ارشد رشید
محفلین
غزل
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا اثر دیکھ رہے ہیں
کاندھوں پہ نہیں زانو پہ سر دیکھ رہے ہیں
مد ہم سے ہوے اس کے خط و خال خود اس میں
یا ہم اسے با دیدہِ تر دیکھ رہے ہیں
دُزدیدہ نگاہی سے سہی پر سرِ محفل
ہم دیکھ رہے ہیں وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
منزل کا پتہ بھی ہے تو رستہ بھی ہے معلوم
پھر لوگ خدا جانے کدھر دیکھ رہے ہیں
وہ حال ہے امید کی امید نہیں ہے
ہم شامِ غریباں کا سفر دیکھ رہے ہیں
گر چہ ہے یقیں پھر بھی عجب حال ہے دل کا
موسیٰ ہیں کہ افعالِ خضر دیکھ رہے ہیں
کچھ ایسے مناظر بھی نظر میں ہیں جو ارشد
دیکھے نہیں جاتے ہیں مگر دیکھ رہے ہیں
==ارشد رشید
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا اثر دیکھ رہے ہیں
کاندھوں پہ نہیں زانو پہ سر دیکھ رہے ہیں
مد ہم سے ہوے اس کے خط و خال خود اس میں
یا ہم اسے با دیدہِ تر دیکھ رہے ہیں
دُزدیدہ نگاہی سے سہی پر سرِ محفل
ہم دیکھ رہے ہیں وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
منزل کا پتہ بھی ہے تو رستہ بھی ہے معلوم
پھر لوگ خدا جانے کدھر دیکھ رہے ہیں
وہ حال ہے امید کی امید نہیں ہے
ہم شامِ غریباں کا سفر دیکھ رہے ہیں
گر چہ ہے یقیں پھر بھی عجب حال ہے دل کا
موسیٰ ہیں کہ افعالِ خضر دیکھ رہے ہیں
کچھ ایسے مناظر بھی نظر میں ہیں جو ارشد
دیکھے نہیں جاتے ہیں مگر دیکھ رہے ہیں
==ارشد رشید