دس لاکھ سال قدیم میمتھ سے تاریخ کا قدیم ترین ڈی این اے پڑھ لیا گیا

جاسم محمد

محفلین
دس لاکھ سال قدیم میمتھ سے تاریخ کا قدیم ترین ڈی این اے پڑھ لیا گیا
ویب ڈیسک جمع۔ء 19 فروری 2021

2145044-mammothmain-1613664824-227-640x480.jpg

تصویر میں اسٹیپ میمتھ نمایاں ہے جو بالوں والے میمتھ کا جد تھا ۔ یہ انکشاف دنیا کے قدیم ترین ڈی این اے کی مکمل نقشہ کشی کے بعد ممکن ہوئی ہے۔ فوٹو: اپسالا یونیورسٹی


سویڈن: بین الاقوامی جینیات دانوں کی ٹیم نے کئی برس کی محنت سے دنیا کے قدیم ترین میمتھ کے ڈی این اے کو نکالا ہے اور ڈی این اے کے کئی ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک مکمل جینیاتی سلسلہ (سیکوینس)مرتب کیا ہے۔

سات سے بارہ لاکھ سال قبل سائبیریا کے علاقے میں گھومنے پھرنے والے بالوں بھرے تین قدیم ہاتھیوں، میمتھ کے دانتوں سے یہ ڈی این اے نکالا گیا ہے۔ ان سب میں ڈی این اے کے نامکمل ٹکڑے تھے تاہم بعد میں انہی سے ایک مکمل ڈی این اے مرتب کیا گیا ہے۔

اس سے قبل ایک گھوڑے سے اخذ کردہ ڈی این اے کو قدیم قرار دیا گیا تھا جو قریباً ساڑھے پانچ سے سات لاکھ اسی ہزار سال پہلے ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔

سویڈن میں قدیم جینیات کے ماہر لوَڈالین کہتے ہیں کہ یہ بہت پرانا ڈی این اے ہے۔ بالوں بھرے اصلی میمتھ درحقیقت آٹھ لاکھ سال قبل نمودار ہوئے تھے اور آخرکار اب سے چار ہزار سال قبل صفحہ ہستی سے مِٹ گئے تھے۔ لیکن ماہرین نے بالوں بھرے ان عفریت کے جد کا ڈی این اے تلاش کیا اور وہ بھی برفانی علاقوں میں ہی رہتے تھے۔ انہیں اسٹیپ میمتھ کہتے ہیں جو 15 لاکھ سال قبل شمالی امریکہ پہنچے تھے۔

تحقیقی ٹیم نے سات لاکھ سال کے ایک ، اور دس لاکھ سال کے دو میمتھ ک دانتوں سے ڈی این اے نکالا اور ان کے ٹکڑوں کو جوڑنے کا تھکادینے والا کام شروع کیا کیونکہ کسی بھی دانت سے مکمل ڈی این اے نہیں مل سکا تھا۔ یہ تمام جانور مستقل برف میں دبے تھے اور اسی وجہ سے ان کے دانتوں کی جڑ میں گوشت اور خون محفوظ رہ گیا تھا۔

mamoth-1613664906.jpg


تحقیق سے معلوم ہوا کہ سائبیریا میں میمتھ کی ایک قسم نہیں بلکہ کم ازکم دو اقسام کے میمتھ زندگی گزاررہے تھے۔ اس طرح اب میمتھ کی دو طرح کی جینیاتی سلسلے ہمارے سامنے آئے ہیں۔ دوسری جانب یہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ آخر کسطرح میمتھ ایک مقام سے دوسرے مقام اور براعظم تک پہنچے تھے۔

اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسٹیپ میمتھ اور بالوں والے میمتھ کے ملاپ سے ایک نئی قسم کے میمتھ نے جنم لیا جن کے آثار شمالی امریکہ سے ملے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس سے قبل ایک گھوڑے سے اخذ کردہ ڈی این اے کو قدیم قرار دیا گیا تھا جو قریباً ساڑھے پانچ سے سات لاکھ اسی ہزار سال پہلے ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔
وہ سب تو ٹھیک ہے جاسم صاحب لیکن ایک گھوڑا سات لاکھ سال پہلے "ہنسی خوشی" رہ رہا تھا اس کا علم کس "پہلوان" سائنسدان کو ہوا ہے؟
 

زوجہ اظہر

محفلین
سات لاکھ سال پہلے "ہنسی خوشی" رہ رہا تھا

طالبعلمی کے دور میں پہلی کلائنٹ ہسٹری لکھی تو وہ بھی کچھ ایسی ہی تھی
میڈم سے خوب ڈانٹ پڑی کہ بی بی یہ سائنسی رپورٹ ہے یہاں محاورے استعارات و متشابہات نہیں چلیں گے
آپکی رپورٹ پڑھ کر تو ایسا لگا کہ میں کوئی ناول یا کہانی پڑھ رہی ہوں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
وہ سب تو ٹھیک ہے جاسم صاحب لیکن ایک گھوڑا سات لاکھ سال پہلے "ہنسی خوشی" رہ رہا تھا اس کا علم کس "پہلوان" سائنسدان کو ہوا ہے؟
پیلیو سائنسٹس کے بہت حالیہ جدید ترین تحقیق کی روشنی میں اخذ کردہ کروڑوں سالوں کے نتائج اس قدر اعتماد سے پیش کیے جاتے ہیں جیسے صبح سات بجے کی خبریں بتا رہے رات نو بجے دوبارہ بتارہے ہوں ۔ :) :) :)
پھر کوئی نیا فاسل کا فی تھیوریاں ریوائز کر دیتا ہے ۔
 

اے خان

محفلین
دس لاکھ سال قدیم میمتھ سے تاریخ کا قدیم ترین ڈی این اے پڑھ لیا گیا
ویب ڈیسک جمع۔ء 19 فروری 2021

2145044-mammothmain-1613664824-227-640x480.jpg

تصویر میں اسٹیپ میمتھ نمایاں ہے جو بالوں والے میمتھ کا جد تھا ۔ یہ انکشاف دنیا کے قدیم ترین ڈی این اے کی مکمل نقشہ کشی کے بعد ممکن ہوئی ہے۔ فوٹو: اپسالا یونیورسٹی


سویڈن: بین الاقوامی جینیات دانوں کی ٹیم نے کئی برس کی محنت سے دنیا کے قدیم ترین میمتھ کے ڈی این اے کو نکالا ہے اور ڈی این اے کے کئی ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک مکمل جینیاتی سلسلہ (سیکوینس)مرتب کیا ہے۔

سات سے بارہ لاکھ سال قبل سائبیریا کے علاقے میں گھومنے پھرنے والے بالوں بھرے تین قدیم ہاتھیوں، میمتھ کے دانتوں سے یہ ڈی این اے نکالا گیا ہے۔ ان سب میں ڈی این اے کے نامکمل ٹکڑے تھے تاہم بعد میں انہی سے ایک مکمل ڈی این اے مرتب کیا گیا ہے۔

اس سے قبل ایک گھوڑے سے اخذ کردہ ڈی این اے کو قدیم قرار دیا گیا تھا جو قریباً ساڑھے پانچ سے سات لاکھ اسی ہزار سال پہلے ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔

سویڈن میں قدیم جینیات کے ماہر لوَڈالین کہتے ہیں کہ یہ بہت پرانا ڈی این اے ہے۔ بالوں بھرے اصلی میمتھ درحقیقت آٹھ لاکھ سال قبل نمودار ہوئے تھے اور آخرکار اب سے چار ہزار سال قبل صفحہ ہستی سے مِٹ گئے تھے۔ لیکن ماہرین نے بالوں بھرے ان عفریت کے جد کا ڈی این اے تلاش کیا اور وہ بھی برفانی علاقوں میں ہی رہتے تھے۔ انہیں اسٹیپ میمتھ کہتے ہیں جو 15 لاکھ سال قبل شمالی امریکہ پہنچے تھے۔

تحقیقی ٹیم نے سات لاکھ سال کے ایک ، اور دس لاکھ سال کے دو میمتھ ک دانتوں سے ڈی این اے نکالا اور ان کے ٹکڑوں کو جوڑنے کا تھکادینے والا کام شروع کیا کیونکہ کسی بھی دانت سے مکمل ڈی این اے نہیں مل سکا تھا۔ یہ تمام جانور مستقل برف میں دبے تھے اور اسی وجہ سے ان کے دانتوں کی جڑ میں گوشت اور خون محفوظ رہ گیا تھا۔

mamoth-1613664906.jpg


تحقیق سے معلوم ہوا کہ سائبیریا میں میمتھ کی ایک قسم نہیں بلکہ کم ازکم دو اقسام کے میمتھ زندگی گزاررہے تھے۔ اس طرح اب میمتھ کی دو طرح کی جینیاتی سلسلے ہمارے سامنے آئے ہیں۔ دوسری جانب یہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ آخر کسطرح میمتھ ایک مقام سے دوسرے مقام اور براعظم تک پہنچے تھے۔

اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسٹیپ میمتھ اور بالوں والے میمتھ کے ملاپ سے ایک نئی قسم کے میمتھ نے جنم لیا جن کے آثار شمالی امریکہ سے ملے ہیں۔
اتنا وقت برباد کیا اس سے تو اچھا تھا ہاتھی والا کارٹون دیکھ لیتے
 

سید عمران

محفلین
سویڈن: بین الاقوامی جینیات دانوں کی ٹیم نے کئی برس کی محنت سے دنیا کے قدیم ترین میمتھ کے ڈی این اے کو نکالا ہے اور ڈی این اے کے کئی ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک مکمل جینیاتی سلسلہ (سیکوینس)مرتب کیا ہے۔
ڈی این اے کے اس مکمل جینیاتی سلسلہ کو مرتب کرنے سے کیا کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟؟؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ڈی این اے کے اس مکمل جینیاتی سلسلہ کو مرتب کرنے سے کیا کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟؟؟
ڈی این اے سیکونسنگ سے حیوانات نباتات اور دوسرے زندہ جانداروں کی آپس کی رشتہ داریاں تلاش کی جاتی ہیں ۔ اور اس طرح کائنات میں پائے جانے والے زندہ اجسام کے تنوع یعنی ڈائیورسٹی کی تشریحات کی جاتی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ڈی این اے سیکونسنگ سے حیوانات نباتات اور دوسرے زندہ جانداروں کی آپس کی رشتہ داریاں تلاش کی جاتی ہیں ۔ اور اس طرح کائنات میں پائے جانے والے زندہ اجسام کے تنوع یعنی ڈائیورسٹی کی تشریحات کی جاتی ہے۔
مطلب یہ کہ اس سے انسانیت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟؟؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مطلب یہ کہ اس سے انسانیت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟؟؟
جانداروں اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں میں بیکٹیریا وائرس اور ان سے پیدا ہونے والے فوائد اور امراض بھی اس میں شامل ہیں جو انسانی زندگی میں صحت کا اہم ترین مقام رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ حیوانات کی نسلوں ، تحفظ اور زرعی وسائل اور پیداوار بڑھانے میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی زندہ چیز کا جینوم ڈیکوڈ کرنا سائنس کی سب سے بڑی، اہم اور طاقتور دریافت ہے ۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
Top