درد چیخیں تو اشک لکھتا ہوں

درد چیخیں تو اشک لکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

سنو ! تم ٹھیک کہتی ہو
ابھی کچھ بھی نہیں بدلا
وہی اٹھتا ہوا دھواں ، ہر سمت آہ و فغاں
میرے بچوں کے بکھرے ہوئےخوں آلودہ جسم
ہر طرف خوف کے بادل ہیں چھائے ہوئے
ماؤں کے بہتے ہوئے آنسو، وہی کرب و بلا
باپ کے بے جان لرزتے ہوئے شانوں پر
معصوم پھولوں کے مہکتے ہوئے لاشے
خاک و خوں میں نہلائ ہوئی ارض وطن
امیر شہر کی سادہ مزاجی بھی وہی
مکین شہر کی رنگیں بے حسی بھی وہی
میرے مولا ! تیری مخلوق کی تشنگی بھی وہی
میرے بچے مجھ سے سوال کرتے ہیں
میری جب آئے گی باری بھی کبھی
بابا ! میرے قاتل سے یہ پوچھنا تم بھی
کتنے پھولوں کا خراج تو مانگتا ہے
"کل"کے بدلے اگر تو " آج" مانگتا ہے
تو ہنس کر اپنی خوشبو تجھے سونپتا ہوں
اس جذبہ ایثار کا جواب کچھ بھی نہیں
میرے کردہ گناہوں کا حساب کچھ بھی نہیں
میرے حاکم نے کہہ دیا ہے مجھ سے
جس کی مخلوق ہے وہ خود ہی پرواہ کرے
میرے مولا ! ابابیلوں کا آنا یقینی کر دے
میرے قافلے والوں کوبھی حسینی کر دے
اپنی رحمت کا سایہ ہم پر کر دے
میں منتظر ہوں کب سے تیری نصرت کا
کیونکہ ابھی تک کچھ نہیں بدلا
سنو ! تم ٹھیک کہتی ہو
ابھی کچھ بھی نہیں بدلا

(توصیف احمد )
 
آخری تدوین:
محفل میں خوش آمدید توصیف صاحب۔ تعارف کے زمرے میں اپنا تعارف بھی کروائیے۔

اگر آپ پابندِ بحور شاعری میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اچھی بات ہے، تاہم اس کے لیے آپ کو بحور و اوزان کی بنیادی شدبد (جسے عروض کہتے ہیں) پیدا کرنا ہوگی۔ موجودہ صورت میں اس آزاد نظم پر کچھ صلاح دینا مشکل ہے کیونکہ ہر مصرع کسی مختلف بحر کے قریب معلوم ہوتا ہے ۔۔۔
دوسرے یہ کہ نظم کا جو ماحول آپ نے قائم کیا ہے، اس میں ’’سنو! تم ٹھیک کہتی ہو‘‘ جیسے جملے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک تو اس طرح کے جملے ویسے ہی حشو و زوائد میں آتے ہیں ۔۔۔ دوسرے یہ کہ صنف مخالف کو بطور خاص مخاطب کرنا اس صورت میں سمجھ آتا ہے جب نظم یا غزل کی فضا رومانوی موضوعات پر مبنی ہو۔
 
Top