دانش کی روشنی، علم کا سمندر

بزم خیال

محفلین
حکمت و دانائی ایک ایسی روشنی ہے جس کا پھیلاؤ وسیع ہے اور رکاوٹ ہونے سے وہیں جمع نہیں ہوتی بلکہ منعکس ہو کر راستہ بدل لیتی ہے جبکہ علم سیکھنا پڑھنے لکھنے سننے سے جڑا ہے جو پانی کے بہاؤ کی مانند ایک محدود راستہ میں سفر پر گامزن رہتا ہے جہاں رکاوٹ ہو تو اپنی طاقت کو وہیں پر جمع کر کے زور میں اسی مقام کو تختہ مشق بناتا ہے۔
آج کا موضوع بہت خاص ہے کیونکہ یہ کتابوں سے حاصل مواد پر مبنی نہیں بلکہ حقیقت شناسی کے علم لا محدود سے اخذ خزینہ نور ایمان میں یقین پختہ پر انحصار کا نتیجہ ہے۔ سیاہی میں ڈھل کر کاغذ پر ڈھلنے والے الفاظ پانی کی فطرت میں بہتے ہیں جو لہروں کی مانند زورو شور سے ریت کے زروں پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ پانی اپنی منزل کی سمت کاتعین رکھتے ہیں اور اپنی حدود بھی پہچانتے ہیں۔ اونچائی سے کنارہ کرتے ڈھلوانوں میں راستہ بناتے ، تباہی مچاتے آگے بڑھتے ،بخارات کی صورت زمین میں جزب ہوتے ہوئے کہیں ختم ہو جاتے ہیں۔
روشنی اپنی راہ میں آنے والوں پر زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ منعکس ہو کر اپنا راستہ بدل لیتی ہے اور اپنے سفر کو آگے بڑھانے کے عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں آنے دیتی۔بند کواڑ کے پیچھے دروازوں کھڑکیوں کے معمولی سوراخوں سے اندر جھانک لیتی ہے لیکن طاقت کے استعمال سے اجتناب برتتی ہے دروازہ کھلنے پر اودھم نہیں مچاتی بلکہ اتنی ہی روشنی پھیلاتی ہے جتنی اردگرد کھلی جگہوں کو دیتی ہے۔
علم سمندر ہے جو لفظوں کی سیاہی میں لکھا جاتا ہے پڑھنے والے کے اندر بھی پانی کی مانند سیاہی بن اترتا ہے۔کبھی ہیجان پیدا کرتا ہے کبھی اضطراب کبھی سراسیمگی تو کبھی اکتاہٹ۔ لہروں کی مانند پانی کی فطرت سے استفادہ کرتا ہے۔ الفاظ کا زخیرہ بڑھ جائے تو تکبر کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ بند کواڑوں پر زور زور سے دستک دے کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ دروازہ کھلنے پر باہر جمع طوفان کو اندر دھکیل دیتا ہے چاہے اندر والوں کا سانس ہی کیوں نہ رک جائے۔ الفاظ کا چناؤ ابتدائیہ میں بلند لہروں کی مانند دھکیلتا ریت کے زروں تک اختتام پزیر ہو جاتا ہے۔
حکمت و دانائی حسنِ فطرت ہے جو روشنی کی محتاج ہے۔ ایسی روشنی جو اپنی طاقت کو یکجا نہیں کرتی ۔ آگے بڑھتے راستہ کٹنے پر پانی کی طرح زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ خاموشی سے ادھر ادھر سمٹ جاتی ہے جتنا کھلا راستہ ملتا جاتا ہے اتنا ہی آگے بڑھ جاتی ہے۔ اپنی حدود کو پھیلاتی آگے بڑھنے کے عمل میں ہر رکاوٹ سے نبردآزما نہیں ہوتی بلکہ برابر بانٹنے کے عمل سے راستے ہموار کرتی ہے اور روشنی پھیلاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس قدر طاقتور ہے کہ ایک محدب عدسے میں سے اسی روشنی کو گزارا جائے تو آگ لگا کر جلا دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
دنیاوی علوم پانی سے بنی سیاہی کی تاثیر سے بھرپور علمیت کی معراج رکھتے ہیں۔ جہاں جس نے جتنا چاہا اتنا اپنے کلر میں رنگ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیں اپنے اندر طرز تحریر کے بہاؤ میں جگہ جگہ رکاوٹیں عبور کرتی نظر آتی ہیں۔ کتابوں کا حجم اتنا ہوتا ہے کہ بوجھ بن جاتا ہے۔ چونکہ لکھنے والے بھی لفظوں کا زخیرہ حروف تہجی کی پہچان کے ساتھ اپنے وجود میں سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے تحاریر اپنے مالک کی ملکیت کا پردہ چاک کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
جبکہ حکمت و دانائی کا علم سیاہی سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ روشنی کی مانند اترتی ہے نور کی مانند پھیلتی ہے۔ یہ علم نہیں جو وسیلہ کا محتاج ہو ، یہ قلم نہیں جو سیاہی کا محتاج ہو، یہ کاغذ نہیں جو حروف تہجی سے آراستہ ہو۔یہ ایسی روشنی ہے جو چاند پر پڑتی ہے تو اسے چاندنی بنا دیتی ہے۔زمین پر پڑتی ہے تو اسے سرسبز بنا دیتی ہے اور خوشبو سے مہکا دیتی ہے۔ یہ پانی کی طرح راستہ بناتی نہیں روشنی کی مانند راستہ دکھاتی ہے۔ جہاں ہونے کا احساس نہیں ہوتا ، نہ ہونے کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ جہاں علم سے بہرہ مند ہونے کی بجائے بےعلم ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بہت کچھ جاننے کے علم تکبر کی بجائے کچھ نہ جاننے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
انسان سینکڑوں ہزاروں کتابیں پڑھ کر اپنی ذات کو پہچاننے کے عمل سے علمی استعداد بڑھاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، وہ کھونے کے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ جاننا یہ نہیں کہ میرے اندر کیا ہے، کتنا علم ہے، کتنی طاقت ہے، کتنا حسن ہے بلکہ یہ ماننا ہے کہ یادداشت کے بھروسے پر لفظوں کی پہچان نے کتنا سفر طے کروایا جو لحد پر پہنچا تو ختم ہو گیا۔
جب تک علمی برتری کا بھوت سر پر سوار رہتا ہے، حکمت و دانائی کی رنگین خوبصورت تتلیاں قریب نہیں آتیں۔ مَیں کی پوشاک پہنی رہے تو روشنی کی کرنیں انتظار میں ٹھہر جاتی ہیں۔ ذات کے اندر مَیں کی تلاش میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ جو علم کی سیاہی سے الفاظ کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔
کتابوں میں فاصلے ماپ کر لکھے جاتے ہیں درحقیقت انہیں پہلے پاؤں سے تراشا گیا ہوتا ہے پھر نقطوں کو ملا کر ایک نقشہ ترتیب پاتا ہے۔جنہیں یہاں تک پہنچ کر ہونے یا نہ ہونے کے فرق کو تلاش کرنے میں کچھ دقت ہے تو انہیں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور ایک مثال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دماغ بھی کمپیوٹر اور مختلف اپلیکیشن کی طرح ہی ایک مشین کی مانند کام کرتا ہے۔ جتنا اسے دیا گیا وہ سب فولڈر بن کر اپنی اپنی جگہ پر محفوظ ہے۔
گلاب کے سرخ پھول کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں
اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا تصور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
اپنے پسندیدہ فلمی ہیرو کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں
کسی اداکار کو ذہن میں لائیں جو ولن کا کردار نبھاتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
کسی ایک سیاستدان کا خاکہ ذہن میں لائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
یہ رہا انسانی دماغ کا حساب و شمار Algorithm
جب پھول کو سوچا تو کئی طرح کے پھول ذہن میں ابھر کر آئے ہوں گے۔
کھلاڑی کا تصور کرتے ہی دماغ نے بے شمار کھلاڑیوں کا خاکہ سا بنا دیا ہو گا۔
اسی طرح ہیرو کے ساتھ کئی دوسرے ہیروز اور ولن کے تصور کے ساتھ کئی اور ولن بھی دماغ نے روشن کر دئیے اور آخر میں سیاستدانوں کا ڈھیر دماغ میں گھوم گیا ہو گا۔دماغ نے کہیں بھی دو متضاد کو اکٹھا نہیں کیا ہو گا۔ ہیرو کے ساتھ ولن اور پھول کے ساتھ کانٹے نہیں دکھائے ہوں گے۔انسانی برین نے کچھ نیا نہیں دکھایا جو اس میں محفوظ ہے اس نے اسی فولڈر کو کھول دیا۔
جو برین میں نہیں ہوتا اس پر وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لائیبریریاں کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن کے لکھنے میں قلم کاغذ کا استعمال کثیرہ ہوا ہے۔
اور ایک کتاب ہم سب کے گھروں میں ہے جو قلب پہ اتری ہے جو علمیت پر انحصار نہیں کرتی بلکہ روح پر نور کی صورت روشنی بن اتری اور جن پر نازل ہوئی وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ وہ مقدس کتاب قرآن مجید ہے جو پاک پروردگار کے خاص محبوب نبی محمد مصطفے ﷺ (جن پر ہماری جان و مال قربان )پر وحی کی صورت نازل ہوئی ۔ قرآن ہمارے لئے راہ ہدایت ہے ،مشعل راہ ہے،تکریم سبز گنبد کے محبت کے متوالوں کے لئے ایک انعام ہے۔

تحریر! محمودالحق
 
Top