اریب آغا ناشناس
محفلین
آں قدر با آتشِ دل ساختم تا سوختم
بے تو اے آرامِ جاں! یا ساختم یا سوختم
میں نے اس قدر آتشِ دل کے ساتھ موافقت کی کہ میں جل گیا۔اے آرامِ جاں! تیرے بغیر یا میں نے موافقت کی یا جل گیا۔
سردمہری بیں کہ کس بر آتشم آبے نزد
گرچہ ہمچوں برق از گرمی سراپا سوختم
(لوگوں کی) سرد مہری دیکھ کہ میں اگرچہ مثلِ برقِ تپاں گرمی سے سراپا جل گیا لیکن کسی نے بھی میری آتش پر آب فشانی نہیں کی۔
سوختم اما نہ چوں شمعِ طرب در بینِ جمع
لالہ ام کز داغ تنہائی بہ صحرا سوختم
میں جلا لیکن کسی مسرور شمع کی طرح مجمع کے درمیان نہیں جلا۔
سوختم در پیشِ مہ رویان و بے جا سوختم
اس شمع کی مانند، جسے آفتابِ جہاں تاب کے سامنے روشن کیا جاتا ہے
(جس طرح خورشیدِ عالم تاب کے سامنے شمع افروزی کرنا بے جا ہے)، میں بھی ماہ رُو لوگوں کے سامنے جلا اور بے جا جلا۔
سوختم از آتشِ دل درمیانِ موجِ اشک
شوربختی بیں کہ در آغوشِ دریا سوختم
میں سیلِ اشک کے درمیان ہی آتشِ دل کی وجہ سے جلا۔بدبختی دیکھ کہ میں آغوشِ دریا ہی میں جل گیا۔
شمع و گل ہر کدام از شعلہء در آتشند
در میانِ پاکبازاں من نہ تنہا سوختم
شمع و گُل سب کسی شعلہ کی وجہ سے آتشِ سوزاں میں ہیں۔
رفتم و از ماتمِ خود عالمے را سوختم
میری جانِ پاک آفتابِ جہاں تاب تھی رہیؔ! میں چلاگیا اور اپنے ماتم سے ایک دنیا کو جلاگیا۔
بے تو اے آرامِ جاں! یا ساختم یا سوختم
میں نے اس قدر آتشِ دل کے ساتھ موافقت کی کہ میں جل گیا۔اے آرامِ جاں! تیرے بغیر یا میں نے موافقت کی یا جل گیا۔
سردمہری بیں کہ کس بر آتشم آبے نزد
گرچہ ہمچوں برق از گرمی سراپا سوختم
(لوگوں کی) سرد مہری دیکھ کہ میں اگرچہ مثلِ برقِ تپاں گرمی سے سراپا جل گیا لیکن کسی نے بھی میری آتش پر آب فشانی نہیں کی۔
سوختم اما نہ چوں شمعِ طرب در بینِ جمع
لالہ ام کز داغ تنہائی بہ صحرا سوختم
میں جلا لیکن کسی مسرور شمع کی طرح مجمع کے درمیان نہیں جلا۔
میں گلِ لالہ ہوں، کہ میں داغِ تنہائی کی وجہ سے صحرا میں (تنہا) جلا۔
ہمچو آن شمعے کہ افروزند پیشِ آفتاب سوختم در پیشِ مہ رویان و بے جا سوختم
اس شمع کی مانند، جسے آفتابِ جہاں تاب کے سامنے روشن کیا جاتا ہے
(جس طرح خورشیدِ عالم تاب کے سامنے شمع افروزی کرنا بے جا ہے)، میں بھی ماہ رُو لوگوں کے سامنے جلا اور بے جا جلا۔
سوختم از آتشِ دل درمیانِ موجِ اشک
شوربختی بیں کہ در آغوشِ دریا سوختم
میں سیلِ اشک کے درمیان ہی آتشِ دل کی وجہ سے جلا۔بدبختی دیکھ کہ میں آغوشِ دریا ہی میں جل گیا۔
شمع و گل ہر کدام از شعلہء در آتشند
در میانِ پاکبازاں من نہ تنہا سوختم
شمع و گُل سب کسی شعلہ کی وجہ سے آتشِ سوزاں میں ہیں۔
پاکبازوں کے درمیان صرف/تنہا میں نہیں جلا۔
جانِ پاکِ من رہیؔ خورشیدِ عالمتاب بودرفتم و از ماتمِ خود عالمے را سوختم
میری جانِ پاک آفتابِ جہاں تاب تھی رہیؔ! میں چلاگیا اور اپنے ماتم سے ایک دنیا کو جلاگیا۔
آخری تدوین: