دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا
آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا
تابشِ حُسن بھی تھی آتشِ دنیا بھی مگر
شُعلہ جس نے مجھے پُھونکا، میرے اندر سے اٹُھا
کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی
آگ بھی ، ابر بھی، طوفان بھی ساغر سے اٹُھا
بے صَدف کتنے ہی دریاوں سے کچھ بھی نہ ہوا
بو جھ قطرے کا تھا ایسا کہ سمندر سے اٹھا
چاند سے شکوہ بہ لب ہوں کہ سُلایا کیوں تھا
میں کہ خورشیدِ جہانتاب کی ٹھوکر سے اٹُھا
آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا
تابشِ حُسن بھی تھی آتشِ دنیا بھی مگر
شُعلہ جس نے مجھے پُھونکا، میرے اندر سے اٹُھا
کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی
آگ بھی ، ابر بھی، طوفان بھی ساغر سے اٹُھا
بے صَدف کتنے ہی دریاوں سے کچھ بھی نہ ہوا
بو جھ قطرے کا تھا ایسا کہ سمندر سے اٹھا
چاند سے شکوہ بہ لب ہوں کہ سُلایا کیوں تھا
میں کہ خورشیدِ جہانتاب کی ٹھوکر سے اٹُھا