کاشفی

محفلین
درسِ خود داری
(از: آغا حشر کاشمیری)
یقین اُن کی عنایت کا زینہار نہ کر
بہشت بھی جو یہ بُت دیں تو اعتبار نہ کر
ہر ایک اشک تماشائے صد گلستان ہے
امیدِ عیش کو شرمندہء بہار نہ کر
وہ مرگ عشق کی لذت سے آشنا ہی نہیں
دعائے خضر پہ آمین بار بار نہ کر
ترانہ جنگ کا شور شکست دل کو سمجھ
کبھی اطاعتِ تقدیرِ روزگار نہ کر
جہاں میں کشمکش جہد کا ہے نام حیات
یقین مسئلہ جبرو اختیار نہ کر
متاعِ عیش فتوحات سعی کا ہے صلہ
سپاس سنجیء ایّام روزگار نہ کر
 
Top