دربان چرخا تاکتا

دربان چرخا تاکتا
معراج
بہت دن گزرے ملک فارس کے جنگل میں ایک بہت اونچا مینار بنا ہوا تھا۔ اس کی چوٹی پر ایک کمرہ تھا۔ اس میں ایک چھوٹا سا دریچہ تھا۔ مینار کے اندر جانے کے لیے ایک بہت بڑا سا دروازہ تھا۔ اس مینار میں بدفطرت جادوگرنی گوگل رہتی تھی۔ یہ جادوگرنی بھولے بھالے معصوم بچوں کو ورغلا کر اپنے ساتھ لے جاتی تھی اور اس مینار میں قید کر دیتی تھی۔ جب تک جادوگرنی ان بچوں کے والدین سے بھاری رقم وصول نہ کر لیتی، وہ انہیں رہا نہ کرتی۔
ایک دن شہزادی رضیہ محل کے باغیچے میں کھیل رہی تھی۔ جادوگرنی گوگل اسے بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے گئی اور اسے مینار میں قید کر دیا۔ گوگل نے شہزادی کے والد یعنی کہ ملک فارس کے سلطان سے مطالبہ کیا کہ اگر شہزادی کی رہائی چاہتا ہے تو دو سو تھیلیاں اشرفیوں سے بھر کر میرے حوالے کر دو۔
ان دنوں ملک کے حالات بہت خراب تھے۔ خزانہ خالی تھا اور سلطان جادوگرنی گوگل کو دو سو اشرفیاں بھی نہیں دے سکتا تھا۔ سلطان نے اپنے وزیروں سے مشورہ مانگا۔ ایک عقلمند وزیر نے کہا، "حضور! لوہا ہی لوہے کو کاٹ سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ جادوگرنی کا جواب جادوگر ہی ہو سکتا ہے۔"
بادشاہ نے سب سے بڑے جادوگر ارمانوس کو طلب کیا اور اس سے درخواست کی کہ کسی طرح شہزادی رضیہ کو جادوگرنی کے چنگل سے رہائی دلائے۔
جادوگر نے ایک انگیٹھی میں دہکتے ہوئے کوئلوں پر کوئی سفوف چھڑکا اور اسے مور کے پنکھ سے ہوا دینے لگا۔ کچھ دیر بعد انگیٹھی سے دھویں کا ایک مرغولا سا اٹھا اور اس میں آواز سنائی دی:
"ترتیب کو پہلے بدل، زیادہ جو ہے اس کو گرا
پھر یہ پہیلی بوجھ لے، دربان چرخا تاکتا"
جادوگر نے اپنا سامان سمیٹ کر تھیلے میں رکھا اور بولا، "عالی جاہ! جو شخص اس پہیلی کو بوجھ لے گا وہی شہزادی صاحبہ کو گوگل کی قید سے رہائی دلا سکتا ہے۔"
جادوگر تو اپنا انعام لے کر رخصت ہوا۔ بادشاہ اور اس کے درباری اس عجیب پہیلی کو بوجھنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ بہت دیر کوشش کرنے کے بعد بھی جب کوئی حل نہ نکلا تو بادشاہ نے کہا، "ہمارے ملک میں ہر شہر اور ہر گاؤں میں گلی گلی یہ منادی کروا دی جائے کہ جو شخص اس پہیلی کو بوجھ لے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔"
بادشاہ کے حکم کے مطابق ملک بھر میں منادی کروا دی گئی۔ ملک کے سب لوگوں نے اس پہیلی کا مطلب نکالنے کی کوشش کی، لیکن اس مقصد میں کوئی کامیاب نہ ہو سکا۔
ایک بازیگر گھومتا پھرتا ادھر آ نکلا۔ اس کے ساتھ تین جانور تھے۔ ایک بھورے رنگ کا بندر تھا، جو ٹھمک ٹھمک کر ناچ دکھاتا تھا۔ ایک خچر تھا جو رسّی الانگ سکتا تھا۔ کبھی وہ چاروں پاؤں اٹھا کر چھلانگ لگاتا، کبھی پچھلی دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا اور ناچ دکھانے لگتا۔ اس کا کتا بھی بہت سے کرتب دکھا سکتا تھا، لیکن پتا نہیں کیوں لوگوں نے اس کے کھیل تماشے میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ وہ دن بھر گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہا، لیکن کسی نے اسے ایک پیسا تک نہیں دیا۔ شام ہونے کو آئی، بازیگر بہت فکرمند ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر خالی ہاتھ واپس گھر گیا تو آج فاقہ ہی کرنا پڑے گا۔ گھر پر میری بڑھیا ماں انتظار کر رہی ہے، میں اسے کیا کھلاؤں گا؟
وہ ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک بڑھیا کو اس کا حال دیکھ کر ترس آیا۔ اس نے آواز دے کر بازیگر کو اپنے پاس بلایا اور اسے کچھ روٹیاں دیں۔ بازیگر نے جھک کر بڑھیا کو سلام کیا۔ بڑھیا نے غور سے بازیگر کے چہرے مہرے کو دیکھا اور بولی، "میرا قیانہ کہتا ہے کہ تم کسی اعلی خاندان کے چشم و چراغ ہو۔"
بازیگر ہنس کر بولا، "اماں جی! پرانی باتیں دہرانے سے کیا فائدہ! جب اچھے دن گزر گئے تو برے دن بھی گزر جائیں گے۔"
بڑھیا بازیگر کی باتوں سے متاثر ہوئی۔ اس نے کہا، "ہمارے ملک کی شہزادی جادوگرنی گوگل کی قید میں ہے۔ اسے رہائی دلانے والے کو بادشاہ نے منہ مانگا انعام دینے کا وعدہ کیا ہے۔"
بازیگر بولا، "کاش میں شہزادی کو رہائی دلا سکوں۔"
بڑھیا بولی، "بیٹا، شہزادی کو رہائی دلانا بہت مشکل کام ہے۔ وہ ایک بہت اونچے مینار میں قید ہے۔ اسے رہائی دلانے والا شخص وہ ہوگا جو اس پہیلی کو بوجھ لے گا!"
"ترتیب کو پہلے بدل، زیادہ جو ہے اس کو گرا
پھر یہ پہیلی بوجھ لے، دربان چرخا تاکتا"
بازیگر بہت دلچسپی سے بڑھیا کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں پہیلی کو کئی بار دہرایا اور اس کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ تب وہ بولا، "اماں جی! اس پہیلی کا تو کچھ بھی مطلب نہیں ہے۔"
بڑھیا بولی، "بیٹا! ہر پہیلی ایسی ہی الجھی ہوئی اور بےمعنی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا مطلب تو نکالنا پڑتا ہے۔"
بازیگر بہت دیر تک دماغ لڑاتا رہا، لیکن وہ پہیلی کا مطلب نہ نکال سکا۔ اس نے باسی روٹی کھائی اور اوپر سے ٹھنڈا پانی پی کر الله کا شکر ادا کیا اور بولا، "دنیا میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں باسی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ اماں جی! آپ کی مہربانی کا شکریہ۔ اگر آپ میرے حال پر ترس کھا کر یہ روٹیاں نہیں دیتیں تو آج مجھے فاقہ کرنا پڑتا۔"
اس رات بازیگر کو بہت دیر تک نیند نہیں آئی۔ اس کا ذہن ابھی تک پہیلی میں الجھا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑانے لگا، "آخر اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ ترتیب کو پہلے بدل؟ آہا شاید لفظوں کی ترتیب بدلنے کو کہا ہے۔"
اور اچانک اس کے ذہن میں پہیلی کا حل آگیا۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بندر کے پاس پہنچا۔ اس نے جوش میں تھرائی ہوئی آواز میں کہا، "دیکھو بھئی! تم تو دربان ہو۔ اس کے حروف کی ترتیب بدل دیں تو بنا باندر۔ پھر زیادہ حروف ہٹا دیں تو بندر بن گیا۔ سمجھے تم؟"
بندر اپنے بدنما دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ وہ دل میں سوچتا ہوگا کہ آج تو مالک کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بازیگر خچر سے بولا، "اور بھئی تم ہو چرخا۔ اس کی ترتیب بدلیں تو بنا خچر۔ زیادہ حرف الف ہتا دیں تو خچر بن گیا۔"
خچر ہنہنایا جیسے کہ وہ اپنے مالک کی باتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھتا ہے۔
اس کے بعد وہ کتے سے بولا، "تم ہو تاکتا۔ اس کی ترتیب بدلیں تو بنا کتاتا۔ اب زیادہ حرف ہٹالیں تو کتا بن گیا۔"
بازیگر خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ شور کی وجہ سے اس کی ماں کی آنکھ کھل گئی۔ بازیگر خوشی سے سرشار آواز میں بولا، "امی جان! میں نے پہیلی کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ میں شہزادی کو آزاد کرانے کے لیے جا رہا ہوں۔"
وہ چھلانگ مار کر خچر کی پشت پر سوار ہو گیا۔ بندر اچھل کر اس کے کندھے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ بازیگر نے خچر کو ایڑھ لگائی اور اسے دوڑاتا ہوا قریبی گاؤں تک لے گیا۔ کتا وفاداری سے اس کے پیچھے دوڑتا رہا۔
بازیگر نے گاؤں والوں سے اس جنگل کا راستہ پوچھا جہاں وہ مینار تھا جس میں شہزادی قید تھی۔ بےشمار لوگ شہزادی کو رہائی دلانے کے لیے مینار تک آتے جاتے رہتے تھے، اس لیے ایک اچھا خاصا راستہ بن گیا تھا۔ بازیگر اس راستے پر چلتا رہا۔ آخر وہ مینار تک پہنچ گیا۔ اس وقت سورج چھپ چکا تھا اور رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔
بازیگر نے کتے سے کہا، "تم یہاں دروازے کے پاس کھڑے ہو جاؤ اور کسی کو مینار کے اندر نہ جانے دینا۔"
پھر اس نے پتلی اور مضبوط رسّی بندر کی کمر پر باندھی اور کہا، "میاں دربان! تم فورا مینار پر چڑھ جاؤ اور رسّی کو دریچے سے باندھ کر لٹکا دو۔"
بندر اپنے بدنما دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ پھر وہ چھلانگ مار کر خچر کی پیٹھ پر چڑھا اور بجلی کی تیزی سے چھلانگیں مارتا ہوا مینار پر چڑھ گیا۔
اچانک کتے کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس نے کسی کی آہٹ محسوس کی تھی۔ یہ جادوگرنی گوگل تھی جو شہزادی کو کھانا دینے کے لیے آ رہی تھی۔ کتا زور زور سے بھونکنے لگا۔ بازیگر اپنے خچر کے ساتھ جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا۔
جادوگرنی نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کتے کو بھگا دے، لیکن کتا اس کا راستہ رو کے ہوئے کھڑا رہا۔ پھر وہ جادوگرنی کے پیچھے لپکا اور اسے بہت دور بھگا دیا۔ ادھر تو یہ کچھ ہو رہا تھا، ادھر چالاک بندر نے جلدی سے رسّی کا ایک سرا لوہے کی سلاخ سے باندھ دیا اور اسے مینار سے نیچے لٹکا دیا۔
شہزادی نے کتے کے بھونکنے کی آواز سنی تو وہ بہت حیران ہوئی۔ اس نے مینار کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہ آ سکا۔ بازیگر رسّی کو پکڑ کر اوپر چڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ مینار کی کھڑکی تک جا پہنچا۔
شہزادی رضیہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے بازیگر سے پوچھا، "کیا تم مجھے رہائی دلانے کے لیے آئے ہو؟"
بازیگر بولا، "جی شہزادی صاحبہ! کیا آپ اس تنگ کھڑکی کی راہ سے باہر آسکتی ہیں؟ اگر آپ باہر آجائیں تو میں آپ کو اپنی کمر پر بٹھا لوں گا اور رسّی کے زریے سے نیچے اتر جاؤں گا۔"
شہزادی بولی، "میں کوشش کر کے دیکھتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں اس کھڑکی سے باہر نکل سکتی ہوں۔"
شہزادی رضیہ بہت دھان پان سی تھی قید میں رہ کر وہ اور بھی دبلی ہو گئی تھی۔ بازیگر نے اسے اپنی کمر پر بٹھا لیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ نیچے سرکنے لگا۔
کتا ابھی تک جادوگرنی کا راستہ روکے ہوئے کھڑا تھا۔ پھر اچانک جادوگرنی اسے دھوکہ دے کر مینار کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
شہزادی نے اسے مینار میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس نے بازی گر کے کان میں آہستہ سے کہا، "جادوگرنی مینار میں داخل ہوگئی ہے۔ جونہی وہ دیکھ گی کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں، وہ ہمارا پیچھا کرے گی۔ ہمیں چاہیے کہ فوراً یہاں سے نکل چلیں۔"
جب بازیگر زمین سے تھوڑا سا اونچا رہ گیا تو اس نے سیٹی بجائی۔ خچر دوڑتا ہوا آیا اور مینار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔ بازیگر نے رسّی کا سرا چھوڑ دیا اور خچر کی کمر پر کود گیا۔ کتا اور بندر بھی چھلانگ لگا کر اس کے اوپر سوار ہو گئے۔
بازیگر نے کہا، "ٹخ ٹخ ٹخ۔ چل میرے صبا رفتار خچر۔"
اور خچر ہوا سے باتیں کرنے لگا۔
بازیگر بار بار کہتا، "تیز چل اور تیز چل۔"
اور خچر پہلے سے بھی زیادہ تیز دوڑنے لگا۔
شہزادی بولی، "تم مجھے محل میں پہنچا دو۔ ہم وہاں ہر خطرے سے محفوظ رہیں گے۔"
خچر تیز رفتاری سے دوڑا چلا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے جادوگرنی گوگل تھی۔ وہ اپنی جھاڑو پر سوار تھی اور ہوا میں اڑتی ہوئی چلی آ رہی تھی۔
جب جادوگرنی ان کے ذرا قریب آ جاتی تو کتا زور زور سے بھونکنے لگتا اور اسے کاٹ کھانے کی کوشش کرتا۔
ایک بار تو جادوگرنی ان کے بہت قریب آ گئی۔ شہزادی گھبرا کر بولی، "ہم اس وقت محل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت تو محل کے دروازے بند ہو چکے ہوں گے۔ الله ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہارا خچر محل کی فصیل کو نہیں پھلانگ سکے گا۔"
بازیگر بولا، "شہزادی صاحبہ! آپ کوئی فکر نہ کیجیے۔ میرا خچر اچھی نسل کا ہے۔ امید ہے کہ یہ دیوار پھلانگ جائے گا۔"
پھر بازیگر نے خچر کے کان میں کہا، "دیکھو میاں! ہماری جان بچانے کے لیے پورا زور لگا دو اور اس فصیل کو پھلانگ جاؤ۔"
خچر نے پوری قوت سے ہوا میں چھلانگ لگائی اور فصیل کے پار اتر گیا۔
شہزادی نے اطمینان کا سانس لیا اور بولی، "الله کا شکر ہے کہ ہم جادوگرنی کے چنگل سے بال بال بچ گئے ورنہ اس نے تو ہمیں پکڑ ہی لیا تھا۔"
جادوگرنی محل کی فصیل عبور نہیں کر سکتی تھی، اس لیے وہ ہوا میں مکے لہراتی رہ گئی۔
محل کے سب لوگ سو چکے تھے۔ شہزادی کے اچانک واپس آ جانے کی خبر سن کر ہر شخص جاگ گیا۔ ملکہ اور بادشاہ نے شہزادی کو بہت بہت پیار کیا۔ ہر شخص باری باری بادشاہ اور ملکہ کو مبارکباد دے رہا تھا۔ بازیگر ان کے قریب ہی کھڑا ہوا یہ دلچسپ نظارہ دیکھتا رہا۔ مسرت اور خوشی کے لمحات میں سب لوگ اسے بھول گئے۔ بازیگر آہستہ آہستہ دروازے کی طرف کھسکنے لگا۔ وہ چپکے سے چلا جانا چاہتا تھا، لیکن شہزادی رضیہ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے کہا، "ابا حضور! اگر یہ بہادر شخص ہمت نہ دکھاتا تو میں جادوگرنی کی قید سے کبھی رہائی نہ پا سکتی تھی۔"
بادشاہ نے آگے بڑھ کر بازیگر سے مصافحہ کیا اور اس کی ہمت اور بہادری کی داد دی۔ وہ بولا، "کل دربار منعقد ہوگا۔ تم اپنا کارنامہ سب کے سامنے بیان کرنا۔ اس وقت رات بہت ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب سب لوگوں کو سو جانا چاہیے۔"
اگلی صبح دربار میں لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
بادشاہ نے حکم دیا، "بہادر نوجوان! اب تم اپنا کارنامہ بیان کرو۔"
بازیگر نے کہا، "عالی جاہ! جب میں نے وہ پہیلی سنی تو میں بہت دیر تک اس پر غور کرتا رہا۔ آخر میں نے اس معمے کو حل کر ہی لیا کہ دربان کے الفاظ بدلنے سے بندر چرخا سے خچر اور تاکتا سے کتا بنتا ہے۔"
دربار میں موجود سب لوگوں نے بازیگر کی ذہانت کی تعریف کی۔ پھر اس نے شہزادی کو رہائی دلانے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا۔ لوگوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ ہر طرف سے "واہ وا" اور "مرحبا" کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
بادشاہ نے کہا، "ہم نے وعدہ کیا تھا کہ جو شخص شہزادی کو رہائی دلائے گا ہم اسے منہ مانگا انعام دیں گے۔ بولو تم کیا چاہتے ہو؟"
بازیگر خاموش کھڑا رہا۔ تب وزیر اعظم نے آہستہ سے کہا، "کیا تم نے اعلی حضرت کی بات نہیں سنی؟ تم جو مانگو گے، وہ تمہیں ضرور دیا جائے گا۔"
بازیگر ادب سے بولا، "جہاں پناہ! میرے والد تاشقند کے حکمران تھے۔ آپ نے کسی بات پہ ناراض ہو کر انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ وہ آج کل آپ کی قید میں ہیں۔ عالی جاہ! میں التجا کرتا ہوں کہ آپ ان کا قصور معاف کر دیں اور انہیں قید سے رہا کر دیں۔"
بادشاہ شہزادے کی باتوں سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے کہا، "میں تمہارے والد کا قصور معاف کرتا ہوں۔ انہیں اپنی قید سے آزاد کرتا ہوں اور انہیں ان کے عہدے پر دوبارہ مقرر کرتا ہوں۔"
تاشقند کے شہزادے نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے جھک کر بادشاہ کے کان میں کہا، "حضور! میرا خیال ہے کہ شہزادی رضیہ کی شادی اس سے کر دی جائے تو بہت مناسب ہوگا۔"
بادشاہ خوش ہو کر بولا، "عقلمند وزیر! ہم تمہارا مشورہ قبول کرتے ہیں۔"
کچھ عرصے بعد بادشاہ نے شہزادے کی شادی اپنی بیٹی سے کر دی۔
٭٭٭​
 

مہ جبین

محفلین
بہت مزیدار کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ایک ہی انجام ۔۔۔۔۔شہزادے اور شہزادی کی شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے :heehee:

لفظ "گوگل پر میں چونکی تھی کہ شاید یہ اس "گوگل " کی بات ہورہی ہے جو دنیا جہان کی سیر کرواتا ہے گھر بیٹھے۔۔۔:laugh:
بہت شکریہ انیس الرحمن :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جادوگرنی گوگل

'گوگل" اُس وقت کہانی لکھنے والے کو ہرگز معلوم نہ ہو گا کہ جو لفظ وہ لکھ رہا ہے وہ آگے چل کے انٹرنیٹ کی دنیا میں تہلکہ مچانے والی کمپنی کا نام ثابت ہو گا۔​

کمال کہانی ہے۔​
 
بہت مزیدار کہانی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ایک ہی انجام ۔۔۔ ۔۔شہزادے اور شہزادی کی شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے

لفظ "گوگل پر میں چونکی تھی کہ شاید یہ اس "گوگل " کی بات ہورہی ہے جو دنیا جہان کی سیر کرواتا ہے گھر بیٹھے۔۔۔
بہت شکریہ انیس الرحمن
انٹی جی! آپ کی من چاہی تبدیلی کے ساتھ۔۔:D
دربان چرخا تاکتا
معراج
بہت دن گزرے ملک فارس کے جنگل میں ایک بہت اونچا مینار بنا ہوا تھا۔ اس کی چوٹی پر ایک کمرہ تھا۔ اس میں ایک چھوٹا سا دریچہ تھا۔ مینار کے اندر جانے کے لیے ایک بہت بڑا سا دروازہ تھا۔ اس مینار میں بدفطرت جادوگرنی گوگل رہتی تھی۔ یہ جادوگرنی بھولے بھالے معصوم بچوں کو ورغلا کر اپنے ساتھ لے جاتی تھی اور اس مینار میں قید کر دیتی تھی۔ جب تک جادوگرنی ان بچوں کے والدین سے بھاری رقم وصول نہ کر لیتی، وہ انہیں رہا نہ کرتی۔ایک دن شہزادی رضیہ محل کے باغیچے میں کھیل رہی تھی۔ جادوگرنی گوگل اسے بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے گئی اور اسے مینار میں قید کر دیا۔ گوگل نے شہزادی کے والد یعنی کہ ملک فارس کے سلطان سے مطالبہ کیا کہ اگر شہزادی کی رہائی چاہتا ہے تو دو سو تھیلیاں اشرفیوں سے بھر کر میرے حوالے کر دو۔ان دنوں ملک کے حالات بہت خراب تھے۔ خزانہ خالی تھا اور سلطان جادوگرنی گوگل کو دو سو اشرفیاں بھی نہیں دے سکتا تھا۔ سلطان نے اپنے وزیروں سے مشورہ مانگا۔ ایک عقلمند وزیر نے کہا، "حضور! لوہا ہی لوہے کو کاٹ سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ جادوگرنی کا جواب جادوگر ہی ہو سکتا ہے۔"بادشاہ نے سب سے بڑے جادوگر ارمانوس کو طلب کیا اور اس سے درخواست کی کہ کسی طرح شہزادی رضیہ کو جادوگرنی کے چنگل سے رہائی دلائے۔جادوگر نے ایک انگیٹھی میں دہکتے ہوئے کوئلوں پر کوئی سفوف چھڑکا اور اسے مور کے پنکھ سے ہوا دینے لگا۔ کچھ دیر بعد انگیٹھی سے دھویں کا ایک مرغولا سا اٹھا اور اس میں آواز سنائی دی:
"ترتیب کو پہلے بدل، زیادہ جو ہے اس کو گراپھر یہ پہیلی بوجھ لے، دربان چرخا تاکتا"جادوگر نے اپنا سامان سمیٹ کر تھیلے میں رکھا اور بولا، "عالی جاہ! جو شخص اس پہیلی کو بوجھ لے گا وہی شہزادی صاحبہ کو گوگل کی قید سے رہائی دلا سکتا ہے۔"جادوگر تو اپنا انعام لے کر رخصت ہوا۔ بادشاہ اور اس کے درباری اس عجیب پہیلی کو بوجھنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ بہت دیر کوشش کرنے کے بعد بھی جب کوئی حل نہ نکلا تو بادشاہ نے کہا، "ہمارے ملک میں ہر شہر اور ہر گاؤں میں گلی گلی یہ منادی کروا دی جائے کہ جو شخص اس پہیلی کو بوجھ لے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔"بادشاہ کے حکم کے مطابق ملک بھر میں منادی کروا دی گئی۔ ملک کے سب لوگوں نے اس پہیلی کا مطلب نکالنے کی کوشش کی، لیکن اس مقصد میں کوئی کامیاب نہ ہو سکا۔ایک بازیگر گھومتا پھرتا ادھر آ نکلا۔ اس کے ساتھ تین جانور تھے۔ ایک بھورے رنگ کا بندر تھا، جو ٹھمک ٹھمک کر ناچ دکھاتا تھا۔ ایک خچر تھا جو رسّی الانگ سکتا تھا۔ کبھی وہ چاروں پاؤں اٹھا کر چھلانگ لگاتا، کبھی پچھلی دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا اور ناچ دکھانے لگتا۔ اس کا کتا بھی بہت سے کرتب دکھا سکتا تھا، لیکن پتا نہیں کیوں لوگوں نے اس کے کھیل تماشے میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ وہ دن بھر گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہا، لیکن کسی نے اسے ایک پیسا تک نہیں دیا۔ شام ہونے کو آئی، بازیگر بہت فکرمند ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر خالی ہاتھ واپس گھر گیا تو آج فاقہ ہی کرنا پڑے گا۔ گھر پر میری بڑھیا ماں انتظار کر رہی ہے، میں اسے کیا کھلاؤں گا؟وہ ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک بڑھیا کو اس کا حال دیکھ کر ترس آیا۔ اس نے آواز دے کر بازیگر کو اپنے پاس بلایا اور اسے کچھ روٹیاں دیں۔ بازیگر نے جھک کر بڑھیا کو سلام کیا۔ بڑھیا نے غور سے بازیگر کے چہرے مہرے کو دیکھا اور بولی، "میرا قیانہ کہتا ہے کہ تم کسی اعلی خاندان کے چشم و چراغ ہو۔"بازیگر ہنس کر بولا، "اماں جی! پرانی باتیں دہرانے سے کیا فائدہ! جب اچھے دن گزر گئے تو برے دن بھی گزر جائیں گے۔"بڑھیا بازیگر کی باتوں سے متاثر ہوئی۔ اس نے کہا، "ہمارے ملک کی شہزادی جادوگرنی گوگل کی قید میں ہے۔ اسے رہائی دلانے والے کو بادشاہ نے منہ مانگا انعام دینے کا وعدہ کیا ہے۔"بازیگر بولا، "کاش میں شہزادی کو رہائی دلا سکوں۔"بڑھیا بولی، "بیٹا، شہزادی کو رہائی دلانا بہت مشکل کام ہے۔ وہ ایک بہت اونچے مینار میں قید ہے۔ اسے رہائی دلانے والا شخص وہ ہوگا جو اس پہیلی کو بوجھ لے گا!"
"ترتیب کو پہلے بدل، زیادہ جو ہے اس کو گراپھر یہ پہیلی بوجھ لے، دربان چرخا تاکتا"بازیگر بہت دلچسپی سے بڑھیا کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں پہیلی کو کئی بار دہرایا اور اس کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ تب وہ بولا، "اماں جی! اس پہیلی کا تو کچھ بھی مطلب نہیں ہے۔"بڑھیا بولی، "بیٹا! ہر پہیلی ایسی ہی الجھی ہوئی اور بےمعنی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا مطلب تو نکالنا پڑتا ہے۔"بازیگر بہت دیر تک دماغ لڑاتا رہا، لیکن وہ پہیلی کا مطلب نہ نکال سکا۔ اس نے باسی روٹی کھائی اور اوپر سے ٹھنڈا پانی پی کر الله کا شکر ادا کیا اور بولا، "دنیا میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں باسی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ اماں جی! آپ کی مہربانی کا شکریہ۔ اگر آپ میرے حال پر ترس کھا کر یہ روٹیاں نہیں دیتیں تو آج مجھے فاقہ کرنا پڑتا۔"اس رات بازیگر کو بہت دیر تک نیند نہیں آئی۔ اس کا ذہن ابھی تک پہیلی میں الجھا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑانے لگا، "آخر اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ ترتیب کو پہلے بدل؟ آہا شاید لفظوں کی ترتیب بدلنے کو کہا ہے۔"اور اچانک اس کے ذہن میں پہیلی کا حل آگیا۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بندر کے پاس پہنچا۔ اس نے جوش میں تھرائی ہوئی آواز میں کہا، "دیکھو بھئی! تم تو دربان ہو۔ اس کے حروف کی ترتیب بدل دیں تو بنا باندر۔ پھر زیادہ حروف ہٹا دیں تو بندر بن گیا۔ سمجھے تم؟"بندر اپنے بدنما دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ وہ دل میں سوچتا ہوگا کہ آج تو مالک کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بازیگر خچر سے بولا، "اور بھئی تم ہو چرخا۔ اس کی ترتیب بدلیں تو بنا خچر۔ زیادہ حرف الف ہتا دیں تو خچر بن گیا۔"خچر ہنہنایا جیسے کہ وہ اپنے مالک کی باتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھتا ہے۔اس کے بعد وہ کتے سے بولا، "تم ہو تاکتا۔ اس کی ترتیب بدلیں تو بنا کتاتا۔ اب زیادہ حرف ہٹالیں تو کتا بن گیا۔"بازیگر خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ شور کی وجہ سے اس کی ماں کی آنکھ کھل گئی۔ بازیگر خوشی سے سرشار آواز میں بولا، "امی جان! میں نے پہیلی کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ میں شہزادی کو آزاد کرانے کے لیے جا رہا ہوں۔"وہ چھلانگ مار کر خچر کی پشت پر سوار ہو گیا۔ بندر اچھل کر اس کے کندھے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ بازیگر نے خچر کو ایڑھ لگائی اور اسے دوڑاتا ہوا قریبی گاؤں تک لے گیا۔ کتا وفاداری سے اس کے پیچھے دوڑتا رہا۔بازیگر نے گاؤں والوں سے اس جنگل کا راستہ پوچھا جہاں وہ مینار تھا جس میں شہزادی قید تھی۔ بےشمار لوگ شہزادی کو رہائی دلانے کے لیے مینار تک آتے جاتے رہتے تھے، اس لیے ایک اچھا خاصا راستہ بن گیا تھا۔ بازیگر اس راستے پر چلتا رہا۔ آخر وہ مینار تک پہنچ گیا۔ اس وقت سورج چھپ چکا تھا اور رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔بازیگر نے کتے سے کہا، "تم یہاں دروازے کے پاس کھڑے ہو جاؤ اور کسی کو مینار کے اندر نہ جانے دینا۔"پھر اس نے پتلی اور مضبوط رسّی بندر کی کمر پر باندھی اور کہا، "میاں دربان! تم فورا مینار پر چڑھ جاؤ اور رسّی کو دریچے سے باندھ کر لٹکا دو۔"بندر اپنے بدنما دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ پھر وہ چھلانگ مار کر خچر کی پیٹھ پر چڑھا اور بجلی کی تیزی سے چھلانگیں مارتا ہوا مینار پر چڑھ گیا۔اچانک کتے کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس نے کسی کی آہٹ محسوس کی تھی۔ یہ جادوگرنی گوگل تھی جو شہزادی کو کھانا دینے کے لیے آ رہی تھی۔ کتا زور زور سے بھونکنے لگا۔ بازیگر اپنے خچر کے ساتھ جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا۔جادوگرنی نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کتے کو بھگا دے، لیکن کتا اس کا راستہ رو کے ہوئے کھڑا رہا۔ پھر وہ جادوگرنی کے پیچھے لپکا اور اسے بہت دور بھگا دیا۔ ادھر تو یہ کچھ ہو رہا تھا، ادھر چالاک بندر نے جلدی سے رسّی کا ایک سرا لوہے کی سلاخ سے باندھ دیا اور اسے مینار سے نیچے لٹکا دیا۔شہزادی نے کتے کے بھونکنے کی آواز سنی تو وہ بہت حیران ہوئی۔ اس نے مینار کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہ آ سکا۔ بازیگر رسّی کو پکڑ کر اوپر چڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ مینار کی کھڑکی تک جا پہنچا۔شہزادی رضیہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے بازیگر سے پوچھا، "کیا تم مجھے رہائی دلانے کے لیے آئے ہو؟"بازیگر بولا، "جی شہزادی صاحبہ! کیا آپ اس تنگ کھڑکی کی راہ سے باہر آسکتی ہیں؟ اگر آپ باہر آجائیں تو میں آپ کو اپنی کمر پر بٹھا لوں گا اور رسّی کے زریے سے نیچے اتر جاؤں گا۔"شہزادی بولی، "میں کوشش کر کے دیکھتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں اس کھڑکی سے باہر نکل سکتی ہوں۔"شہزادی رضیہ بہت دھان پان سی تھی قید میں رہ کر وہ اور بھی دبلی ہو گئی تھی۔ بازیگر نے اسے اپنی کمر پر بٹھا لیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ نیچے سرکنے لگا۔کتا ابھی تک جادوگرنی کا راستہ روکے ہوئے کھڑا تھا۔ پھر اچانک جادوگرنی اسے دھوکہ دے کر مینار کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔شہزادی نے اسے مینار میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس نے بازی گر کے کان میں آہستہ سے کہا، "جادوگرنی مینار میں داخل ہوگئی ہے۔ جونہی وہ دیکھ گی کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں، وہ ہمارا پیچھا کرے گی۔ ہمیں چاہیے کہ فوراً یہاں سے نکل چلیں۔"جب بازیگر زمین سے تھوڑا سا اونچا رہ گیا تو اس نے سیٹی بجائی۔ خچر دوڑتا ہوا آیا اور مینار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔ بازیگر نے رسّی کا سرا چھوڑ دیا اور خچر کی کمر پر کود گیا۔ کتا اور بندر بھی چھلانگ لگا کر اس کے اوپر سوار ہو گئے۔بازیگر نے کہا، "ٹخ ٹخ ٹخ۔ چل میرے صبا رفتار خچر۔"اور خچر ہوا سے باتیں کرنے لگا۔بازیگر بار بار کہتا، "تیز چل اور تیز چل۔"اور خچر پہلے سے بھی زیادہ تیز دوڑنے لگا۔شہزادی بولی، "تم مجھے محل میں پہنچا دو۔ ہم وہاں ہر خطرے سے محفوظ رہیں گے۔"خچر تیز رفتاری سے دوڑا چلا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے جادوگرنی گوگل تھی۔ وہ اپنی جھاڑو پر سوار تھی اور ہوا میں اڑتی ہوئی چلی آ رہی تھی۔جب جادوگرنی ان کے ذرا قریب آ جاتی تو کتا زور زور سے بھونکنے لگتا اور اسے کاٹ کھانے کی کوشش کرتا۔ایک بار تو جادوگرنی ان کے بہت قریب آ گئی۔ شہزادی گھبرا کر بولی، "ہم اس وقت محل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت تو محل کے دروازے بند ہو چکے ہوں گے۔ الله ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہارا خچر محل کی فصیل کو نہیں پھلانگ سکے گا۔"بازیگر بولا، "شہزادی صاحبہ! آپ کوئی فکر نہ کیجیے۔ میرا خچر اچھی نسل کا ہے۔ امید ہے کہ یہ دیوار پھلانگ جائے گا۔"پھر بازیگر نے خچر کے کان میں کہا، "دیکھو میاں! ہماری جان بچانے کے لیے پورا زور لگا دو اور اس فصیل کو پھلانگ جاؤ۔"
خچر نے پوری قوت سے ہوا میں چھلانگ لگائی اور فصیل کی دیواروں میں گڑے نیزے اس کے جسم آر پار ہو گئے۔
شہزادی اور بازیگر بھی زخمی ہوئے اور بلندی سے نیچے آ گرے۔ بازیگر تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ شہزادی شدید زخمی ہوگئی۔ بندر اور کتے نے چیخ و پکار شروع کر دی۔
محل کے سب لوگ سو چکے تھے اس شور شرابے کو سن کر ہر شخص جاگ گیا۔ ملکہ اور بادشاہ بھی بھاگے بھاگے محل کے باہر آئے۔ شہزادی کو اس حالت میں دیکھ کر ان کی حالت غیر ہو گئی۔ ہر شخص باری باری بادشاہ اور ملکہ کو دلاسے دے رہا تھا۔ بازیگر کی لاش قریب ہی پڑی تھی۔ حکیم شہزادی کی جان بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی اور خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے ملکِ عدم سدھار گئی۔
بادشاہ نے آگے بڑھ کر جادوگرنی گوگل کو پکڑ لیا جو وہیں کھڑی تھی۔ جادوگرنی گوگل بولی، "کل دربار منعقد ہوگا۔ میں سب کے سامنے بیان کروں گی کہ کیا ہوا تھا۔ اس وقت رات بہت ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب سب لوگوں کو سو جانا چاہیے۔"
اگلی صبح دربار میں لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
بادشاہ نے پوچھا، "یہ شخص کون تھا جس کی لاش وہیں پڑی تھی۔"
جادوگرنی گوگل نے کہا، "کنگلے سلطان! یہ شخص ایک بازیگر تھا جو شہزادی کو مینار سے لے اڑا تھا۔"
پھر اس نے شہزادی کو رہائی دلانے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا۔
بادشاہ نے کہا، "ہم نے وعدہ کیا تھا کہ جو شخص شہزادی کو رہائی دلائے گا ہم اسے منہ مانگا انعام دیں گے۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ اس کا انجام اتنا بھیانک ہوگا تو ہم تمہیں دو سو تھیلیاں اشرفیوں سے بھر کر دے دیتے۔ ہم پڑوسی ملک سے ادھار مانگ لیتے۔"
جادوگرنی گوگل نے کہا، "کنگلے سلطان! اس کا باپ تاشقند کا حکمران تھا۔ تم نے کسی بات پہ ناراض ہو کر اسے اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ وہ آج کل تمہاری قید میں ہے۔ اس نے شہزادی کو مارا ہے تم اس کے باپ کو مار دو۔"
بادشاہ غم و غصہ سے پاگل ہورہا تھا۔ اس نے کہا، "میں اس کے باپ کو پھانسی دینے کا حکم دیتا ہوں۔"
وزیر اعظم نے جھک کر بادشاہ کے کان میں کہا، "حضور! میرا خیال ہے کہ جادوگرنی گوگل کو کوئی وزارت دے دی جائے تاکہ وہ دوسری شہزادیوں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔"
بادشاہ بولا، "عقلمند وزیر! ہم تمہارا مشورہ قبول کرتے ہیں۔"
اگلے دن بازیگر کے باپ کو پھانسی دے دی گئی اور جادوگرنی گوگل کو وزارت دے دی گئی۔
٭٭٭
 

ساجد

محفلین
اراکین سے گزارش ہے کہ جواب میں محض پسندیدگی کے اظہار کے لئے طویل اقتباسات نہ لیا کریں۔ تحریر میں سے اس حصے کو چُن لیا کریں جس پر بات کرنا مقصود ہو۔
 
Top