درد کے دن بھی کسی طور گزر جائیں گے
ان میں ہم لوگ نہ بکھرے تو سنور جائیں گے
دل سمندر ہے سو کیا خوف سفر کرنے میں
جب کنارا کوئی آئے گا اتر جائیں گے
سانس لینے سے فقط عمر یہ گزرے گی نہیں
ہم اگر خواب نہ دیکھیں گے تو مر جائیں گے
خواب میرے کہ مرے شہر سے واقف ہی نہیں
میری آنکھوں سے نکل کر یہ کدھر جائیں گے
شعر از غیب امانت ہیں، جدا ہیں مجھ سے
میرے جلنے سے ذرا اور نکھر جائیں گے
السلام علیکم محترمہ ۔
کچھ بے لاگ باتیں آپ کی غزل کو پڑھ کر سوجھیں ،سوچا پیش کر دوں ۔
درد کے دن بھی کسی طور گزر جائیں گے
ان میں ہم لوگ نہ بکھرے تو سنور جائیں گے
واہ۔
"ان میں " کچھ کھٹک پیدا کر رہا ہے، گو واضح ہے کہ مراد دن ہیں ،اس کی جگہ " اب کے" زیادہ مفید _مطلب ہے
دل سمندر ہے سو کیا خوف سفر کرنے میں
جب کنارا کوئی آئے گا اتر جائیں گے
محض سرسری سی بات لگ رہی ہے ،محرک کوئی خاص تجربہ نہیں۔ورنہ سمندر میں سفر کا خوف کیوں نہیں ہوتا، ہوتا ہے تبھی تو اتنے زبردست بحری جہاز اور آبدوزیں درکار ہوتی ہیں۔دیکھیے ایک زبردست تجربے پہ مبنی حافظ شیرازی کا شعر :
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا
سانس لینے سے فقط عمر یہ گزرے گی نہیں
ہم اگر خواب نہ دیکھیں گے تو مر جائیں گے
اچھا ہے ۔
آپ اگر یوں کہتیں :
سانس لینے سے فقط عمر گزر جائے گی
ہم اگر خواب نہ دیکھیں گے تو مر جائیں گے
تو ایک پہلو پیدا ہوتا کہ عمر کا گزرنا اور زندہ رہنا دو الگ باتیں ہیں۔
خواب میرے کہ مرے شہر سے واقف ہی نہیں
میری آنکھوں سے نکل کر یہ کدھر جائیں گے
واہ۔ بہت خوب
شعر از غیب امانت ہیں، جدا ہیں مجھ سے
میرے جلنے سے ذرا اور نکھر جائیں گے
شعر اپنے مطلب میں صاف نہیں ۔پھر اصطلاحات جو استعمال کی ہیں وہ بھی مفید مطلب نہیں ۔
لکھتی رہیے کہ آپ اچھا لکھتی ہیں اور اچھا لکھ بھی سکتی ہیں اور یہاں پیش کرتی رہیے تاکہ بے لاگ تبصرہ کیا جا سکے۔