- دستک ہر دروازے کے نصیب میں نہیں ہوتی۔
(×) دروازہ اگر کسی ”آباد گھر“ کا ہے، تو ایسے دروازہ پر دستک لازماً ہوگی۔ لیکن اگر دروازہ کسی ”برباد یا ویران گھر“ کا ہے تو یقیناً ایسے در کو دستک کون دے۔
- اور بعض دروازے کھلنے کے لئے نہیں ہوتے۔ کم از کم آپ کے لئے نہیں۔ آپ پکارتے رہیں، انگلیاں فگار کر لیں، جاں بلب ہو جائیں، کوئ شنوائی نہیں ہوتی، کوئی دادرسی کو نہیں آتا۔ آپ لحظہ بہ لحظہ مایوسی کے اتھاہ،گھپ اندھیرے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ کتنی عجیب بات ہے نا؟
(×) اگر ہم متذکرہ بالا قسم کے ”گھر“ کے دروازہ پہ دستک دیتے رہیں تو قصور ہمارا ہوگا نہ کہ ”دروازہ“ کا
- ساری زندگی جس خواب کو سینت سینت کر رکھتے ہیں، اچانک پتہ چلتا ہے کہ وہ تو ایک سراب تھا! کوئی آپ کا منتظر ہی نہیں، اور اب باقی زندگی آپ کو ان سوالات کے جواب ڈھونڈتے گزارنی ہے جو آپ نے کئے ہی نہیں۔ لاحاصل کی تمنا اور ان کہی کی حسرت کے ساتھ
(×) اسی لئے کہتے ہیں کہ خواب کو کُھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہئے۔ (جیسے علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب، جاگتی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی تعبیر پانے کے لئے اپنا یہ خواب قائد اعظم کے حوالہ کردیا) سراب کو آب نہیں سمجھنا چاہئے۔ جو منتظر نہیں، اُسے پکارتے ہی کیوں ہو۔ لاحاصل کی تمنا ہی کیوں کرتے ہو۔ جب مٹی کے کھلونے سے بھی کھیل سکتے ہیں تو انوکھے لاڈلے کھیلن کو چاند کیوں مانگتے ہیں۔ جب کہنے کی ہمت نہیں اور کہنے کے بعد ”نا“ سننے کی تاب نہیں تو ”ان کہی“ کی حسرت کیوں؟
زندگی میں ”جیت“ اسی کو ملتی ہے جس میں ”ہار“ برداشت کرنے کا حوصلہ ہو اور وہ ایک ایک ہار سے حوصلہ نہ ہار جائے۔ ناکامیوں کے زینے چڑھ کر ہی زندگی کی بلند و بالا ”کامیاب منزل“ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں عملاً کوئی لفٹ نہیں ہوتی۔ لہٰذا (فرضی) ”لفٹ کے دروازہ پر دستک دیتے رہنے“ سے بہتر ہے کہ ناکامیوں کے زینے سے اوپرچڑھنے کا فیصلہ کیا جائے۔ وما علینا الاالبلاغ