دشمنوں سے دوری تھی... دوستوں نے آگھیرا.... ایک اور غزل برائے تبصرہ و اصلاح...

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دشمنوں سے دوری تھی، دوستوں نے آگھیرا۔۔۔۔ کافروں سے بچ نکلے مومنوں نے آگھیرا

آخرت کا ہر رستہ ہو کے جائے دنیا سے۔۔۔۔۔۔۔ منزلوں سے پہلے ہی راستوں نے آگھیرا

منزلوں سے بڑھ کر ہے شوق ہم کو راہوں کا۔۔۔۔ راہیوں میں راہوں کے پتھروں نے آگھیرا

شاخ شاخ کرگس تھے، پھول پھول بھنورے تھے۔۔۔۔۔ شہر بھر کی پریوں کو زاہدوں نے آگھیرا

آسماں سے پہلے بھی سنگ ہی برستے تھے۔۔۔ جب زمیں کی چاہت کی، زلزلوں نے آگھیرا

اس سے کون یہ پوچھے؟ وہ کسے یہ بتلائے۔۔۔۔ کس لیے مسلماں کو راحتوں نے آگھیرا

کس لیے پڑائو ہے مسجدوں میں حوروں کا۔۔۔۔ کس وجہ سے مے خانہ صوفیوں نے آگھیرا

کم نظر محبت کی خواہشوں سے چھوٹے تو۔۔۔۔ بے رحم زمانے کی سازشوں نے آگھیرا

جس گھڑی سمندر میں سخت خشک سالی تھی۔۔۔ کیکٹس کو صحرا میں بارشوں نے آگھیرا

زندگی کے آنگن میں تیرگی رہی قائم۔۔۔۔ دل چراغ تھا لیکن آندھیوں نے آگھیرا

لفظ لفظ موتی تھا ہر کتاب کا لیکن۔۔۔۔ علم کے تدبر کو جاہلوں نے آگھیرا

پھول کھل نہیں سکتے، خار بچ نہیں سکتے۔۔۔۔ اب چمن کو خود اس کے مالیوںنے آگھیرا

ان کو کیسے سمجھائیں؟ جائیں تو کدھر جائیں؟ ۔۔۔۔ عقل مند لوگوں کو احمقوں نے آگھیرا

گدھ شہر میں پھرتے ہیں شہریوں کی لاشوں پر۔۔۔۔ فاختہ کو جنگل میں کرگسوں نے آگھیرا

زندگی میں ہر لحظہ ساتھ ساتھ شیطاں تھا۔۔۔ بعد مرگ اے شاہد قدسیوں نے آگھیرا۔۔۔۔

اس غزل کے حوالے سے بھی تفصیلی تنقید مطلوب ہے۔۔۔ ضروری نہیں کہ صرف استاد محترم یعنی اعجاز صاحب ہی تنقید کریں۔۔۔۔ عام قاری کو بھی کچھ مشکل پیش آئے تو پوچھ بھی سکتا ہے اور نکتہ چینی بھی کرسکتا ہے۔۔۔۔

الف عین
مزمل شیخ بسمل
محمد وارث
 

الف عین

لائبریرین
فی الحال تو دو اغلاط کی نشان دہی کر دوں۔
بے رحم زمانے کی۔۔۔
گدھ شہر میں پھرتے ہیں۔۔۔۔
رحم
اور
شہر
دونوں الفاط فعو نہیں، بر وزن فعل درست ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
استاد محترم۔۔۔ شاید یہ وزن اور تلفظ دونوں کی غلطی ہے۔۔۔ تو چلیے میں کچھ اور کوشش کرتا ہوں۔۔۔
گدھ شہر میں پھرتے ہیں شہریوں کی لاشوں پر۔
گدھ عجیب پھرتے ہیں شہریوں کی لاشوں پر۔۔۔ یا گدھ بہت سے پھرتے ہیں۔۔۔ شہریوں کی لاشوں پر۔۔۔
بے رحم زمانے کی سازشوں نے آگھیرا۔۔۔
سنگدل زمانے کی سازشوں نے آگھیرا۔۔۔
بروزن فعو اور فعل کی بات جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ شہر کے ش پر زیر، ہ پر زیر اور ر پر جزم نہیں ہوتی ہے، یہ میری غلط فہمی تھی۔۔۔ ہ پر بھی شاید جزم ہوتی ہے، یوں ر پڑھنے میں نہیں آتا۔۔۔
رحم کے ح پر زیر نہیں بلکہ جزم ہوتی ہے۔۔۔ کیا یہ تلفظ درست ہے؟؟
 
Top