عباس تابش دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں - عباس تابش

غزل​

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں​

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں​

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں​

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں​

ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں​

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں​

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں​
 

محمداحمد

لائبریرین
محمداحمد بھائی یہ غزل بھی پڑھیں بہت مزے کی ہے

ٹیگ کا شکریہ خرم بھائی۔۔۔۔!

یہ غزل میں نے کئی بار پڑھی ہے اور مجھے پسند بھی بہت ہے۔

اور خاص طور پر یہ شعر تو میرے پسندیدہ ترین اشعار میں سے ایک ہے۔

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
واہ کیا خوب غزل ہے۔
لاجواب
بہت خوب
زبردست
 

محمداحمد

لائبریرین
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں​
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ​
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں​
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن​
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں​
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش​
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں​

واہ کیا خوب غزل ہے۔
لاجواب
بہت خوب
زبردست

ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

بلال آج یہ غزل پھر سے یاد آئی تین اشعار تو مجھے یاد آگئے باقی کے لئے ویب سے رجوع کرنا پڑا۔

خوب غزل ہے بھائی۔۔۔!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

بلال آج یہ غزل پھر سے یاد آئی تین اشعار تو مجھے یاد آگئے باقی کے لئے ویب سے رجوع کرنا پڑا۔

خوب غزل ہے بھائی۔۔۔ !
غزل سے یاد آیا کہ کل طارق عزیز بیت بازی کا فائنل تھا، اس میں بطور جج عباس تابش صاحب بھی آئے تھے، اور اپنی یہ خوبصورت غزل سنائی تھی۔
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہنس تالاب پہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
غزل سے یاد آیا کہ کل طارق عزیز بیت بازی کا فائنل تھا، اس میں بطور جج عباس تابش صاحب بھی آئے تھے، اور اپنی یہ خوبصورت غزل سنائی تھی۔
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہنس تالاب پہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں

جی ! عباس تابش اس سے پہلے بھی طارق عزیز شو میں تشریف لائے ہیں۔

یہ غزل بھی خوب ہے۔
 
Top