مسجد کا صحن نمازیوں سے پُر تھا اور میناروں پر ڈُوبتے سورج کی آخری کرنیں گلرنگ روشنی سے دُھندلے سفید اُجالے میں اور پھر دھواں دھواں نیلے اندھیرے میں بدل رہی تھیں۔ مؤذن نے اپنی جگہ سنبھالنے کے لئے پہلی سیڑھی پر قدم دھرا ، وضو خانوں میں پانی رواں ہونے کی صدائیں آئیں، کارروانوں کے سالار اونٹوں کو روکے رکھنے کا حکم دے کر ساربانوں کی معیت میں دالان در دالان اونچی چھتوں سے مزین صحنوں میں داخل ہوئے۔ لوگ درود و سلام میں منہمک اور پھر خاموش ہوگئے۔ اذان کا جلال آسمانوں اور زمینوں پر منکشف ہوا۔ اُونچے ایوان سبزہ زار اور باغوں سے گھری بستی میں یہ مشکبو گونج ہوا جے ساتھ ساری پستیوں اور بلندیوں پر جاری و ساری بلند ہوئی۔
درویشوں کی ایک ٹکڑی اپنے فرغلوں کو سنبھالتی ہاتھوں سے کلاہ تھامے ایک اندازِ مستانہ سے چلتی اپنے نعروں کے خروش کو اپنے سینوں میں دبائے ملحقہ خانقاہ سے آ کر نمازیوں کی صف میں شامل ہوگئی۔ یہ غیاب و حضور کی کیفیت سے سرشار عجیب لوگ تھے کہ جب سجدے کے لئے جھکتے تو انہیں اٹھنے کا ہوش نہ رہتا۔ جب اٹھتے تو امام کی آواز سنائی دینے کے باوجود کھڑے رہتے۔ یہ کیسی نماز میں میں سرشار تھے؟
نمازی اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے، جب انھیں ہوش نہیں تھا تو یہ جماعت میں شامل کیوں ہوئے تھے؟ آج سے پہلے ایسی کسی جماعت نے نماز میں شرکت نہ کی تھی جو امام کے پیچھے اپنی الگ نماز میں مشغول ہو۔ خانقاہ میں یہ کہاں سے وارد ہوئے تھے؟
نماز ختم ہوئی تو بعض لوگ ان درویشوں سے بچ کر باہر نکلے اور کچھ ان کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے کہ جب وہ فارغ ہوں تو ان سے استفسار کیا جا سکے۔ خشوع و خضوع کی کون سی کیفیت تھی جو ان کے سجدوں کو طویل اور ان کے قیام کو طویل تر کر رہی تھی؟ دُعا میں ان کے ہاتھ سینوں پر بندھے تھے وہ سر جُھکائے تھے اور کم پڑتی روشنی میں ان کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ زاری و الحاح سے ان کی جانیں کیوں اتنی بے تاب تھیں؟ ان کا مسلک کیا تھا؟ مناجات کا طریقہ انھوں نے کہاں سے سیکھا تھا؟
نہایت عاجزی سے ان میں سے ایک نے جس کے شانے بیٹھے ہوئے باقی لوگوں سے ذرا بلند اور گردن لمبی تھی ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
عشق ایک مزرع گلاب ہے
اس کی پگڈنڈیاں ان کے لئے ہیں
جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
ان کی منزل ہیں
اور مہجور غم خاموش اور برداشت
کبھی نہ ختم ہونے والا سوز، ہمیشگی اور اذیت ناکی
اس کی شان ہے
اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل
جہالت اور وحشتِ تنہائی
اور بے جادہ گردش ہے
عشق مزرعِ زندگی ہے
کاروانِ سالار آقائے رازی نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے کلاہ پوش کا کندھا ہلا کر کہا:
یہ دلسوز لَے اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنی۔ کیا کلام ہے اور کیا ادائیگی، کیا نغمہ ہے ، کیا جان کو پگھلانے والے بول ، اس نے بیٹھے بیٹھے زانو پر زور سے ہاتھ مارا
اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل
درویش نے اس کی طرف منہ کر کے آہستگی سے کہا،
ہاں،
اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل
یہ اوائلِ شعبان کی راتیں تھیں نیم گرم ہوا ستاروں کے ساتھ باغوں کی خوشبوؤں پر اُتر آئی تھی اور آسمان درویشوں کی صداؤں پر نفس گم کردہ مراقبے میں کھویا ہوا صوفی تھا۔
کاروانوں کے گزرنے کی شاہراہ جو خُتن سے دمشق کو جاتی تھی اس بستی کو چُھو کر گزرتی تھی اور یہ مسجد جو اس کے انتہائی سرے پر تھی نارنگی کے پُھولوں کی خوشبو سے بھری تھی اور مسافروں سے آباد رہتی تھی کیونکہ یہاں جاری پانی تھا اور ذکر کی محفلیں رات کے ہر حصے میں بپا رہتیں اور اُونٹوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی ٹنٹناہٹیں حدی خوانوں کی نواؤں کے ساتھ برابر سنائی دیتیں۔ کبھی تیز جب منزل دُور ہوتی چلنے والوں کے قدموں کو تیزی کی ضرورت ہوتی ، کبھی نہایت آہستہ جیسے منزل کے قرب کا احساس بے خودی میں بدل جائے۔
آقائے رازی دمشق سے خُتن جا رہا تھا اور سامانِ تجارت سے لدے اس کے اُونٹ مسجد کے باہر بس ذرا کی ذرا رُکے تھے۔ اُس کے قافلے کو صبح تک چلتے رہنا تھا اور کہیں اگلی بستی میں ان کا قیام ہوتا۔ جب سُورج ان کھنڈروں پر سے طلوع ہوتا جو کتنی تہذیبوں کے آغاز اور انجام پر گواہوں کی طرح انسانیت کی عدالت میں حاضر تھے ۔ عبرت پر صاد کرنے کے لئے بہت بہتر اور بہت عمدہ لوگوں کے مدفن ، رواجوں ، مذہبوں ، سلطنتوں کے نشان اور سورج پر گواہی دینے کے لئے کہ سفر جاری رہتا ہے ، بِنا اس خیال کے کہ دنیا میں کون ہے !
مگر کاروان سالار نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔ باہر نکل کر اس نے ساتھیوں سے کہا کہ وہ قریب کی پہلی سرائے میں ٹھہر جائیں اور اُونٹوں کو چارہ اور پانی دیں ، سامان اُتار لیں اور سستانے کے لئے کمریں کھول لیں۔ مسافر حیران ہوئے مگر وہ ایک اچھا ساتھی اور مہربان سالار تھا۔ دانشمند اور دکھ درد میں شریک ہونے والا۔ بلا وجہ راہ میں توقف کرنے والا بھی نہیں تھا ۔ منزلوں کو بے جا طول دینے والا اور راہ میں ٹھہرنے والا بھی نہیں۔ لوگوں نے بنا سوال کئے سرائے کا رُخ کیا اور آقائے رازی نے اُس حلقۂ ذکر میں جس کو پُر سوز لَے میں ایک درویش تھامے تھا پھر شرکت کر لی۔ ہولے ہولے نَوا بلند اور لَے تیز ہونے لگی۔ صحنِ مسجد میں اِدھر اُدھر بکھرے مُسافر اور نمازی گویا ایک نادیدہ رشتہ سے بندھے حلقے میں بیٹھتے گئے
اس کے سوا باقی سب گُم کرد ۂ منزل
جب ایک درویش چُپ ہوتا تو دُوسرا
جہالت اور وحشتِ تنہائی اور بے جا گردش
کا ذکر شروع کرتا ۔ باری باری وہ سب اپنے گرد ہونے والے مجمع سے بے پرواہ سَر جُھکائے اپنے آپ میں مشغول تھے یہاں تک کہ عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا۔نمازی پُر جلال بلاتی ہوئی ، ہوش دلاتی ہوئی رب جلیل کی طرف سے ہوش دلاتی صدا سُن کر وضو خانوں کی طرف بھاگے۔ درویش پھر امام کے پیچھے اپنی نمازیں قائم کرنے کے لئے خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔