در جو کُھلتا ہے تو دیوار نظر آتی ہے

نوید ناظم

محفلین
آنکھ اِس طرح سے بیزار نظر آتی ہے
در جو کُھلتا ہے تو دیوار نظر آتی ہے

تیرے جانے سے یہی فرق پڑا ہے ہم کو
زندگی اور بھی دُشوار نظر آتی ہے

کچھ تو معلوم ہے مجھ کو بھی وفا کا، بس کر
یہ اگر ہو تو مِرے یار، نظر آتی ہے!

ایک چہرہ کہ جسے بھول رہا ہوں اب تک
ایک صورت کہ جو ہر بار نظر آتی ہے

مجھ کو اچھا نہ کر اتنا تو بتا چارہ گر
کیا تُجھے حسرتِ بیمار نظر آتی ہے؟

یہ محبت مِری جاں خلقتِ کوفہ ہے جو
صرف خط میں ہی طرف دار نظر آتی ہے

جیت سکتا ہوں نوید اُس سے میں اب بھی لیکن
اُس سے جیتوں تو مجھے ہار نظر آتی ہے

(نوید ناظم وٹو)
 
آنکھ اِس طرح سے بیزار نظر آتی ہے
در جو کُھلتا ہے تو دیوار نظر آتی ہے

تیرے جانے سے یہی فرق پڑا ہے ہم کو
زندگی اور بھی دُشوار نظر آتی ہے

کچھ تو معلوم ہے مجھ کو بھی وفا کا، بس کر
یہ اگر ہو تو مِرے یار، نظر آتی ہے!

ایک چہرہ کہ جسے بھول رہا ہوں اب تک
ایک صورت کہ جو ہر بار نظر آتی ہے

مجھ کو اچھا نہ کر اتنا تو بتا چارہ گر
کیا تُجھے حسرتِ بیمار نظر آتی ہے؟

یہ محبت مِری جاں خلقتِ کوفہ ہے جو
صرف خط میں ہی طرف دار نظر آتی ہے

جیت سکتا ہوں نوید اُس سے میں اب بھی لیکن
اُس سے جیتوں تو مجھے ہار نظر آتی ہے

(نوید ناظم وٹو)
عمدہ غزل ہے ، نوید صاحب ! داد قبول فرمائیے .
 
Top