کاشفی
محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
دامنِ رحمت اگر آیا ہمارے ہاتھ میں
پھول ہوجائیں گے دوزخ کے شرارے ہاتھ میں
گل ترے پھلوں کے ہیں اے گل جو سارے ہاتھ میں
باغ الفت کا ہے گلدستہ ہمارے ہاتھ میں
پوچھتے ہو کس سے جو چاہو کرو مختار ہو
دل تمہارے ہاتھ میں ہے یا ہمارے ہاتھ میں
اے پری افشاں چھڑکنے کا جو تجھ کو شوق ہو
زہرہ دوڑے آسماں سے لے کے تارے ہاتھ میں
لطف اُٹھے سیرِ ساحل کا شبِ مہتاب میں
ہاتھ اُس کا ہو جو دریا کے کنارے ہاتھ میں
ہم وہ مجرم ہیں کہ دوزخ ہم کو خس خانہ ہوا
حوریں دوڑیں لے کے جنت سے ہزارے ہاتھ میں
ہم بہت لاغر ہیں پہناؤ نہ ہم کو ہتھکڑی
ڈال دو چھلّا کوئی اپنا ہمارے ہاتھ میں
اُنگلیاں شوخی سے چمکاتا نہیں وہ رقص میں
یہ سمندِ ناز بھرتا ہے ترارے ہاتھ میں
جام کیسا جام ، چلو کو بنا سکتے نہیں
ہے تہی دستی سے رعشہ بھی ہمارے ہاتھ میں
ناز سے کہتے ہیں رکھ کر اپنی آنکھوں پر وہ ہاتھ
دیکھ یوں نخچیر ہوتے ہیں چکارے ہاتھ میں
آتشِ رنگِ حنا بھی ہے عجب معجز نما
ہے ضیا مثلِ کفِ موسیٰ تمہارے ہاتھ میں
کیا نزاکت ہے جوتوڑا شاخ گل سے کوئی پھول
آتشِ گل سے پڑے چھالے تمہارے ہاتھ میں
حلقہء گیسو ئے جاناں وہ بلا ہے اے امیر
چھپ رہی ہیں مچھلیاں دہشت کے مارے ہاتھ میں
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
دامنِ رحمت اگر آیا ہمارے ہاتھ میں
پھول ہوجائیں گے دوزخ کے شرارے ہاتھ میں
گل ترے پھلوں کے ہیں اے گل جو سارے ہاتھ میں
باغ الفت کا ہے گلدستہ ہمارے ہاتھ میں
پوچھتے ہو کس سے جو چاہو کرو مختار ہو
دل تمہارے ہاتھ میں ہے یا ہمارے ہاتھ میں
اے پری افشاں چھڑکنے کا جو تجھ کو شوق ہو
زہرہ دوڑے آسماں سے لے کے تارے ہاتھ میں
لطف اُٹھے سیرِ ساحل کا شبِ مہتاب میں
ہاتھ اُس کا ہو جو دریا کے کنارے ہاتھ میں
ہم وہ مجرم ہیں کہ دوزخ ہم کو خس خانہ ہوا
حوریں دوڑیں لے کے جنت سے ہزارے ہاتھ میں
ہم بہت لاغر ہیں پہناؤ نہ ہم کو ہتھکڑی
ڈال دو چھلّا کوئی اپنا ہمارے ہاتھ میں
اُنگلیاں شوخی سے چمکاتا نہیں وہ رقص میں
یہ سمندِ ناز بھرتا ہے ترارے ہاتھ میں
جام کیسا جام ، چلو کو بنا سکتے نہیں
ہے تہی دستی سے رعشہ بھی ہمارے ہاتھ میں
ناز سے کہتے ہیں رکھ کر اپنی آنکھوں پر وہ ہاتھ
دیکھ یوں نخچیر ہوتے ہیں چکارے ہاتھ میں
آتشِ رنگِ حنا بھی ہے عجب معجز نما
ہے ضیا مثلِ کفِ موسیٰ تمہارے ہاتھ میں
کیا نزاکت ہے جوتوڑا شاخ گل سے کوئی پھول
آتشِ گل سے پڑے چھالے تمہارے ہاتھ میں
حلقہء گیسو ئے جاناں وہ بلا ہے اے امیر
چھپ رہی ہیں مچھلیاں دہشت کے مارے ہاتھ میں