منصور آفاق
محفلین
دشت کی صدیوں پرانی آنکھ میں
ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں
اسمِ اللہ کے تصور سے گرے
آبشارِ بیکرانی آنکھ میں
لال قلعے سے قطب مینار تک
وقت کی ہے شہ جہانی آنکھ میں
لکھ رہا ہے اس کا آیت سا بدن
ایک تفسیرِ قرانی آنکھ میں
دودھیا باہیں ، سنہری چوڑیاں
گھومتی ہے اک مدھانی آنکھ میں
دیکھتا ہوں جو دکھاتا ہے مجھے
یار کی ہے حکمرانی آنکھ میں
برف رْت کے اس تعلق کی غزل
دھوپ نے ہے گنگنانی آنکھ میں
اجڑے خوابو!، ٹوٹی امیدو!سنو
ایک بستی ہے بسانی آنکھ میں
چل رہی ہے اپنے کرداروں کے ساتھ
فلم کی اب تک کہانی آنکھ میں
چاہتی ہے کیوں بصارت تخلیہ
کون ہے ظل ِ زمانی آنکھ میں
کپکپاتے ساحلوں سے ہمکلام
دھوپ ہے کتنی سہانی آنکھ میں
آمد آمد شاہِ نظارہ کی ہے
سرخ مخمل ہے بچھانی آنکھ میں
تجھ سے پہلے توہواکرتے تھے اور
روشنی کے کچھ معانی آنکھ میں
پہلے ہوتے تھے مقاماتِ عدم
اب فقط ہے لا مکانی آنکھ میں
دیکھتے رہنا ہے نقشِ یار بس
بزمِ وحشت ہے سجانی آنکھ میں
بس یہی ہیں یادگاریں اپنے پاس
بس یہی آنسو نشانی آنکھ میں
اُس حویلی کے کھنڈر کی آج بھی
چیختی ہے بے زبانی آنکھ میں
زیرِآب آنے لگی تصویرِیار
پھیلتا جاتا ہے پانی آنکھ میں
شکرہے اُس اعتمادِذات کی
آگیا ہوں غیر فانی آنکھ میں
دیکھ آئی ہے کسی کو اُس کے ساتھ
اب نہیں ہے خوش گمانی آنکھ میں
قافیہ کی تبدیلی کے ساتھ
ہجر کی ماری نراسیں آنکھ میں
جمع ہیں سب التماسیں آنکھ میں
چیختی ہیں کیا ہوئی نہرِ فرات
کربلا کی اب بھی پیاسیں آنکھ میں
آخرش تھک ہار کر پتھرا گئیں
انتظاریں اور آسیں آنکھ میں
کس طرح سنولاگئی ہیں صبح کو
رقص کرتی چند یاسیں آنکھ میں
ایک ہیں ، صحرا نوردی کی قسم
مختلف قسموں کی گھاسیں آنکھ میں
اس سے کیا منصور ملنا جب تمام
رنجشیں دل میں براسیں آنکھ میں
ردیف کی تبدیلی کے ساتھ
دھڑکنوں کی بدزبانی تخلیہ
تخلیہ اے زندگانی تخلیہ
ظلِ سبحانی ہیں آئے درد کے
اے کنیزِ شادمانی تخلیہ
آرہا ہے وہ چراغِ صبح پا
چاند تارو ، مہربانی ، تخلیہ
مہ وشو!اب یاسمن کے باغ کی
دیکھتے ہیں گل فشانی ، تخلیہ
بجلیو! موسیٰ کلیم اللہ سے میں
سن رہاہوں لن ترانی تخلیہ
بارگاہِ دل میں شرمندہ نہ کر
لمس کی اندھی جوانی تخلیہ
ہے دمِ عارف نسیمِ صبح دم
اے کلیمی اے شبانی تخلیہ
زندگی سے بھر گیا دل حسرتو!
اب کہانی کیا بڑھانی تخلیہ
واہ ، آئی ہے کئی صدیوں کے بعد
پھر صدائے کن فکانی تخلیہ
جائیے کہ آئینے کے سامنے
شکلِ ہستی ہے بنانی تخلیہ
جارہا ہوں میں عدم کے باغ میں
موسموں کی میزبانی تخلیہ
آرہا ہے مجھ سے ملنے آفتاب
بادلوں کی سائبانی تخلیہ
ملنا ہے منصور نے منصور سے
گم کرو اب شکل یعنی تخلیہ
منصور آفاق
ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں
اسمِ اللہ کے تصور سے گرے
آبشارِ بیکرانی آنکھ میں
لال قلعے سے قطب مینار تک
وقت کی ہے شہ جہانی آنکھ میں
لکھ رہا ہے اس کا آیت سا بدن
ایک تفسیرِ قرانی آنکھ میں
دودھیا باہیں ، سنہری چوڑیاں
گھومتی ہے اک مدھانی آنکھ میں
دیکھتا ہوں جو دکھاتا ہے مجھے
یار کی ہے حکمرانی آنکھ میں
برف رْت کے اس تعلق کی غزل
دھوپ نے ہے گنگنانی آنکھ میں
اجڑے خوابو!، ٹوٹی امیدو!سنو
ایک بستی ہے بسانی آنکھ میں
چل رہی ہے اپنے کرداروں کے ساتھ
فلم کی اب تک کہانی آنکھ میں
چاہتی ہے کیوں بصارت تخلیہ
کون ہے ظل ِ زمانی آنکھ میں
کپکپاتے ساحلوں سے ہمکلام
دھوپ ہے کتنی سہانی آنکھ میں
آمد آمد شاہِ نظارہ کی ہے
سرخ مخمل ہے بچھانی آنکھ میں
تجھ سے پہلے توہواکرتے تھے اور
روشنی کے کچھ معانی آنکھ میں
پہلے ہوتے تھے مقاماتِ عدم
اب فقط ہے لا مکانی آنکھ میں
دیکھتے رہنا ہے نقشِ یار بس
بزمِ وحشت ہے سجانی آنکھ میں
بس یہی ہیں یادگاریں اپنے پاس
بس یہی آنسو نشانی آنکھ میں
اُس حویلی کے کھنڈر کی آج بھی
چیختی ہے بے زبانی آنکھ میں
زیرِآب آنے لگی تصویرِیار
پھیلتا جاتا ہے پانی آنکھ میں
شکرہے اُس اعتمادِذات کی
آگیا ہوں غیر فانی آنکھ میں
دیکھ آئی ہے کسی کو اُس کے ساتھ
اب نہیں ہے خوش گمانی آنکھ میں
قافیہ کی تبدیلی کے ساتھ
ہجر کی ماری نراسیں آنکھ میں
جمع ہیں سب التماسیں آنکھ میں
چیختی ہیں کیا ہوئی نہرِ فرات
کربلا کی اب بھی پیاسیں آنکھ میں
آخرش تھک ہار کر پتھرا گئیں
انتظاریں اور آسیں آنکھ میں
کس طرح سنولاگئی ہیں صبح کو
رقص کرتی چند یاسیں آنکھ میں
ایک ہیں ، صحرا نوردی کی قسم
مختلف قسموں کی گھاسیں آنکھ میں
اس سے کیا منصور ملنا جب تمام
رنجشیں دل میں براسیں آنکھ میں
ردیف کی تبدیلی کے ساتھ
دھڑکنوں کی بدزبانی تخلیہ
تخلیہ اے زندگانی تخلیہ
ظلِ سبحانی ہیں آئے درد کے
اے کنیزِ شادمانی تخلیہ
آرہا ہے وہ چراغِ صبح پا
چاند تارو ، مہربانی ، تخلیہ
مہ وشو!اب یاسمن کے باغ کی
دیکھتے ہیں گل فشانی ، تخلیہ
بجلیو! موسیٰ کلیم اللہ سے میں
سن رہاہوں لن ترانی تخلیہ
بارگاہِ دل میں شرمندہ نہ کر
لمس کی اندھی جوانی تخلیہ
ہے دمِ عارف نسیمِ صبح دم
اے کلیمی اے شبانی تخلیہ
زندگی سے بھر گیا دل حسرتو!
اب کہانی کیا بڑھانی تخلیہ
واہ ، آئی ہے کئی صدیوں کے بعد
پھر صدائے کن فکانی تخلیہ
جائیے کہ آئینے کے سامنے
شکلِ ہستی ہے بنانی تخلیہ
جارہا ہوں میں عدم کے باغ میں
موسموں کی میزبانی تخلیہ
آرہا ہے مجھ سے ملنے آفتاب
بادلوں کی سائبانی تخلیہ
ملنا ہے منصور نے منصور سے
گم کرو اب شکل یعنی تخلیہ
منصور آفاق