السلام علیکم، استاذِ محترم!
آج ہی ایک تازہ غزل لکھی ہے۔ برائے اصلاح پیش ہے۔
ملاحظہ فرمائیے:
دشمنوں سے لوگ شکوے کر رہے ہیں ہر کہیں
ہم کو اپنے دوستوں کی دوستی مہنگی پڑی
مانگ کر لائے تھےجو ہم چراغاں کے لیے
گھر ہی سارا جل گیا، وہ روشنی مہنگی پڑی
آج پھر انصاف کا ہے یاں گلا گھونٹا گیا
بے کسوں کو منصفوں کی منصفی مہنگی پڑی
بر سرِ بازار ہی جھوٹے کو جھوٹا کہہ دیا
مطمئن ہیں ہم اگرچہ راستی مہنگی پڑی
سوچتے ہیں لوٹ جائیں ہم بھی اب اپنے وطن
سب سے کٹ کر رہ گئے ، آوارگی مہنگی پڑی
ہو گئے بدنام راقم ہم بھی سارے شہر میں
کیوں بھلا اب یہ کہیں کہ شاعری مہنگی پڑی
آج ہی ایک تازہ غزل لکھی ہے۔ برائے اصلاح پیش ہے۔
ملاحظہ فرمائیے:
دشمنوں سے لوگ شکوے کر رہے ہیں ہر کہیں
ہم کو اپنے دوستوں کی دوستی مہنگی پڑی
مانگ کر لائے تھےجو ہم چراغاں کے لیے
گھر ہی سارا جل گیا، وہ روشنی مہنگی پڑی
آج پھر انصاف کا ہے یاں گلا گھونٹا گیا
بے کسوں کو منصفوں کی منصفی مہنگی پڑی
بر سرِ بازار ہی جھوٹے کو جھوٹا کہہ دیا
مطمئن ہیں ہم اگرچہ راستی مہنگی پڑی
سوچتے ہیں لوٹ جائیں ہم بھی اب اپنے وطن
سب سے کٹ کر رہ گئے ، آوارگی مہنگی پڑی
ہو گئے بدنام راقم ہم بھی سارے شہر میں
کیوں بھلا اب یہ کہیں کہ شاعری مہنگی پڑی