دبستانِ خطابت

نابغہ عصر شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

دبستانِ خطابت
تحریر: حافظ شکیل احمد طاہر

چرخ کہنہ سال نے کیسے خطابت کے شہسوار دیکھے۔۔۔ بزم گیتی نے کیسے کیسے نطق و گویائی کی درِ تابدار دیکھے۔۔۔ ’’علمہ البیان‘‘ شرفِ تکلم و گویائی اور شرف خطابت سے بہرہ ور کیا۔۔۔ ’’اِنَّ شُعَیْبًا کَانَ خَطِیْبُ الْاَنْبِیَآء‘‘ نے خطابت شعیب کو آفاقی استعارہ بنادیا۔۔۔ ’’فصل الخطاب‘‘ نے خطابت کو فن عظیم بنادیا۔۔۔ ’’عیال اللہ‘‘ کی ہدایت فراہمی کے لئے طبقہ اولین، انبیاء و مرسلین کو نطق ہائے بہترین عطا کئے گئے۔۔۔ انہیں انداز ہائے خطابت نے کنز کے ہمالہ بلا دیئے اور خوف و رجا کے چشمے بہا دیئے۔۔۔ حضور خواجہ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کی شب تاریک کو صبح نور سے بدلنے کو تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افصح العرب والعجم، خطیب اولین و آخرین ہوئے۔ حضور ساقی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین چوم کے خطابت محترم ہوئی۔ فکر و اسلوب کے عجیب تغیرات رونما ہوئے۔۔۔ خطابت و گویائی کی خیرات دامان مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بٹ رہی ہے۔ مسلم خطبا نے تاریخ خطابت عالم میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ کہیں ملاحتِ صدیقی نے دلوں کو مسخر کردیا تو کہیں جلالتِ فاروقی سے دل کانپ کانپ جاتے۔۔۔ حکمتِ عثمانی گوہر فشاں ہے تو کہیں نطق علوی حقائق کی نقاب کشائی کرتی ہے۔۔۔ کہیں سیدی غوث الوریٰ کی لسان حامل فیضان دلوں کے زنگ دور کرتی ہے۔ الغرض اگر ہم آج کے دور کی طرف نگاہ دوڑائیں تو یہ چیز اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کیسے کیسے شعلہ نوا، دل فروز، سخن شناس، فکر پرور زبان دان ہستیاں آئیں لیکن کاشانہ فریدالدین میں آنکھ کھولنے والی عہد ساز ہستی نے خطابت کی نئی تاریخ مرتب کی۔۔۔ اک نیا عہد خطابت رقم فرمایا۔۔۔ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سینے کو گنجینہ علوم و معارف بنادیا۔۔۔ نطق و گویائی کا شہر یار بنا دیا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے فن خطابت کو ہمدوش ثریا کردیا۔۔۔ صغر سنی سے زبان گوہر بار نے موتی لٹانا شروع کردیئے۔ ایک ایسی آواز دلنواز جس نے دل موہ لئے۔ آج ان کا غلغلہ چہار سو میں سنا جا رہا ہے۔ جن سماعتوں سے یہ صدائے دلپذیر ٹکرائی وہ انکا ہوگیا۔۔۔ جو ان کے حلقہ خطابت میں آیا وہ ان کا مستقل سامع بن گیا۔ بے شک ڈاکٹر طاہرالقادری اِنَّ مِنَ الْبًیَانِ لَسحرًا کی عہد حاضر میں عملی تفسیر ہیں۔ نابغہ عصر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علم و ادب کے ہر گوشے کو گراں بہا جواہر سے بہرہ ور کیا۔ (Multi Dymentional) کثیر الاوصاف، کثیر الجہات شخصیت کے ہر گوشے کا احاطہ اک جدا گانہ توجہ کا طالب ہے۔ آپ نے خطابت کے شعبہ کو ہمہ جہت ہمہ رخ، ہمہ پہلو متاثر کیا۔ لازوال تغیرات کئے۔ گراں قیمت اضافات کئے۔ آپ کے ادبی محاسن، علمی محاسن، فکری محاسن، فنی محاسن، تاریخی خصائص الگ الگ موضوعات ہیں۔ آپ مُصلح اسالیب قدیم بھی اور موجد اسالیب بھی ہیں۔ تعصبات کو بالائے طاق رکھیں تو بلامبالغہ آپ ’’دبستان خطابت‘‘ ہیں۔

آپ کی ذات کے اندر خطابت کے حوالے سے درج ذیل تفردات نہایت اہمیت کے حامل ہیں:

خطیبانہ تفردّات
موضوعاتی تنوع
کمال نظم
ادیبانہ حسن
صوتی آہنگ
ابلاغ عام
عنصر تخلیقیت
تحقیقی اور تخریجی مزاج
عدم رکاکت و ابتذال
1۔ موضوعاتی تنوع

موضوعاتی تنوع آپ کے خطیبانہ اوصاف و محاسن میں ایک امتیازی اور تخصیصی پہلو ہے۔ آپ وہ خطہ خطابت ہیں جس میں ہر موسم، ہر رت کی آمد ہے۔۔۔ موضوعاتی تنوع مطلع خطابت پہ رنگِ قوس و قزح پیدا کرتا ہے۔۔۔ موضوعاتی تنوع نے وسیع حلقہ سامعین پیدا ہوا۔۔۔ موضوعاتی تنوع آپ کے وسیع المطالعہ، وسیع الذوق ہونے پہ دلالت کرتا ہے۔۔۔ موضوعاتی تنوع قدیم ا ور جدید کا حسین سنگم ہے۔۔۔ قرآنیات، تفسیریات، اصولیات، شرحیات حدیث، اعتقادیات، الہایات، اخلاقیات، فقیہات، روحانیات، تعلیمات، تاریخیات، فلکیات، قانونیات، عصریات آپ کے دائرہ خطابت میں ہے۔۔۔ موضوعاتی تنوع موضوعاتی وسعت کا اظہار ہے۔۔۔ جس گوشہ علم پہ لب کشا ہوئے اک بحر مواج نظر آئے۔۔۔ جس پہلوئے علم پہ لب کشا ہوئے اہل فکرو فن کو انگشت بدنداں کردیا۔۔۔ یوں لگتا ہے کہ ’’جا ایں جا‘‘۔۔۔ یہ موضوعاتی تنوع خطیبانہ تفرّد ہے۔ اک ایسا بحرِ خطابت کہ ہر متلاشی کی طلب پوری ہو۔۔۔ ایک فرد واحد کے لئے ان تمام موضوعات پہ یکساں مہارت کے ساتھ لب کھولنا از بس مشکل ہے۔ علوم و فنون پہ درک کمال کے بغیر ایک رسمی اور سطحی گفتگو تو کی جاسکتی ہے لیکن اس علم وفن کے ماہرین کو ورطہ حیرت میں گم نہیں کیا جاسکتا۔ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر رحمت کا اثر ہے کہ ایک عالم کو گوناگوں علوم و معارف سے بہرہ ور کیا۔ ہر گوشہ علم اک تابدار موتی ہے جس کی چمک و دمک دل کی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے اور بے ساختہ زبان پہ کلمہ داد و تحسین جاری ہوجاتا ہے۔

2۔ کمال نظم
تاریخ خطابت کا عمیق نظری سے مطالعہ کریں تو ربط و نظم کا فقدان ہے۔ خطباء و واعظین کے ہاں خال خال ہی ربط و نظم پایا جاتا ہے بعض اوقات تو جلد سانس پھول جاتا ہے اور ربط ٹوٹ جاتا ہے۔ نابغہ عصر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہاں نہ صرف نظم موجود ہے بلکہ کمال نظم موجود ہے۔۔۔ نہ صرف ربط ہے بلکہ کمال ربط ہے۔ گفتگو خواہ طویل، متوسط یا مختصر لیکن ربط و نظم عدیم النظیر ہے۔ یہ نظمِ تکلم، نظمِ شخصیت کا غماز ہے۔۔۔ نظمِ کمال، درکِ کمال کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔ یہ کمالِ ربط ونظم آپ کو خطابت کی تاریخ میں ممتاز کرتا ہے۔ نظم میں اک حسن تدریج پایا جاتا ہے کہ سامع خود کو زینہ بازینہ علم وفکر کے بام پہ چڑھتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ نظمِ کمال میں سہل سے دقیق کی جانب سفر ہے۔۔۔ ایک مبتدی، دقائق علم کو انگلیوں کے پوروں پہ یوں گنوا دیتا ہے کہ کوئی گوشہ نہ تشنہ لب رہتا ہے نہ عدم وضاحت کا شکار ہوتا ہے۔۔۔ نہ خلط مبحث ہوتا ہے نہ انتشار فکر کا شکار ہوتا ہے۔۔۔ ہر بات موتی کی لڑی کی طرح ہے۔ ہر چند کے جملہ ہائے معترضہ ملتے ہیں لیکن ایسے معترضہ کہ معترض بھی معترض نہ رہے بلکہ ان کو جملہ ہائے معترضہ کی جگہ جملہ ہائے معترفہ کہا جائے تو موزوں ہوگا بلکہ یہ جملہ ہائے معترضہ تسبیح میں امامِ دانہ کی طرح ہے۔ تدریجی نظم قرطاسِ ذہن پہ ان مٹ نقوش ثبت کرتا ہے۔

3۔ ادیبانہ حسن
’’دبستان خطابت طاہر‘‘ کے امتیازی اور تخصیصی پہلوؤں میں ایک لائق صد آفرین پہلو ادیبانہ حسن کا ہے۔ ادیبانہ پہلوؤں کا جائزہ دفتروں کے دفتروں کا طالب ہے۔ لفظوں کے انتخاب میں ادبیت اور علمیت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ لفظوں کی تراش خراش پر مرصع کاری کا گماں ہوتا ہے۔ فارسی، عربی تراکیب کا گراں بہا ذخیرہ موجود ہے۔ تراکیب میں موزونیت اور مطابقت کمال کا پہلو ہے۔ وسیع ذخیرہ لفظیات کا کیا کہنا کہ لگتا ہے کہ اس جہان خطابت کے حضور لفظ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ وضع تراکیب کا ملکہ کمال ہے۔ کارخانہ ذہن کی ادیبانہ خوبی تراکیب پہ ٹکسال کا گماں ہوتا ہے کہ مطابقِ واقعہ، تراکیب از خود منظر ذہن پہ آرہی ہیں۔ نوک زباں سے ادا ہورہی ہیں۔ زبان سے ادا ہونے والے جملے اپنے دامن میں اک نغمگی اور ترنم کو سموئے ہوئے ہیں۔ نشست الفاظ پہ انگوٹھی پہ نگوں کا گماں ہوتا ہے۔ استعارات اور تشبیات روشن ستاروں کی طرح ہیں۔ منظر نگاری میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اس عہد کے باسی ہوں۔ کفایت لفظی میں اختصار و ایجاز کا حسن ہے۔ رفعت تخیل کہکشاؤں کے ہمدوش محسوس ہوتی ہے۔ لفظی اور معنوی صنعتیں گل ہائے رنگا رنگ کی طرح ہیں۔ وضع اصطلاحات میں علمیت اور ادبیت ہم آہنگ ہیں۔

4۔ صوتی آہنگ
لہجات کا تنوع اور رنگا رنگی مسحور کن ہے۔ بدلتے ہوئے صوتی آہنگ ہمیں آپ کا گرویدہ کردیتے ہیں۔ علمی موضوعات میں اک صوتی وجاہت کا تاثر ہے۔ فکری موضوعات میں مدہر (دھیما) انداز تکلم ہے جو دھیرے دھیرے فکر کے دریچے وا کرتا ہے۔ اصلاحی موضوعات میں ہلکی بارش کا گماں ہوتا ہے جو زمینِ دل کو چیر رہی ہے۔ کہیں بادلوں کی گھن گھرج ہے۔۔۔ کہیں اشاروں کی روانی ہے۔۔۔ کہیں صحراؤں کی وسعت ہے۔۔۔ کہیں خزاں کی حسرت ہے۔۔۔ کہیں بانگِ سرافیل ہے۔۔۔ کہیں نغمہ جبرائیل ہے۔۔۔ کہیں ماں کی لوری ہے۔۔۔ کہیں جراح کا نشتر ہے۔۔۔ کہیں کونج کی بچھڑن ہے۔۔۔ کہیں آواز کا زیرو بم دلوں کے رباب کو ہلاتا ہے۔۔۔ کہیں لہجات کا تنوع دلوں کو لبھاتا ہے۔

5۔ ابلاغ عام
تاریخ خطابت کے اوراق شاہد ہیں کہ ہزاروں خطباء واعظین وہ ہوئے جن کا پیغام چند ذہنوں تک منتقل ہوسکا۔ عدم ابلاغ خطابت کا سقم ہے۔ ان کا رعبِ علمی ابلاغ عام کے راستہ میں حائل ہوا، ان کی دقیق گوئی آڑے آئی، ان کی پر پیچ گفتگو راہ نہ پاسکی۔ ہر چند نابغہ عصر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری علم وفکر کا ہمالہ ہیں۔ مطالعہ و تحقیق کا بحر مواج ہیں، مگر آپ کے فکر و پیغام سے عوام و خواص یکساں بہرہ مند ہورہے ہیں۔ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان طاہر کو وہ قدرت بخشی کہ موضوع خواہ کتنا ادق، پیچیدہ اور مشکل ہو لیکن اس کا ابلاغ تام فرماتے ہیں۔ پیرائیہ اظہار ایسا دلکش، دلنشیں ہے ہر دل پہ مرتسم ہوجاتا ہے۔ یہ کمال خطابت ہے کہ ان کا ابلاغ موثر ہورہا ہے۔ ہر سطح علم، ہر سطح فہم کے تقاضے پورے ہورہے ہیں۔ شاید اس کی اک وجہ یہ ہے کہ

بر دل خیزد بر دل ریزد

’’بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘

آپ کا وجود مبارک وہ بحر ناپیدا کنار ہے کہ جس کے کنارے بیٹھنے والا شخص حسب ظرف حصہ پاتا ہے۔

6۔ عنصر تخلیقیت
تخلیقی کام ہر اک کا حصہ نہیں، اکثریت تقلیدی روش پہ زندگیاں گزار دیتی ہے۔ ساقی کوثر والی بطحا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلند درجہ تخلیقی جواہر سے بہرہ مند فرمایا۔ ’’جس سمت آگئے سکے بٹھا دیئے‘‘۔ تخلیقی کام خارہ شاگانی سے کم نہیں ہے۔ آپ کی اختراعی طبع نئی راہوں کی متلاشی رہی۔ ہر علم و فن میں آپ نے بلند درجہ تخلیقی اضافات فرمائے۔ تخلیقی جواہر کا مظاہرہ اسلوبیاتی تخلیقیت اور موضوعاتی تخلیقیت دونوں صورتوں میں موجود ہے۔ اسلوب میں لگے ہوئے قفل کو آپ نے کھولا ہے۔ نئے نئے آہنگ، نئے نئے اسالیب متعارف کروائے۔ قدیم اور جدید کا خوبصورت امتزاج ہے۔ ’’الفضل اشہدت بہ الاعداء‘‘ ہر ایک کی زبان پہ کلمہ اعتراف سنا ہے۔ موضوعاتی تخلیقیت میں آپ نے نئے نئے موضوعات پہ اظہار خیال فرمایا جو ورطہ حیرت میں ڈالتا ہے۔ ایسے اچھوتے اور حیرت انگیز عنوانات کہ داد و تحسین دیئے بغیر کوئی گذر نہیں سکتا۔ کمالِ تخلیقیتِ موضوعاتی یہ ہے کہ تکرار آپ کے ذخیرہ خطابت میں ملتا ہی نہیں۔ اگر ملتا ہے تو شاذ کالمعدوم ہے۔ جب لب کھلے نئے گوشوں کو وا کرگئے۔۔۔ جب زبان گوہر فشاں کھلی تو نئے معانی و مطالب کے موتی صفحہ دل پہ بکھر گئے۔ تکرارِ محض جو ہماری روایت خطابت کا سقہ ہے اس کا گذر بھی آپ کے پاس سے نہ ہوا۔ اس قدر تخلیقی جواہر کا حامل ’’باز آید کے نا آید‘‘ کا مصداق ہے۔ آپ نے جمودِ فکری کو توڑا ہے یہی وجہ کہ شائقین کشاں کشاں حاضر مجلس ہورہے ہیں، زبان گوہر بار کھلتی ہے تو موتیوں کی پھوار برسنے لگتی ہے۔

7۔ تحقیقی اور تخریجی مزاج
بولنا اگر جوئے شیر لانا ہے تو محقق بولنا (معیار تحقیق) مخرّج بولنا ستارے توڑ لانا ہے۔ ’’دبستان خطابت طاہر‘‘ کا ایک بلند ترین گوشہ تخریجی اور تحقیقی مزاج ہے۔ کوئی ایسی بات نوک زباں پہ آتی ہی نہیں جومعیاری تحقیق پہ پوری نہ ہو۔۔۔ اور کچھ کہا نہیں جس کے حوالہ جات ارشاد نہ فرمائے ہوں۔ آپ کے ہر طرز و اسلوب خطابت میں تحقیقی اور تخریجی مزاج نمایاں ہے۔ دلائل و شواہد کو تخریج اور تحقیق قوی تر کردیتی ہے۔ آپ کے ہاں محض تحقیق نہیں بلند معیار تحقیق ہے۔۔۔ محض تقلید نہیں بلکہ تحقیق میں نئے حوالہ جات، نئے گوشے منظر عام پہ آتے ہیں۔۔۔ محض تخریج نہیں بلکہ تخریجِ تام ہے۔

8۔ عدم رکاکت و ابتذال
آپ کی زبانِ قلم ہو یا زبانِ خطابت، 25 سالہ عہد خطابت میں ایک لفظ کبھی رکیک، غیر شائستہ، متبذل نہیں مل سکے گا۔ میں نے لفظ لفظ سنا ہے علی وجہ البصیرت کہتا ہوں، علی وجہ البصیرت، علی روش الاشہاد کہتا ہوں، کمال درجے کی شائستگی اور شستگی ہے۔ بڑے بڑے شہسوار جب گرتے ہیں تو رکاکت و ابتذال کا ان کو احساس تک نہیں ہوتا۔ فرو تر از ادب گفتگو کو وہ روا روی قرار دیتے ہیں۔ کوثر وتسنیم میں دھلے ہوئے لفظ ہیں۔۔۔ ہاں اگر ردو ابطال بھی کیا تو خوب شائستگی کے ساتھ اور یہ آپ کا خاصۂ خطابت ہے۔ ابتذال اور رکاکت کا گزر بھی آپ کے پاس سے نہ ہوا۔

بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ
 
Top