فاتح
لائبریرین
کالج کے دور میں ہمارے اردو کے استاد نے ایک شعر سنایا تھا لیکن تب اس کے خالق کا علم نہیں تھا۔۔۔ کل میرؔ کی کلیات کی ورق گردانی کے دوران یہ شعر نظر سے گزرا تو علم ہوا کہ یہ میرؔ کا شعر ہےا ور ہم نے اسے محفل میں شیئر کرنے کا سوچا۔۔۔ آپ کی خدمت میں میرؔ کی یہ خوبصورت غزل
داغ فراق سے کیا پوچھو ہو آگ لگائی سینے میں
چھاتی سے وہ مہ نہ لگا ٹک آ کر اس بھی مہینے میں
چاک ہُوا دل، ٹکڑے جگر ہے، لوہو روئے آنکھوں سے
عشق نے کیا کیا ظلم دکھائے دس دن کے اس جینے میں
گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے
رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں
اس صورت کا ناز نہ تھا کچھ، دب چلتا تھا ہم سے بھی
جب تک دیکھا ان نے نہ تھا منہ خوب اپنا آئینے میں
لوگوں میں اسلام کے ہونا شہرت اس رسوائی کی
شیخ کو پھیرا گدھے چڑھا کر مکّے اور مدینے میں
دل نہ ٹٹولیں کاشکے اس کا سردیِ مہر تو ظاہر ہے
پاویں اس کو گرم مبادا یار ہمارے کینے میں
میرؔ نے کیا کیا ضبط کیا ہے شوق میں اشکِ خونیں کو
کہیے جو تقصیر ہوئی ہو اپنا لوہو پینے میں
(میر تقی میرؔ)
چاک ہُوا دل، ٹکڑے جگر ہے، لوہو روئے آنکھوں سے
عشق نے کیا کیا ظلم دکھائے دس دن کے اس جینے میں
گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے
رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں
اس صورت کا ناز نہ تھا کچھ، دب چلتا تھا ہم سے بھی
جب تک دیکھا ان نے نہ تھا منہ خوب اپنا آئینے میں
لوگوں میں اسلام کے ہونا شہرت اس رسوائی کی
شیخ کو پھیرا گدھے چڑھا کر مکّے اور مدینے میں
دل نہ ٹٹولیں کاشکے اس کا سردیِ مہر تو ظاہر ہے
پاویں اس کو گرم مبادا یار ہمارے کینے میں
میرؔ نے کیا کیا ضبط کیا ہے شوق میں اشکِ خونیں کو
کہیے جو تقصیر ہوئی ہو اپنا لوہو پینے میں
(میر تقی میرؔ)