محسن وقار علی
محفلین
گزشتہ چند برسوں کے دوران کے پی اور دوسرے متصل علاقوں سے یہ خبریں مسلسل آتی رہی ہیں کہ دہشت گردوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکول بم مارکر اڑا دئیے، باردو پھینک کر تباہ کر دیے، لیکن کل خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ افسر نے جو تفصیلات بتائیں وہ ہوش ربا ہیں۔ تباہ ہونے والے یا جزوی طور پر نقصان اٹھانے والے اسکولوں کے بارے میں وہ بتا رہے تھے کہ ہم ایک اسکول کو نئے سرے سے تعمیر کر کے خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ سے خبر آتی ہے کہ ایک اور اسکول تباہ کر دیا گیا۔
عسکریت پسند جس تواتر اور تسلسل سے یہ کام کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کو علم سے محروم رکھنا ان کے ایجنڈے کی پہلی ترجیح ہے۔ ایک طرف وہ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانے دیتے جس کے سبب ان کی جسمانی معذوری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نوزائیدہ اور نو عمر بچوں کو خسرہ اور دوسری ایسی ہی بیماریوں کے ٹیکے لگانے کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ اس خدمت خلق میں مصروف رضا کاروں کو قتل کرنا ان کے لیے معمول کی ایک بات ہے۔ ہمارے اسکولوں کو تباہ کر کے یہ لوگ ہماری نئی نسل اور آنے والی نسلوں کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے بچوں کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں تا کہ انھیں جنت میں پہنچنے کی بشارت دے کر دہشت گردی کی جنگ میں چارے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے ان صاحب کی آواز گلوگیر تھی۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ طالبان نے 2010ء سے اب تک 550 اسکول تباہ کیے ہیں، ان میں سے 150 کی عمارتوں کو مختلف اضلاع میں ہم نے از سرنو تعمیر کر دیا ہے لیکن صدمے کی بات یہ ہے کہ اسکولوں کی تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ صرف 2012ء میں81 اسکول خیبر پختونخوا اور فاٹا میں تباہ کیے گئے، ان میں ضلع صوابی میں 13، چارسدہ میں 10، نوشہرہ میں 5، مردان میں 5، کوہاٹ اور لکی مروت کے ضلعوں میں 4,4، ہنگو اور ڈیرہ اسماعیل خان میں فی ضلع 2 اور سوات اور ٹانک کے ضلعوں میں ایک ایک اسکول تباہ کیا گیا۔19 جنوری 2013ء کو پشاور کے مضافاتی علاقے بڈبیر میں لڑکیوں کا ایک اسکول بارود سے اڑا دیا گیا جس نے محکمہ تعلیم سے متعلق افسران کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہمارے جنرل ایوب کے دور حکومت میں امریکی جاسوس یوٹو طیارہ خفیہ امریکی اڈے سے اڑا تھا اور جسے سوویت یونین نے مار گرایا تھا۔ خروشیف نے حکومت پاکستان کو انتباہ کیا تھا کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو ورنہ ہم اس اڈے کو تباہ کر دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا۔ بڈبیر سوویت یونین کی ائیر فورس کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوا لیکن ہم نے وہ خارجہ اور داخلہ پالیسیاں اختیار کیں جن کے نتیجے میں آج ہمارے بچوں کا مستقبل یکسر دائو پر لگ گیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے 24 برس پرانی اپنی ایک تحریر یاد آئی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب1989ء میں کراچی خود اپنے ہی خون میں نہا رہا تھا۔ اس وقت ’مقتول درسگاہیں‘‘ لکھتے ہوئے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تعلیمی اداروں کے قتل اور ان کی تباہی کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ جاری رہے گا بلکہ وہ پھیلتا ہی چلا جائے گا اور پھر یہ وبا خیبر پختونخوا میں، شمالی علاقوں میں اس طرح پھیلے گی کہ ہمیں یقین ہی نہیں آئے گا کہ ہم جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ سچ ہے، درست ہے۔
میں نے لکھا تھا کہ برگد اور پیپل کے تناور پیڑوں کی چھائوں میں رات کی پچھل پائی اپنے دانت نکوستی ہے اور دور دور تک پھیلی ہوئی ڈھنڈار عمارتوں میں ہوا نوحہ کرتی ہے۔ کوئی غور سے سنے تو اسے ان عمارتوں میں اس وقت بھی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ کی بازگشت سنائی دے گی۔ چند گھنٹوں پہلے انھی عمارتوں کے سامنے خون کی ہولی کھیلی گئی ہے اور نوجوان غلطاں بہ خاک ہوئے ہیں۔ ان کی لاشیں اٹھا لی گئیں ہیں، مارنے والے مطمئن ہو کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور مرنے والے قبرستانوں کو لے جائے گئے۔ وہ زندہ خون جو توانا جسموں سے بہا تھا اس پر خاک ڈال دی گئی۔ اس خون پر خاک ڈال کر خشک کرنے والوں نے اس دریائے خوں کو نہیں دیکھا، جو ان گلیوں اور عمارتوں میں بہ رہا ہے یہ علم و دانش کا، تفکر اور تعقل کا خون ہے۔ یہ اس درسگاہ کا خون ہے جو علم کے جویا نوجوانوں کے لیے تعمیر کی گئی تھی، اس کے معماروں کا خیال تھا کہ اس کے کتب خانے میں دانش کے موتی چننے والے سر جھکا کر بیٹھیں گے اور دور دراز کے علاقوں سے اکٹھا کی جانے والی کتابوں سے سیراب ہوں گے اور اپنا علم آئندہ نسلوں کے سپرد کریں گے۔ اس درس گاہ کو بنانے والے، اس میں پڑھانے والے، آج سربہ گریباں ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جو کمرے طالب علموں کو سبق سمجھانے کے لیے تعمیر ہوئے تھے ان کی کھڑکیاں، اب گھات لگانے اور دشمن کو تاک کر مارنے کے کام آتی ہیں۔
مرنے والے کسی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں، کوئی سی بھی زبان بولتے ہوں اور کسی بھی زمین میں دفن ہوئے ہوں ان کا غم تو ان مائوں سے پوچھا جائے جن کے جگر گوشے تہ خاک ہوئے لیکن ہم اس درسگاہ کے خون ناحق کا غم بھی تو منائیں جس سے کسی زمانے میں ہر سال ہزاروں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے پڑھ کر نکلتے تھے۔ جس میں ذہنی تحفظات کے باوجود ساری دنیا کی دانش پڑھائی جاتی تھی کیونکہ دانش کی قومیت نہیں ہوتی، اس کا وطن اور عقیدہ نہیں ہوتا، آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت یہودی نہیں، نیوٹن کی کشش ثقل عیسائی نہیں اور فارابی کا فلسفہ مسلمان نہیں۔ درسگاہیں جب بند ہوتی ہیںکسی ایک سیاسی یا لسانی گروہ کے لیے نہیں تمام سیاسی اور لسانی گروہوں کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔ کتب خانوں میں جلنے والی روشنیاں جب بجھتی ہیں تو علاقے میں بسنے والے تمام گروہوں کے نوجوانوں کے ذہنوں میں جہل کا اندھیرا بچھتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو جمود کا زنگ لگتا ہے۔
آج ہم یونان کے حکمرانوں سے واقف نہیں لیکن افلاطون کی ’’اکادمی‘‘ کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ 387ء قبل مسیح میں جب افلاطون نے ایتھنز کے نواح میں زیتون کا ایک کنج خریدا تھا جس کا نام ’اکادمیا‘‘ تھا اور وہاں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی تھی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اس کا ’مدرسہ‘ تاریخ میں اتنی اہمیت اختیار کرے گا کہ علاقے کا نام لفظ ’’اکادمی‘‘ کو جنم دے گا اور پھر یہ لفظ علم و دانش کی پرورش گاہ کے معنی اختیار کر لے گا۔
بطلیموس اول کے عہد کی جامعہ اسکندریہ، قیسار اور بیروت کی درسگاہیں، ہندوستان میں نالندہ، تکشلا اور کاشی کی یونیورسٹیاں، ہمیں ان سب کے نام یاد ہیں۔ ہم قاہرہ کی جامعہ الازہر، بغداد کے مدرسہ نظامیہ، سمر قند، بخارا، قرطبہ، دلی اور دکن کی جامعات پر فخر کرتے ہیں۔ آکسفورڈ، کیمبرج، سوربون یا ہارورڈ کا رخ کریں تو ہمارے سر ان درسگاہوں کے احترام میں جھک جاتے ہیں کیا ہم اس لمحے یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے سر ان کے سامنے کیوں خم ہوتے ہیں؟
درسگاہیں علم و دانش کا تبرک تقسیم کرتی ہیں اور جس درسگاہ کی یہ روایت جس قدر قدیم ہو، اس کی اسی قدر تکریم بھی کی جاتی ہے۔ آکسفورڈ، کیمبرج سیکڑوں برس پرانی تاریخ رکھتی ہیں، اس طویل زمانے میں انگلستان پر کیا کچھ نہ گزری، محلاتی ریشہ دوانیاں، فرقہ وارانہ گروہ بندیاں، دہائیوں پر پھیلی ہوئی جنگیں، لیکن ان تمام معاملات اور واقعات کا انگلستان کے لوگوں نے اپنی جامعات پر سایہ بھی نہ پڑنے دیا۔ ان جامعات کے حجرے آباد رہے اور ان کے کتب خانے جاگتے رہے۔ اسی طرح فرانس، جرمنی، اٹلی اور یورپ کے دوسرے ملکوں پر سیکڑوں برس میں کیا کیا قیامتیں نہ گزریں لیکن ان کے کالج، ان کی یونیورسٹیاں قائم و دائم رہیں۔ ان میں سبق پڑھائے جاتے رہے اور سبق پڑھے جاتے رہے۔
صرف اس لیے کہ آپس میں تخت و تاج کے لیے دست و گریباں ہونے والے یا باہر کی فوجوں کا مقابلہ کرنے والے یہ جانتے تھے کہ ایک طالب علم ہلاک ہو جائے تو اس کی جگہ دوسرا یا تیسرا طالب علم لے لیتا ہے لیکن اگر ایک درسگاہ ذبح کر دی جائے تو علم و دانش کی روایت اور اس کا تسلسل ’’شہید‘‘ ہوتا ہے۔ ایک درسگاہ پر قفل پڑنا، آئندہ نسلوں کے مقدر پر جہل اور افلاس کی مہر لگا دیتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں تعلیم کی جڑیں ہزاروں برس پرانی ہیں۔ یہاں بودھ بھکشوئوں نے سیکڑوں برس مختلف علوم میں ریاض کیا اور چین، جاپان سے علم حاصل کرنے والے یہاں آتے رہے۔ وہ لوگ جو اس علاقے کے بچوں کو ان کی درسگاہوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں، ان سے یہی، صرف یہی، کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی کی بات کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ مدرسۂ نظامیہ کی بربادی، ہسپانیہ کے مدرسوں اور جامعات کی تباہی، سمر قند، بخارا کے مکتبوں پر قفل پڑنا مسلم فکر و دانش کے موتیوں کے خشک ہو جانے اور مسلمانوں کی پسماندگی کا بنیادی سبب ہے؟
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
کالم کا لنک
عسکریت پسند جس تواتر اور تسلسل سے یہ کام کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کو علم سے محروم رکھنا ان کے ایجنڈے کی پہلی ترجیح ہے۔ ایک طرف وہ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانے دیتے جس کے سبب ان کی جسمانی معذوری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نوزائیدہ اور نو عمر بچوں کو خسرہ اور دوسری ایسی ہی بیماریوں کے ٹیکے لگانے کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ اس خدمت خلق میں مصروف رضا کاروں کو قتل کرنا ان کے لیے معمول کی ایک بات ہے۔ ہمارے اسکولوں کو تباہ کر کے یہ لوگ ہماری نئی نسل اور آنے والی نسلوں کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے بچوں کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں تا کہ انھیں جنت میں پہنچنے کی بشارت دے کر دہشت گردی کی جنگ میں چارے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے ان صاحب کی آواز گلوگیر تھی۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ طالبان نے 2010ء سے اب تک 550 اسکول تباہ کیے ہیں، ان میں سے 150 کی عمارتوں کو مختلف اضلاع میں ہم نے از سرنو تعمیر کر دیا ہے لیکن صدمے کی بات یہ ہے کہ اسکولوں کی تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ صرف 2012ء میں81 اسکول خیبر پختونخوا اور فاٹا میں تباہ کیے گئے، ان میں ضلع صوابی میں 13، چارسدہ میں 10، نوشہرہ میں 5، مردان میں 5، کوہاٹ اور لکی مروت کے ضلعوں میں 4,4، ہنگو اور ڈیرہ اسماعیل خان میں فی ضلع 2 اور سوات اور ٹانک کے ضلعوں میں ایک ایک اسکول تباہ کیا گیا۔19 جنوری 2013ء کو پشاور کے مضافاتی علاقے بڈبیر میں لڑکیوں کا ایک اسکول بارود سے اڑا دیا گیا جس نے محکمہ تعلیم سے متعلق افسران کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہمارے جنرل ایوب کے دور حکومت میں امریکی جاسوس یوٹو طیارہ خفیہ امریکی اڈے سے اڑا تھا اور جسے سوویت یونین نے مار گرایا تھا۔ خروشیف نے حکومت پاکستان کو انتباہ کیا تھا کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو ورنہ ہم اس اڈے کو تباہ کر دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا۔ بڈبیر سوویت یونین کی ائیر فورس کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوا لیکن ہم نے وہ خارجہ اور داخلہ پالیسیاں اختیار کیں جن کے نتیجے میں آج ہمارے بچوں کا مستقبل یکسر دائو پر لگ گیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے 24 برس پرانی اپنی ایک تحریر یاد آئی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب1989ء میں کراچی خود اپنے ہی خون میں نہا رہا تھا۔ اس وقت ’مقتول درسگاہیں‘‘ لکھتے ہوئے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تعلیمی اداروں کے قتل اور ان کی تباہی کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ جاری رہے گا بلکہ وہ پھیلتا ہی چلا جائے گا اور پھر یہ وبا خیبر پختونخوا میں، شمالی علاقوں میں اس طرح پھیلے گی کہ ہمیں یقین ہی نہیں آئے گا کہ ہم جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ سچ ہے، درست ہے۔
میں نے لکھا تھا کہ برگد اور پیپل کے تناور پیڑوں کی چھائوں میں رات کی پچھل پائی اپنے دانت نکوستی ہے اور دور دور تک پھیلی ہوئی ڈھنڈار عمارتوں میں ہوا نوحہ کرتی ہے۔ کوئی غور سے سنے تو اسے ان عمارتوں میں اس وقت بھی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ کی بازگشت سنائی دے گی۔ چند گھنٹوں پہلے انھی عمارتوں کے سامنے خون کی ہولی کھیلی گئی ہے اور نوجوان غلطاں بہ خاک ہوئے ہیں۔ ان کی لاشیں اٹھا لی گئیں ہیں، مارنے والے مطمئن ہو کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور مرنے والے قبرستانوں کو لے جائے گئے۔ وہ زندہ خون جو توانا جسموں سے بہا تھا اس پر خاک ڈال دی گئی۔ اس خون پر خاک ڈال کر خشک کرنے والوں نے اس دریائے خوں کو نہیں دیکھا، جو ان گلیوں اور عمارتوں میں بہ رہا ہے یہ علم و دانش کا، تفکر اور تعقل کا خون ہے۔ یہ اس درسگاہ کا خون ہے جو علم کے جویا نوجوانوں کے لیے تعمیر کی گئی تھی، اس کے معماروں کا خیال تھا کہ اس کے کتب خانے میں دانش کے موتی چننے والے سر جھکا کر بیٹھیں گے اور دور دراز کے علاقوں سے اکٹھا کی جانے والی کتابوں سے سیراب ہوں گے اور اپنا علم آئندہ نسلوں کے سپرد کریں گے۔ اس درس گاہ کو بنانے والے، اس میں پڑھانے والے، آج سربہ گریباں ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جو کمرے طالب علموں کو سبق سمجھانے کے لیے تعمیر ہوئے تھے ان کی کھڑکیاں، اب گھات لگانے اور دشمن کو تاک کر مارنے کے کام آتی ہیں۔
مرنے والے کسی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں، کوئی سی بھی زبان بولتے ہوں اور کسی بھی زمین میں دفن ہوئے ہوں ان کا غم تو ان مائوں سے پوچھا جائے جن کے جگر گوشے تہ خاک ہوئے لیکن ہم اس درسگاہ کے خون ناحق کا غم بھی تو منائیں جس سے کسی زمانے میں ہر سال ہزاروں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے پڑھ کر نکلتے تھے۔ جس میں ذہنی تحفظات کے باوجود ساری دنیا کی دانش پڑھائی جاتی تھی کیونکہ دانش کی قومیت نہیں ہوتی، اس کا وطن اور عقیدہ نہیں ہوتا، آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت یہودی نہیں، نیوٹن کی کشش ثقل عیسائی نہیں اور فارابی کا فلسفہ مسلمان نہیں۔ درسگاہیں جب بند ہوتی ہیںکسی ایک سیاسی یا لسانی گروہ کے لیے نہیں تمام سیاسی اور لسانی گروہوں کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔ کتب خانوں میں جلنے والی روشنیاں جب بجھتی ہیں تو علاقے میں بسنے والے تمام گروہوں کے نوجوانوں کے ذہنوں میں جہل کا اندھیرا بچھتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو جمود کا زنگ لگتا ہے۔
آج ہم یونان کے حکمرانوں سے واقف نہیں لیکن افلاطون کی ’’اکادمی‘‘ کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ 387ء قبل مسیح میں جب افلاطون نے ایتھنز کے نواح میں زیتون کا ایک کنج خریدا تھا جس کا نام ’اکادمیا‘‘ تھا اور وہاں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی تھی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اس کا ’مدرسہ‘ تاریخ میں اتنی اہمیت اختیار کرے گا کہ علاقے کا نام لفظ ’’اکادمی‘‘ کو جنم دے گا اور پھر یہ لفظ علم و دانش کی پرورش گاہ کے معنی اختیار کر لے گا۔
بطلیموس اول کے عہد کی جامعہ اسکندریہ، قیسار اور بیروت کی درسگاہیں، ہندوستان میں نالندہ، تکشلا اور کاشی کی یونیورسٹیاں، ہمیں ان سب کے نام یاد ہیں۔ ہم قاہرہ کی جامعہ الازہر، بغداد کے مدرسہ نظامیہ، سمر قند، بخارا، قرطبہ، دلی اور دکن کی جامعات پر فخر کرتے ہیں۔ آکسفورڈ، کیمبرج، سوربون یا ہارورڈ کا رخ کریں تو ہمارے سر ان درسگاہوں کے احترام میں جھک جاتے ہیں کیا ہم اس لمحے یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے سر ان کے سامنے کیوں خم ہوتے ہیں؟
درسگاہیں علم و دانش کا تبرک تقسیم کرتی ہیں اور جس درسگاہ کی یہ روایت جس قدر قدیم ہو، اس کی اسی قدر تکریم بھی کی جاتی ہے۔ آکسفورڈ، کیمبرج سیکڑوں برس پرانی تاریخ رکھتی ہیں، اس طویل زمانے میں انگلستان پر کیا کچھ نہ گزری، محلاتی ریشہ دوانیاں، فرقہ وارانہ گروہ بندیاں، دہائیوں پر پھیلی ہوئی جنگیں، لیکن ان تمام معاملات اور واقعات کا انگلستان کے لوگوں نے اپنی جامعات پر سایہ بھی نہ پڑنے دیا۔ ان جامعات کے حجرے آباد رہے اور ان کے کتب خانے جاگتے رہے۔ اسی طرح فرانس، جرمنی، اٹلی اور یورپ کے دوسرے ملکوں پر سیکڑوں برس میں کیا کیا قیامتیں نہ گزریں لیکن ان کے کالج، ان کی یونیورسٹیاں قائم و دائم رہیں۔ ان میں سبق پڑھائے جاتے رہے اور سبق پڑھے جاتے رہے۔
صرف اس لیے کہ آپس میں تخت و تاج کے لیے دست و گریباں ہونے والے یا باہر کی فوجوں کا مقابلہ کرنے والے یہ جانتے تھے کہ ایک طالب علم ہلاک ہو جائے تو اس کی جگہ دوسرا یا تیسرا طالب علم لے لیتا ہے لیکن اگر ایک درسگاہ ذبح کر دی جائے تو علم و دانش کی روایت اور اس کا تسلسل ’’شہید‘‘ ہوتا ہے۔ ایک درسگاہ پر قفل پڑنا، آئندہ نسلوں کے مقدر پر جہل اور افلاس کی مہر لگا دیتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں تعلیم کی جڑیں ہزاروں برس پرانی ہیں۔ یہاں بودھ بھکشوئوں نے سیکڑوں برس مختلف علوم میں ریاض کیا اور چین، جاپان سے علم حاصل کرنے والے یہاں آتے رہے۔ وہ لوگ جو اس علاقے کے بچوں کو ان کی درسگاہوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں، ان سے یہی، صرف یہی، کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی کی بات کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ مدرسۂ نظامیہ کی بربادی، ہسپانیہ کے مدرسوں اور جامعات کی تباہی، سمر قند، بخارا کے مکتبوں پر قفل پڑنا مسلم فکر و دانش کے موتیوں کے خشک ہو جانے اور مسلمانوں کی پسماندگی کا بنیادی سبب ہے؟
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
کالم کا لنک