مصطفیٰ زیدی دسہرا ۔۔ نظم

غزل قاضی

محفلین
" دسہرا "​
عزیز دوست یہ سچ ہے اِن نظاروں سے​
ہمارے جسم کو آسُودگی نہیں مِلتی​
سکون ِ دل کو ضروری ہے لمس کی لذت​
ہَوا کی گود میں وارفتگی نہیں ملتی​
مگر یہ وقت نہیں فلسفے کی باتوں کا​
فضا میں گُونج رہی ہیں طرب کی آوازیں​
سڑک پہ شور ہے چھجوں کے لالہ زاروں کا​
عجب نہیں کہ ہماری قنوطیت بھی مِٹے​
ہمارے سر کو ہماری جبیں کو دَر تو ملے​
سکون ِ دل نہ ملے ، حاصل ِ نظر تو ملے​
جدید عشق میں فرہاد کا مقام نہیں​
جدید حُسن کو مجنوں کا احترام نہیں​
غلط نہیں کہ ہمیں شخصیت کا پاس بھی ہے​
ہمیں ضرورت ِ تبدیلیؑ لباس بھی ہے​
تری نگاہ میں احساس ِ کمتری کیوں ہے ؟​
یہ تھرتھری یہ جِھجھک یہ فسردگی کیوں ہے ؟​
یہ عام راہ جہاں آج اتنی رونق ہے​
طوائفوں کے گھروں کی طرف نکلتی ہے​
اسی گروہ میں اخلاق کے کئی نقاد​
غروز ِ فتح سے گردن اُٹھا کے چلتے ہیں​
بڑے شکوہ سے سینے پُھلا کے چلتے ہیں​
اُٹھا کے پھینک دے مشرق کی وضعداری کو​
کہ تیری ساتھ یہ افراد ِ باحشَم بھی ہیں​
ہزاروں گھورنے والوں میں ایک ہم بھی ہیں​
کسے مجال کہ ہم سے کوئی سوال کرے​
زیادہ لوگ تو لچھمن کے آڑے لے لے کر​
سیاہ اور ہری ساریوں کو دیکھتے ہیں​
کِسی نگار کی تیاریوں کو دیکھتے ہیں​
تھکن سے چُور ، گریباں دریدہ ، چہرہ ماند​
یہ پائجاموں کی بدبُو ، یہ دھوتیوں کی بساند​
یہ زندگی کا تلاطُم ، یہ ہمہموں کا ساماں​
یہ جِنسیات کے شُعلے ، یہ بِیڑیوں کا دُھواں​
یہ سطح ِ روشن و رنگیں ، یہ اندرونی سوگ​
یہ اپنے شہر کے بابُو ، یہ اپنے گاؤں کے لوگ​
اِسی گروہ میں نا اہل و باکمال بھی ہیں​
یہاں ضعیف بھی ہیں ، اور خورد سال بھی ہیں​
کِسے مجال کہ ھم سے کوئی سوال کرے​
کہ اس سوال سے بڑھ کر کئی سوال بھی ہیں​
وُہی سوال جنھیں بےبسوں نے دُھرایا​
جِنھیں بگڑتی ہوئی صِحتوں نے دُھرایا​
وُہی سوال کہ ہے جن میں انہدام کی بات​
مُشیتوں سے اُلجھتی ہوئی حقیقت سے​
ضرورتوں کے تقاضائے صُبح و شام کی بات​
کِسے مجال ، کہ یہ مُلک اتنا بُزدِل ہے​
کہ اپنا غم بھی بتانے میں عار ہے جِس کو​
یہ مُلک جس میں عوامی حقوق عام نہیں​
یہ مُلک جس میں فقط ڈِگریاں ہیں کام نہیں​
یہ مُلک جِنس کی تعلیم جُرم ہے جس میں​
یہ مُلک جس میں ابھی تک نزاعِ مذہب سے​
سِلے ہوئے ہیں تفکُر ، بِکے ہوئے ہیں دِماغ​
یہاں تو جلنے سے ڈرتے ہیں بد نصیب چراغ​
یہاں تو آج بھی ہے ذہنیت میں کل کا وقار​
یہ " ہتھنیوں کا جزیرہ " یہ " ہاتھیوں کا دیار " ۔​
نظر اُٹھا میرے ہمدم ، درندگی کی نظر​
یہاں تو ہم سبھی راوؔن ہیں ، اور کوٹھیوں پر​
سجی کھڑی ہیں ہماری صدی کی سِیتائیں​
وُہ وقت اور تھا جب رام ؔ ہم سے جِیت گیا​
وہ بات ختم ہوئی ، وہ زمانہ بہت گیا​
نظر اُٹھا مرے ہمدم وُہ " چوکیاں " آئیں​
عجب نہیں کہ ہمارے بھی بھاگ کُھل جائیں​
عجب نہیں کہ ہمیں بھی کسی چَرنوں میں​
نصٰب ہو سکے " بھگوان " کا کبھی درشن​
اگر نہیں تو یہ آوارگی ہی کیا کم ہے ؟​
ہمارے سَر کو ، ہماری جبیں کو ، در تو ملے​
سکون ِ دِل نہ مِلے ، حاصل ِ نظر تو مِلے !،۔​
مصطفیٰ زیدی

( شہر ِ آذر )
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! کیا اچھا انتخاب ہے۔ ا مصطفیٰ زیدی کی یہ نظم پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ ایسے کلام کو ہی آفاقی کہتے ہیں۔ بہت شکریہ غزل جی! ہو سکے تو ان مصرعوں کو دوبارہ دیکھ لیں۔
کہ تیری ساتھ یہ افراد ِ باحشَم بھی ہیں۔ اس مصرع میں شاید "تیرے" ہو گا۔
یہ زندگی کا تلاطُم ، یہ ہمہموں کا ساماں ۔ اس مصرع میں ساماں کی بجائے شاید "سماں" ہو گا۔
مُشیتوں سے اُلجھتی ہوئی حقیقت سے ۔ اس میں "سے" کی بجائے "میں"
نظر اُٹھا میرے ہمدم ، درندگی کی نظر ۔ "مرے" ہونا چاہیے
یہاں تو ہم سبھی راوؔن ہیں ، اور کوٹھیوں پر ۔ "کوٹھوں" پر​
عجب نہیں کہ ہمیں بھی کسی چَرنوں میں ۔ "کسی کے چرنوں میں"
نصٰب ہو سکے " بھگوان " کا کبھی درشن ۔ "نصیب" ہو سکے
اس نظم کے لئے ایک بار پر شکریہ اور براہِ کرم ان اغلاط کو درست کر دیں۔ بہت شکریہ!
 

غزل قاضی

محفلین
درست کہا آپ نے ۔ انتخاب پسند فرمانے کا بےحد شکریہ فرخ صاحب ۔ بہت معذرت کہ کلام میں کچھ املا کی غلطیاں رہ گئیں ۔ میرے پاس تو اب تدوین کا آپشن نہیں آرہا ہے ۔ ان اغلاط کو کیسے درست کروں ؟ اگر آپ کہتے ہیں تو کلام دوبارہ پوسٹ کر دیتی ہوں ۔۔؟
 

غزل قاضی

محفلین
واہ! کیا اچھا انتخاب ہے۔ ا مصطفیٰ زیدی کی یہ نظم پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ ایسے کلام کو ہی آفاقی کہتے ہیں۔ بہت شکریہ غزل جی! ہو سکے تو ان مصرعوں کو دوبارہ دیکھ لیں۔
کہ تیری ساتھ یہ افراد ِ باحشَم بھی ہیں۔ اس مصرع میں شاید "تیرے" ہو گا۔​
یہ زندگی کا تلاطُم ، یہ ہمہموں کا ساماں ۔ اس مصرع میں ساماں کی بجائے شاید "سماں" ہو گا۔​
مُشیتوں سے اُلجھتی ہوئی حقیقت سے ۔ اس میں "سے" کی بجائے "میں"​
نظر اُٹھا میرے ہمدم ، درندگی کی نظر ۔ "مرے" ہونا چاہیے​
یہاں تو ہم سبھی راوؔن ہیں ، اور کوٹھیوں پر ۔ "کوٹھوں" پر​
عجب نہیں کہ ہمیں بھی کسی چَرنوں میں ۔ "کسی کے چرنوں میں"
نصٰب ہو سکے " بھگوان " کا کبھی درشن ۔ "نصیب" ہو سکے​
اس نظم کے لئے ایک بار پر شکریہ اور براہِ کرم ان اغلاط کو درست کر دیں۔ بہت شکریہ!​
" دسہرا "​
عزیز دوست یہ سچ ہے اِن نظاروں سے​
ہمارے جسم کو آسُودگی نہیں مِلتی​
سکون ِ دل کو ضروری ہے لمس کی لذت​
ہَوا کی گود میں وارفتگی نہیں ملتی​
مگر یہ وقت نہیں فلسفے کی باتوں کا​
فضا میں گُونج رہی ہیں طرب کی آوازیں​
سڑک پہ شور ہے چھجوں کے لالہ زاروں کا​
عجب نہیں کہ ہماری قنوطیت بھی مِٹے​
ہمارے سر کو ہماری جبیں کو دَر تو ملے​
سکون ِ دل نہ ملے ، حاصل ِ نظر تو ملے​
جدید عشق میں فرہاد کا مقام نہیں​
جدید حُسن کو مجنوں کا احترام نہیں​
غلط نہیں کہ ہمیں شخصیت کا پاس بھی ہے​
ہمیں ضرورت ِ تبدیلیؑ لباس بھی ہے​
تری نگاہ میں احساس ِ کمتری کیوں ہے ؟​
یہ تھرتھری یہ جِھجھک یہ فسردگی کیوں ہے ؟​
یہ عام راہ جہاں آج اتنی رونق ہے​
طوائفوں کے گھروں کی طرف نکلتی ہے​
اسی گروہ میں اخلاق کے کئی نقاد​
غروز ِ فتح سے گردن اُٹھا کے چلتے ہیں​
بڑے شکوہ سے سینے پُھلا کے چلتے ہیں​
اُٹھا کے پھینک دے مشرق کی وضعداری کو​
کہ تیرے ساتھ یہ افراد ِ باحشَم بھی ہیں​
ہزاروں گھورنے والوں میں ایک ہم بھی ہیں​
کسے مجال کہ ہم سے کوئی سوال کرے​
زیادہ لوگ تو لچھمن کے آڑے لے لے کر​
سیاہ اور ہری ساریوں کو دیکھتے ہیں​
کِسی نگار کی تیاریوں کو دیکھتے ہیں​
تھکن سے چُور ، گریباں دریدہ ، چہرہ ماند​
یہ پائجاموں کی بدبُو ، یہ دھوتیوں کی بساند​
یہ زندگی کا تلاطُم ، یہ ہمہموں کا سماں​
یہ جِنسیات کے شُعلے ، یہ بِیڑیوں کا دُھواں​
یہ سطح ِ روشن و رنگیں ، یہ اندرونی سوگ​
یہ اپنے شہر کے بابُو ، یہ اپنے گاؤں کے لوگ​
اِسی گروہ میں نا اہل و باکمال بھی ہیں​
یہاں ضعیف بھی ہیں ، اور خورد سال بھی ہیں​
کِسے مجال کہ ھم سے کوئی سوال کرے​
کہ اس سوال سے بڑھ کر کئی سوال بھی ہیں​
وُہی سوال جنھیں بےبسوں نے دُھرایا​
جِنھیں بگڑتی ہوئی صِحتوں نے دُھرایا​
وُہی سوال کہ ہے جن میں انہدام کی بات​
مُشیتوں سے اُلجھتی ہوئی حقیقت سے​
ضرورتوں کے تقاضائے صُبح و شام کی بات​
کِسے مجال ، کہ یہ مُلک اتنا بُزدِل ہے​
کہ اپنا غم بھی بتانے میں عار ہے جِس کو​
یہ مُلک جس میں عوامی حقوق عام نہیں​
یہ مُلک جس میں فقط ڈِگریاں ہیں کام نہیں​
یہ مُلک جِنس کی تعلیم جُرم ہے جس میں​
یہ مُلک جس میں ابھی تک نزاعِ مذہب سے​
سِلے ہوئے ہیں تفکُر ، بِکے ہوئے ہیں دِماغ​
یہاں تو جلنے سے ڈرتے ہیں بد نصیب چراغ​
یہاں تو آج بھی ہے ذہنیت میں کل کا وقار​
یہ " ہتھنیوں کا جزیرہ " یہ " ہاتھیوں کا دیار " ۔​
نظر اُٹھا مرے ہمدم ، درندگی کی نظر​
یہاں تو ہم سبھی راوؔن ہیں ، اور کوٹھیوں پر​
سجی کھڑی ہیں ہماری صدی کی سِیتائیں​
وُہ وقت اور تھا جب رام ؔ ہم سے جِیت گیا​
وہ بات ختم ہوئی ، وہ زمانہ بہت گیا​
نظر اُٹھا مرے ہمدم وُہ " چوکیاں " آئیں​
عجب نہیں کہ ہمارے بھی بھاگ کُھل جائیں​
عجب نہیں کہ ہمیں بھی کسی کے چَرنوں​
نصیب ہو سکے " بھگوان " کا کبھی درشن​
اگر نہیں تو یہ آوارگی ہی کیا کم ہے ؟​
ہمارے سَر کو ، ہماری جبیں کو ، در تو ملے​
سکون ِ دِل نہ مِلے ، حاصل ِ نظر تو مِلے !،۔​
۔۔​
اغلاط کو درست کر دیا ہے ۔۔​
 
Top