فیض دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہےکہ زرخانۂ جم ہے
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
 
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
کیاہی کہنے جناب!
بہت ہی خوب انتخاب
شاد و آباد رہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فیض کی خوبصورت ترین غزل
یہ غزل شاید "غبارِ ایام" میں شامل ہے اور فیض نے اپنے آخری ٹی وی مشاعرے میں بھی پڑھی تھی۔
 
Top