داعش کا فتنہ اور اہل توحید کی ذمہ داریاں

Fawad -

محفلین
فیصل عظیم فیصل نے کہا:
مدد کی صورت میں اسلحہ بانٹنے اور خانہ جنگیاں اسپارک کرنے میں امریکہ سے بہتر کون کھلاڑی ہوگا. عراق کے عوام کو آپ نے بہترین آزادی دلائی قیمت کیا تھی دس لاکھ سے زیادہ عراقیوں کا قتل عام فرقہ واریت کا جن اور داعش کا قیام نتیجہ اسرائیل کے مقابلے میں مقامی عربوں کی طاقت کا توڑ.....

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک عراق ميں فوجی کاروائ کی وجوہات کا تعلق ہے تو اس کا بنيادی مقصد عراق ميں جمہوريت يا کوئ اور نظام حکومت زبردستی نافذ کرنا نہيں تھا۔ يہ درست ہے کہ امريکہ نے عراق ميں جمہوری اقدار کی بحالی کی حوصلہ افزائ اور حمايت کی ہے ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال عراقی عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے۔ جہاں تک عراق کا سوال ہے تو امريکہ اور عالمی برادری کو صدام حکومت کی جانب سے اس خطے اور عالمی امن کو درپيش خطرات کے حوالے سے شديد تشويش تھی۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے کويت پر قبضہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ميں ناکامی اور عالمی برادری کے خدشات کو نظرانداز کرنا ايسے عوامل تھے جو عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا سبب بنے۔​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos
 

Fawad -

محفلین
فیصل عظیم فیصل نے کہا:
امریکہ بہادر نے اپنی جمہوریت کی مدد کا بہانہ بنا کر جتنے ملک تباہ کئے ہیں دہشت گردوں نے اتنی تباہی نہیں پھیلائی اور پچھلے سو برس میں جتنی اموات امریکہ کے ہاتھوں یا اسکی شروع کردہ جنگوں میں ہو چکی ہیں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کے تجزيے ميں جس حقيقت کا سرے سے ذکر ہی موجود نہيں ہے وہ ہمارے ملک پر ان دہشت گردوں کا کيا جانے والا حملہ ہے جن کی تربيت اور کاروائ کی منصوبہ بندی افغانستان ميں موجود دہشت گرد گروہوں کے سرکردہ افراد کی جانب سے کی گئ تھی۔ اس حملے کے نتيجے ميں تين ہزار سے زائد امريکی شہری ہلاک ہوئے اور يہی وہ محرک تھا جو افغانستان ميں فوجی کاروائ کا سبب بنا۔
ہم دنيا بھر ميں زبردستی جمہوری نظام نافذ کرنے کے مشن پر نہيں ہيں۔ ہماری فوجی کاروائیاں دہشت گردی کی ان کاروائيوں کے ضمن ميں حتمی ردعمل تھا جو ہمارے شہريوں کے خلاف کی گئ تھيں۔ ہمارا ہدف صرف يہی تھا کہ دنيا بھر کے عام شہريوں کو اسی قسم کی دہشت گردی سے محفوظ کيا جا سکے۔

عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ کا مقصد ان ممالک ميں زبردستی جمہوريت يا کوئ اور طرز حکومت مسلط کرنا ہرگز نہيں تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہم نے ان ممالک ميں عام عوام اور متعلقہ حکام کو اس بات کی ترغي۔ب ضرور دی ہے کہ وہ اقوام عالم کا حصہ بنيں اور آزمودہ جمہوری قدروں کو پروان چڑھائيں۔ ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال ان ممالک کے عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے ليکن اس کے باوجود ہمارے ان ممالک کے ساتھ ديرينہ تعلقات استوار ہيں۔

واقعات کا جو تسلسل افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ کا سبب بنا، وہ سب کے علم ميں ہيں۔ ميں آپ کو پورے يقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجيوں کی جانوں کو خطرات ميں ڈال کر اور مشکل معاشی حالات ميں اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کا صرف يہ مقصد ہرگز نہيں تھا کہ ہزاروں ميل دور ايک بيرون ملک ميں زبردستی اپنی مرضی کا طرز حکومت نافذ کيا جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

Security Check Required
 
فواد آپ کے جوابات اپنے اندر بہت سے مزید سوالات پیدا کرتے ہیں البتہ میں کمپیوٹر سے تحریر نہیں کر پا رہا فی الحال اس لیے خاموش ہوں اور موبائل پر تفصیلی سوالات بوجہ ڈیٹا لمٹس کر نہیں پا رہا
 

Fawad -

محفلین
آمریکہ اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ امريکی حکومت اپنے لوگوں اور خود اپنے مفادات کے تحفظ کے بنيادی ہدف کی سوچ کے ساتھ کام کرتی ہے۔ بلکہ سچ تو يہ ہے کہ دنيا ميں کہيں بھی جمہوری طور پر منتخب حکومت اپنی بنيادی تعريف کے تحت اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ اپنے لوگوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داريوں اور مقاصد کو پورا کرے۔

جو بھی حکومت اس ضمن ميں ناکام رہتی ہے وہ درحقيقت اپنے لوگوں کی مرضی کے خلاف کام کر رہی ہوتی ہے۔

اصل مسلۂ اس غلط سوچ اور دليل کی صورت ميں سامنے آتا ہے جب بعض رائے دہندگان اس بات پر يقين کر ليتے ہيں کہ عالمی دہشت گردی ميں اضافہ، داعش جيسے عفريت کا عالمی منظر نامے پر ابھرنا اور مسلم دنيا ميں حکومتی نظاموں کی ناکامی کی صورت ميں افراتفری، بے چينی اور شکست وريخت ايسے عوامل ہيں جو کسی بھی طور امريکی عوام کے مفادات کے تحفظ کے ہمارے واضح اور تسليم شدہ مقصد کو پورا کرنے کا سبب بنتے ہيں۔

اس سوچ کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ آج کے دور ميں جبکہ دنيا ايک ايسے گلوبل وليج کی صورت اختيار کر چکی ہے جہاں سياسی، معاشرتی اور معاشی مفادات ايک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو چکے ہيں، اب امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں رہا کہ وہ دنيا کو ايک غير محفوظ جگہ بنا کر اپنے مفادات کے تحفظ کے مقصد کو حاصل کر سکے۔

ستم ظريفی ديکھيں کہ ايک جانب تو آپ يہ دليل پيش کر رہے ہيں کہ امريکہ صرف اپنے مفادات اور فوجيوں کے تحفظ کو اہميت ديتا ہے اور دوسری جانب بعض رائے دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ دنيا بھر ميں عالمی دہشت گردی کے بڑھتے ہو‎ئے اثرات سے امريکہ شہريوں اور مفادات کو کوئ خطرات نہيں ہيں کيونکہ يہ خطے ميں ہمارے اہداف سے متصادم نہيں ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہزاروں کی تعداد ميں امريکی فوجيوں نے افغانستان اور عراق ميں اپنی جانوں کے نذرانے پيش کيے ہيں۔ ايک رپورٹ کا لنک پيش ہے جس ميں عراق اور افغانستان ميں اتحادی افواج کی قربانيوں کو اجاگر کيا گيا ہے۔

iCasualties: Operation Iraqi Freedom and Operation Enduring Freedom Casualties

يہ دعوی کيسے کيا جا سکتا ہے کہ خطے ميں تشدد کے بڑھتے ہو‎ئے رجحان سے ہميں کوئ لينا دينا نہيں ہے يا ہميں اس ضمن ميں کوئ تشويش نہيں ہے کيونکہ ہمارے تو اپنے فوجيوں نے خطے ميں امن کے قيام کو يقينی بنانے کے ليے اپنی جانيں قربان کی ہيں؟

جيسا کہ آپ نے خود يہ دعوی کيا کہ امريکہ صرف اپنے مفادات کے فروغ اور تحفظ ميں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر تو اس منطق کے تحت بھی ہميں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ان امريکی اور اتحادی فوجيوں کی قربانياں رائيگاں نا جائيں جنھوں نے خطے ميں ہمارے ديگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے ليے انتھک محنت اور کاوشيں کی ہيں۔

خطے ميں اپنے عالمی شراکت داروں کے تعاون اور اشتراک عمل کے ساتھ آئ ايس آئ ايس کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے اور دہشت گردی کے عالمی عفريت سے نبرد آزما ہونے کی اجتماعی خواہش کے پيچھے بھی يہی محرک ہے کہ اس دشمن کے خلاف اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کيا جائے جس نے ہر اس ملک اور فرد کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جو ان کی دقيانوسی سوچ اور غير انسانی طرز فکر سے متفق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
 
بی
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک عراق ميں فوجی کاروائ کی وجوہات کا تعلق ہے تو اس کا بنيادی مقصد عراق ميں جمہوريت يا کوئ اور نظام حکومت زبردستی نافذ کرنا نہيں تھا۔ يہ درست ہے کہ امريکہ نے عراق ميں جمہوری اقدار کی بحالی کی حوصلہ افزائ اور حمايت کی ہے ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال عراقی عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے۔ جہاں تک عراق کا سوال ہے تو امريکہ اور عالمی برادری کو صدام حکومت کی جانب سے اس خطے اور عالمی امن کو درپيش خطرات کے حوالے سے شديد تشويش تھی۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے کويت پر قبضہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ميں ناکامی اور عالمی برادری کے خدشات کو نظرانداز کرنا ايسے عوامل تھے جو عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا سبب بنے۔​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos
جی حضور آپ کا یہ بیان تو صدر بش کے اعلان آغاز حرب سے میل نہیں کھاتا جس میں انہوں نے عراق پر حملے کے بنیادی مقاصد کا اعلان کیا تھا یہ بیان اوول آفس سے بین الاقوامی طور پر جاری ہوا تھا۔ اس میں صدر بش یہ کہتے ہوئے کہ امریکی اور اتحادی فوجوں نے اپنے آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے تاکہ (1) عراق کو غیر مسلح کیا جا سکے (یہ مقصد جھوٹا ثابت ہوا کیونکہ عراق کے پاس کوئی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار تھے ہی نہیں)
(2) اسکی عوام کو آزادی دلائی جا سکے (ایسی آزادی دلوائی عراق کو کہ ابوغریب کے مظالم سے لے کر آئی ایس کے قیام تک سب کچھ اظہر من الشمس ہے وہ ملک جو ایک ملک تھا آپ نے اسے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور ایران کی جھولی میں ڈال دیا )
(3) دنیا کو ایک عظیم خطرے سے بچایا جا سکے ( وہ خطرہ جس سے آپ نے دنیا کو بچایا ہے ذرا ہمیں بھی بتائیں)

اسی تقریر میں بش نے اپنی افواج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کو آپ آزاد کروائیں گے وہ دیکھیں گے معزز اور باوقار روح تعامل کو جو امریکی فوج کی جانب سے ان کے ساتھ روا رکھی جائے گی (اور دنیا نے ابو غریب میں اس کا مشاہدہ کیا اور میڈیا نے بھی اپنے رپورٹرز کو امریکی ہیلی کاپٹرز سے قتل ہوتے دیکھا اور امریکی اور اتحادی افواج کے حسن سلوک کی اور بھی بے شمار داستانیں صرف میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں یہ کوئی چھپی ہوئی حقیقت نہیں ہے )
 
کے
ہم دنيا بھر ميں زبردستی جمہوری نظام نافذ کرنے کے مشن پر نہيں ہيں۔ ہماری فوجی کاروائیاں دہشت گردی کی ان کاروائيوں کے ضمن ميں حتمی ردعمل تھا جو ہمارے شہريوں کے خلاف کی گئ تھيں۔ ہمارا ہدف صرف يہی تھا کہ دنيا بھر کے عام شہريوں کو اسی قسم کی دہشت گردی سے محفوظ کيا جا سکے
بہت اچھے آپ دنیا میں زبردستی جمہوری نظام کو مسلط کرنے کے مشن پر نہیں ہیں لیکن لیبیا میں ، عراق میں، افغانستان میں آپ کی شروع کردہ جنگوں سے یہی نتائج نکلے ہیں ۔ جنہیں آپ کی حکومت نے رکاوٹ سمجھا وہ ڈکٹیٹر کہلائے اور ان پر جنگ مسلط کر دی گئی ۔ ایک طرف دہشت گردی کا شکار ملکوں پر جنگیں مسلط کی گئیں اور دوسری طرف ان جنگوں کے لیئے رنگ برنگے نعرے تراشے گئے ۔

آپ کے تجزيے ميں جس حقيقت کا سرے سے ذکر ہی موجود نہيں ہے وہ ہمارے ملک پر ان دہشت گردوں کا کيا جانے والا حملہ ہے جن کی تربيت اور کاروائ کی منصوبہ بندی افغانستان ميں موجود دہشت گرد گروہوں کے سرکردہ افراد کی جانب سے کی گئ تھی۔ اس حملے کے نتيجے ميں تين ہزار سے زائد امريکی شہری ہلاک ہوئے اور يہی وہ محرک تھا جو افغانستان ميں فوجی کاروائ کا سبب بنا۔
افغانستان پر آپ کے حملے کا یہ جواز بودا اور ناقابل ثبوت ہے ۔ جب دو ہزار ایک میں آپ کی حکومت نے اسامہ اور اس کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا تو آپ سے اس سلسلے میں ثبوت طلب کیئے گئے تھے جو ان کا بنیادی حق تھا وہ ثبوت کب پیش کیئے گئے ذرا بتائیں گے۔۔؟؟؟ آپ لوگوں نے ثبوت فراہم کرنے سے انکار کیا ۔تھا اور پھر سات اکتوبر دو ہزار ایک کو اپنی غیر مشروط اتحادی حکومت برطانیہ کے ساتھ مل کر حملہ کیا جسے آپریشن اینڈیورنگ فریڈم کا نام دیا تھا۔ جنہیں آپ نے مجرم سمجھا وہ طلب کیئے گئے اور ثبوت کے سوال پر آپ نے انکار کرنے کے بعد جنگ چھیڑی لہذا یہ بیانیہ سوائے جذباتی گپ شپ کے کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ کا اتحاد شمالی اتحاد کے ساتھ ہوا اور اس کے بعد ایساف کا قیام عمل میں اس طرح آیا۔ ٹائم لائن کچھ اور بیان کرتی ہے۔ حقائق کو ملمع کاری سے مسخ مت کیجئے۔

عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ کا مقصد ان ممالک ميں زبردستی جمہوريت يا کوئ اور طرز حکومت مسلط کرنا ہرگز نہيں تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہم نے ان ممالک ميں عام عوام اور متعلقہ حکام کو اس بات کی ترغي۔ب ضرور دی ہے کہ وہ اقوام عالم کا حصہ بنيں اور آزمودہ جمہوری قدروں کو پروان چڑھائيں۔ ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال ان ممالک کے عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے ليکن اس کے باوجود ہمارے ان ممالک کے ساتھ ديرينہ تعلقات استوار ہيں۔

جن ممالک میں ڈکٹیٹرز سے آپ کے تعلقات ہیں کیا ان کے ملکوں کے عوام آپ کے معیار کے مطابق اپنی حکومتوں سے خوش ہیں یا پھر جن ڈکٹیٹروں سے آپ کا پنگا ہے وہی بیڈ ڈکٹیٹرز ہیں باقی گڈ پیپل۔۔۔؟؟؟

واقعات کا جو تسلسل افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ کا سبب بنا، وہ سب کے علم ميں ہيں۔ ميں آپ کو پورے يقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجيوں کی جانوں کو خطرات ميں ڈال کر اور مشکل معاشی حالات ميں اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کا صرف يہ مقصد ہرگز نہيں تھا کہ ہزاروں ميل دور ايک بيرون ملک ميں زبردستی اپنی مرضی کا طرز حکومت نافذ کيا جا سکے۔
اس کے علاوہ آپ کی چھیڑی گئی جنگوں سے حاصل وصول کیا ہوا سوائے بد امنی اور دنیا کو مزید غیر محفوظ کرنے کے،۔۔۔؟؟؟؟
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ امريکی حکومت اپنے لوگوں اور خود اپنے مفادات کے تحفظ کے بنيادی ہدف کی سوچ کے ساتھ کام کرتی ہے۔ بلکہ سچ تو يہ ہے کہ دنيا ميں کہيں بھی جمہوری طور پر منتخب حکومت اپنی بنيادی تعريف کے تحت اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ اپنے لوگوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داريوں اور مقاصد کو پورا کرے۔

جو بھی حکومت اس ضمن ميں ناکام رہتی ہے وہ درحقيقت اپنے لوگوں کی مرضی کے خلاف کام کر رہی ہوتی ہے۔

اصل مسلۂ اس غلط سوچ اور دليل کی صورت ميں سامنے آتا ہے جب بعض رائے دہندگان اس بات پر يقين کر ليتے ہيں کہ عالمی دہشت گردی ميں اضافہ، داعش جيسے عفريت کا عالمی منظر نامے پر ابھرنا اور مسلم دنيا ميں حکومتی نظاموں کی ناکامی کی صورت ميں افراتفری، بے چينی اور شکست وريخت ايسے عوامل ہيں جو کسی بھی طور امريکی عوام کے مفادات کے تحفظ کے ہمارے واضح اور تسليم شدہ مقصد کو پورا کرنے کا سبب بنتے ہيں۔

اس سوچ کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ آج کے دور ميں جبکہ دنيا ايک ايسے گلوبل وليج کی صورت اختيار کر چکی ہے جہاں سياسی، معاشرتی اور معاشی مفادات ايک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو چکے ہيں، اب امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں رہا کہ وہ دنيا کو ايک غير محفوظ جگہ بنا کر اپنے مفادات کے تحفظ کے مقصد کو حاصل کر سکے۔

ستم ظريفی ديکھيں کہ ايک جانب تو آپ يہ دليل پيش کر رہے ہيں کہ امريکہ صرف اپنے مفادات اور فوجيوں کے تحفظ کو اہميت ديتا ہے اور دوسری جانب بعض رائے دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ دنيا بھر ميں عالمی دہشت گردی کے بڑھتے ہو‎ئے اثرات سے امريکہ شہريوں اور مفادات کو کوئ خطرات نہيں ہيں کيونکہ يہ خطے ميں ہمارے اہداف سے متصادم نہيں ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہزاروں کی تعداد ميں امريکی فوجيوں نے افغانستان اور عراق ميں اپنی جانوں کے نذرانے پيش کيے ہيں۔ ايک رپورٹ کا لنک پيش ہے جس ميں عراق اور افغانستان ميں اتحادی افواج کی قربانيوں کو اجاگر کيا گيا ہے۔

iCasualties: Operation Iraqi Freedom and Operation Enduring Freedom Casualties

يہ دعوی کيسے کيا جا سکتا ہے کہ خطے ميں تشدد کے بڑھتے ہو‎ئے رجحان سے ہميں کوئ لينا دينا نہيں ہے يا ہميں اس ضمن ميں کوئ تشويش نہيں ہے کيونکہ ہمارے تو اپنے فوجيوں نے خطے ميں امن کے قيام کو يقينی بنانے کے ليے اپنی جانيں قربان کی ہيں؟

جيسا کہ آپ نے خود يہ دعوی کيا کہ امريکہ صرف اپنے مفادات کے فروغ اور تحفظ ميں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر تو اس منطق کے تحت بھی ہميں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ان امريکی اور اتحادی فوجيوں کی قربانياں رائيگاں نا جائيں جنھوں نے خطے ميں ہمارے ديگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے ليے انتھک محنت اور کاوشيں کی ہيں۔

خطے ميں اپنے عالمی شراکت داروں کے تعاون اور اشتراک عمل کے ساتھ آئ ايس آئ ايس کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے اور دہشت گردی کے عالمی عفريت سے نبرد آزما ہونے کی اجتماعی خواہش کے پيچھے بھی يہی محرک ہے کہ اس دشمن کے خلاف اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کيا جائے جس نے ہر اس ملک اور فرد کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جو ان کی دقيانوسی سوچ اور غير انسانی طرز فکر سے متفق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
اپنے گھر سے ہزاروں میل دور آگ لگا کر دونوں تینوں یا تمام فریقیوں کو آگ اور ایندھن فراہم کرنا یقینا ایک عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد آپ تھوڑے سے ردو بدل سے بیان کر چکے ہیں

امریکہ یہ کہتا ہے

''خطے ميں اپنے عالمی شراکت داروں کے تعاون اور اشتراک عمل کے ساتھ آئ ايس آئ ايس کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے اور دہشت گردی کے عالمی عفريت سے نبرد آزما ہونے کی اجتماعی خواہش کے پيچھے بھی يہی محرک ہے کہ اس دشمن کے خلاف اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کيا جائے جس نے ہر اس ملک اور فرد کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جو ان کی دقيانوسی سوچ اور غير انسانی طرز فکر سے متفق نہيں ہے''

جبکہ دہشت گرد یہ کہتے ہیں کہ
"دنیا ميں اپنے عالمی شراکت داروں کے تعاون اور اشتراک عمل کے ساتھ امریکیوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے اور امریکی دہشت گردی کے عالمی عفريت سے نبرد آزما ہونے کی اجتماعی خواہش کے پيچھے بھی يہی محرک ہے کہ اس دشمن کے خلاف اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کيا جائے جس نے ہر اس ملک اور فرد کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جو ان کی دقيانوسی سوچ اور غير انسانی طرز فکر سے متفق نہيں ہے۔"

ہم عوام الناس کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔۔۔؟؟؟؟
 

Fawad -

محفلین
اپنے گھر سے ہزاروں میل دور آگ لگا کر دونوں تینوں یا تمام فریقیوں کو آگ اور ایندھن فراہم کرنا یقینا ایک عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد آپ تھوڑے سے ردو بدل سے بیان کر چکے ہیں

امریکہ یہ کہتا ہے

''خطے ميں اپنے عالمی شراکت داروں کے تعاون اور اشتراک عمل کے ساتھ آئ ايس آئ ايس کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے اور دہشت گردی کے عالمی عفريت سے نبرد آزما ہونے کی اجتماعی خواہش کے پيچھے بھی يہی محرک ہے کہ اس دشمن کے خلاف اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کيا جائے جس نے ہر اس ملک اور فرد کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جو ان کی دقيانوسی سوچ اور غير انسانی طرز فکر سے متفق نہيں ہے''

جبکہ دہشت گرد یہ کہتے ہیں کہ
"دنیا ميں اپنے عالمی شراکت داروں کے تعاون اور اشتراک عمل کے ساتھ امریکیوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے اور امریکی دہشت گردی کے عالمی عفريت سے نبرد آزما ہونے کی اجتماعی خواہش کے پيچھے بھی يہی محرک ہے کہ اس دشمن کے خلاف اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کيا جائے جس نے ہر اس ملک اور فرد کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جو ان کی دقيانوسی سوچ اور غير انسانی طرز فکر سے متفق نہيں ہے۔"

ہم عوام الناس کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔۔۔؟؟؟؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کی رائے سے يہ تاثر ابھرتا ہے کہ داعش کے خلاف امريکی کاوشيں اور پاليسیاں صرف ہمارے اپنے ايجنڈے يا مفادات کے ليے ہيں اور باقی ممالک کے عام شہری گويا امريکی موقف کا "خميازہ" بھگت رہے ہيں۔

اس تاثر کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

دنيا کے مختلف ممالک جنھوں نے داعش کے خلاف جاری کاوشوں ميں اپنے وسائل فراہم کرنے کی حامی بھری ہے، ان کی لسٹ پر ايک نظر ڈاليں۔ اتحادی ممالک کا يہ وسيع ہوتا ہوا نيٹ ورک انھی دہشت گرد کاروائيوں اور عام شہريوں کے خلاف داعش کی بربريت کو روکنے کے ليے ہے جس پر آپ اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے ہيں۔

Partners – The Global Coalition Against Daesh

يقينی طور پر آپ يہ توقع نہيں کر سکتے کہ يہ تمام ممالک محض امريکی مفادات اور اہداف کے حصول کے ليے اپنے وسا‏ئل صرف کريں گے۔

اور جہاں تک اس رائے کا تعلق ہے کہ امريکہ داعش سے درپيش خطرات کے ضمن ميں مبالغہ آرائ سے کام کر رہا ہے تو اس ضمن ميں سال 2015 کی ايک رپورٹ کا لنک پيش ہے جس کے مطابق دنيا بھر ميں متحرک تمام دہشت گرد گروہوں ميں داعش ہی سر فہرست ہے۔

Terrorism: terrorist groups responsible for the most attacks worldwide in 2015 | Statisitic

اس تناظر ميں يہ ايک منطقی ردعمل ہے کہ دنيا بھر کے عام شہريوں کو اس عفريت سے محفوظ رکھنے کے ليے عالمی برادری مشترکہ لائحہ عمل اور کاوشوں کے ضمن ميں اپنے وسائل استعمال کرے۔

يہ دليل بالکل لغو ہے کہ امريکی اور اتحادی افواج کی کاوشوں کے نتيجے ميں لامحالہ عام شہريوں کی زندگيوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

ميں اس بات کا اعادہ کردوں کہ ہم فضائ حملے کے دوران تمام تر عمل ميں ہر ممکن احتياط برتتے ہيں جن ميں ميسر اينٹيلی جنس کا درست تجزيہ، مشن کی ضرويات کی مناسبت سے ہتھيار کا انتخاب تا کہ شہری زندگيوں کو نقصان سے بچايا جا سکے، خاص اہمیت کے حامل ہيں۔

امريکی فوج بے گناہ شہريوں کی دانستہ ہلاکت کی متمنی ہرگز نہيں ہے اور نا ہی ہم شہريوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہيں۔ تاہم جب بھی کبھی ايسا واقعہ پيش آتا ہے تو دنيا کی کئ دوسری فوجوں کے برعکس ہم ہر واقعے کی مکمل تحقيقات بھی کرتے ہيں اور اس ضمن ميں نتائج کو باقاعدہ رپورٹ بھی کيا جاتا ہے۔ علاوہ ازيں ہم اس بات کو بھی يقینی بناتے ہيں کہ ايسے واقعات کی مستقبل ميں روک تھام کے ليے ہر ممکن قدم اٹھايا جائے۔

يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ داعش کے جنگجو عام شہريوں کو باقاعدہ ايک حکمت عملی کے تحت انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہيں۔ تاہم اتحادی فوجی آپريشنز کے دوران شہری زندگيوں کو محفوظ کرنے کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھاتے ہيں۔

آپ اس طريقہ کار اور لائحہ عمل کا موازنہ داعش کے دہشت گردوں سے کريں جو اپنے حملوں کی "افاديت" اور اس کا "کامياب" بنانے کے ليے دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بناتے ہيں۔

يقینی طور پر داعش کو اس بات کی اجازت دينا کہ وہ بغير کسی روک ٹوک کے عام شہریوں پر اپنی بربريت جاری رکھيں ايسا "حل" نہيں ہے جسے امن کے پائيدار حصول کے ليے کوئ ذی شعور شخص تجويز کر سکتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
کچھ سوالات اس سے پہلی پوسٹس میں بھی موجود ہیں ان کا جواب کہاں ہے. یہ تو الزامی بٹا الزامی برابر ہے چونچ لڑائی والی آخری پوسٹ کا جواب ہے براہ کرم اس سے پہلے والی پوسٹس کا جواب دے دیجئے اس جواب کا آپریشن میں بعد میں کرونگا.

تیاری فواد صاحب تیاری میری جان
 

Fawad -

محفلین
اور میڈیا نے بھی اپنے رپورٹرز کو امریکی ہیلی کاپٹرز سے قتل ہوتے دیکھا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ سياسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے بے گناہ افراد کی ہلاکت سے امريکہ کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ عالمی افواج ايسے تمام اقدامات اور ضروری تدابير اختيار کرتی ہيں جن سے بے گناہ افراد کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے۔ اس کے برعکس دہشت گرد دانستہ عام شہريوں کو نشانہ بناتے ہيں اور اپنے اقدامات سے براہراست ان کی زندگيوں کو خطرے ميں ڈالتے ہيں۔ امريکی حکومت اور فوج ميدان جنگ اور حساس علاقوں ميں عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم معاملے سميت تمام چيلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ۔ جب آپ امريکی اور نيٹو افواج کی فوجی کاروائ کے نتيجے ميں نادانستہ طور پر ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کے حوالے سے بحث کرتے ہیں تو اس ضمن ميں آپ کو يہ حقيقت تسليم کرنا پڑے گی کہ کسی بھی فوجی تنازعے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ ان فوجی کاروائيوں کے دوران خود امريکی اور نيٹو کے کئ فوجی "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے نتيجے ميں بھی ہلاک ہو چکے ہيں۔ کسی بھی واقعے کے ميرٹ اور اس کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ان واقعات اور حالات کا غير جانب دارانہ تجزيہ کرنا چاہيے جو بالاخر ايک فوجی کاروائ کی صورت اختيار کر جاتا ہے۔ اس ويڈيو میں جس فوجی حملے کی تفصيل موجود ہے وہ بغير منصوبہ بندی کے کيا جانا والا کوئ بلااشتعال حملہ نہيں تھا۔ اسی علاقے کے نزديک اس واقعے سے کچھ دير قبل امريکی فوجيوں پر حملہ کيا جا چکا تھا۔

امريکی فوج نے اس واقعے کے بعد مکمل تفتيش کی تھی اور تحقيق سے يہ بات ثابت ہوئ تھی کہ امريکی فوجيوں کی جانب سے دانستہ مجرمانہ کاروائ نہيں کی گئ تھی۔ يہ بات بہت اہم ہے کہ يہ فوجی کاروائ اسی علاقے ميں امريکی اور عراقی حکومتوں کی فورسز اور مزاحمت کاروں کے مابين پہلے سے جاری جنگ کا حصہ تھی۔ جيسا کہ اس ويڈيو ميں واضح ہے کہ بہت سے افراد ہتھيار اٹھائے ہوئے تھے جن ميں اے – کے 47 اور آر – پی – جی بھی شامل تھيں۔ يہ حقیقت بھی ويڈيو سے عياں ہے کہ فوجيوں کو متعدد بار اس بات کی تاکيد کی گئ تھی کہ وہ حملے سے قبل اس بات کا يقين کر ليں کہ ہتھيار واضح طور پر ديکھے جا سکتے ہيں کہ نہيں۔

امريکی فوجی اس بات سے بھی آگاہ نہيں تھے کہ اس حملے کے موقع پر صحافی يا بچے بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ صحافی نہ ہی اپنی پريس کی جيکٹ پہنے ہوئے تھے اور نہ ہی کوئ ايسا نشان موجود تھا جس سے يہ واضح ہوتا کہ ان کا تعلق صحافت سے ہے۔ اسی طرح کم سن بچے وين کے اندر امريکی فوجيوں کی نظر سے اوجھل تھے۔

جب امريکی فوجی حملے کے بعد اس جگہ پر پہنچے تو ان کم سن بچوں کو فوری طوری پر اس علاقے سے نکال کر امريکی فوجی ہسپتال ميں منتقل کر ديا گيا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
بی
جی حضور آپ کا یہ بیان تو صدر بش کے اعلان آغاز حرب سے میل نہیں کھاتا جس میں انہوں نے عراق پر حملے کے بنیادی مقاصد کا اعلان کیا تھا یہ بیان اوول آفس سے بین الاقوامی طور پر جاری ہوا تھا۔ اس میں صدر بش یہ کہتے ہوئے کہ امریکی اور اتحادی فوجوں نے اپنے آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے تاکہ (1) عراق کو غیر مسلح کیا جا سکے (یہ مقصد جھوٹا ثابت ہوا کیونکہ عراق کے پاس کوئی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار تھے ہی نہیں)
(2) اسکی عوام کو آزادی دلائی جا سکے (ایسی آزادی دلوائی عراق کو کہ ابوغریب کے مظالم سے لے کر آئی ایس کے قیام تک سب کچھ اظہر من الشمس ہے وہ ملک جو ایک ملک تھا آپ نے اسے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور ایران کی جھولی میں ڈال دیا )


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بصد احترام – تھريڈ کا عنوان "داعش کا فتنہ" ہے اور زير بحث موضوع ميں آپ ابو غريب جيسے واقعے کا حوالہ دے کر يہ تاثر دے رہے ہيں کہ گويا يہ ايک واقعہ خطے ميں داعش کی بربريت اور دہشت گردی کی بنياد بنا يا اس گروہ کے ليے يہ واقعہ محرک بن گيا۔

حقائق اس سے کوسوں دور ہيں۔

پہلی بات تو يہ ہے کہ جب آپ ابوغريب ميں امريکی فوجيوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے واقعات کا ذکر کرتے ہيں تو آپ يہ کيوں بھول جاتے ہيں کہ وہ بھی امريکی فوجی ہی تھے جنھوں نے اپنے ساتھيوں کی بدسلوکی کے بارے ميں حکام کو آگاہ کيا تھا؟ صرف يہی نہيں بلکہ ان امريکی فوجيوں نے اپنے ہی ساتھيوں کے خلاف مقدمات ميں گواہی بھی دی اور انھی کی کوششوں کی وجہ سے ان جرائم ميں ملوث فوجيوں کے خلاف باقاعدہ مقدمے بنے اور انھيں سزائيں بھی مليں۔

links.jpg


آپ عراق ميں امريکی فوجی کاروائ کے محرکات اور اس کے درست يا غلط ہونے کے حوالے سے دلائل پر اپنی توجہ مرکوز کيے ہوئے ہيں۔ جبکہ داعش موجودہ حالات ميں نا صرف يہ کہ تمام عرب ممالک ميں بلکہ عالمی سطح پر اپنی دہشت گردی کی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

واقعات کا وہ تسلسل جو عراق ميں صدام حسين کی جابر حکومت کے خاتمے کا سبب بنا، اس کے درست يا غلط ہونے کا فيصلہ تو تاريخ دان اور دانشور ہی کريں گے۔ تاہم يہ ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ سال 2011 ميں امريکی فوجی خطے سے نکل چکے تھے اور داعش نے عالمی سطح پر اپنی پرتشدد کاروائيوں کا سلسلہ اس کے بعد شروع کيا تھا۔

آپ کی رائے کی روشنی ميں اگر آئ ايس آئ ايس کوئ ايسی تنظيم ہوتی جو خطے ميں امريکی موجودگی کے نتيجے ميں ردعمل کے طور پر وجود ميں آئ ہوتی تو پھر اس منطق کے تحت تو اس تنظيم کا وجود سال 2011 ميں اس وقت ختم ہو جانا چاہیے تھا جب امريکی افواج نے سيکورٹی کے معاملات عراقی عوام کے منتخب جمہوری نمايندوں کے حوالے کر کے علاقے سے مکمل طور پر انخلاء کر ليا تھا۔

مگر ہم جانتے ہيں کہ صورت حال يہ نہيں ہے۔ اس گروہ کو تو تقويت ہی اس وقت ملی تھی جب امريکی افواج خطے سے نکل چکی تھيں۔ عراق ميں ہماری موجودگی کے حوالے سے آپ کا سوال اور دليل موجودہ صورت حال کے تناظر ميں غير متعلقہ ہو جاتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
اس کے علاوہ آپ کی چھیڑی گئی جنگوں سے حاصل وصول کیا ہوا سوائے بد امنی اور دنیا کو مزید غیر محفوظ کرنے کے،۔۔۔؟؟؟؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر کچھ شر پسند عناصر دانستہ کسی عمارت کو آگ لگا ديں اور انسانی جانوں کو بچانے کی کوششوں ميں آگ بجھانے والے عملے اور شہری رضاکاروں کو بھی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے تو کيا آپ قصور وار مجرموں کو قرار ديں گے يا ان کاوشوں کو مورد الزام قرار ديں گے جو مزيد جانی نقصان کا سبب بنيں۔

جب پشاور سکول ميں 150 سے زائد معصوم بچوں کو دانستہ انتہائ بے دردی سے قتل کر ديا گيا تو ذمہ دار عناصر نے انتہائ ڈھٹائ سے نا صرف اس حملے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ مزيد ايسے حملے کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کيا گيا تو ايسی صورت ميں بہتر فيصلہ يا حکمت عملی کيا ہو سکتی تھی؟ کيا معاشرے ميں تشدد کے ممکنہ اضافے سے بچنے کے ليے "معاف کرو اور فراموش کر دو" کا نعرہ يا حکمت عملی قابل قبول ہو سکتی تھی؟

اس اندوہناک واقعے کے پاکستانی حکومت اور فوج کی جانب سے ايسے درندوں کے خلاف بڑے آپريشن کا فيصلہ اور معاشرے کی جانب سے اجتماعی سطح پر اس کی تائيد اور حمايت آپ کی دليل کی نفی ہے۔

اگر ميں آپ کا نقطہ درست سمجھا ہوں تو اس کی بنياد پر پاکستان ميں ہونے والے ہر خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے بعد حکومت پاکستان کا ردعمل صرف يہی ہونا چاہیے کہ عام شہريوں کو محض يہ تنبہيہ کر دی جائے کہ اپنے گھروں اور عمارتوں کے باہر سيکورٹی کے انتظامات مزيد موثر کر کے چوکيداروں کی تعداد ميں اضافہ کر ديا جائے۔ اور ان مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے کوئ تردد نہيں کرنا چاہيے جو روزانہ عام شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔

دہشت گردی کے سدباب کے ليے يہ دليل نہ تو قابل عمل ہے اور نا ہی قابل فہم۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ ان مجمرموں کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے جو نا صرف يہ کہ مزيد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہيں بلکہ مزيد "فوجيوں" کو اپنی صفوں ميں شامل کر رہے ہيں؟

اس ميں کوئ شک نہيں کہ تمام سرکردہ اسلامی ممالک سميت عالمی برادری نے دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کاوشوں ميں ہماری حمايت بھی کی اور ہمارے ساتھ بھرپور تعاون بھی کيا کيونکہ دہشت گردی کے اثرات اور اس سے لاحق خطرات صرف امريکہ تک محدود نہيں ہيں بلکہ دنيا بھر ميں عام شہريوں کی سيکورٹی اور حفاظت اس امر سے مشروط ہے کہ دہشت گردی کی اس لہر کو ہر صورت ميں روکا جائے۔

پاکستان سميت دنيا کے کئ ممالک ميں دہشت گردی کے سبب جو جانی اور مالی نقصانات ہوئے ہيں اس سے يہ حقيقت واضح ہے کہ ان مجرموں کے خلاف کاروائ نا کرنا کوئ فعال يا قابل عمل حکمت عملی نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
جن ممالک میں ڈکٹیٹرز سے آپ کے تعلقات ہیں کیا ان کے ملکوں کے عوام آپ کے معیار کے مطابق اپنی حکومتوں سے خوش ہیں یا پھر جن ڈکٹیٹروں سے آپ کا پنگا ہے وہی بیڈ ڈکٹیٹرز ہیں باقی گڈ پیپل۔۔۔؟؟؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں آپ کو يقين دلا دوں کہ امريکی حکومت کسی بھی ملک يا خطے کے حوالے سے اپنی خارجہ پاليسی کا تعين اس بات پر نہيں کرتی کہ اس ملک کے ليڈر کو ہم کتنا پسند يا نا پسند کرتے ہيں۔ امريکہ دنيا بھر ميں جمہوريت يا کسی اور نظام کو زبردستی مسلط کرنے کی مہم پر نہيں ہے۔

طالبان حکومت نےقريب چھ سال تک افغانستان کا نظام سنبھالا۔ باوجود اس کے کہ ہم نے کبھی بھی سرکاری طور پر طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا اور افغانستان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے ہم نے ہر عالمی فورم پر آواز بھی بلند کی، امريکہ نے کسی بھی موقع پر طاقت کے زور پر افغانستان ميں کسی حل کو مسلط کرنے کی کوشش نہيں کی۔ تاہم جب اسی طالبان حکومت کے زير سايہ دہشت گرد گروہ اور اس کے سرغنہ نے ہزاروں کی تعداد ميں امريکی شہريوں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنايا اور ايسی ہی مزيد کاروائيوں کا عنديہ بھی دے ديا تو پھر ہمارے ليے يہ ممکن نہيں رہا کہ ہم خاموش تماشائ بنے رہتے۔

امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں، ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ ہم تعلقات استوار کرنے کے ليے دنيا بھر کے ممالک پر اپنی مرضی کے حکمران مسلط کرنے کی کوششيں شروع کر ديں۔ دنيا بھر ميں نظام حکومت اس طرح سے نہيں چل سکتے۔

يہ دعوی تاريخی حقائق مسخ کرنے کے مترداف ہے کہ امريکی حکومت کسی بھی طور عرب ممالک ميں آمروں کی حکمرانی کے ليے ذمہ دار ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ دنيا ميں ايک حد تک اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک کی قيادت اپنی مرضی سے تبديل کر سکتا ہے۔ اگر امریکی حکومت کی مشينری اتنی ہی بااختيار ہوتی تو کوئ بھی امريکی صدر کبھی اليکشن نہ ہارے۔ اگر امريکی صدر کو خود اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے ليے عوام اور سياسی جماعتوں کی تائيد کی ضرورت ہوتی ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ايک دور دراز ملک کی حکومتی مشينری کو اپنی مرضی سے چلائے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top