کاشفی
محفلین
غزل
(شاگرد خصوصی بلبل ہند فصیح الملک حضرت داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ جناب حضرت احسن مارہروی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
مرحوم کی آخری غزل جو انہوں نے جولائی 1940ء میں لکھی تھی
دامنوں کو باندھ لیتے کیوں گریبانوں کے پاس
عقل اگر ہوتی گرہ کی تیرے دیوانوں کے پاس
بے تکلف برہمن آئیں مسلمانوں کے پاس
مسجدیں تعمیر ہوتی ہیں صنم خانوں کے پاس
وصل میں بھی سوزِ فرقت کا اثر جاتا نہیں
شمع رو رو کر جلاکرتی ہے پروانوں کے پاس
دب سکی پستی بلندی کی زبردستی سے کب
جھونپڑے اکثر نظر آتے ہیں ایوانوں کے پاس
خاک مرقد نے شہیدوں کی بکھیرا ہے جنہیں
ہیں وہیں درے دُر غلطاں بیابانوں کے پاس
اُٹھ گئے دنیا سے بیچارے یہی حسرت لئے
تم کبھی آکر نہ بیٹھے اپنے مہمانوں کے پاس
تیرے دیوانوں کا آبادی میں جی لگتا نہیں
بستیاں اُن کی بسا کرتی ہیں ویرانوں کے پاس
محفلِ پیرمغاں جمتے ہی دیکھا یہ جماؤ!
خم کے پہلو میں سبو ہیں، شیشے پیمانوں کے پاس
آج کل احسن دروغ و رشک و غیبت کے سوا
رہ گئی ہیں اور کیاباتیں سخندانوں کے پاس