محمل ابراہیم
لائبریرین
دِل میں بار بار ایک ہوک سی اٹھ رہی ہے کہ آخر ہم مسلمان کدھر جا رہے ہیں۔ہماری حساسیت اتنی زنگ آلود کیسے ہو گئی؟ہمارے دل اتنے سخت کیوں کر ہو گئے؟جو مقام رونے،گڑگڑانے اور حسرت و افسوس نیز عبرت کا ہے ہم وہاں بھی اتنے دلیر ہو گئے ہیں کہ ہمارا ہر خوف مٹ چکا ہے۔ہم موت کو بھی اتنا معمولی سمجھنے لگے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم جو ابھی حیات ہیں ہمیشہ یوں ہی زندہ رہیں گے۔
موت تو دل کو ہلا دیتی ہے،انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے مگر ہمیں یہ کیا ہوا ہے۔ہم موت سے کیا ڈرتے،خوف کے مارے کیا روتے،ہم تو میت کا جنازہ اٹھاتے ہوئے ویڈیوز بناتے ہیں،تصاویر کلک کرتے ہیں۔
میرے بھائیو! مردہ اپنے جنازے میں شریک افراد کی تعداد سے متاثر ہوتا ہے نہ تصاویر اور ویڈیوز بنانے سے فاخر۔
اس طرح کی حرکات تو اسلام کی شان کے قطعاً خلاف ہیں۔ اس عمل کو دیکھ کر بے ساختہ ذہن یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا ہم مسلمان ہیں؟اگر ہیں تو کس طرح کے ؟؟
میرے زخمی دل کے نہاں خانے سے مسلسل یہ صدا آ رہی ہے کہ ہم تو وہ فوٹوگرافر مسلمان ہیں جو حج و عمرہ میں بیت اللہ شریف کے طواف اور حاضری کے بھی فوٹوز اور ویڈیوز بناتے ہیں۔یہاں میرا ذہن پھر ایک بار سوال کر بیٹھتا ہے کہ آخر ہم حج و عمرہ کس کے لیے کرتے ہیں؟اللّٰہ کے لئے یا عوام کو دکھانے کے لئے؟حرم شریف اور مسجد نبوی تو سراپا عجز و انکساری کے مقامات ہیں۔یہاں تو صدقِ دل کے ساتھ، سر کو ادب سے جھکا کر،نگاہوں میں ندامت کے آنسو سجا کر،دل میں اللہ کا خوف بھر کر اور زبان کو مغفرت کی دعاؤں سے تر بہ تر رکھ کر،لرزتے ہاتھ پاؤں کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔
لبیک اللہم لبیک،لبیک لا شریک لك لبیک
ان الحمد و النعمۃ لک و الملک لا شریک لک
یہ خوبصورت ترین الفاظ زبان سے نکل کر روح کو جھنجھوڑ دیں اور پورا وجود ندامت،عاجزی و انکساری کا مجموعہ بن جائے۔مگر افسوس ہمارے سیل فونز ہمارے دل اور بیت اللہ شریف کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔اگر بہ مشکل ہمارے آنسو نکل آتے ہیں تو اس کی بھی تصویر کلک کر لی جاتی ہے۔آخر ہم کیا بتانا چاہ رہے ہیں؟کسے پروف دینا ہے اپنے آنسوؤں کا؟کہاں ثابت کرنی ہے اپنی حاضری؟علماء کے جنازے میں شریک افراد کی تعداد کا ریکارڈ کسے پیش کرنا ہے؟کون سا ایوارڈ حاصل کرنا ہے؟میری سماعت سے بار بار علامہ اقبال کے الفاظ ٹکراتے ہیں____
تم مسلماں ہو؟یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
میرے مسلم بھائی بہنو! آپ سے میری گذارش ہے،بلکہ فریاد ہے کہ برائے مہربانی ہم مسلمان اس عمل سے باز آ جائیں اس سے پہلے کہ دوسری اقوام ہمارے اس عمل پر تبصرے کریں،اللّٰہ کے لئے سنبھل جائیں۔
وقت بہت نازک ہے۔ہم دشمنوں کے نشانے پر ہیں۔اگر ہمیں بیت المقدس کو آزاد کرانا ہے،اگر ہمیں دنیا فتح کرنی ہے تو ہمیں اپنے کردار کو اعلیٰ بنانا ہوگا۔ہر میدان میں بے مثل نمونے پیش کرنے ہوں گے،طرزِ عمل کو حسین بنانا ہوگا۔ورنہ آج ہماری جو صورتِ حال ہے اسے دیکھ کر تو مجھے بس یہی لگتا ہے کہ ہماری نسل میں دور دور تک کوئی غازی،کوئی فاتح عالم نہیں بلکہ صرف یوٹیوبر اور فوٹوگرافر ہی پیدا ہوں گے۔
سحؔر
موت تو دل کو ہلا دیتی ہے،انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے مگر ہمیں یہ کیا ہوا ہے۔ہم موت سے کیا ڈرتے،خوف کے مارے کیا روتے،ہم تو میت کا جنازہ اٹھاتے ہوئے ویڈیوز بناتے ہیں،تصاویر کلک کرتے ہیں۔
میرے بھائیو! مردہ اپنے جنازے میں شریک افراد کی تعداد سے متاثر ہوتا ہے نہ تصاویر اور ویڈیوز بنانے سے فاخر۔
اس طرح کی حرکات تو اسلام کی شان کے قطعاً خلاف ہیں۔ اس عمل کو دیکھ کر بے ساختہ ذہن یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا ہم مسلمان ہیں؟اگر ہیں تو کس طرح کے ؟؟
میرے زخمی دل کے نہاں خانے سے مسلسل یہ صدا آ رہی ہے کہ ہم تو وہ فوٹوگرافر مسلمان ہیں جو حج و عمرہ میں بیت اللہ شریف کے طواف اور حاضری کے بھی فوٹوز اور ویڈیوز بناتے ہیں۔یہاں میرا ذہن پھر ایک بار سوال کر بیٹھتا ہے کہ آخر ہم حج و عمرہ کس کے لیے کرتے ہیں؟اللّٰہ کے لئے یا عوام کو دکھانے کے لئے؟حرم شریف اور مسجد نبوی تو سراپا عجز و انکساری کے مقامات ہیں۔یہاں تو صدقِ دل کے ساتھ، سر کو ادب سے جھکا کر،نگاہوں میں ندامت کے آنسو سجا کر،دل میں اللہ کا خوف بھر کر اور زبان کو مغفرت کی دعاؤں سے تر بہ تر رکھ کر،لرزتے ہاتھ پاؤں کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔
لبیک اللہم لبیک،لبیک لا شریک لك لبیک
ان الحمد و النعمۃ لک و الملک لا شریک لک
یہ خوبصورت ترین الفاظ زبان سے نکل کر روح کو جھنجھوڑ دیں اور پورا وجود ندامت،عاجزی و انکساری کا مجموعہ بن جائے۔مگر افسوس ہمارے سیل فونز ہمارے دل اور بیت اللہ شریف کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔اگر بہ مشکل ہمارے آنسو نکل آتے ہیں تو اس کی بھی تصویر کلک کر لی جاتی ہے۔آخر ہم کیا بتانا چاہ رہے ہیں؟کسے پروف دینا ہے اپنے آنسوؤں کا؟کہاں ثابت کرنی ہے اپنی حاضری؟علماء کے جنازے میں شریک افراد کی تعداد کا ریکارڈ کسے پیش کرنا ہے؟کون سا ایوارڈ حاصل کرنا ہے؟میری سماعت سے بار بار علامہ اقبال کے الفاظ ٹکراتے ہیں____
تم مسلماں ہو؟یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
میرے مسلم بھائی بہنو! آپ سے میری گذارش ہے،بلکہ فریاد ہے کہ برائے مہربانی ہم مسلمان اس عمل سے باز آ جائیں اس سے پہلے کہ دوسری اقوام ہمارے اس عمل پر تبصرے کریں،اللّٰہ کے لئے سنبھل جائیں۔
وقت بہت نازک ہے۔ہم دشمنوں کے نشانے پر ہیں۔اگر ہمیں بیت المقدس کو آزاد کرانا ہے،اگر ہمیں دنیا فتح کرنی ہے تو ہمیں اپنے کردار کو اعلیٰ بنانا ہوگا۔ہر میدان میں بے مثل نمونے پیش کرنے ہوں گے،طرزِ عمل کو حسین بنانا ہوگا۔ورنہ آج ہماری جو صورتِ حال ہے اسے دیکھ کر تو مجھے بس یہی لگتا ہے کہ ہماری نسل میں دور دور تک کوئی غازی،کوئی فاتح عالم نہیں بلکہ صرف یوٹیوبر اور فوٹوگرافر ہی پیدا ہوں گے۔
سحؔر