دشمنی اچھی ایسی یاری سےغزل نمبر 44 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد عبدالرؤوف صاحب

دشمنی اچھی ایسی یاری سے
کہ ملے دوست بھی بیزاری سے

اپنی ہمت سے سب حاصل کرلے
کیا ملے یار آہ و زاری سے

دین ہے کب ملا آسانی سے
کفر ٹوٹا ہے ضربِ کاری سے

کاش ہم دل لگی نہیں کرتے
تنگ ہیں دل کی بے قراری سے

جن کا اخلاق اعلیٰ ہوتا ہے
پیش آتے ہیں انکساری سے

عشق فرماتے ہوئے پکڑے گئے
مر ہی جائیں نہ شرمساری سے

جن کے ملنے سے غم ہی ملتا ہے
ان سے ملتے ہیں خوش گواری سے

جو تیری راہ سے بھٹکے خوار ہوئے
یا خدا تو بچانا خواری سے

ظلم کرتے ہیں رب کے بندوں پہ
رحم چاہتے ہیں ربِ باری سے

جن کی فطرت ہی شاطرانہ ہو
باز نہ آئیں گے مکاری سے

ہم جسے دیکھ لیں حاصل کرلیں
بچ کے رہنا نظر ہماری سے

دل سے اک راز چھپایا نہ گیا
دل چرایا ہے رازداری سے

دل ہے ٹوٹا کوئی نہ چھیڑے ہمیں
کہدو شارؔق یہ دنیا ساری سے
 
دشمنی اچھی ایسی یاری سے
کہ ملے دوست بھی بیزاری سے

بیزاری کو آپ نے بزاری باندھا ہے!

اپنی ہمت سے سب حاصل کرلے
کیا ملے یار آہ و زاری سے
پہلا مصرع وزن میں نہیں۔
کرلے حاصل سب اپنی ہمت سے

دین ہے کب ملا آسانی سے
کفر ٹوٹا ہے ضربِ کاری سے

آسانی کو اسانی باندھا ہے۔

عشق فرماتے ہوئے پکڑے گئے
مر ہی جائیں نہ شرمساری سے
پہلا مصرع وزن میں نہیں

ظلم کرتے ہیں رب کے بندوں پہ
رحم چاہتے ہیں ربِ باری سے

چاہتے کو چہتے باندھا ہے۔

جن کی فطرت ہی شاطرانہ ہو
باز نہ آئیں گے مکاری سے

مکاری بغیر تشدید کے باندھا ہے۔
ہم جسے دیکھ لیں حاصل کرلیں
بچ کے رہنا نظر ہماری سے

پہلا مصرع وزن ۔یں نہیں۔ دوسرے میں الفاظ کی نشست درست نہیں

دل سے اک راز چھپایا نہ گیا
دل چرایا ہے رازداری سے
پہلا مصرع وزن میں نہیں۔

دل ہے ٹوٹا کوئی نہ چھیڑے ہمیں
کہدو شارؔق یہ دنیا ساری سے

پہلے مصرع میں چھیڑ باندھا ہے۔ دوسرے مصرع میں الفاظ کی نشست درست نہیں۔
 
Top