دردِ دل ہم تمہیں سنائیں کیا

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور غزل برائے اصلاح و آرا عرض ہے۔

دردِ دل ہم تمہیں سنائیں کیا
روح کی تشنگی بتائیں کیا

بھول جانا جسے نہیں ممکن
تُو بتا پھر اُسے بھلائیں کیا

ہم نے رونا ہے رات بھر یونہی
چاند! تجھ کو بھلا رلائیں کیا

ایک صحرا چھپا ہے سینے میں
چیر کر یہ تمہیں دکھائیں کیا

عمر گذری ہے دربدر پھرتے
آشیاں کا پتہ بتائیں کیا

آزمایا ہے بارہا جن کو
آج پھر اُن کو آزمائیں کیا

لوگ ویسے ہی جان جائینگے
نام لب پر کسی کا لائیں کیا

جشنِ شعلہ ہے رقصِ شبنم ہے
پاس کچھ بھی نہیں جلائیں کیا

تجھسے کچھ پایا ہی نہیں ہمنے
کھو کے تجھکو بتا گمائیں کیا

جس نے آنا نہیں کبھی راجا
راہ اس کے لئے سجائیں کیا
 

الف عین

لائبریرین
معذرت، گھر میں مہمان تھے اس وجہ سے فرصت نہیں مل سکی۔ اب انشاء اللہ جلد ہی دیکھ لوں گا، منگل سے کچھ فرصت ملی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
دردِ دل ہم تمہیں سنائیں کیا
روح کی تشنگی بتائیں کیا
//درست

بھول جانا جسے نہیں ممکن
تُو بتا پھر اُسے بھلائیں کیا
//درست

ہم نے رونا ہے رات بھر یونہی
چاند! تجھ کو بھلا رلائیں کیا
//چاند کو رلانا کیا معنی؟ پہلے مصرع میں پنجابی محاورہ ہے، اردو نہیں، درست یوں ہو گا
ہم کو رونا ہے رات بھر یوں ہی

ایک صحرا چھپا ہے سینے میں
چیر کر یہ تمہیں دکھائیں کیا
//درست، البتہ مفہوم کچھ عجیب سا ہے۔

عمر گذری ہے دربدر پھرتے
آشیاں کا پتہ بتائیں کیا
//درست

آزمایا ہے بارہا جن کو
آج پھر اُن کو آزمائیں کیا
//مفہوم؟ اس کو واضح کہو۔

لوگ ویسے ہی جان جائینگے
نام لب پر کسی کا لائیں کیا
//درست

جشنِ شعلہ ہے رقصِ شبنم ہے
پاس کچھ بھی نہیں جلائیں کیا
//یہ بھی واضح نہیں کہ کیا کہنا چاہ رہے ہو۔

تجھسے کچھ پایا ہی نہیں ہمنے
کھو کے تجھکو بتا گمائیں کیا
//پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے، یوں کہہ سکتے ہو
تجھ سے پایا ہی کیا ہے ہم نے کبھی
ویسے ‘گمائیں کیا‘ درست تو ہے، لیکن کچھ انہونا محاورہ لگ رہا ہے۔

جس نے آنا نہیں کبھی راجا
راہ اس کے لئے سجائیں کیا
// درست، محض پنجابی محاورہ کی غلطی ہے، جس کو ممکن ہے تم غلطی نہ مانو۔ ہم یوں کہیں گے۔
جس کو آنا نہیں۔۔۔۔
 
Top