طارق شاہ
محفلین
غزل
داؔغ دہلوی
دِل گیا اُس نے لِیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
ہم نے مرکر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچّھوں کا وہ ماتم کیا کریں
اپنے ہی غم سے نہیں مِلتی نِجات !
اِس بِنا پر، فِکرِ عالَم کیا کریں
ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی !
رفتہ رفتہ اِس سے بھی کم کیا کریں
کرچُکے سب اپنی اپنی حِکمتیں
دَم نِکلتا ہو، تو ہمدم کیا کریں
دِل نے سِیکھا شیوۂ بیگانگی
ایسے نامحرم کو، محرم کیا کریں
معرکہ ہے آج حُسن و عِشق کا !
دیکھیے وہ کیا کریں، ہم کیا کریں
آئینہ ہے اور وہ ہیں، دیکھیے !
فیصلہ دونوں یہ باہم کیا کریں
آدمی ہونا بہت دُشوار ہے
پِھر فرِشتے حرصِ آدم کیا کریں
تُندخُو ہے کب سُنے وہ دِل کی بات !
اور بھی، برہم کو برہم کیا کریں
کہتے ہیں اہلِ سفارش تجھ سے، داؔغ !
تیری قسمت ہے بُری، ہم کیا کریں
داؔغ دہلوی
داؔغ دہلوی
دِل گیا اُس نے لِیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
ہم نے مرکر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچّھوں کا وہ ماتم کیا کریں
اپنے ہی غم سے نہیں مِلتی نِجات !
اِس بِنا پر، فِکرِ عالَم کیا کریں
ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی !
رفتہ رفتہ اِس سے بھی کم کیا کریں
کرچُکے سب اپنی اپنی حِکمتیں
دَم نِکلتا ہو، تو ہمدم کیا کریں
دِل نے سِیکھا شیوۂ بیگانگی
ایسے نامحرم کو، محرم کیا کریں
معرکہ ہے آج حُسن و عِشق کا !
دیکھیے وہ کیا کریں، ہم کیا کریں
آئینہ ہے اور وہ ہیں، دیکھیے !
فیصلہ دونوں یہ باہم کیا کریں
آدمی ہونا بہت دُشوار ہے
پِھر فرِشتے حرصِ آدم کیا کریں
تُندخُو ہے کب سُنے وہ دِل کی بات !
اور بھی، برہم کو برہم کیا کریں
کہتے ہیں اہلِ سفارش تجھ سے، داؔغ !
تیری قسمت ہے بُری، ہم کیا کریں
داؔغ دہلوی