در بدر میں ہوں اگر حکمِ سفر اس کا تھا

صفی حیدر

محفلین
در بدر میں ہوں اگر حکمِ سفر اس کا تھا
دشت و وادی بھی اسی کی تھی نگر اس کا تھا
منہ کے بل گرنے سے مجھ کو نہ بچایا اس نے
شب اندھیری بھی اسی کی تھی قمر اس کا تھا
باغِ بے فیض سے پایا ہے نہ سایہ نہ ثمر
ابر اس کا تھا زمیں اس کی شجر اس کا تھا
کیوں مجھے موردِ الزام کیا تھا اس نے
گو بغاوت تھی مری حکم مگر اس کا تھا
زرد رو لوگ تھے افلاس زدہ دنیا میں
سب تھے مہمان بلائے ہوئے گھر اس کا تھا
دل کہ مائل تھا گناہوں پہ ازل سے میرا
میں جو عصیاں سے بچا اس میں بھی ڈر اس کا تھا
جو تہی دست صدا دیتا رہا کوچے میں
وہ سوالی بھی صفی اس کا تھا در اس کا تھا
 
ماشاءاللہ ،
عمدہ غزل لگی ۔
ایک مشورہ ہے اسے اصلاح ہرگز مت سمجھے گا ۔
اگر اس مصرع کو یوں کر دیا جائے "در بدر جو ہوں اگر حکمِ سفر اس کا تھا " تو کیسا رہے گا ۔
باغِ بے فیض سے پایا ہے نہ سایہ نہ ثمر
ابر اس کا تھا زمیں اس کی شجر اس کا تھا
یہ شعر تو بہت پسند آیا ۔
 

صفی حیدر

محفلین
ماشاءاللہ ،
عمدہ غزل لگی ۔
ایک مشورہ ہے اسے اصلاح ہرگز مت سمجھے گا ۔
اگر اس مصرع کو یوں کر دیا جائے "در بدر جو ہوں اگر حکمِ سفر اس کا تھا " تو کیسا رہے گا ۔

یہ شعر تو بہت پسند آیا ۔
بہت شکریہ سر .... آپ نے حوصلہ افزائی بھی کی اور نہایت عمدہ مشورے سے بھی نوازا جو مجھے اچھا لگا...... اللہ آپ کو جزائے خیر دے ....
 
Top