محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
درد سے، یادوں سے، اشکوں سے شناسائی ہے
کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے
خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے
میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے
میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم
اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے
ہاتھ نیکی سے تہی، سر پہ گناہوں کے پہاڑ
سب سہی، دل یہ مگر تیرا ہی شیدائی ہے
پھونک کر ساری تمناؤں کے دفتر، یہ دل
اب تو بس تیری تمنّا کا تمنائی ہے
اُن کا دیدار تقیؔ کیسا قیامت ہوگا
جب فقط اُن کے تصور میں یہ رعنائی ہے
کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے
خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے
میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے
میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم
اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے
ہاتھ نیکی سے تہی، سر پہ گناہوں کے پہاڑ
سب سہی، دل یہ مگر تیرا ہی شیدائی ہے
پھونک کر ساری تمناؤں کے دفتر، یہ دل
اب تو بس تیری تمنّا کا تمنائی ہے
اُن کا دیدار تقیؔ کیسا قیامت ہوگا
جب فقط اُن کے تصور میں یہ رعنائی ہے