صفی حیدر
محفلین
در بدر میں ہوں اگر حکمِ سفر اس کا تھا
دشت و وادی بھی اسی کی تھی نگر اس کا تھا
منہ کے بل گرنے سے مجھ کو نہ بچایا اس نے
شب اندھیری بھی اسی کی تھی قمر اس کا تھا
باغِ بے فیض سے پایا ہے نہ سایہ نہ ثمر
ابر اس کا تھا زمیں اس کی شجر اس کا تھا
کیوں مجھے موردِ الزام کیا تھا اس نے
گو بغاوت تھی مری حکم مگر اس کا تھا
زرد رو لوگ تھے افلاس زدہ دنیا میں
سب تھے مہمان بلائے ہوئے گھر اس کا تھا
دل کہ مائل تھا گناہوں پہ ازل سے میرا
میں جو عصیاں سے بچا اس میں بھی ڈر اس کا تھا
جو تہی دست صدا دیتا رہا کوچے میں
وہ سوالی بھی صفی اس کا تھا در اس کا تھا
دشت و وادی بھی اسی کی تھی نگر اس کا تھا
منہ کے بل گرنے سے مجھ کو نہ بچایا اس نے
شب اندھیری بھی اسی کی تھی قمر اس کا تھا
باغِ بے فیض سے پایا ہے نہ سایہ نہ ثمر
ابر اس کا تھا زمیں اس کی شجر اس کا تھا
کیوں مجھے موردِ الزام کیا تھا اس نے
گو بغاوت تھی مری حکم مگر اس کا تھا
زرد رو لوگ تھے افلاس زدہ دنیا میں
سب تھے مہمان بلائے ہوئے گھر اس کا تھا
دل کہ مائل تھا گناہوں پہ ازل سے میرا
میں جو عصیاں سے بچا اس میں بھی ڈر اس کا تھا
جو تہی دست صدا دیتا رہا کوچے میں
وہ سوالی بھی صفی اس کا تھا در اس کا تھا