دستِ ساقی میں کوئی جام دوبارہ آئے

فرقان مغل

محفلین
پسِ دیوار دیکھوں اب کہ سوئے دیوار دیکھوں میں
شریکِ غم دیکھوں کوئی کہ ہجومِ آزار دیکھوں میں
جلاؤں روشنی کو گھر اپنا کہ ڈھونڈوں راہبر کوئی
بےنیازی تیری دیکھوں پھر اپنا انتظار دیکھوں میں

نہ چپ رہنے کا چارہ ہے
نہ ہمت ہے کہ لب کھولوں
بہرے ہو چکے ہیں دل جن کے
میں اُن سے کیا بولوں اور کیوں بولوں

مگر یہ درد ہائے جاں فغانی کا
بس اِسی درد کا چارہ نہیں ہوتا
دل میں اُمید تو ہے لیکن
ایسی اُمید پہ اپنا گزارا نہیں ہوتا

سبھی اسبابِ جہاں کھو بیٹھے ہیں
دشت ناوردی کو بھی رو بیٹھے ہیں
ضیاء جو رکھتے تھے آستینوں میں
گرہ بہ بند قبا سو بیٹھے ہیں

چل بسی ہمتِ یارانِ سفر
نہ کوئی بزمِ سخن باقی ہے
چار سو بادہ شکن بیٹھے ہیں
قید سینوں میں جلن باقی ہے

باغِ عالم تھا سو اب کوچہء زنداں ہے
گوشے گوشے سے فغان اُٹھتی ہے
نہ دستِ ساقی میں کوئی جنبش ہے
نہ صبر والوں کی زباں اُٹھتی ہے

وہ تشخص وہ تفکر مجھے یاد آتا ہے
میرے آبا ء کا وہ منظر مجھے یاد آتا ہے
لہو رستا ہے آج جن دیواروں میں
وہ ہنستا ہوا گھر مجھے یاد آتا ہے

شب کی تاریکی میں کوئی نور خدارا آئے
عصرِ رفتہ کا اب کوئی کنارا آئے
طفلِ مکتب کے لیے عدل کا چارا آئے
دستِ ساقی میں کوئی جام دوبارہ آئے
 
Top