درماں سمجھ رہا ہوں جنُوں کے اثر کو میں - گوہر

کاشفی

محفلین
غزل
(گوہر)
درماں سمجھ رہا ہوں جنُوں کے اثر کو میں
دشمن بناؤں سر کو، نہ توڑوں جو گھر کو میں
ہے ننگِ عشق اہلِ ھمم گریہ و بُکا
نفرت سے دیکھتا ہوں ہر اک نوحہ گر کو میں
دل نذرسوزِ عشق ہوا بھی تو کیا ہوا
میری چلے تو آگ لگادوں جگر کو میں
سُن اے حریف ملّت صبرو رضا ہے یہ
کرتا ہوں پیار مخبر بیدادگر کو میں
ہے سجدہ گاہ اہلِ تقدس یہ سر زمیں
کیوں کر کہوں نہ کعبہ تیری رہگزر کو میں
بھُولا ہوں رہ، مناظر منزل کو دیکھ کر
بدنام کر رہا ہوں عبث راہبر کو میں
روئے سخن ہے مجھ سے، نگاہیں عدو پہ ہیں
پہچانتا ہوں خوب تمہاری نظر کو میں
پھر اتصال طالب و مطلوب ہے محال
بیٹھے رہے اُدھر کو اگر تم اِدھر کو میں
حیراں ہوں کیا کروں کہ ابھی سے ہے بدحواس
دل اپنا دوں کہ اپنی زباں نامہ بر کو میں
جاؤں کہاں بتا تو سہی اس کو چھوڑ کر
کس آسماں سے لاؤں تیرے سنگِ در کو میں
قطرہ بھی خوں کا دلِ مایوس میں نہیں
پہنچاؤں اب کہاں سے رسد چشمِ تر کو میں
حیراں ہو اضطرابِ دلِ دردمند سے
سمجھاؤں کس دلیل سے اس بے خبر کو میں
گوہر تمہیں بتاؤ کہ اس کا ہے کیا علاج
سمجھے ہوئے ہوں دشمن جاں، چارہ گر کو میں
 
Top