میر باقرعلی
تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی؟
شاہ گل فام گنجل طلسموں کی گتھیوں کو سلجھاتا
صرصار جنگل کے شعلہ نفس اژدروں سے نمٹتا
بیابانِ حیرت کی بے انت وسعت کو سر کر کے
پہرے پہ مامور یک چشم دیووں کی نظریں بچا
سبز قلعےکی اونچی کگر پھاند کر
مہ جبیں کے معنبر شبستان تک آن پہنچا ہے
اور اس طرف حق و طاغوت مدِ مقابل ہیں
آنکھیں جدھر دیکھتی ہیں کلہاڑوں کی، نیزوں کی، برچھوں کی فصلیں کھڑی لہلہاتی نظر آ رہی ہیں
جری سورما آمنے سامنے ہنہناتے، الف ہوتے گھوڑوں پہ زانو جمائے ہوئے منتظر ہیں
ابھی طبل پر تھاپ پڑنے کو ہے
اور ادھر شاہ زادہ طلسمی محل کے حسیں دودھیا برج میں شاہ زادی کے حجلے کے اندر
ابھی لاجوردی چھپرکھٹ کا زربفت پردہ اٹھا ہی رہا ہے
مگر میر باقر علی
تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی
راہ داری، منقش دروبام، ست رنگ قالین، بلور قندیل، فوارہ بربط سناتا
جھروکوں پہ لہراتے پردوں کی قوسِ قزح
میمنہ، میسرہ، قلب، ساقہ، جناح
آہنی خود سے جھانکتی مرتعش پتلیاں
رزم گہ کی کڑی دھوپ میں ایک ساکت پھریرا
چھپرکھٹ پہ سوئی ہوئی شاہ زادی کے پیروں پہ مہندی کی بیلیں۔۔۔
فصاحت کے دریا بہاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
بلاغت کے موتی لٹاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
مگر میر باقر علی داستاں گو، سنو
داستاں سننے والے تو صدیاں ہوئیں اٹھ کے جا بھی چکے ہیں
تم اپنے طلسماتی قصے کے پرپیچ تاگوں میں ایسے لپٹتے گئے ہو
کہ تم کو خبر ہی نہیں ۔۔۔
سامنے والی نکڑ پہ اک آنے کی بائیسکوپ آ گئی ہے!
تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی؟
شاہ گل فام گنجل طلسموں کی گتھیوں کو سلجھاتا
صرصار جنگل کے شعلہ نفس اژدروں سے نمٹتا
بیابانِ حیرت کی بے انت وسعت کو سر کر کے
پہرے پہ مامور یک چشم دیووں کی نظریں بچا
سبز قلعےکی اونچی کگر پھاند کر
مہ جبیں کے معنبر شبستان تک آن پہنچا ہے
اور اس طرف حق و طاغوت مدِ مقابل ہیں
آنکھیں جدھر دیکھتی ہیں کلہاڑوں کی، نیزوں کی، برچھوں کی فصلیں کھڑی لہلہاتی نظر آ رہی ہیں
جری سورما آمنے سامنے ہنہناتے، الف ہوتے گھوڑوں پہ زانو جمائے ہوئے منتظر ہیں
ابھی طبل پر تھاپ پڑنے کو ہے
اور ادھر شاہ زادہ طلسمی محل کے حسیں دودھیا برج میں شاہ زادی کے حجلے کے اندر
ابھی لاجوردی چھپرکھٹ کا زربفت پردہ اٹھا ہی رہا ہے
مگر میر باقر علی
تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی
راہ داری، منقش دروبام، ست رنگ قالین، بلور قندیل، فوارہ بربط سناتا
جھروکوں پہ لہراتے پردوں کی قوسِ قزح
میمنہ، میسرہ، قلب، ساقہ، جناح
آہنی خود سے جھانکتی مرتعش پتلیاں
رزم گہ کی کڑی دھوپ میں ایک ساکت پھریرا
چھپرکھٹ پہ سوئی ہوئی شاہ زادی کے پیروں پہ مہندی کی بیلیں۔۔۔
فصاحت کے دریا بہاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
بلاغت کے موتی لٹاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
مگر میر باقر علی داستاں گو، سنو
داستاں سننے والے تو صدیاں ہوئیں اٹھ کے جا بھی چکے ہیں
تم اپنے طلسماتی قصے کے پرپیچ تاگوں میں ایسے لپٹتے گئے ہو
کہ تم کو خبر ہی نہیں ۔۔۔
سامنے والی نکڑ پہ اک آنے کی بائیسکوپ آ گئی ہے!