اقبال جہانگیر
محفلین
داعش کا جہاد ،فساد ہے
داعش سب مسلمانوں،پاکستان و افغانستان اورخطے کے امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں اور اس تنظیم میں دہشتگردی و سفاکی کا عمل بڑا نمایاں ہے۔د اعش کے دہشتگرد انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور تباہی و بربادی ان کا طرع امتیاز ہے اور قتل و غارت گری ان کا وصف ۔
داعش کو چاہئیے کہ یہ طاقت کے ذریعے اپنے مخصوص خیالات اور نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کا راستہ ترک کریں کیونکہ تلوار کے ذریعے غصے اور رحمت وشفقت میں مساوات قائم نہیں کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے رحمت کو لازم کیا ہے اور داعش تلوار کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صرف طاقت کے ذریعے اسلام غالب کیا جاسکتا ہے۔ طاقت کے استعمال کا فلسفہ امن وآشتی کے پیغام دینے والے اسلام کی پہچان ہر گز نہیں ہے۔
داعش کے جنگجو ایک جانب اہل سنت والجماعت کی پیروی کے دعوے دار ہیں اور دوسری جانب اسی مسلک کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ قرآن سنت کی روشنی میں داعش کا فلسفہ جہاد اور خلافت کو مسترد کیا جاتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا جواز کسی کے خلاف اعلان جنگ کرنے اور تلوار اٹھانے کا حکم نہیں دیا۔ داعش کے جنگجو جسے مقدس جہاد قرار دے رہے ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ جرم ہے۔
داعش کو علم ہو نا چاہئیے کہ اسلامی طریقہ جنگ میں کون کون سی قیود اور شرائط ہیں جن کی پابندی ناگزیر ہے۔ اسلام جنگ میں سفیروں، عورتوں، بچوں، اہل کتاب کے قتل کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ لاشوں کا مثلہ کرنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ تکفیری فتووں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ انبیاء کرام اور صحابہ جیسی بزرگ ہستیوں کے مزارات کو مسمار کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔د اعش کا یہ کونسا سا جہاد اور اسلامی خلافت ہے جس میں ان تمام ممانعتوں کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔
اسلام، دنیا میں تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے پھیلا۔ اس کی زندہ مثالیں پاکستان ،انڈونیشیا۔ ملائیشیا اور مغربی اور مشرقی افریقا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ نیز جہاد کی اصطلاح کسی ایسے اسلام دشمن کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو۔ مسلمانوں کے خلاف جنگ کونسا جہاد ہے۔
داعش کا تکفیری فلسفہ بھی غیر اسلامی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جس شخص نے کلمہ طیبہ پڑھا ہے وہ صاحب ایمان ہے اور فقہی اعتبار سے اسے کافر نہیں قرار دیاجاسکتا ہے۔ داعش اور اس سے وابستہ لوگوں نے اسلام کی مرضی کی تفسیر کر رکھی ہے۔ مسلمان صرف وہی ہے جسے وہ مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کریں اور باقی تمام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے کہ جس نے ایک مرتبہ لا الھ الا اللہ کہہ دیا اس کی تکفیر جائز نہیں ہے۔
داعش خوارج قاتلوں ،جنونی ،انسانیت کے قاتل اور ٹھگوں کا گروہ ہے جو اسلام کی کوئی خدمت نہ کر رہاہے بلکہ مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے اور مسلمان حکومتوں کو عدم استحکام میں مبتلا کر رہا ہے۔ داعش کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز خان کے مظالم ہیچ ہیں۔داعش کے پیروکار ایسے نظریے کے ماننے والے ہیں جس کی مسلم تاریخ میں مثال نہیں ملتی، داعش کے ارکان کا تعارف صرف یہی ہے کہ وہ ایسے مجرم ہیں جو مسلمانوں کا خون بہانا چاہتے ہیں۔ سعودی مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرنیوالے نادان اوربے خبرہیں۔
داعش سب مسلمانوں،پاکستان و افغانستان اورخطے کے امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں اور اس تنظیم میں دہشتگردی و سفاکی کا عمل بڑا نمایاں ہے۔د اعش کے دہشتگرد انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور تباہی و بربادی ان کا طرع امتیاز ہے اور قتل و غارت گری ان کا وصف ۔
داعش کو چاہئیے کہ یہ طاقت کے ذریعے اپنے مخصوص خیالات اور نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کا راستہ ترک کریں کیونکہ تلوار کے ذریعے غصے اور رحمت وشفقت میں مساوات قائم نہیں کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے رحمت کو لازم کیا ہے اور داعش تلوار کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صرف طاقت کے ذریعے اسلام غالب کیا جاسکتا ہے۔ طاقت کے استعمال کا فلسفہ امن وآشتی کے پیغام دینے والے اسلام کی پہچان ہر گز نہیں ہے۔
داعش کے جنگجو ایک جانب اہل سنت والجماعت کی پیروی کے دعوے دار ہیں اور دوسری جانب اسی مسلک کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ قرآن سنت کی روشنی میں داعش کا فلسفہ جہاد اور خلافت کو مسترد کیا جاتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا جواز کسی کے خلاف اعلان جنگ کرنے اور تلوار اٹھانے کا حکم نہیں دیا۔ داعش کے جنگجو جسے مقدس جہاد قرار دے رہے ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ جرم ہے۔
داعش کو علم ہو نا چاہئیے کہ اسلامی طریقہ جنگ میں کون کون سی قیود اور شرائط ہیں جن کی پابندی ناگزیر ہے۔ اسلام جنگ میں سفیروں، عورتوں، بچوں، اہل کتاب کے قتل کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ لاشوں کا مثلہ کرنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ تکفیری فتووں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ انبیاء کرام اور صحابہ جیسی بزرگ ہستیوں کے مزارات کو مسمار کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔د اعش کا یہ کونسا سا جہاد اور اسلامی خلافت ہے جس میں ان تمام ممانعتوں کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔
اسلام، دنیا میں تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے پھیلا۔ اس کی زندہ مثالیں پاکستان ،انڈونیشیا۔ ملائیشیا اور مغربی اور مشرقی افریقا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ نیز جہاد کی اصطلاح کسی ایسے اسلام دشمن کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو۔ مسلمانوں کے خلاف جنگ کونسا جہاد ہے۔
داعش کا تکفیری فلسفہ بھی غیر اسلامی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جس شخص نے کلمہ طیبہ پڑھا ہے وہ صاحب ایمان ہے اور فقہی اعتبار سے اسے کافر نہیں قرار دیاجاسکتا ہے۔ داعش اور اس سے وابستہ لوگوں نے اسلام کی مرضی کی تفسیر کر رکھی ہے۔ مسلمان صرف وہی ہے جسے وہ مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کریں اور باقی تمام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے کہ جس نے ایک مرتبہ لا الھ الا اللہ کہہ دیا اس کی تکفیر جائز نہیں ہے۔
داعش خوارج قاتلوں ،جنونی ،انسانیت کے قاتل اور ٹھگوں کا گروہ ہے جو اسلام کی کوئی خدمت نہ کر رہاہے بلکہ مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے اور مسلمان حکومتوں کو عدم استحکام میں مبتلا کر رہا ہے۔ داعش کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز خان کے مظالم ہیچ ہیں۔داعش کے پیروکار ایسے نظریے کے ماننے والے ہیں جس کی مسلم تاریخ میں مثال نہیں ملتی، داعش کے ارکان کا تعارف صرف یہی ہے کہ وہ ایسے مجرم ہیں جو مسلمانوں کا خون بہانا چاہتے ہیں۔ سعودی مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرنیوالے نادان اوربے خبرہیں۔