abdullah adam
محفلین
دریا کو ہم نے خستہ مکانی کی بھیک دی
پھراس کے بعد آنکھ کو پانی کی بھیک دی
ایسے نہیں یہ سینہ کشادہ کیے ہوئے
صحرا کو آہؤوں نے جوانی کی بھیک دی
اے عشق تیری خیر کہ تیرے ثبات نے
دنیا کو روز تازہ کہانی کی بھیک دی
اس کے لبوں پہ شعر مکمل نہ ہو سکا
پھولوں کو لاکھ مصرعہ ثانی کی بھیک دی
جیسے کوئی نگینہ عطا ہو زکوٰۃ میں
جیسے کسی نے اپنی نشانی کی بھیک دی
توقیر ایسا قحط صدا تھا کہ الاماں
ایسے میں کس نے مرثیہ خوانی کی بھیک دی
پھراس کے بعد آنکھ کو پانی کی بھیک دی
ایسے نہیں یہ سینہ کشادہ کیے ہوئے
صحرا کو آہؤوں نے جوانی کی بھیک دی
اے عشق تیری خیر کہ تیرے ثبات نے
دنیا کو روز تازہ کہانی کی بھیک دی
اس کے لبوں پہ شعر مکمل نہ ہو سکا
پھولوں کو لاکھ مصرعہ ثانی کی بھیک دی
جیسے کوئی نگینہ عطا ہو زکوٰۃ میں
جیسے کسی نے اپنی نشانی کی بھیک دی
توقیر ایسا قحط صدا تھا کہ الاماں
ایسے میں کس نے مرثیہ خوانی کی بھیک دی