با ادب
محفلین
ہم ایک گھر میں رہنے والے تین افراد ہیں ۔۔۔میں ، اماں اور منٹو ۔۔۔
منٹو کو سعادت حسن منٹو ہر گز مت سمجھیئے گا ۔۔۔ ان کو ادب سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔۔ منٹو کی کہانی پھر کسی دن گوش گزاریں گے آج تو ہماری رام کتھا عرض کئیے دیتے ھیں ۔۔۔
گھر کے اندر ہم تین افراد نہایت خاموش طبع اور نہایت برہم مزاج واقع ہوئے ہیں ۔۔۔ جب تک زیست کی نیا سطح سمندر پہ جھومتی جھامتی ڈولتی اٹکھیلیاں کرتی مست مگن رواں دواں رہتی ھے تب تک ہم امن کے علمبردار ہیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل در معقولات کو انتہائی نا معقول خیال کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن اگر کوئی اللہ کا پیارا سطح آب پہ کنکر پھینک کر لہروں میں تلاطم بپا کرنے کی خاطر ہماری سبک خرام نیا کو ڈانواں ڈول کرنے پہ مجبور کرتا ہے تو تلاطم فقط آب تک محدود نہیں رہتا سمندر کی گہرائیوں سے ہوتا ہوا گھر کی چوکھٹ سے داخل ہو کے ہماری زندگیوں میں بھی در آتا ہے ۔۔۔۔۔
اور وہ امن و آشتی کے پیامبر جن کی آوازیں شاذ و نادر ہی سنائی دیتی ہیں اس دن گھن گرج کے برستے ہیں ۔۔۔
زندگی میں اگر کسی کردار کے اچھے برے پہلو کی وضاحت درکار ہو اور وہ کردار راقم خود ہو تو کیا برائی ہے کہ اپنی خامی بتلانے کو ساتھ والوں کی بھی تین چار عادات بد شامل کر لی جائیں ۔۔۔آخر کو آپ اکیلے تو کبھی بھی برے نہیں ہوتے اس میں کچھ قصور لازماً معاشرے کا بھی تو ہوتا ہوگا ۔۔۔
گھر میں اکثر و بیشتر خاموشی کا راج ہوا کرتا ہے ۔۔۔ اس خاموشی کو توڑنے والی واحد ہستی میں ہوں ۔۔۔۔ ہر گز خیال مت کیجیے گا کہ میں کوئی نٹ کھٹ حسینہ ہوں جو زندگیوں میں رونق کا سبب بنتی ہیں ۔۔۔۔
بلکہ میں گھر کی وہ خاتون ہوں جو حساسیت کی اتنی ماری ہوئی ہیں کہ اگر کسی نے اچھے مزاج و اخلاق سے بات نہ کی تو گھر میں وہ رونا دھونا مچاتی ہیں کہ گھر والے قاتل کی تلاش میں شہر بھر کے دستانے اتروانے کے چکر میں خوار ہوئے پھرتے ہیں ۔۔۔
مجھے ہر جگہ ہر ماحول میں اپنے مزاج کے لوگ درکار ہیں یا چلئیے اپنے مزاج کے نا سہی لیکن کم از کم شرپسندانہ مزاج رکھنے والے بھی نہ ہوں ۔۔۔
زندگی کا یہی المیہ ہے کہ انسان انسانوں کے ساتھ کا عادی ہوتا ہے لیکن یہ ساتھ صرف اس وقت بھلا معلوم ہوتا ہے جب دوسرے انسان کے شر سے آ پ کو محفوظ ہونے کا یقین ہو ۔۔۔ جس ماحول اور گردو نواح میں آپ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہوں کہ دیکھئیے کب شر کا ڈرون حرکت میں آئے اور آپ پہ بم بن کہ گر جائے وہاں زندگی سے رنگینی جاتی رہتی ہے ۔۔۔۔
زندگی اچھے انسانوں کے ساتھ سے خوبصورت جبکہ برے انسانوں کے ساتھ سے بد صورت ہوتی جاتی ہے ۔۔۔ زندگی کے حسن کا تعلق زندگی میں موجود لوگوں سے جڑا ہے ۔۔۔ یہ لوگ ضروری نہیں خون کے رشتے ہوں ۔۔۔یہ دوست احباب اور آپ کے ساتھ ایک جا کام کرنے والے بھی ہوسکتے ہیں ۔۔۔
بسا اوقات زندگی سبک خرامی سے کسی لطیف جھرنے کی مانند بہتی ہے اور آپکو لگتا ہے زندگی مکمل ہے ۔۔۔ آپ اپنے تمام رشتوں دوست احباب سے آسودہ ہوتے ہیں ۔۔۔اور اچانک آپکی زندگی میں ایک ولن کا کردار آپکے کسی کولیگ کی صورت میں در آتا ہے جو بلا کسی سبب آپکو دق کیئے رکھتا ہے۔۔
اور ایک ایسا درد سر بن جاتا ہے جو یا تو جان لے کے ٹلتا ہے یا نوکری ۔۔۔ اچھی خاصی نوکری کو ایسی شخصیت کی وجہ سے لات مارنی پڑ جاتی ہے ۔۔۔۔
انسانوں کے اپنے اپنے درجات اور اپنے اپنے اثرات ہوتے ہیں ۔۔۔کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کے زندگی سے پیار ہوجاتا ہے آپ جینا چاہتے ہیں کھل کے خوشی سے ۔۔۔اور کچھ ایسے انسان ہوتے ہیں جن سے آپکا کوئی تعلق کوئی واسطہ نہیں ہوتا لیکن ان سے مل انکو دیکھ کے آپ کو زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے ۔۔۔دنیا فقط غلیظ لوگوں کو گھڑ دکھائی دیتی ہے ۔۔۔۔
اور مجھ جیسے افراد کا کیا کیجیے جنھیں دنیا میں رہنے کا چلن ہی نہ آتا ہو ۔۔۔۔ کب کس وقت کونسی بات کس موقعے کے لیے سنبھال رکھیں کب کس بات سے وار کر کے دوسرے کا جگر چھلنی کر دیں اور کب کس لفظ سے دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں ۔۔۔۔ اب اللہ کی ذات بہتر طور پہ جانتی ہے کہ یہ ہماری شخصیت کی خامیاں ٹہریں یا خوبیاں لیکن جو بات جیسی ہو جو بھی ہو اسے جب تک بیاں نہ کر دیں ہمیں سکھ کا سانس کم ہی میسر آتا ہے ۔۔۔
اور اکثر یہ بیاں اس رونے دھونے کی صورت میں ہوتا ہے جو ہم لوگوں کے برے روئیے کے باعث گھر میں آکے مچاتے ہیں ۔۔۔
اور وہ دھواں دھار قسم کا رونا کہ اگر کراچی والے ٹینکر کا بندوبست کر دیں تو جانے کتنے گھروں کو پانی مفت میسر آجائے ۔۔
اسی رونے دھونے سے تنگ آکر ایک دن ہمارے بھائی صاحب نے فرمایا آج تسلی سے بیٹھ کے آپ کے رونے کی تمام تر وجوہات ملاحظہ فرما لیتے ہیں ۔۔۔
مسئلہ نمبر ایک ۔۔۔۔
وہ لڑکی نے جھوٹ بولا ۔۔۔ جب کے ساتھ بیٹھی دوسری لڑکی جانتی تھی کہ یہ جھوٹ بول رہی ہیں جب میں نے بتایا کہ نہیں سچ یہ نہیں یہ ہے اور اس سچ کو سامنے والی بھی جانتی ہیں تو سامنے والی فرماتی ہیں کہ نہیں مجھے صورت حال کا درست اندازہ نہیں اور میں زیادہ کچھ جانتی بھی نہیں ۔۔۔بھائی وہ سب جانتی تھی اس نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔
اور آپ اس لئیے رو رہی ہیں ؟؟
جی ۔۔
اور اس پر آپ کب تک رونا پسند فرمائیں گی ؟
مطلب بھائی یہ کوئی بات ہی نہیں ؟؟؟
یہ بات ہے ۔۔۔اور نہایت بری بات ہے لیکن ہم لوگوں کو تبدیل نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔
بھائی اس ایک خاتون کی جھوٹ کی وجہ سے ایک انسان کو نقصان ہورہا تھا جبکہ دوسرے کے سچ کو چھپانے کے سبب نقصان شدید ثابت ہو سکتا تھا ۔۔۔۔
یہ بھی درست ۔۔۔
لیکن اب کیا کیا جائے ؟؟
بھائی یہی تو سمجھ سے باہر ہے ۔۔۔
تو کیا رونا مسئلے کا حل ہے ؟؟
تو کیا دک
کیا ہم بالکل ہی پتھر کے ہو جائیں ؟؟
کیا لوگوں کی بے حسی کو ٹھیک کرنے کا اب کوئی حل نہیں ؟
اور کیا ہم نے اتنے ہی برے لوگوں میں وقت گزارنا ہے ؟؟؟
یہ وہ مسائل ہیں جو گھر کے باقی ماندہ افراد کے لئیے درد سر اور اہل خاندان کے لیئے بے وقت کی راگنی جبکہ میرے لئیے دل کا درد بن چکے ہیں ۔۔۔
اور باوجود یہ جاننے کے کہ آپ کے لیئے بھی اس کلام میں کوئی چاشنی نہیں میں اسے بیان کرنے سے خود کو روک نہیں پائی ۔۔۔۔
کیا جانئیے کوئی اور اس قسم کے درد میں مبتلا فقط اتنی راحت محسوس کر لے کہ دنیا میں وہ ہی اکیلے نہیں بہت سے سر پھرے اور بھی ہیں ۔۔۔
سمیرا رحمان
منٹو کو سعادت حسن منٹو ہر گز مت سمجھیئے گا ۔۔۔ ان کو ادب سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔۔ منٹو کی کہانی پھر کسی دن گوش گزاریں گے آج تو ہماری رام کتھا عرض کئیے دیتے ھیں ۔۔۔
گھر کے اندر ہم تین افراد نہایت خاموش طبع اور نہایت برہم مزاج واقع ہوئے ہیں ۔۔۔ جب تک زیست کی نیا سطح سمندر پہ جھومتی جھامتی ڈولتی اٹکھیلیاں کرتی مست مگن رواں دواں رہتی ھے تب تک ہم امن کے علمبردار ہیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل در معقولات کو انتہائی نا معقول خیال کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن اگر کوئی اللہ کا پیارا سطح آب پہ کنکر پھینک کر لہروں میں تلاطم بپا کرنے کی خاطر ہماری سبک خرام نیا کو ڈانواں ڈول کرنے پہ مجبور کرتا ہے تو تلاطم فقط آب تک محدود نہیں رہتا سمندر کی گہرائیوں سے ہوتا ہوا گھر کی چوکھٹ سے داخل ہو کے ہماری زندگیوں میں بھی در آتا ہے ۔۔۔۔۔
اور وہ امن و آشتی کے پیامبر جن کی آوازیں شاذ و نادر ہی سنائی دیتی ہیں اس دن گھن گرج کے برستے ہیں ۔۔۔
زندگی میں اگر کسی کردار کے اچھے برے پہلو کی وضاحت درکار ہو اور وہ کردار راقم خود ہو تو کیا برائی ہے کہ اپنی خامی بتلانے کو ساتھ والوں کی بھی تین چار عادات بد شامل کر لی جائیں ۔۔۔آخر کو آپ اکیلے تو کبھی بھی برے نہیں ہوتے اس میں کچھ قصور لازماً معاشرے کا بھی تو ہوتا ہوگا ۔۔۔
گھر میں اکثر و بیشتر خاموشی کا راج ہوا کرتا ہے ۔۔۔ اس خاموشی کو توڑنے والی واحد ہستی میں ہوں ۔۔۔۔ ہر گز خیال مت کیجیے گا کہ میں کوئی نٹ کھٹ حسینہ ہوں جو زندگیوں میں رونق کا سبب بنتی ہیں ۔۔۔۔
بلکہ میں گھر کی وہ خاتون ہوں جو حساسیت کی اتنی ماری ہوئی ہیں کہ اگر کسی نے اچھے مزاج و اخلاق سے بات نہ کی تو گھر میں وہ رونا دھونا مچاتی ہیں کہ گھر والے قاتل کی تلاش میں شہر بھر کے دستانے اتروانے کے چکر میں خوار ہوئے پھرتے ہیں ۔۔۔
مجھے ہر جگہ ہر ماحول میں اپنے مزاج کے لوگ درکار ہیں یا چلئیے اپنے مزاج کے نا سہی لیکن کم از کم شرپسندانہ مزاج رکھنے والے بھی نہ ہوں ۔۔۔
زندگی کا یہی المیہ ہے کہ انسان انسانوں کے ساتھ کا عادی ہوتا ہے لیکن یہ ساتھ صرف اس وقت بھلا معلوم ہوتا ہے جب دوسرے انسان کے شر سے آ پ کو محفوظ ہونے کا یقین ہو ۔۔۔ جس ماحول اور گردو نواح میں آپ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہوں کہ دیکھئیے کب شر کا ڈرون حرکت میں آئے اور آپ پہ بم بن کہ گر جائے وہاں زندگی سے رنگینی جاتی رہتی ہے ۔۔۔۔
زندگی اچھے انسانوں کے ساتھ سے خوبصورت جبکہ برے انسانوں کے ساتھ سے بد صورت ہوتی جاتی ہے ۔۔۔ زندگی کے حسن کا تعلق زندگی میں موجود لوگوں سے جڑا ہے ۔۔۔ یہ لوگ ضروری نہیں خون کے رشتے ہوں ۔۔۔یہ دوست احباب اور آپ کے ساتھ ایک جا کام کرنے والے بھی ہوسکتے ہیں ۔۔۔
بسا اوقات زندگی سبک خرامی سے کسی لطیف جھرنے کی مانند بہتی ہے اور آپکو لگتا ہے زندگی مکمل ہے ۔۔۔ آپ اپنے تمام رشتوں دوست احباب سے آسودہ ہوتے ہیں ۔۔۔اور اچانک آپکی زندگی میں ایک ولن کا کردار آپکے کسی کولیگ کی صورت میں در آتا ہے جو بلا کسی سبب آپکو دق کیئے رکھتا ہے۔۔
اور ایک ایسا درد سر بن جاتا ہے جو یا تو جان لے کے ٹلتا ہے یا نوکری ۔۔۔ اچھی خاصی نوکری کو ایسی شخصیت کی وجہ سے لات مارنی پڑ جاتی ہے ۔۔۔۔
انسانوں کے اپنے اپنے درجات اور اپنے اپنے اثرات ہوتے ہیں ۔۔۔کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کے زندگی سے پیار ہوجاتا ہے آپ جینا چاہتے ہیں کھل کے خوشی سے ۔۔۔اور کچھ ایسے انسان ہوتے ہیں جن سے آپکا کوئی تعلق کوئی واسطہ نہیں ہوتا لیکن ان سے مل انکو دیکھ کے آپ کو زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے ۔۔۔دنیا فقط غلیظ لوگوں کو گھڑ دکھائی دیتی ہے ۔۔۔۔
اور مجھ جیسے افراد کا کیا کیجیے جنھیں دنیا میں رہنے کا چلن ہی نہ آتا ہو ۔۔۔۔ کب کس وقت کونسی بات کس موقعے کے لیے سنبھال رکھیں کب کس بات سے وار کر کے دوسرے کا جگر چھلنی کر دیں اور کب کس لفظ سے دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں ۔۔۔۔ اب اللہ کی ذات بہتر طور پہ جانتی ہے کہ یہ ہماری شخصیت کی خامیاں ٹہریں یا خوبیاں لیکن جو بات جیسی ہو جو بھی ہو اسے جب تک بیاں نہ کر دیں ہمیں سکھ کا سانس کم ہی میسر آتا ہے ۔۔۔
اور اکثر یہ بیاں اس رونے دھونے کی صورت میں ہوتا ہے جو ہم لوگوں کے برے روئیے کے باعث گھر میں آکے مچاتے ہیں ۔۔۔
اور وہ دھواں دھار قسم کا رونا کہ اگر کراچی والے ٹینکر کا بندوبست کر دیں تو جانے کتنے گھروں کو پانی مفت میسر آجائے ۔۔
اسی رونے دھونے سے تنگ آکر ایک دن ہمارے بھائی صاحب نے فرمایا آج تسلی سے بیٹھ کے آپ کے رونے کی تمام تر وجوہات ملاحظہ فرما لیتے ہیں ۔۔۔
مسئلہ نمبر ایک ۔۔۔۔
وہ لڑکی نے جھوٹ بولا ۔۔۔ جب کے ساتھ بیٹھی دوسری لڑکی جانتی تھی کہ یہ جھوٹ بول رہی ہیں جب میں نے بتایا کہ نہیں سچ یہ نہیں یہ ہے اور اس سچ کو سامنے والی بھی جانتی ہیں تو سامنے والی فرماتی ہیں کہ نہیں مجھے صورت حال کا درست اندازہ نہیں اور میں زیادہ کچھ جانتی بھی نہیں ۔۔۔بھائی وہ سب جانتی تھی اس نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔
اور آپ اس لئیے رو رہی ہیں ؟؟
جی ۔۔
اور اس پر آپ کب تک رونا پسند فرمائیں گی ؟
مطلب بھائی یہ کوئی بات ہی نہیں ؟؟؟
یہ بات ہے ۔۔۔اور نہایت بری بات ہے لیکن ہم لوگوں کو تبدیل نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔
بھائی اس ایک خاتون کی جھوٹ کی وجہ سے ایک انسان کو نقصان ہورہا تھا جبکہ دوسرے کے سچ کو چھپانے کے سبب نقصان شدید ثابت ہو سکتا تھا ۔۔۔۔
یہ بھی درست ۔۔۔
لیکن اب کیا کیا جائے ؟؟
بھائی یہی تو سمجھ سے باہر ہے ۔۔۔
تو کیا رونا مسئلے کا حل ہے ؟؟
تو کیا دک
کیا ہم بالکل ہی پتھر کے ہو جائیں ؟؟
کیا لوگوں کی بے حسی کو ٹھیک کرنے کا اب کوئی حل نہیں ؟
اور کیا ہم نے اتنے ہی برے لوگوں میں وقت گزارنا ہے ؟؟؟
یہ وہ مسائل ہیں جو گھر کے باقی ماندہ افراد کے لئیے درد سر اور اہل خاندان کے لیئے بے وقت کی راگنی جبکہ میرے لئیے دل کا درد بن چکے ہیں ۔۔۔
اور باوجود یہ جاننے کے کہ آپ کے لیئے بھی اس کلام میں کوئی چاشنی نہیں میں اسے بیان کرنے سے خود کو روک نہیں پائی ۔۔۔۔
کیا جانئیے کوئی اور اس قسم کے درد میں مبتلا فقط اتنی راحت محسوس کر لے کہ دنیا میں وہ ہی اکیلے نہیں بہت سے سر پھرے اور بھی ہیں ۔۔۔
سمیرا رحمان