درمیانی سرحد

La Alma

لائبریرین
درمیانی سرحد
وقت جب نقطہِ انجماد پہ آن کھڑا ہو تو تھوڑا پگھلتا ہوا ،تھوڑا جمتا ہوا, کچھ رکتا ہوا اور کچھ بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے. انتقالِ کیفیت کی درمیانی سرحد اپنے اندر ایک غیر واضح سا احساس لئے ہوتی ہے. جیسے زندگی کے منظر نامے میں سے وقت کے اس حصّے کو جہاں روشنی اور اندھیرے کا اختلاط ہوتا ہے ، اس کے سیاق و سباق کے بغیر اچک لیا جائے تو اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ وقتِ صبحِ صادق ہے یا غروبِ آفتاب کے بعد کا منظر ...جی چاہے تو دل میں روزِ روشن کی امید جگا لو یا پھر شبِ غم کے خوف کو دامن گیر کر لو .
حیات اور ممات بھی حسیات کے اِسی تبادلے کا نام ہے. دمِ مرگ بھی ہونے یا نہ ہونے کے بیچ وہی جانا پہچانا احساس جنم لیتا ہے جب زندگی سے نیا نیا تعارف ہورہا ہوتا ہے. ظاہری حقیقت کے ادراک کے لئے نگاہ سے حجاب اٹھائے جا تے ہیں. مادے کو آگہی اور شعور ودیعت ہو رہا ہوتا ہے. پھر سے حجاب کا گرایا جانا اور پہلی کیفیت میں واپس آنا، یہی سفرِ زیست کا اختتام ہے. درمیانی سرحد کوئی بھی ہو؛ تقسیمِ اوقات کی ، آغازِ زندگی یا انجامِ حیات کی، انتقالِ جذبات و کیفیات کی، احساس ملتا جلتا ہی ہوتا ہے .
حقیقت سے خواب کا سفر ہو یا خواب سے حقیقت کا، یہ احساس اسی درمیانی سرحد پہ ٹھہرا رہتا ہے. کبھی یقین کو گمان میں ڈھالتا ہوا، کبھی گماں کو یقیں کرتا ہوا ...
جب تسلسل ٹوٹ جائے، زندگی ٹکڑوں میں بٹ جائے، وقت کی ترتیب نا معلوم ہو تو وہاں کیفیت کا ادراک مشکل ہو جاتا ہے. اس درمیانی سرحد پہ ہر وضاحت غیر ضروری ہوتی ہے ، لفظ جھوٹ بولتے لگتے ہیں. صرف ایک خاموش انتظار سے ہی آنے والے وقت کے بارےمیں جانا جا سکتا ہے کہ اس تاریکی اور نور کے اختلاط سے کیا رات جنم لیتی ہے یا پھر دن نمو پاتا ہے.
 
درمیانی سرحد
وقت جب نقطہِ انجماد پہ آن کھڑا ہو تو تھوڑا پگھلتا ہوا ،تھوڑا جمتا ہوا, کچھ رکتا ہوا اور کچھ بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے. انتقالِ کیفیت کی درمیانی سرحد اپنے اندر ایک غیر واضح سا احساس لئے ہوتی ہے. جیسے زندگی کے منظر نامے میں سے وقت کے اس حصّے کو جہاں روشنی اور اندھیرے کا اختلاط ہوتا ہے ، اس کے سیاق و سباق کے بغیر اچک لیا جائے تو اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ وقتِ صبحِ صادق ہے یا غروبِ آفتاب کے بعد کا منظر ...جی چاہے تو دل میں روزِ روشن کی امید جگا لو یا پھر شبِ غم کے خوف کو دامن گیر کر لو .
حیات اور ممات بھی حسیات کے اِسی تبادلے کا نام ہے. دمِ مرگ بھی ہونے یا نہ ہونے کے بیچ وہی جانا پہچانا احساس جنم لیتا ہے جب زندگی سے نیا نیا تعارف ہورہا ہوتا ہے. ظاہری حقیقت کے ادراک کے لئے نگاہ سے حجاب اٹھائے جا تے ہیں. مادے کو آگہی اور شعور ودیعت ہو رہا ہوتا ہے. پھر سے حجاب کا گرایا جانا اور پہلی کیفیت میں واپس آنا، یہی سفرِ زیست کا اختتام ہے. درمیانی سرحد کوئی بھی ہو؛ تقسیمِ اوقات کی ، آغازِ زندگی یا انجامِ حیات کی، انتقالِ جذبات و کیفیات کی، احساس ملتا جلتا ہی ہوتا ہے .
حقیقت سے خواب کا سفر ہو یا خواب سے حقیقت کا، یہ احساس اسی درمیانی سرحد پہ ٹھہرا رہتا ہے. کبھی یقین کو گمان میں ڈھالتا ہوا، کبھی گماں کو یقیں کرتا ہوا ...
جب تسلسل ٹوٹ جائے، زندگی ٹکڑوں میں بٹ جائے، وقت کی ترتیب نا معلوم ہو تو وہاں کیفیت کا ادراک مشکل ہو جاتا ہے. اس درمیانی سرحد پہ ہر وضاحت غیر ضروری ہوتی ہے ، لفظ جھوٹ بولتے لگتے ہیں. صرف ایک خاموش انتظار سے ہی آنے والے وقت کے بارےمیں جانا جا سکتا ہے کہ اس تاریکی اور نور کے اختلاط سے کیا رات جنم لیتی ہے یا پھر دن نمو پاتا ہے.

زبردست
خامش انتظار صرف نہیں۔ ایک خامش جہدوجد ضرور ہے نموصبح روشن کے لیے
 
Top