درد بہت ہے زُلف بکھیرے رکھو نہ - ذرہ حیدرآبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(ذرہ حیدر آبادی)

درد بہت ہے زُلف بکھیرے رکھو نہ
تم سینے پہ ہاتھ تو میرے رکھو نہ

اب آنگن میں دھوپ کی کرنیں آئیں گی
ایسے ایسے پیارے چہرے رکھو نہ

چال تمہاری پہلے ہی مستانی ہے
اب قدموں کو دھیرے دھیرے رکھو نہ

خوشیاں سب کو بانٹ سکو تو بانٹو تم
گھر میں ایسے چاند ستارے رکھو نہ

اِس بستی کے لوگ محبت کرتے ہیں
کہہ دو اُس کو پیار پہ پہرے رکھو نہ

کچھ تو ذرہ خوف خدا کا کر لو تم
ہاتھ میں ساغر صبح سویرے رکھو نہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ کا بھی بیحد شکریہ دیدار کروانے کے لیئے۔۔کہاں تھے اتنے دنوں تک۔۔۔سب خیریت۔۔

شکریہ کاشفی صاحب۔ میں نے یہ پیغام ابھی دیکھا۔ دراصل لاہور میں نہیں تھا یعنی سیر سپاٹے کر رہا تھا۔ اس سیر سپاٹے کے دوران فاتح صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب۔ عمدہ انتخاب ہے۔ لیکن اعجاز صاحب کی بات درست ہے کہ قوافی غلط ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ مصرعوں میں ردیف میں "نہ" کی بجائے "نا" کا محل ہے مثلاً مطلع ہی کے دونوں قافیوں کو لے لیجیے۔
 
Top