درد پل پل دہائی دیتا ہے ۔ رؤف خلش

عندلیب

محفلین
درد پل پل دہائی دیتا ہے
کب کسی کو سنائی دیتا ہے

دل عجب ہے کہ ایک غم لے کر
عمر بھر کی کمائی دیتا ہے

روئے گی یہ صدی کہ تو کس کو
ایک دن کی خدائی دیتا ہے

آئینے کی طرح ہیں وہ چہرے
جن میں سب کچھ دکھائی دیتا ہے

اور دیتا ہے کیا شریکِ سفر
تھوڑی سی آشنائی دیتا ہے

ڈھونڈ لیتا ہے راہ کہرے میں
جس کو جتنا سجھائی دیتا ہے

سر پہ چارد اڑھا کے وہ مشفق
جانے کیوں بے ردائی دیتا ہے

ٹلنے والی نہیں تھی رات مگر
کچھ اجالا دکھائی دیتا ہے

چند لمحوں کا قرب اس سے خلش
ایک لمبی جدائی دیتا ہے
 
Top