دشتِ سوس

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مسجد کا صحن نمازیوں سے پُر تھا اور میناروں پر ڈُوبتے سورج کی آخری کرنیں گلرنگ روشنی سے دُھندلے سفید اُجالے میں اور پھر دھواں دھواں نیلے اندھیرے میں بدل رہی تھیں۔ مؤذن نے اپنی جگہ سنبھالنے کے لئے پہلی سیڑھی پر قدم دھرا ، وضو خانوں میں پانی رواں ہونے کی صدائیں آئیں، کارروانوں کے سالار اونٹوں کو روکے رکھنے کا حکم دے کر ساربانوں کی معیت میں دالان در دالان اونچی چھتوں سے مزین صحنوں میں داخل ہوئے۔ لوگ درود و سلام میں منہمک اور پھر خاموش ہوگئے۔ اذان کا جلال آسمانوں اور زمینوں پر منکشف ہوا۔ اُونچے ایوان سبزہ زار اور باغوں سے گھری بستی میں یہ مشکبو گونج ہوا جے ساتھ ساری پستیوں اور بلندیوں پر جاری و ساری بلند ہوئی۔

درویشوں کی ایک ٹکڑی اپنے فرغلوں کو سنبھالتی ہاتھوں سے کلاہ تھامے ایک اندازِ مستانہ سے چلتی اپنے نعروں کے خروش کو اپنے سینوں میں دبائے ملحقہ خانقاہ سے آ کر نمازیوں کی صف میں شامل ہوگئی۔ یہ غیاب و حضور کی کیفیت سے سرشار عجیب لوگ تھے کہ جب سجدے کے لئے جھکتے تو انہیں اٹھنے کا ہوش نہ رہتا۔ جب اٹھتے تو امام کی آواز سنائی دینے کے باوجود کھڑے رہتے۔ یہ کیسی نماز میں میں سرشار تھے؟

نمازی اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے، جب انھیں ہوش نہیں تھا تو یہ جماعت میں شامل کیوں ہوئے تھے؟ آج سے پہلے ایسی کسی جماعت نے نماز میں شرکت نہ کی تھی جو امام کے پیچھے اپنی الگ نماز میں مشغول ہو۔ خانقاہ میں یہ کہاں سے وارد ہوئے تھے؟

نماز ختم ہوئی تو بعض لوگ ان درویشوں سے بچ کر باہر نکلے اور کچھ ان کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے کہ جب وہ فارغ ہوں تو ان سے استفسار کیا جا سکے۔ خشوع و خضوع کی کون سی کیفیت تھی جو ان کے سجدوں کو طویل اور ان کے قیام کو طویل تر کر رہی تھی؟ دُعا میں ان کے ہاتھ سینوں پر بندھے تھے وہ سر جُھکائے تھے اور کم پڑتی روشنی میں ان کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ زاری و الحاح سے ان کی جانیں کیوں اتنی بے تاب تھیں؟ ان کا مسلک کیا تھا؟ مناجات کا طریقہ انھوں نے کہاں سے سیکھا تھا؟

نہایت عاجزی سے ان میں سے ایک نے جس کے شانے بیٹھے ہوئے باقی لوگوں سے ذرا بلند اور گردن لمبی تھی ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

عشق ایک مزرع گلاب ہے
اس کی پگڈنڈیاں ان کے لئے ہیں
جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
ان کی منزل ہیں
اور مہجور غم خاموش اور برداشت
کبھی نہ ختم ہونے والا سوز، ہمیشگی اور اذیت ناکی
اس کی شان ہے
اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل
جہالت اور وحشتِ تنہائی
اور بے جادہ گردش ہے
عشق مزرعِ زندگی ہے


کاروانِ سالار آقائے رازی نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے کلاہ پوش کا کندھا ہلا کر کہا:

یہ دلسوز لَے اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنی۔ کیا کلام ہے اور کیا ادائیگی، کیا نغمہ ہے ، کیا جان کو پگھلانے والے بول ، اس نے بیٹھے بیٹھے زانو پر زور سے ہاتھ مارا

اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل​

درویش نے اس کی طرف منہ کر کے آہستگی سے کہا،

ہاں،

اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل​

یہ اوائلِ شعبان کی راتیں تھیں نیم گرم ہوا ستاروں کے ساتھ باغوں کی خوشبوؤں پر اُتر آئی تھی اور آسمان درویشوں کی صداؤں پر نفس گم کردہ مراقبے میں کھویا ہوا صوفی تھا۔

کاروانوں کے گزرنے کی شاہراہ جو خُتن سے دمشق کو جاتی تھی اس بستی کو چُھو کر گزرتی تھی اور یہ مسجد جو اس کے انتہائی سرے پر تھی نارنگی کے پُھولوں کی خوشبو سے بھری تھی اور مسافروں سے آباد رہتی تھی کیونکہ یہاں جاری پانی تھا اور ذکر کی محفلیں رات کے ہر حصے میں بپا رہتیں اور اُونٹوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی ٹنٹناہٹیں حدی خوانوں کی نواؤں کے ساتھ برابر سنائی دیتیں۔ کبھی تیز جب منزل دُور ہوتی چلنے والوں کے قدموں کو تیزی کی ضرورت ہوتی ، کبھی نہایت آہستہ جیسے منزل کے قرب کا احساس بے خودی میں بدل جائے۔

آقائے رازی دمشق سے خُتن جا رہا تھا اور سامانِ تجارت سے لدے اس کے اُونٹ مسجد کے باہر بس ذرا کی ذرا رُکے تھے۔ اُس کے قافلے کو صبح تک چلتے رہنا تھا اور کہیں اگلی بستی میں ان کا قیام ہوتا۔ جب سُورج ان کھنڈروں پر سے طلوع ہوتا جو کتنی تہذیبوں کے آغاز اور انجام پر گواہوں کی طرح انسانیت کی عدالت میں حاضر تھے ۔ عبرت پر صاد کرنے کے لئے بہت بہتر اور بہت عمدہ لوگوں کے مدفن ، رواجوں ، مذہبوں ، سلطنتوں کے نشان اور سورج پر گواہی دینے کے لئے کہ سفر جاری رہتا ہے ، بِنا اس خیال کے کہ دنیا میں کون ہے !

مگر کاروان سالار نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔ باہر نکل کر اس نے ساتھیوں سے کہا کہ وہ قریب کی پہلی سرائے میں ٹھہر جائیں اور اُونٹوں کو چارہ اور پانی دیں ، سامان اُتار لیں اور سستانے کے لئے کمریں کھول لیں۔ مسافر حیران ہوئے مگر وہ ایک اچھا ساتھی اور مہربان سالار تھا۔ دانشمند اور دکھ درد میں شریک ہونے والا۔ بلا وجہ راہ میں توقف کرنے والا بھی نہیں تھا ۔ منزلوں کو بے جا طول دینے والا اور راہ میں ٹھہرنے والا بھی نہیں۔ لوگوں نے بنا سوال کئے سرائے کا رُخ کیا اور آقائے رازی نے اُس حلقۂ ذکر میں جس کو پُر سوز لَے میں ایک درویش تھامے تھا پھر شرکت کر لی۔ ہولے ہولے نَوا بلند اور لَے تیز ہونے لگی۔ صحنِ مسجد میں اِدھر اُدھر بکھرے مُسافر اور نمازی گویا ایک نادیدہ رشتہ سے بندھے حلقے میں بیٹھتے گئے

اس کے سوا باقی سب گُم کرد ۂ منزل​

جب ایک درویش چُپ ہوتا تو دُوسرا

جہالت اور وحشتِ تنہائی اور بے جا گردش​

کا ذکر شروع کرتا ۔ باری باری وہ سب اپنے گرد ہونے والے مجمع سے بے پرواہ سَر جُھکائے اپنے آپ میں مشغول تھے یہاں تک کہ عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا۔نمازی پُر جلال بلاتی ہوئی ، ہوش دلاتی ہوئی رب جلیل کی طرف سے ہوش دلاتی صدا سُن کر وضو خانوں کی طرف بھاگے۔ درویش پھر امام کے پیچھے اپنی نمازیں قائم کرنے کے لئے خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رات کا آسمان ستاروں سے مزین گھرا چاندنی میں دُھلا دُھلا اور زردی مائل تھا اور کہکشاں کروڑوں زمین سے بھی بڑے سیاروں سے سجی اپنی خاکساری میں سب سے روشن ایک بڑے دھارے کی طرف افق سے تا با افق اپنے غبار میں ڈھکی بہہ رہی تھی اور بستی سے پرے کُھلا صحرا ریت کے ژولیدہ لہریوں میں اُلجھا ہوا تھا اور قافلے رواں دواں شاہراہ پر سے گُذر رہے تھے اور شعبان کی آباد راتوں کی رونق میں اضافہ کر رہے تھے۔

جب درویشوں کی نماز طویل ہو گئی تو آقائے رازی چُغہ اپنے گرد لپیٹ کر اُٹھا اور سرائے کی طرف روانہ ہوا۔ اس سے پہلے بھی وہ اس سرائے میں قیام کر چُکا تھا۔ ایک آتش پرست محمی اس کا مالک تھا۔ محمی لین دین میں ایماندار اور نیازمند تھا اسے مسافروں کے آرام کا بطورِ خاص خیال رہتا تھا۔ جب دشتِ سُوس کی کُھلی ہوائیں یخ کرنے والی سردی سے پریشان کرتیں تو وہ سرائے میں اقامت گزیں لوگوں کے لئے آگ تاپنے اور کوٹھڑیوں کو گرم رکھنے کا بندوبست کرتا اور اس کے لئے وہ زیادہ دام بھی وصول نہیں کرتا تھا۔ لوگ کہتے تھے وہ آتش پرست ہے اس لئے اپنی عاقبت سنوارنے کی خاطر ایسا کرتا ہے مگر وہ ان سب باتوں سے بے پرواہ تھا۔ گرمی کی شدت میں جب سُورج صبح ہی سے بے پناہ تیزی سے چمکتا تو ٹھنڈے پانی کا بندوبست بھی وہ اسی التزام سے کرتا۔ ڈھکے ہوئے حوض لبالب ہوتے اور نہانے کے لئے علیحدہ پانی جاری ہوتا۔ اس کی طبیعت میں انکساری اور خوفِ خُدا تھا جس کا اعلان وہ کبھی نہیں کرتا تھا مگر جانوروں تک کی نگہداشت کرنے میں اسے کوئی امر مانع نہیں ہوتا اس لئے سرائے میں ایک الگ احاطے میں سایہ دار درختوں تلے ان کے لئے باندھنے کی جگہ تھی اور چارہ بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ وہ اُنٹوں اور خچروں کی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج بھی کر سکتا تھا اور قافلے والوں میں سے جب کسی کی طبیعت خراب ہو جاتی تو پریشان ہو جاتا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بستی میں ایک دانا حکیم تھا جو اکثر سفر پر رہتا۔ مگر محمی نے کچھ دواؤں کے نام اور بیماریوں کے علاج اس سے دریافت کر لئے تھے اور ذرا سی ناسازئ طبع میں وہ اپنی یاد داشت کام میں لاتا۔ آقائے رازی سے اور اس سے گہری دوستی کا تو نہیں مگر ایک خاموش معاہدے کا سا رشتہ تھا۔ جب بھی قافلہ یہان سے گذرتا تو سرائے میں ضرور قیام ہوتا۔ اب کے بھی ایسا ہو ہی گیا تھا اگر چہ یہ رواں رہنے کا وقت تھا اور قاعدے کی رُو سے انہیں سفر جاری رکھنا چاہیے تھا۔

جب لوگ داستان گو کے پاس بیٹھ چکے اور قصہ گُو نے پرانے بادشاہوں کے نام سے اپنے قصے کا آغاز کیا تو آقائے رازی محمی کے پاس ہو بیٹھا۔ وہ اندر سے بہت مضطرب تھا۔ اس نے آج تک بہت سفر کئے تھے۔ اصل میں وہ ہمیشہ قافلوں کے ساتھ کوہ و صحرا میں سرگرداں رہا تھا۔ تیز بہتے دریاؤں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں نہایت بلندی سے جا کر وادیوں میں اُترتے راہوں پر اس نے چابکدستی سے اپنے سارے سفر کئے تھے۔ آنکھیں کھلی رکھی تھیں اور کانوں کو ہر آواز پر لگائے رکھا تھا۔ ہمت اور دانائی سے اُس نے بہت کچھ دیکھا ، بہت اَن کہی باتیں سنیں اور بہت کچھ برداشت کیا تھا۔ بچپن سے اب تک اس نے زمانہ دیکھا تھا۔ ہاں ! زمانہ دیکھا تھا اور اُس کے اُلٹ پھیر دیکھے تھے۔ اس نے نئے فرقوں اور نئے مذہبوں کو طلوع ہوتے اور غروب ہوتے دیکھا تھا ۔ نئے مہدی جو دنیائے ختم کی گواہی دینے کے لئے اپنی امامت کا اعلان کرتے تھے اور پھر مارے جاتے تھے۔ نئے نبی جو عجیب و غریب شریعتوں کو لاتے اور پھر جُھٹلائے جاتے اور دار پر کھینچے جاتے تھے۔ نئی دینا دریافتوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی۔ شوریدہ سر اور دیوانوں کے ذہنوں میں خیالوں کی یورشیں انہیں بے تاب کرتی اور موت کی طرف بلاتی ہیں اور پھر وقت جو بے پایاں، مسلسل اور شکست دینے والا ہے کبھی نہیں رکتا اور ان بستیوں اور ان کے مکینوں پر سے گزرتا ہے تاکہ وہ جو پہلے گذرا ہے بھلایا جاسکے اور زمین نئے فتنوں کی آماجگاہ بنتی رہے، نئی رحمتوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتی رہے۔

"آقائے رازی بہت اچانک آپ نے اپنا سفر ملتوی کیا ہے گو میرے لئے یہ خوشی کی بات ہے مگر میں جاننا چاہوں گا کہ کیا واقعہ تاخیر کا سبب ہوا ہے؟ اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو؟" محمی نے قالین کے حاشیے پر دوزانو بیٹھتے ہوئے ادب سے سر جھکا کر پوچھا۔ آقائے رازی نے کھلے دریچے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "برادر محمی! جو چیز میرے لئے حیرت اور دلچسپی کا باعث ہے وہ آپ نے شاید دیکھی بھی نہ ہو۔ شام میں چند ایسے درویشوں کو دیکھا ہے جو اپنی نمازوں میں غلو کرتے اور اپنی جانِ پُر سوز سے دلوں کو مضطرب کرتے ہیں۔ ان کی آوازوں میں بے پناہ سوز ہے مگر وہ کون ہیں یہ جاننا بھی ازحد ضروری ہے کہیں وہ کسی نئے فتنے کو ہوا نہ دے رہے ہوں۔"

محمی ہنسا ، دبی دبی سی خوشگوار ہنسی۔

" آقائے رازی بس اتنی سی بات؟ آخر آپ کس شئے سے خوفزدہ ہیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر شخص جس کا مسلک الگ اور جس کا طریقہ مختلف ہو، کسی تازہ فتنے کا پیش خیمہ ہو اور پھر جانِ بے تاب کے لئے کوئی نام بھی ہو سکتا ہے، مگر جہاں تک میری معلومات ہیں یہ لوگ سارے زمستان اسی خانقاہ میں مقیم رہے ہیں۔"

"کیا ہر نماز کے وقت ان کے وجد و کیف کا یہ حال ہوتا ہے؟"

"نہیں، مگر کبھی کبھار جب یہ زیادہ جوش میں ہوتے ہیں تو مسجد میں آتے ہیں ورنہ اکثر خانقاہ میں مراقبے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی جماعت کو کبھی خانقاہ سے باہر آتے نہیں دیکھا گیا۔" آقائے رازی بہت دیر خاموش رہا کچھ سوچتا ہوا بہت کچھ یاد کرتا ہوا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیا آپ پسند فرمائیں گے اگر میں مقدس آگ سے مدد چاہوں کہ یہ گروہ ملک کے لئے سعید ہوگا یا منحوس؟ محمی نے بہت انکساری سے کہا۔ "ہمارے ہاں آتش سے شگون لینے کا رواج بہت پرانا ہے۔ ہماری برزِ سواہ جو کبھی بُجھ نہیں سکتی جسے سورج کی کرن چھو نہیں سکتی۔"

"کیا مطلب سورج کے چھو نہ سکنے کا؟" آقائے رازی نے پُوچھا۔

"یہ آگ اندھیروں میں تابناک ہوتی ہے۔ زندگی کے رہنے کا نشان۔ شعلہ مستعجل بے قرار اور ہمیشگی سے ہمکنار، دنیا کی رست خیز میں ایک جائے پناہ۔ دنیا کی تطہیر کرتی ہوئی اور جاودانی آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہوئی، انگلی کی طرح اُٹھتی ہوئی ، سعود کی طرف مائل سعود کا حصہ جو زائد اور بے جا ہے ، اس سے نجات دلانے والی پاک کرنے والی۔"

آقائے رازی نے سر ہلایا۔

پھر دونوں خاموشی سے اندرونی کمرے کی طرف بڑھے جو تہہ خانہ تھا اور آتش کدے کا کام دیتا تھا۔ سلگتے ہوئے کندے پر خوشبودار لکڑی رکھ کر محمی نے اسے ہوا دی تو شعلہ بلند ہوا، پھر اس نے سپند کے چند دانے اس آگ پر ڈالے جو شاید تعداد میں سات یا پانچ تھے، انھوں نے ایک دم آگ پکڑی ، چٹخے اور ننھے شعلوں کی طرح بڑے شعلے میں مٹ گئے۔ صرف ایک دانہ الگ رہا اور اس پر دور ہونے کی وجہ سے آگ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ محمی آنکھیں بند کر کے دعائیں پڑھ رہا تھا۔

برکت دے اور ہم کو اُٹھا سورج کی تپش اور برف کی ٹھنڈک میں۔

ہمیں ہمیشہ اپنے سیدھے راہ پر لگا
تمہاری جلائی ہوئی آگ اور تمہارا دین
ہمارا راہ نما ہو

سپند کے دانے کو ایک طرف پڑے دیکھ کر محمی نے اپنا سر اور جُھکا لیا۔ وہ دل ہی دل میں جانے کیا کہہ رہا تھا۔ آقائے رازی دلچسپی سے آگ کی روشنی میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ یہ عبادت جس کو آج تک اپنی انتہائی فطرت میں اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

"آقائے رازی" محمی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "یہ آگ جس کو مَیں نے آپ کے لئے فروزاں کیا تھا، میرے لئے فتنے اور مصیبتیں لائے گی۔ آہورا مزدا میری مدد کرے اور مجھے اپنی پناہ میں رکھے۔"

"کیا خاص بات ہے برادر!" اس نے بہت فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔
 
Top