جنگل سے گزر کر؟ ؟
اور جی چاہتا اپنے ہی بچے کو راجہ داہر جان کر حملہ کر ڈالیں ...
پھر ہم نے کہانیاں کہنی چھوڑ دیں .. سنانے والے تو گزر چکے تھے ... غرض مجبوراً اکیسویں صدی کے رنگ میں رنگ گئے ...
......................................................
پرانے وقتوں میں قافلے جب کاروان سرائے میں پڑاؤ ڈالتے تو ہر سرائے میں ایک داستان گو ہوتا جو مسافروں کو قصے سناتا اور انکے سفر کو دلچسپ بنایا کرتا تھا .. یہ مسافر جو گھروں سے مہینوں دور رہتے اس داستان گو کی باتوں سے جی کو بہلا کر نئے عزم سے اگلے دن کا سفر شروع کیا کرتے تھے ...ان داستان گو کو سمیر یا سمیرا کہا جاتا ... داستانیں سنانے والے ...
..............................
صبح سے بجلی غائب ہے اور باہر بارش ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی ... کمرے کے اندر گھور اندھیرے کمرے میں بیٹھے بیٹھے صبح سے شام ہو گئی تمام بیٹریاں موبائل جواب دے گئے ... دنیا امن کے نئے مفہوم سے آشنا ہو گئی ... سب کام سمٹ چکے تھے وقت ہی وقت تھا ... عصر کے وقت بجلی نہ ہونے کے سبب بہن کے گھر جا کے وہ عیادت بھی فرما لی گئی جو کافی دن سے وقت کی.کمی کے سبب ٹالی جا رہی تھی ... شام کو کچھ دیر بیٹھ کر بیٹریز کی روشنی میں اون سلائیوں کا شغل.بھی فرما لیا وقت کی ایسی زیادتی نہ کبھی دیکھی نہ سنی ...اب حیران پریشان کہ اب کیا کریں .. ماحٍ کی چوں چوں کے سبب اندازہ ہوا کہ گھر میں ایک بچہ بھی موجود ہے اور صبح سے اب تک اس شدید بوریت بلا کا شکار ہے کہ اب تو آنسوؤں سے روتا ہے اور کہتا جاتا ہے اماں میں بہت تنگ ہوں کیا کروں ...
پھر اماں کہانیاں سناتی ہیں ...لمبی لمبی سب کہانیاں ... وقت تھم چکا ہے. ماں بچے کا تعلق بحال ہوگیا ہے .. دونوں نئی بات سیکھ کر آپس میں شئیر کرتے ہیں ... اچھائی کی اہمیت اور برائی سے نفرت کی کہانیاں سناتے سناتے رات ڈھلنے لگتی ہے لیکن آج نیند آنے کا نام نہیں لیتی کہ ابھی تو صرف آٹھ بجے ہیں ... آج ماں کو احساس ہوتا ہے کہ اسکے بچے کا تخیل نہایت کمزور ہے وہ اپنی دنیا خود آباد کرنے سے عاری ہے وہ مستعار لی گئی چیزوں میں خوشی تلاشتا ہے جب کہ خوشی اندرونی کیفیت کا نام ہے ... وہ کارٹونز کے ساتھ خوش ہوتا اور اداس ہوتا ہے ... وہ نئی گاڑی خریدنے کو کامیابی سمجھتا ہے اورمالزمیں گھومنے کو شادمانی وہ.مکئی کی روٹی سے زیادہ فرنچ فرائز کو پسند کرتا ہے ...
مصنوعی روشنیوں نے ہم سے حقیقی روشنیاں چھین لی ہیں ........
اب ہم.داستان سننا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں چاہے خبروں کی شکل میں ہو گوسپ کے نام پہ ہو یا کسی کے بخیے اڑانے کی صورت ہو ....:
از سمیرا امام
 

سحرش سحر

محفلین
زبردست! یہی تلخ حقیقت ہے ۔
اور یہ تو اج کے دور کا رونا ہے .... اگے اگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟؟؟؟؟
 
آسٹریین فلسفی لڈوگ وٹگینسٹائین کا کہنا ہے کہ زبان کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ ذہن میں ایک تصویر پیدا کرے، اور غلط فہمی تب پیدا ہوتی ہے جب کہنے والے کے الفاظ سننے والے کے ذہن میں وہ تخیل پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جو اس کے اپنے ذہن میں ہیں۔
 
Top