درد، تجھ سے تو آشنائی ہے - ایک نئی غزل

ہم پہ الزام پارسائی ہے
کیا کہیں کیسی جگ ہنسائی ہے
کوئی دشنام ہی نہیں سر پر
وائے قسمت تری دہائی ہے
اجنبی سا سکون بھی تو ملے
درد، تجھ سے تو آشنائی ہے
کوئی ہمراز گر ملے تو کہیں
بات بھولی جو یاد آئی ہے
شام اتری ہے پھر اداسی کی
ایک پژمردگی سی چھائی ہے
شہر میں اس سکوت کے پیچھے
ایک چنگھاڑتی خدائی ہے
اس کی یادوں سے دل میں ہم نے شکیل
روز اک انجمن سجائی ہے

محترم الف عین
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہو گیا ہے، غور کریں
اس کے علاوہ

اجنبی سا سکون بھی تو ملے
درد، تجھ سے تو آشنائی ہے
.. سا سکون.. میں تنافر کی کیفیت ہے، مفہوم کے اعتبار سے بھی بہتر یوں ہو گا
اجنبی ہی سہی، سکوں تو ملے

شام اتری ہے پھر اداسی کی
ایک پژمردگی سی چھائی ہے
.. پھر کے ساتھ اگلے مصرع میں 'ایک' کچھ مناسب نہیں لگتا، تعلق قائم کرنے کے لئے شاید 'کیسی پژمردگی...' بہتر یو

شہر میں اس سکوت کے پیچھے
.. اس میں بھی تنافر ہے
باقی اشعار درست ہیں
 
محترم الف عین
رہنمائی کا شکریہ
مطلع میں ایطا تو یوں در آیا کہ اصلاََ پہلے دو شعر یوں کہے تھے
ہم پہ الزام پارسائی ہے
اے زمانے تیری دہائی ہے

کوئی دشنام ہی نہیں سر پر
کیا کہیں کیسی جگ ہنسائی ہے

لیکن مطلع ایک پرانے فلمی گانے کے بولوں سے بہت مشابہ لگا " مجھ پہ الزام بے وفائی ہے---اے محبت تیری دہائی ہے"
اس کو دور کرنے کے لئے آگے پیچھے کیا تو ایطا والے معاملے سے صرفِ نظر ہوگیا۔
اب رہنمائی فرمائیں کیا اس طرح استعمال کر لوں


ہم پہ الزام پارسائی ہے
ہائے قسمت تری دہائی ہے
کوئی دشنام ہی نہیں سر پر
کیا کہیں کیسی جگ ہنسائی ہے


باقی دو اشعار میں آپ کی اصلاح، آپ کی اجازت سے استعمال کر رہا ہوں
چوتھے مصرع میں یوں تبدیلی کی ہے
شہر میں اس سکوت کے پیچھے
کی جگہ

اس نگر میں سکوت کے پیچھے
ایک چنگھاڑتی خدائی ہے

رہنمائی فرمائیں
 
آخری تدوین:
kia mai apni shairi yahan post karsaktey hain
اردو محفل میں خوش آمدید
اگر اصلاح کی غرض سے شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لئے " اصلاحِ سخن" میں اپنی لڑی بنائیے۔ ورنہ یہاں بھی اپنی الگ لڑی بنا سکتے ہیں۔
محفل کے قوائد اور آداب جاننے کے لئے لڑیوں کی فہرست میں شروع کے مضامین مطالعہ فرما لیجئیے
جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
وہ پرانا گانا تو شاید ہی آج کل کی نسل کو معلوم ہو، بہر حال ۔ چاہو تو اصل مطلع کو ہی رہنے دو، یا کچھ اور الفاظ بدل کر دیکھا جائے
باقی تو درست ہی ہے
 
وہ پرانا گانا تو شاید ہی آج کل کی نسل کو معلوم ہو، بہر حال ۔ چاہو تو اصل مطلع کو ہی رہنے دو، یا کچھ اور الفاظ بدل کر دیکھا جائے
باقی تو درست ہی ہے
شکریہ استادِ محترم
آپ کی رہنمائی کے مطابق یوں کر دی ہے غزل


ہم پہ الزام پارسائی ہے
ہائے قسمت تری دہائی ہے

کوئی دشنام ہی نہیں سر پر
کیا کہیں کیسی جگ ہنسائی ہے

اجنبی ہی سہی، سکوں تو ملے
درد، تجھ سے تو آشنائی ہے

کوئی ہمراز گر ملے تو کہیں
بات بھولی جو یاد آئی ہے

شام اتری ہے پھر اداسی کی
کیسی پژمردگی سی چھائی ہے

اس نگر میں سکوت کے پیچھے
ایک چنگھاڑتی خدائی ہے

اس کی یادوں سے دل میں ہم نے شکیل
روز اک انجمن سجائی ہے
 
Top